ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

جنگی قیدی کی آپ بیتی(6) – بتول جولائی ۲۰۲۱

میرٹھ کینٹ میں چائے کاکپ پی کر سب قیدی سستانے لگے تھے۔ کافی دنوں کے انتہائی تکلیف دہ سفر کے بعد یہ چائے کا ایک کپ اُن کے لیے گویا ایک راحت اور سکون کا باعث تھا۔ ہمیں چٹا گانگ بنگلہ دیش ( سابقہ مشرقی پاکستان ) کی بندر گاہ سے کلکتہ (بھارت) بندرگاہ تک بھیڑ بکریوں کی طرح ایک کارگو جہاز میں لا د کر لایاگیاتھا۔ وہاں سے ٹرین کے ذریعے میرٹھ پہنچایاگیا جس میں مزید تین سے چار دن لگ گئے تھے۔ ابھی ہم سب چائے پی کر تھوڑا سستانے لگے تھے کہ حکم ہؤاکہ سب لائنوں میں کھڑے ہوجاؤ۔ چار و ناچار سب لائنوں میں کھڑے ہوگئے۔ بھارتی فوجیوں نے تعدادپوری کرنے کے لیے کئی بار گنتی کی پھر جا کر انھیں تسلی ہوئی کہ نفری پوری ہے۔
میرٹھ چھاؤنی کے کیمپوں میں
میرٹھ کینٹ برصغیر میں برٹش انڈیا دور کی ایک بہت بڑی چھاؤنی ہے۔ اس چھاؤنی کو مختلف کیمپوں میں تقسیم کیاگیاتھا جیساکہ میرٹھ کیمپ نمبر۱،۲،۳وغیرہ ۔ ہر کیمپ میں پانچ سے چھ بڑی بڑی بیرکیں تھیں۔ ہمارے کیمپ میں پانچ بڑی بیرکیں تھیں، ہر بیرک کو خار دار تاروں سے ایک دوسرے سے الگ کیاگیاتھا۔ خار دارتاروں کے کئی سلسلے تھے اور اس طرح خار دار تاروں کی پوری دیوار یں کھڑی کردی گئی تھیں۔ اُن دیواروں کے درمیان بھارتی فوجیوں کے گزرنے کاراستہ بنایاگیاتھا جوان قیدیوں پر ہر دم چوکس پہرہ دے رہے تھے۔ کینٹ کے باہر چاروں طرف سکیورٹی ٹاورز بنے ہوئے تھے جہاں بھارتی فوجی جدید اسلحہ سے لیس ہر وقت پہرے پر موجود ہوتے ،ان ٹاورز میں ہائی وولٹیج سکیورٹی لائٹیں لگی ہوئی تھیںجو قیدیوں کی نقل و حرکت کی نگرانی کرتی تھیں۔
ہمارے کیمپ میں تقریباً ڈھائی سو قیدی تھے جن میں سے ہماری بیرک میں پچاس قیدی تھے۔ ہر قیدی کے لیے فرشی بستر تھاجو دو کمبلوں پر مشتمل تھا۔ ایک اوپر لینے کے لیے اور ایک نیچے بچھانے کے لیے ،تکیے کے لیے سر کی جگہ کمبل کے نیچے دو اینٹیں رکھ لی گئی تھیں۔ اینٹوںکا فرش تھا جو بغیر سیمنٹ کے جوڑی گئی تھیں لہٰذا ان میں کیڑے مکوڑوں کے آنے جانے کے آسان راستے موجود تھے ۔ مگر حیرانی کی بات ہے کہ اُن کیڑوں مکوڑوں نے کبھی قیدیوں کو تنگ نہیں کیاتھا۔ شاید مسلمان قیدیوں پر انھیں ترس آگیاتھا۔ ہر قیدی کے لیے آٹھ فٹ لمبائی اور پانچ اینٹوں کی چوڑائی تھی جو تقریباً ۲۰ سے ۲۱ انچ چوڑی بنتی ہے۔ اس کے بعد دوسرے قیدی کی جگہ شروع ہوجاتی تھی۔ سب کو اپنی حدود میں رہنا تھا، ذرا سی کروٹ سے دوسرے کی حق تلفی ہوسکتی تھی۔
قید کا پہلا کھانا
کھانے کے لیے ہر قیدی کو دو پلیٹیں اور ایک گلاس دیاگیاتھا۔ تھوڑی دیر بعد لوگ چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ روٹی آ رہی ہے۔ یہ روٹی کافی دنوں بعد میسر آنی تھی۔ سب اپنے اپنے بستر پر اپنے برتن پھیلائے روٹی کا انتظار کرنے لگے۔ اتنے میں ایک بالٹی میں دال لیے اور ساتھ روٹیاں لیے ایک آدمی اندر آیا ۔ سب کی پلیٹوں میں ایک ایک چمچ دال اور ایک نازک سی روٹی تھما دی گئی ۔ سب کا بھوک سے بُرا حال تھا مگر سب بے زبان تھے کیونکہ سب قیدی تھے اوروہ بھی مکار دشمن ہندوستان کے ۔ سب نے بے بسی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھااور خاموش ہو رہے۔ شاید فوجیوں کو اپنادیس پاکستان یا د آ رہاہوگایا اپنی ماںکے ہاتھ کی بنی ہوئی گرم روٹی اور سالن یا بیوی کے ہاتھ کے بنے ہوئے کھانے یا د آ رہے ہوں گے، مگر پھر قیدکے اس کھانے کو غنیمت جاناکہ وہ ملنابھی ایک ہی دفعہ

تھا۔ کھانے کے بعد فوراً لائٹیں بند کرنے کا حکم ہوا۔
باتھ روموںکے لیے ایک بیرک بنائی گئی تھی۔ وہاں سے وضو کرکے سب نماز سے فارغ ہوئے اور کچھ فوجیوں نے اپنی بیرکوں میں قرآن پاک کی تلاوت کرنے کی اجازت چاہی جو رد کردی گئی ،مگر جن کے سینوں میں قرآن محفوظ تھا انھیں بھلاکون روک سکتاتھا۔ قابلِ رشک تھے اس وقت وہ فوجی جو حافظ قرآن تھے۔ بیرکوں کی دیواروں سے بہت بدبو آ رہی تھی ۔ ان دیواروں کی گندگی کو چھپانے کے لیے سفیدی کاایک کوٹ کیاگیا تھا جو ابھی خشک نہیں ہؤاتھا۔
قید خانے میں پہلی رات
پہلی رات کافی بے قراری اور اذیت میں گزری۔ رات چاروں طرف سے بھارتی فوجیوں کے چلنے سے ان کے بوٹوں کی آوازاور خبردار کرنے کے لیے سیٹیوں کی آواز یں آتی رہیں۔ سب جنگی قیدی گونگوں اور بہروں کی طرح فرشی بستر پر لیٹے ہوئے تھے۔ بیرک میں پچاس لوگوں کی موجودگی کے باوجود ایک سناٹا طاری تھا۔ انجانی پیش آنے والی صورت حال نے سب کو پریشان کررکھاتھا۔ ہر آہٹ کانوں کو تکلیف دے رہی تھی۔ اسی بے چینی اور بے سکونی میں رات گزری ۔ کسی نے کسی سے کوئی بات نہ کی ۔ اتنے میں دور سے فجر کی اذان کی آواز سنائی دی۔ مؤذن نے اللہ اکبر کی صدا بلند کرکے اللہ کی کبریائی بیان کی۔ سب نے اٹھ کر باری باری انفرادی نماز ادا کی اور گڑ گڑا کر اپنے اللہ کے حضور دعاکی۔ سب کی آنکھوں سے آنسو ایسے رواں تھے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ سب اپنے رب سے ایک ہی فریاد کررہے تھے کہ اے اللہ ایسا کیوں ہوگیا ہے، کاش لڑتے ہوئے شہید ہوتے پاکستان تو بچ جاتا ۔ ہم ان حالات سے دوچار کیوں ہوئے۔
بہرحال صبح کے ناشتے میں ایک چائے کاکپ اور ایک چپاتی ملی ۔ ناشتہ کرتے ہی سب کو حکم ہواکہ اپنا بستر تہہ کرکے سب گراؤنڈ میں پہنچیں۔ سب مقررہ وقت پر گراؤنڈ میں پہنچے۔
جیل کے شب و روز
صبح ۸ بجے سے لے کر ۱۲بجے تک وہاں کھڑا رکھا گیا ۔ حکم تھاکہ جو تھک جائے اپنی جگہ پر بیٹھ جائے ، جگہ چھوڑنے کی اجازت نہ تھی۔ مختلف قسم کی اور بھی کئی ہدایات دی گئیں پھر بیرکوں میں جانے کی اجازت ملی ۔باتھ روموں سے فارغ ہو کراور وضو کرکے ہم دوبارہ اپنی بیرکوں میں آگئے تو کھانا دینے والا آیا اور سب کو دو چپاتی اور ایک چمچ دال دے کر چلا گیا۔شاید پہلے دن اُن کے پاس آٹاکم تھا ۔ قیدیوں میں بہت سے ایسے تھے جن کا دو چپاتی اور تھوڑی دال سے گزارہ نہیں ہو رہاتھااور بہت سے ایسے بھی تھے میرے سمیت جن کوایک یا ڈیڑھ چپاتی کافی تھی۔ تھوڑی دیر میں ایک آواز آئی کہ بھائی کوئی دال روٹی بچی ہوئی ہے؟ تھوڑا کھانے والوں نے اپنا بچا ہؤا کھانا ان کو پیش کردیا اور پھر یہ ایک معمول بن گیا جو پورے دو سال جاری رہا۔کم کھانے والے باقی کھانا اپنے دوسرے بھائیوں کے لیے رکھ لیتے اور پھر بھوک رکھنے والے اکٹھے بیٹھ کر وہ بچاہؤا کھانا کھاتے۔
سب قیدی ایک دوسرے کے لیے بہت ہمدرد اور غمگسار تھے۔ سب ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے۔ زیادہ تر وقت ذکر اذکار اور نماز میں گزرتا۔ ہر کیمپ ایک دینی مدرسے کا روپ دھار گیاتھا۔ کیمپ میں کوئی عالم دین تو نہ تھامگر با جماعت نماز کی ادائیگی اور قرآن پاک کی تلاوت کی اجازت کے بعد وہاں کامنظر ایک دینی مدرسے جیسا ہوگیا تھا۔
مجھے ایک بات وہاں بہت شدت سے محسوس ہوئی کہ فوج کے لیے اگر بنیادی دینی تعلیم لازمی کردی جائے اور ٹریننگ کے دوران میںفوجیوں کو اسلامی بنیادی تعلیم جس میں نماز کی پابندی اور قرآن نہ صرف ناظرہ بلکہ کچھ حد تک ترجمے سے آگاہی دے دی جائے تو ہماری فوج میں ایمانی طاقت اسے ناقابل شکست بنا سکتی ہے۔ مجھے وہاں فوجیوں میں یہ بہت کمی نظر آئی ۔ بہت سے فوجی ناظرہ قرآن تک پڑھنانہ جانتے تھے۔
راقم نے قرآن پاک کی تعلیم چونکہ اپنی والدہ محترمہ سے حاصل کی تھی لہٰذا وہاں مجھے اس کا بہت فائدہ نظر آیااور میں نے ہردم اللہ کاشکر ادا کیا۔ جیل میں ،میں نے بہت سے فوجیوں کو ناظرہ قرآن پڑھنا سکھایا

اور خود بھی چھوٹی چھوٹی سورتیں زبانی یاد کیں ۔ اللہ قبول فرمائے۔
میں سکیورٹی لائٹس کی روشنی میں بیرک سے باہر خار دار تار سے مناسب فاصلے پر بیٹھ کر ساری ساری رات قرآن پاک کی تلاوت کرتا ۔ یہ میرے اللہ کی خاص توفیق سے ممکن ہوا۔ اللہ تعالیٰ کو یاد کرکے خوب روتا ۔ جب بھی پاکستان ٹوٹنے کی بات ذہن میں آتی تو وہ لمحات میرے لیے ناقابل برداشت ہوتے۔ ذہن میں پاکستان ٹوٹنے کی وجوہات تلاش کرتا رہتا کہ کاش اپنی جان کانذرانہ دے کرہم پاکستان کو بچا لیتے۔زندگی کے نشیب و فراز کا تو مجھے علم نہ تھا۔بس ایک بات تکلیف دیتی تھی اوروہ وطن کی محبت تھی۔ بھارت ہمیں دھوکا دینے میں کامیاب ہوگیاتھااور اب ہم اس کی قیدمیں تھے ۔
خرم مرادؒ کی صحبت میں
اسی طرح رہائی کے انتظار میں دن مہینے اور پھرپورا سال بھی گزر گیا۔ ہماری ساتھ والی بیرک میں محترم خرم مراد رہنما جماعت اسلامی قیدتھے۔ اُن دنوں جب انھیں گرفتار کیاگیا وہ جماعت اسلامی (ڈھاکہ) کے امیر تھے۔ میری اُن سے ملاقات روزانہ صبح فجر کی اذان سے پہلے ہوتی۔ وہ مجھ سے بڑی محبت سے ملتے، بہت پیار سے مجھے بھائی کہہ کر پکارتے۔ انھیں دیکھ کر اور اُن سے سلام دعا کرکے میں بہت سکون محسوس کرتا ۔ اُن کے معمولات زندگی میں ناشتے سے پہلے ایک قرآن کلاس لینااور ایک کلاس عصر کی نماز کے بعد لیناشامل تھا۔ سکیورٹی کے عملے کا فرد خاص طور پر اُن کی گفتگو سنتا اور جب اسے یقین ہو جاتا کہ وہ صرف دین کی گفتگو ہی کررہے ہیں تو وہاں سے چلا جاتا۔ خرم صاحب بہت کم گو تھے مگر روشنی کا مینار تھے اور تمام قیدیوں کی دینی معاملات میں راہنمائی کرتے تھے۔
جیل کی ہماری ایک روٹین بن چکی تھی۔ صبح اٹھنا ،نماز پڑھنا، ناشتہ کرنا،پھر آٹھ بجے سے ۱۲ بجے تک گراؤنڈ میں بھارتی فوجیوں کی ہدایات سننا اور روزانہ بھارتی فوجیوں کا قیدیوں کی گنتی کرنا۔ پھر دوپہر کو نماز اداکرنا ،کھانا کھانا اور رات کو سو جانا۔
بھارت کا اصل چہرہ
بھارتی قیدمیں جا کر محسوس ہؤاکہ بھارت ایک بھوکے پیاسے لوگوں کاملک ہے۔ بھارت جنگی قیدیوں کے نام سے انٹرنیشنل ریڈ کراس سے پیسے وصول کرتا اور اس کا بیشتر حصہ خود کھا جاتا۔ انٹرنیشنل ریڈ کراس کی طرف سے مختص فنڈ جو قیدیوں کے لیے دیا جاتاتھا، اس میں قیدی کی بنیادی سہولیات کی تمام تفصیلات موجود تھیں جن میں اچھا کھانا، بستراور دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی شامل ہے۔ مگر بھارت نے قیدیوں کو دووقت کی روٹی بھی پوری نہ دی اور اچھا بستر تو دور کی بات ایک چار پائی بھی فراہم نہ کی ۔ یہ سراسر بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی تھی۔
بھارت جو دنیا میں اپنے آپ کو جمہوریت کا چیمپئین سمجھتا ہے، انسانی حقوق کی آزادی کا علمبردار بنتاہے، ہمیں اندازہ ہؤا کہ وہاں کے مزدور کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے اور شہری بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ کیمپ میں صفائی اور دیگر امور انجام دینے کے لیے آنے والے بھارتی مزدور طبقے نے سارے بھانڈے پھوڑدیے جن کے پاؤں میں جوتے تک نہ تھے ، پھٹے پرانے کپڑے پہن کر اپنے جسم کو ڈھانپنے کی کوشش کرتے تھے۔ سنتری سے نظر بچا کر وہ جنگی قیدیوں سے روٹی اور پینے کے لیے پانی مانگتے تھے۔ وہ مزدور طبقہ ،جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی ،ہمیں بتاتے کہ ہم جن علاقوں میں رہتے ہیں وہاں جانور اور انسان ایک ہی جو ہڑ سے پانی پیتے ہیں۔ وہاں کے مسلمانوں کے علاقوں کی آج بھی یہی حالت زار ہے۔
پراپیگنڈے کی کوشش
بھارتی فوج نے جنگی قیدیوں کے لیے ایک اخبار کااہتمام کیاتھا۔ یہ عوام کااخبار نہیں تھا بلکہ خاص طور پر جنگی قیدیوں کے لیے نکالاجاتاتھا۔ یہ بھارتی خفیہ ایجنسی را کاپروجیکٹ تھا جس کامقصد بھارتی فوج کے امیج کو بہتر بناناتھااور جس میںبھارتی حکومت کا پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا بھی شامل تھا۔ جب یہ اخبار قیدیوں میں تقسیم کیاگیا تو اسے دیکھتے ہی سب کو اندازہ ہوگیااور کسی بھی کیمپ میں اس اخبار کو نہ پڑھا گیا بلکہ روزانہ اس کو دیکھتے ہی الگ کردیاجاتا۔ کسی نے اس کو ہاتھ تک نہ لگایا۔ تھوڑے دنوں کے بعد اخبارات کاانبار لگ گیا جنھیں کھولا بھی نہ گیا تھا۔

تب انھیں اندازہ ہواکہ اس اخبار کو پڑھا نہیں جارہا اوران کا یہ نفسیاتی حربہ ناکام ہے لہٰذا انھوںنے یہ سلسلہ بند کردیا۔
شکستہ دلوں میں حمیت جاگ اٹھی
جب بھارتی کیمپ کمانڈر کو علم ہؤاکہ ان کااخبار نہیں پڑھاجاتاتو انھوں نے ایک نیا حربہ استعمال کیا۔ تمام کیمپوں میں لاؤڈ اسپیکر کا سسٹم لگادیاگیا جس کاکنٹرول کیمپ کمانڈنٹ کے دفتر میں تھا۔ ایک دن کیمپ کمانڈر نے قیدیوں سے خطاب کرنے کا پروگرام بنایا۔ حسب معمول صبح کے وقت جنگی قیدیوں کو جب گراؤنڈ میں بٹھایا تو اعلان کیاگیا کہ کیمپ کمانڈر صاحب خطاب کریں گے ۔ کمانڈ ر نے گفتگو شروع کی ۔ گفتگو کے دوران میں جب کمانڈر نے کہاکہ اگر بھارت کے کسی حصے پر پاکستان قبضہ کرلے تو بھارت نہیں ٹوٹے گامگر پاکستان کے کسی حصے مثلاً وہ لاہور پر قبضہ کرلے تو پاکستان ٹوٹ جائے گا۔ وہ یہ دعویٰ کرنے کی کوشش کررہاتھاکہ پاکستانی فوج بھارتی فوج کو کبھی شکست نہیں دے سکتی ۔ اس کا یہ کہناتھا کہ تمام کیمپوں سے مشترکہ نعرہ تکبیر کی آواز یں گونجنے لگیں۔ پاکستانی فوج جو اس وقت بھارت میں جنگی قیدی تھی وہ یہ سب برداشت نہ کرسکتی تھی ۔ بھارتی فوج کو اس کی توقع نہ تھی۔بھارتی فوجی ایک دم پریشان ہوگئے۔ فوراً بھاری نفری منگوائی گئی اور پورے میرٹھ کینٹ کو بھارتی فوج نے گھیرلیا۔
بالآخر بھارتی فوجی حکام نے قیدیوں سے معذرت کی اور آئندہ ایسی گفتگو نہ کرنے کااعلان کیا ۔ تب جا کر وہ ہنگامہ جو صبح شروع ہؤاتھا شام تک ختم ہؤا۔ اس واقعے میں خیر کاپہلو یہ نکلا کہ سب قیدیوں میں جذبہ حب الوطنی تازہ ہوگیا۔ ہر فوجی گویانئے سرے سے پاکستان کے لیے مرمٹنے کو تیار تھاجیسے اُس میں ایک نئی روح نے جنم لیاہو۔
انٹرنیشنل ریڈ کراس نے قیدیوں کو ایک اور سہولت دی کہ قیدیوں کا اپنے گھر والوں سے رابطہ کروایا ۔ قیدی خط لکھ سکتے تھے اور جواب بھی وصول کرتے تھے۔ اگر کسی کے گھر سے کوئی افسوسناک خبر آتی تو تمام قیدی اس کے پاس جا کر افسوس کرتے اور سارا دن یہ سلسلہ جاری رہتا۔
جب عید کا تہوار آتا تو سب اپنے گھر والوں کے لیے بہت اداس ہوجاتے ۔ بہت سے تو روپڑتے تھے۔ باقی فوجی جا کر انھیں تسلی دیتے ،اُن کی ہمت بندھاتے ۔ ان ساری آزمائشوں ، مصیبتوں اور بھارتی حکومت کے ہتھکنڈوں نے پاکستانی فوج کا مورال نہ گرایابلکہ تمام فوجیوں کا ایمان پہلے سے بھی زیادہ پختہ ہوچکاتھا۔ خدا پر یقین میں اضافہ نہیں بلکہ کئی گنا اضافہ ہوچکا تھا۔ پاکستانی فوج کا پورا ڈھانچہ وطن پر نثارہونے کا درس دیتاہے جس سے فوج انتہائی اعلیٰ نظم و ضبط کے ساتھ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتی ہے۔
شکست،ہر وقت رِ سنے والا زخم
میں کیمپ میں سب سے کم عمر قیدی تھا۔ حالات کی سنگینی اور قید کی سختیاں میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھیں۔ اُن لوگوں کی طرف دیکھ دیکھ کر میری ہمت بندھتی جو وطن کی خاطر ہزاروں میل دور مشرقی محاذ پر ڈٹ گئے تھے۔ وہ اپنے ماں باپ اوربیوی بچوں کو خدا حافظ کہہ کر فرض کی پکار پر میدان جنگ میں اپنے وطن کو بچانے آئے تھے مگر انھیں ایساکوئی اندیشہ نہ تھا، شکست کا تصوربھی ان کے ذہنوں میں نہ تھااور اب ایک بالکل غیر یقینی صورتِ حال کا اُن کو سامنا تھا ۔ میں بھی اُن کو دیکھ کر ہمت باندھتا ۔
ان مجاہدین نے اُف تک نہ کی ۔ دو سال قید کی سختیاں برداشت کیں جن میں سب سے بڑی آزمائش سخت گرمی اور سخت سردی میں صبح ۸ بجے سے ۱۲ بجے تک کھلے گراؤنڈ میں کھڑے ہوناتھاجہاںپل بھر کو بھی بیٹھنے کی کوئی جگہ نہ ہو۔ یہ سب تکالیف تھیں مگر قیدیوں کا مورال بہت بلند تھا۔یہ مشرقی پاکستان میں موجود وہ مجاہدین تھے جنہیں خون کے آخری قطرے ،آخری گولی اور آخری فوجی تک آزمایاجاسکتاتھا۔ شاید پھر مسلمانوں کی تاریخ مختلف ہوتی لیکن فوجی نظم و ضبط کا تقاضا تھا ،اپنے کمانڈر کاحکم مانناتھا۔ اُن کے حکم پر ہتھیار ڈالنے تھے چنانچہ ایسا ہی ہؤا۔
بریگیڈئیر صدیق سالک ایک جنگی قیدی تھے،موصوف نے اپنی کتاب ’’ہمہ یاراں دوزخ‘‘میں ہتھیار ڈالنے کے حالات کا یوں تذکرہ کیا ہے:
’’ اس ماتمی ماحول سے فرار کی خاطر میں نے بشیر کیانی اور غلام

رسول کو ڈھونڈا کہ شاید وہی عزم و ہمت کی شمع جلائیں لیکن آج وہاں بھی رواں مژگان چشم تر سے خونِ ناب تھااور آنسو تسبیح کے دانوں کی طرح گررہے تھے۔ لیفٹیننٹ کرنل بشیرملک سراپا اندوہ تھے۔ کیانی کی آنکھوں سے آنسو اُبل اُبل آتے تھے، نوجوان غلام رسول بارِحسرت سے کبھی زمین اور کبھی آسمان کو دیکھتاتھا۔ کسی کو مجھ سے آنکھیں چار کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ مجھے یوں محسوس ہؤا کہ میرے احباب وہاں سے ہمیشہ کے لیے اُٹھ گئے ہیں اور اب ان کے صرف مجسمے میرے سامنے ہیں، جن کی زبانیں گُنگ ہیںاور چہرے ستے ہوئے ہیں۔ یوں معلوم ہوتاتھاکہ سب نے ایک ہی چھاپ کے نقاب (Mask) پہن رکھے ہیں۔ اس سناٹے میں صرف نگاہیں بولتی تھیں اور وہ بھی کہتی کم اور پوچھتی زیادہ تھیں۔ ان کاایک ہی سوال تھا:’’یہ سب کیا ہوا ، کیوں ہؤا ‘‘ ان سوالوں کا جواب اُن پیشہ ور سپاہیوں کے پاس نہ تھاجنھوںنے حکم کی تعمیل میں ہتھیار اٹھائے تھے، حکم ملنے پر ہتھیار ڈال دیے تھے اور غالباً یہی پاکستانی سپاہی کی کل داستان ہے ‘‘۔
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x