ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ہمیں خبر ہی نہ تھی تو بھی رہگزر میں ہے- بتول جولائی ۲۰۲۱

وہ یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں آگئی تھی ۔گلے میں ڈھیلا سکارف تھا، جینز اور اسٹائلش سا کرتا ،پاؤں میں جوگرز۔ بالوں کو سمیٹ کر اونچی پونی کی شکل دی ہوئی تھی۔ میک اپ سے بے نیاز چہرہ یا شاید کوئی نیچرل سی لپ اسٹک لگی تھی جومجھے دور سے نظر نہیں آرہی تھی۔کافی خوبصورت لگ رہی تھی وہ……..اپنے گروپ کے ساتھ تھی، دو لڑکے اور تین لڑکیاں……..یہ کلاس کا سب سے اچھا گروپ تھا ہر طرح سے ……..پرسنیلٹی میں بھی اور پڑھنے میں بھی۔
وہ کسی بات پر ہنسی اور ہنستے ہوئے نظر مجھ پر پڑی تومسکرائی اور ہاتھ ہلایا۔ میں نے ویسی ہی مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ ہلایا اور نظریں اس پر سے ہٹا لیں-
اسے دیکھنا مجھے ہمیشہ سے ہی اچھا لگتا تھا لیکن ایسا نہیں تھا کہ میں اس سے متاثر تھی ۔وہ مجھ جیسی ہی تو تھی۔ ہم دونوں ہی پڑھنے میں اچھے تھے ۔میں اگر اس جتنی خوبصورت نہیں تھی تو کم بھی نہیں تھی۔ شہر کے اس مہنگے بزنس انسٹیٹیوٹ میں آکر میں نے بھی اپنے آپ کو مینٹین کر لیا تھا۔ ہاں کمی تھی تو ایک اس جیسی بے نیازی مجھ میں نہیں تھی۔ وہ اچھی اور پڑھی لکھی فیملی سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کے ماں اور باپ دونوں پروفیسر تھے۔ میں نے اُنہیں ایک دو بار اسے پک اینڈ ڈراپ کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ کچھ بھی پہن کر آجاتی تھی اور با اعتماد ہوتی تھی۔ میں نے اسے اسکارف میں بالوں کو ڈھانپے ہوئے آتے بھی دیکھا تھا اور جینز، ٹاپ کے ساتھ سٹول لیےہوئے بھی۔وہ ہر طرح پر کشش اور با اعتماد لگتی تھی۔ اس کے اچھا لگنے میں ایک پہلو اس کا اخلاق بھی تھا ۔میں نے اسے ہمیشہ سب سے اچھی طرح بات کرتے ہوئے دیکھا تھا-
فون کی بیل بجی اور میں سوچوں سے نکل آئی۔ اماں کا فون تھا، ناگواری کا ایک تاثر میرے چہرے پر نہ چاہتے ہوئے بھی آگیا ۔مجھے فون اٹھانے سے پہلے ہی پتہ تھا کہ بات کیا ہوگی۔
’’ السلام علیکم!‘‘
’’وعلیکم السلام بیٹا میں پوچھ رہی تھی کب تک آؤ گی ؟‘‘
اماں کی بات میرا حلق تک کڑوا کر گئی ۔میں بچی نہیں تھی جو کہیں گم ہو جاتی۔
’’جب کام ختم ہو گا……. تب…….کیوں……. کوئی کام ہے کیا !‘‘ لہجے کا تیکھا پن شاید اماں بھی محسوس کر گئیں۔
’’نن نہیں تو …….وہ ٹائم ہو گیا نا تمہارا تو سوچا پوچھ لوں‘‘ اماں کی کھسیائی ہوئی آواز آئی ۔
’’ٹھیک ہے‘‘ میں نے گہری سانس بھرتے ہوئے فون بند کر دیااور باہر کی راہ لی۔ سدرہ باہر ہی کھڑی تھی۔
’’ کیسے جاؤ گی؟‘‘ مجھے دیکھ کر مسکراتے ہوئے وہ بولی۔
’’ جیسے جاتی ہوں ‘‘ میں ہلکی سی ہنسی ہنس دی۔
’’میں ڈراپ کر دوں گی، ماما آنے ہی والی ہوں گی ‘‘۔
’’ارے نہیں میں چلی جاؤں گی ۔میرا گھر تم لوگوں کے راستے میں نہیں آئے گا‘‘ ۔میرے ذہن میں اپنا چھوٹا سا علاقہ گھوما جہاں میں ہرگز اس کو لے کر جانا نہیں چاہتی تھی۔
گاڑی کے رکنے کی آواز پر میں نے مڑ کر دیکھا ۔اس کی اسٹائلش سی ماما گاڑی سے اتر کر میرے پاس آئیں، ہاتھ ملاتے ہوئے رسمی باتیں کیں۔ ڈراپ کرنے کی آفر سدرہ کی طرح ان کی بھی تھی جسے میں نے ہنستے ہوئے ٹالا۔ گاڑی میں واپس بیٹھتے ہوئے بھی انہوںنے سر کے اشارے سے اللہ حافظ کہا۔ میں نے بھی جواباََ سر ہلایا۔

کتنی ویل مینرڈ فیملی ہےیہ! اس کے بابا بھی جب بھی ملتے تھے ایسے ہی ملتے تھے۔
یہ سوچتے ہوئے میرا دھیان اس کی ماما سے اپنی اماں کی طرف چلا گیا ۔کتنا اچھا ہوتا اس کی ماما کی طرح وہ بھی اتنی ہی ویل ایجوکیٹڈ ہوتیں چاہے ہم ان جتنے امیر نہ ہوتے……. کاش!
٭ ٭ ٭
’’امامہ میرا بچہ اٹھ جاؤ، جانا نہیں ہے کیا؟‘‘ صبح صبح اماں نے آواز دی ۔
’’اٹھ رہی ہوں تھوڑی دیر میں‘‘ ۔
نہ چاہتے ہوئے بھی ایک تلخی میری آواز میں آگئی۔ وہ ماں تھیں سمجھ گئیں۔ ان کے قدموں کے دور جانے کی آواز آئی تومیں نے کمبل منہ سے ہٹا لیا۔
تیار ہو کر گھر سے باہر نکلتے ہو ئے میں نے دیکھا اماں دروازے پر کھڑی منہ ہی منہ میں کچھ پڑھتے ہوئے پھونک رہی تھیں ۔مجھے شرمندگی ہوئی اپنی اس بدتمیزی پر جو آجکل اماں کے ساتھ کچھ زیادہ ہی ہوتی جا رہی تھی ۔اگرچہ اس کی زد میں صرف اماں ہی نہیں تھیں سارا گھر ہی تھا ۔
گھر سے یو نیورسٹی کا سفر میں نے اپنے رویے پر غور کرتے ہوئے ہی گزارا۔
ایم بی اے کا پہلا سال اتنا تلخ نہیں تھا شاید! تب میں بھی اپنے گھر والوں جیسی ہی تھی۔ وہ پہلا سال تبدیلی کا تھا لیکن میرے اپنے اندر کی…….میں نے اپنے آپ کو تبدیل کیا اور بہت تبدیل کیا …….سوچ سے لے کر گیٹ اپ تک میں نے سب کچھ بدل لیا تھا۔ اسی دھن میں مجھے شاید گھر والے نظر ہی نہیں آئے تھے۔ اب جب کہ میں بدل چکی تھی تو اپنے ہی گھر کے لوگ میری آنکھوں میں کھٹک رہے تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ سب کوئی جاہل اجڈ تھے۔ ہم بہن بھائی تو پڑھ ہی رہے تھے لیکن ہم اس طرح کی فیملی نہیں تھے جیسی میری اس مہنگی پرائیویٹ یو نیورسٹی میں پڑھنے والے زیادہ تر اسٹوڈنٹس کی تھی۔
‘‘ کوئی بات نہیں یہ سب بھی بدل جائے گا کچھ وقت اور گزرے گا تو‘‘ یونیورسٹی کے گیٹ سے اندر جاتے ہوئے میں نے اپنے آپ کو تسلی دی۔
’’ہاں بھئی کیا ارادے ہیں سب کے آگے؟‘‘یہ منزہ تھی ۔چپس کے پیکٹ میں سے دو چار ایک سا تھ نکالتے ہوئے اس نے پوچھا۔ سوال برائے جواب نہیں ، بس یونہی شغل کے لیےتھا لیکن ہم میں سے ہر ایک نے اس کا جواب دینا اپنا فرض جانا۔
’’اسی بینک سے آفر ہے جہاں انٹرن شپ کی تھی ارادہ تو وہیں کا ہے ‘‘ میں نے بھی چپس کھانے میں اپنے حصہ ڈالا ۔
’’اور تمہارا کیا ارادہ ہے؟‘‘ سدرہ ابھی آکر ہی بیٹھی تھی۔ اس کا گروپ شاید ابھی آیا نہیں تھا۔
’’دو چار کلودِنگ برینڈ ہیں وہاں ٹرائے کیا ہے دیکھو جہاں سے اچھی آفر آئے‘‘ سدرہ مسکرائی۔
منزہ نے سوالیہ نظروں سے میرال کی طرف دیکھا جیسے اب اس کی باری ہو۔
’’ میرا تو وہی ارادہ ہے جو پڑھائی ختم کرنے کے بعد ہر ماں باپ کا لڑکیوں کے لیےہوتا ہے ‘‘ میرال نے شرمانے کی بہترین ایکٹنگ کی اور سب کا با جماعت قہقہہ بلند ہؤا سوائے سدرہ کے ۔اس نے تنقیدی نظروں سے میرال کو دیکھا۔
’’مجھے سمجھ نہیں آتا اتنا پڑھ لکھ کر بھی یہی دقیا نوسی سوچ رہے گی ہمارے معاشرے کی ؟اچھا پڑھنا لکھنا بھی اچھی شادی کے اس پیکج کا حصہ ہے؟ ‘‘ بات اگرچہ تلخ تھی لیکن لہجے کی نرمی نے اس کی تلخی کم کر دی تھی ۔ میں نے بھی اثبات میں سر ہلا کر اس کی تائید کی۔ منزہ بھی ہم نوا تھی سو انگو ٹھا دکھا کر بہترین ہے کا تاثر دیا۔
’’ کیوں تم لوگوں کو شادی نہیں کرنی کیا ؟‘‘ چپس کے پیکٹ میں ہاتھ ڈالنے کی باری اب میرال کی تھی سو چپس سے انصاف کرتے ہوئے اس نےسوال کیا۔
’’ شادی ایک الگ چیز ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ساری عمر جس پڑھائی کے لیےمغز ماری کی اسے شادی کے لیےایک طرف کرو اور کیریر نہ بناؤ …. بھئی جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ساری عمر ہمارا ساتھ نبھانے

کا دعویٰ کرتا ہے اسے ہماری خواہشات کو بھی سامنے رکھنا چاہئے ‘‘ ۔
سدرہ جیسے واضح تھی کہ اسے اپنی آگے کی زندگی کیسے گزارنی ہے اور مجھے بھی کوئی ابہام نہیں تھا کہ جو وہ کہہ رہی ہے میں اس سے صد فی صد متفق ہوں۔
٭ ٭ ٭
’’امامہ !‘‘
بلال کی سنجیدہ آواز پر پلٹ کر میں نے اسے دیکھا۔
’’ مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے ۔لنچ آپ میرے ساتھ کرسکتی ہیں ؟‘‘ اپنے نئے ماڈل کی گاڑی کا دروازہ لاک کرتے ہوئے میں نے گاگلز اتارے اور اسے بغور دیکھا۔
’’کیا بات؟‘‘
’’ لنچ پر اگر آپ فری ہوں….تو!‘‘
مسکراتے ہوئے اس نے میرے سوال کا جواب لنچ پر چھوڑ دیا تھا ۔میں اثبات میں سر ہلاتے ہوئے آگے بڑھ گئی تھی۔
وہ میرا کولیگ تھا۔ بہت زیادہ بات چیت نہ سہی پھر بھی میرے اس سے اچھے مراسم تھے اور میرے بینک میں سب کے ساتھ ہی اچھے تعلقات تھے ۔میں اپنے کام سے کام رکھتی تھی۔ مجھے آگے بہت کچھ کرنا تھا باوجود اس کے کہ میں بہت کچھ کر بھی چکی تھی۔ مجھے یہاں جاب کرتےہوئے چھ ماہ سے زیادہ وقت ہو چکا تھا۔ یونیورسٹی ختم ہونے کے بعد یہ میری تیسری جاب تھی اور ہرجاب پہلے سے اچھی تھی۔ ہم گھر تبدیل کر کے ایک اچھے گھر میں آگئے تھے ۔مجھ سے چھوٹے دو بھائیوں میں سے ایک پچھلے سال پڑھائی ختم کر کے جاب شروع کر چکا تھا،دوسرا فائنل ائیر میں تھا۔ مجھ سے بڑی ایک بہن کی شادی میری پڑھائی کے دوران ہی ہو گئی تھی اور ایک کی پچھلے سال ہو گئی تھی۔ گھر کے جس ماحول سے میں تنگ تھی وہ اب تقریبا ًتبدیل ہو گیا تھا۔ رہ گئیں اماں توان کے ساتھ میں نے سمجھوتہ کر لیا تھا۔
اس بینک میں جاب کرنے پر بینک کی جانب سے مجھے ایک گاڑی بھی مل گئی تھی ۔سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا میں نے پلان کیا تھا۔ اپنی یونیورسٹی کے پاس سے گزرتے ہوئے مجھے وہ دن یاد آتے تو مجھے ہنسی آتی تھی ۔اپنی پڑھائی ختم ہونے کے بعد میں دوبارہ اپنی دوستوں سے نہیں ملی تھی لیکن فیس بک انسٹاگرام سے میں ان سب کی مصروفیات سے واقف ہی تھی۔ میرال کی واقعی ہی شادی ہو گئی تھی۔ منزہ نے کچھ وقت جاب کی اور شادی کے بعد اس نے بھی گھر کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہوئے جاب کو خیرباد کہہ دیا تھا ۔سدرہ نے اپنا کہا سچ کر دکھایا اور اپناکیر یئر بنانے میں لگی ہوئی تھی۔ کبھی کبھار اس کی کوئی پوسٹ نظر سے گزرتی تو اندازہ ہوتا تھا اس کی زندگی کا ۔
اور رہ گئی میں…….. تو میں نے جو سوچا تھا وہ مر حلہ وار پورا کر رہی تھی ۔میرے لائف اسٹائل کو آج دیکھنے والا میری پچھلی زندگی کا اندازہ بھی نہیں کر سکتا تھا۔
دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے کمپیوٹر پر سے نظریں ہٹاکر دیکھا ،سامنے بلال تھا ،لنچ ٹائم ہو گیا تھا اور وہ میرا انتظار کر رہا تھا۔میں سر ہلاتے ہوئے اٹھ گئی۔
لنچ آرڈر کرنے کے بعد وہ میری طرف متوجہ ہؤا۔
’’امامہ آپ انگیج تو نہیں ہیں…؟‘‘
سوال انتہائی غیر متوقع تھا۔ اتنا غیر متوقع کہ مجھے جواب دینا بھی نہیں آیا۔وہ آگے بولا۔
’’ وہ اصل میں میری فیملی آجکل میرے لیےلڑکیاں دیکھ رہی ہے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا ،میرے ذ ہن میں آپ آئیں ۔اپنے لائف پارٹنر کے لیےجو کچھ میں سوچتا ہوں آپ بالکل ویسی ہی ہیں، اسی لیےمیں نے سوچا پہلے آپ سے پوچھا جائے ‘‘۔
بلال جاندار مسکراہٹ کے ساتھ بولا اور میں صرف سر ہی ہلا سکی۔ لنچ کے اختتام تک میں اس قابل ہو چکی تھی کہ اپنا نقطہِ نظر بھی رکھ سکوں۔
’’ میری جاب…….! ‘‘
’’ بے فکر رہیں میں آپ کے کیریئر میں کبھی رکاوٹ نہیں بنوں گا ‘‘۔
اور پھر باقی سب تو خانہ پری ہی تھی۔ میں کب سے اتنی خود مختار تھی مجھے اندازہ ہی نہیں ہؤا۔ گھر والوں نے اس رشتے پر کوئی اعتراض نہیں کیا کیوں کہ مجھے اعتراض نہیں تھا۔ بلال جیسا ہینڈسم انسان میری زندگی میں آئےگا میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا-

سسرال ویسا ہی تھا جیسا میرا اپنا گھر! مجھے اس پر مایوسی تو ہوئی کیوں کہ بلال سے میرے ذہن میں جو اس کے گھروالوں کا خاکہ بنا تھا وہ ویسا ہی تھا جیسا سدرہ کے گھر والے تھے۔بلال کی اماں بالکل ایسی ہی تھیں جیسے میری اماں…….اپنی اماں کو تو میں نے برداشت کر لیا تھا لیکن اس کی اماں…….! قدرت نے یہاں بھی میرا ساتھ دیا ۔ساس نے شادی ہوتے ہی مجھے الگ کردیا ،وجہ یہ تھی کہ ہم دونوں کو ہی جاب کرنی تھی اور اس وجہ سے وہ اپنے گھر کا ماحول ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ بہرحال جوبھی تھا مجھے اپنے حق میں اچھا ہی ہوتالگا کیونکہ میں جاب کے ساتھ گھر کی ذمہ داریاں نہیں سنبھال سکتی تھی۔
٭ ٭ ٭
ہم دونوں آگے پیچھے ہی گھر میں داخل ہوئے ۔ شاید 20-25 منٹ کا ہی فرق تھا ۔میں اتنا تھکی ہوئی تھی کہ اندر آتے ہی بستر پر لیٹ گئی۔بلال جب آئے تو ماتھے پر تیوری تھی اور موڈ خراب ۔مزید کوئی بھی بات موڈ مزید خراب ہی کرتی لیکن بات کئے بغیر چارہ بھی نہیں تھا ۔
’’ میں سوچ رہی ہوں کہ کوئی نئی ماسی دیکھ لوں…….ہفتہ ہو گیا ہے اور کتنا انتظار کروں اس کا ‘‘۔
گھر کی ابتر حالت مجھے بھی نظر آرہی تھی ۔ شاید اسی نے میری تھکن میں مزید اضافہ کیا تھا۔ بلال نے کچھ بھی کہے بغیر باتھ روم کا رخ کیا اور پھر وہاں سے لاؤنج کا……. ان کے نخروں پر مجھے غصہ تو بہت آیا لیکن یہ وقت غصہ کرنے کا نہیں تھا۔ اپنی تھکن کو پس پشت ڈال کر میں اٹھی ، کچن کا رخ کیا، کم سے کم چائے تو میں بنا ہی سکتی تھی۔ چائے کے ساتھ نگٹس اور سموسہ فرائی کیے اور بلال کے پاس بیٹھ گئی۔ میری موجودگی کا احساس کرتے ہوئے انہوں نے ٹی وی کی آواز آہستہ کر دی اورچائے کا کپ اٹھا لیا۔میں نے ہاتھ کے اشارے سے اسنیکس کی طرف اشارہ کیا اور بلال نے سر انکار میں ہلا دیا ۔
’’میں تو حلق تک بیزار ہو گیا ہوں ان بازار کے آئیٹم سے‘‘ لہجے میں تلخی تھی ’’8سال ہو گئے بازار کا کھا کھا کر‘‘۔
’’اب یہ تو زیادتی ہے…….بیچ میں میڈ بھی تھی وہ بھی کھانا بناتی تھی ‘‘ میں ماحول کو مزید تلخی سے بچانا چاہتی تھی مگر یہ بات سن کررہ نہ سکی۔
’’اس کا کھانا بھی بازار سے کچھ کم برا نہیں تھا۔ اس کے سر پہ کوئی نہ ہوگا تو کیا خاک کھانا بنائے گی‘‘ بلال نے جتایا اور اب میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ۔
’’تو پھر…‘‘ سوالیہ اور تیکھی نظروں سے میں نےبلال کو دیکھا۔
’’ تو پھر یہ کہ تمہیں اب گھر کی طرف توجہ دینی چاہیے ‘‘ بلال نے حتمی انداز میں بات کی۔
’’آپ کا مطلب یہ ہے کہ میں گھر پر توجہ نہیں دیتی؟‘‘
’’میرا مطلب یہ ہے کہ تمہیں اب گھر کو سیریس لے لینا چاہیے‘‘۔
’’آپ کا مطلب یہ ہے کہ میں گھر کو سیریس نہیں لیتی ؟‘‘میں نے ان کا مزاج درست کرنے سے پہلے بات کو کنفرم کرنا چاہا۔
’’ہاں…….‘‘ بلال نے بات مکمل کی اور اٹھ کھڑے ہوئے۔
’’ یہ میری ہی ماں ہے جو اس گھر میں ہمارے بچوں کی دیکھ بھال کےلیےرہ رہی تھیں ۔ماسی بھی میں نے ہی لگائی تھی۔ اسے دیکھنا اور گھر کے کاموں کو مینیج کرنا بھی میری ہی ذمہ داری ہے۔ بچوں کی دیکھ بھال بھی میری ہی ذمہ داری ہے ایک ورکنگ وومن ہوتے ہوئے……. آپ کی ماں تو شادی کے شروع میں ہی الگ کر کے ہمیں فارغ ہو گئی تھیں ‘‘۔
میں نے اپنی ذمہ داریوں کی لسٹ سناتے ہوئے ان کی ماں کو بھی ساتھ ہی رگڑا ۔شادی کے شروع میں ان کا کیا جانے والا یہ فیصلہ جس پر میں نےجان چھوٹ جانے کی خوشی منائی تھی، میرے حق میں کیسا ثابت ہؤا ،مجھے بچوں کے بعد بہت اچھی طرح سمجھ آگیا تھا۔
’’ ہمارے گھروں کو سنبھالنا ہماری ماؤں کی ذمہ داری نہیں ہماری ذمہ داری ہے ‘‘ بلال نے دوبارہ بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’اور جو تمہارے حالات تھے تم سسرال میں رہ بھی نہیں سکتی تھیں…. تم اپنی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتیں اس گھر کی اٹھاؤ گی ‘‘ بلال نے طنز کیا۔
’’تم نے آج تک گھر میں کبھی ڈھنگ سےکھانے کا بندوبست نہیں کیا…….ب کچھ جیسے تیسے چل رہا ہے، زندگی گزارنے کے

لیے…….ہمیں شاید پتا ہی نہیں ہے کہ گھر ہوتا کیا ہے۔ جن ذمہ داریوں کو تم کہہ رہی ہوکہ تم نے اٹھائیں وہ سب تمہاری ماں نے اٹھائیں ۔ ان کے بغیر تم ایک دن بچے بھی نہیں سنبھال سکتیں ۔جب سے وہ بیمار ہو ئی ہیں اور اپنے گھر گئی ہیں بچے میری ماں دیکھتی ہیں ‘‘ بلال نے جتایا۔
’’اب میں بچے بینک میں لے کر تو جا نہیں سکتی ‘‘ سردمہری خودبخود میرے لہجے میں در آئی تھی ۔
’’تم جاب چھوڑ دو کم سے کم اس وقت تک جب تک بچے بڑے نہیں ہو جاتے۔ میری بھی اچھی جاب ہے میں گھر کا خرچہ آرام سے اٹھا سکتا ہوں ‘‘ بلال نے وہی بات کی جو ہر لڑائی کے اختتام پر ہوتی تھی۔
’’ یہ آپ سوچنا بھی نہیں کہ میں اتنی اچھی جاب اتنا اچھا کیریئر سب چھوڑ کر آپ پر انحصار کرنے کے لیےگھر بیٹھ جاؤں گی……. کسی قیمت پر بھی نہیں اور یہ بات میں نے شادی سے پہلے ہی آپ کو بتا دی تھی…….میں گھر کی ذمہ داریاں عام گھریلو عورتوں کی طرح اٹھاؤں گی ناممکن ‘‘ ۔
میں نے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا فیصلہ سنایا اور کمرے میں آگئی۔ گھر کا بیرونی دروازہ بہت زور سے بند ہو نے کی آواز آئی۔ بلال جا چکے تھے شاید اپنی ماں کے پاس اپنے دکھڑے رونے کے لیے……. میرے سرمیں شدید درد ہو رہا تھا۔ یہ لڑائی اب تقریبا ًمعمول ہی بن گئی تھی۔ ہر لڑائی کی تان میری جاب پر ٹوٹتی تھی۔ گھر کے کاموں میں میری دلچسپی شروع سے ہی نہیں تھی۔ شادی سے پہلے بھی یہ اماں کی ذمہ داری تھی اور شادی کے ایک سال بعد حمزہ کے اس دنیا میں آنے کے بعد بھی یہ اماں کی ہی ذمہ داری بن گئی تھی۔ مجھے کھانا نہیں بنا نا آتا تھا نہ ہی مجھے اس میں کوئی دلچسپی تھی اور نہ ہی میں ان عورتوں میں سے تھی جو جاب کے ساتھ ساتھ گھر کو بھی ٹائم دیتی ہیں اور اپنے آپ کو مشین بنا لیتی ہیں۔ مجھے مشین نہیں بننا تھا۔ میرا بھی اس دنیا میں کوئی وجود تھا ۔اگر ایک بار بھی میں نے گھر کی ان ذمہ داریوں کو ادا کرنا شروع کیا تو بلال نے بخوشی یہ ذمہ داریاں مجھے اٹھانے دینی تھیں ۔اگر باہر سے کام کر کے ایک تھکا ہارا شخص باقی وقت آرام کو اپناحق سمجھتا ہے تو ایک ورکنگ وومن کو یہ حق کیوں نہیں ملتا؟ وہ باہر کام کر کے بھی گھر کی ساری ذمہ داری اٹھائے ایسا کیوں ہے؟ میں کما رہی ہوں اور اچھا کما رہی ہوں میں ان سب کاموں کے لیےمیڈ رکھ سکتی تھی جن کے لیےایک خاتون خانہ سارا دن مغز ماری کرتی ہے تو میں ایسے کیوں نہ کروں؟ تھوڑا بہت تو اونچ نیچ ہو گی ہی ظاہر ہے پرفیکٹ تو کوئی بھی نہیں-
نہ جانے میں کتنی دیر تک ایسے ہی پڑی رہی ۔چونکی تو اس وقت جب فون کی بیل بجی ۔بلال کی کال تھی۔ میں نے بے دلی سے کال اٹھا لی لیکن دوسری طرف بلال نہیں میری بیٹی تھی۔ اس کی کھنک دار آواز سن کر مجھے ایک گونہ سکون کا احساس ہؤا ۔
’’ماما! بابا تھوڑا لیٹ آئیں گے،کھا نا کھا کر‘‘ حریم نے مجھے مطلع کیا۔
’’اچھا…….ٹھیک ہے…….کیا کر رہی تھیں حریم‘‘ میں نے بات کو طول دیا۔
’’کچھ نہیں ماما کھیل رہی تھی‘‘۔
’’ہوم ورک کر لیا؟‘‘
’’جی ماما، بابا نے کروا دیا، حمزہ کو بھی‘‘۔ مجھے دور سے قہقہوں کی آواز آئی۔ بلال اور ان کی اماں اور شاید بھائی وغیرہ بھی تھے۔ یہاں کے مقابلے میں وہاں کی رونق دل کو بھلی لگی۔ بچے بھی تو وہیں ہیں شاید اس لیے……. میں نے لا شعوری طور پر دل کو تسلی دی ۔
’’اچھا ٹھیک ہے بیٹا انجوائے کرو اور ماما آپ کو مس کر رہی ہیں ‘‘۔
حریم کی آواز رک گئی ‘‘ جی ماما میں بھی بہت مس کر رہی ہوں آپ بھی آجا ئیں نا ‘‘۔
میں مسکرائی’’بیٹا اب تو بابا گئے اور کل تو جمعہ ہے آپ کو آ ہی جانا ہے‘‘ ۔
’’ہممم …….‘‘ حریم کی چہکتی آواز جیسے مدھم پڑ گئی ۔کیا وہ یہاں آنا نہیں چاہتی… مجھے حیرت ہوئی۔
فون بند کر کے میں نے گھر کا جائزہ لیا۔ عجیب وحشت سی ہوئی۔ماسی کو ایک ہفتہ ہو گیا تھا ،میں نے خود کبھی کام کیا نہیں تھا ،شادی کے بعد ایک معقول تنخواہ پر میں نے میڈ رکھ لی تھی لیکن اسے بھی دیکھنے کے لیےکسی کو ہونا چاہیے تھا، بلال کی بات ٹھیک تھی، اور پھر بلال کو گھر کا کھا نا چاہیے تھا۔ شادی کے دو تین سال میں ہر لڑائی کا مرکز گھر کا کھانا تھا۔ اماں نے ہمارے گھر کے حالات دیکھتے ہوئے میرے ساتھ رہنے کی

قربانی دی تو حالات کچھ قابو میں آئے، کھانا میڈ بناتی اور بچوں کو دیکھنا سب اماں نے سنبھال لیا۔ میں نے پھر سے اپنے کیریئر پر توجہ دینا شروع کی ۔میری جاب اچھی سے اچھی ہوتی گئی اور بلال کا موڈ خراب سے خراب تر۔ اماں کی طبیعت اب اتنی اچھی نہیں رہتی تھی اور پھر یہ ہؤا کہ اماں کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی۔ میں اپنے بچوں کو ٹائم نہیں دے سکتی تھی اماں کی خدمت کہاں سے کرتی!
ایسے وقت میں بھائی سامنے آیا اور اماں کو لے گیا کہ یہ عمر اب ان کی ذمہ داریاں اٹھانے کی نہیں بلکہ خدمت کروانے کی ہے- مجھے برا تو بہت لگا لیکن کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ اماں خود بھی جانے پر خوش تھیں۔ یوں 9 سال اماں ہمارے ہاں گزار کر بھائی کے گھر گئیں اور پھر وہ ہی ہؤا جو ہونا تھا، گھر کی ذمہ داری کون اٹھائے؟ یہ ایک خوفناک سوال تھا جومیرے سر پرمنڈلا رہا تھا ۔میڈ کو کون دیکھے گا؟ کسی بھی گھر والے کی غیر موجودگی میں بچے میڈ پر کیسے چھوڑے جائیں؟اور اس سوال کا جواب بلال نے نکالا۔
’’ امامہ !آنٹی اب ہمارے ساتھ نہیں رہتیں۔ انہوں نے گھر کو بہت سنبھالا ہوا تھا، تقریباً ساری ہی ذمہ داری ان کے سر تھی ( یہ وہ بات تھی جو مجھے آگ لگادیتی تھی ،بلال کا انداز مجھے یہ بتاتا تھا کہ میں کتنی نکمی ہوں) اب کوئی تو اس گھر کو چلائے گا نا‘‘ لہجے میں نرمی تھی لیکن انداز حتمی تھا ۔
اس بات کی طرف نہ ہی جایاجائے جس کا کوئی نتیجہ نہ نکلے ۔میں نے بات کو اپنی طرف مڑتے دیکھ کر صاف جواب دینے کی ٹھانی۔
’’آپ کو ہمیشہ سے ہی پتہ تھا کہ میں جاب کروں گی ۔اب میرا ایک کیریئر ہے اتنے سالوں کی محنت ہے، میری اچھی تنخواہ ہے…….. میں کس کس چیزپر کمپرومائز کروں گی؟ ہم دونوں کو مل کر کوئی حل ڈھونڈنا ہوگا…!‘‘
حل کیا تھا بس کام چلنا شروع ہو گیا۔ فریزر پھرریڈی ٹو کک چیزوں سے بھر دیا گیا۔ ماسی میرے آفس سے آنے کے بعد آتی اور اس وقت تک بچے اپنی دادی کے پاس رہتے۔ جو کچھ وہ رات تک کر سکتی تھی کر دیتی تھی، واپس آکر بچوں کو دیکھنا انہیں صبح بھیجنا…….ٹینشن کا ایک پہاڑ میرے سر پر آگیا تھا۔
بلال کی اور میری بات چیت نہ ہونے کے برابر ہو گئی تھی ۔بلال واپسی میں اپنی اماں کے پاس سے بچے لیتے ہوئے آتے تھے اور یہیں سے حالات خراب ہونا شروع ہو گئے۔ایک سال کے اندر اندر بلال کا یہ مطالبہ زور پکڑ گیا کہ مجھے جاب چھوڑ کر گھر سنبھالنا چاہیے۔ وقت کی ستم ظریفی، ماسیوں نے بھی چھٹیاں کرنا شروع کر دیں۔ گھر کا حال ابتر ہو گیا اور اس سے ابتر میرا۔ میں جانتی تھی اگر اس وقت میں نےہتھیار ڈال دیے تو میں ساری عمر بس یہی کرتی رہوں گی ،دوبارہ یہیں سے میراکیریئر شروع نہیں ہو سکتا …….اور بلال یہی چاہتا تھا…….مجھے اپنے رحم و کرم پر لانا!
میرے اندر جیسے سوچ سوچ کر ابال اٹھنے لگے۔ دروازہ کھلنے کی آواز نے جیسے میری سوچوں کو بریک لگایا۔ بلال اکیلے ہی آئے تھے ۔ آتے ہی کپڑے بدل کے سونے کی تیاری تھی شاید……. موڈ اب بھی مجھے خراب ہی لگ رہا تھا۔
’’کھانا کھا لیا؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’ہاں……. تم نے…….؟‘‘سوال شاید رسمی طور پر کیا تھا۔
’’نہیں…….لیکن آپ کو کیا پروا….‘‘ میں نے غصہ ضبط کیا ۔
’’کیوں؟ تو کھا لیتیں…….تمہیں کس چیز کی کمی ہے…….پیسے تمہارے پاس ہوتےہیں ،خودمختار ہو تم، آرڈر کر لیتیں !باہر کا کھانا تمہیں ویسے بھی بہت پسند ہے ‘‘ طنز پر طنز۔میرا ضبط آخری حدوں کو چھونے لگا۔
’’ آپ کا مسئلہ میری خودمختاری ہی تو ہے ۔اپنے برابر کھڑی عورت مرد کو اچھی کہاں لگتی ہے۔ اسے تو آگے پیچھے گھومتی،مرد کے لیےکھانا بناتی، اس کے کپڑے دھوتی، گھر کی صفائیاں کرتی، اس کے بچے پالتی عورت اچھی لگتی ہے- اپنی ہر ضرورت کےلیےمرد کے آگے ہاتھ پھیلاتی، اس کی مردانگی کو تسکین دیتی عورت اچھی لگتی ہے‘‘۔
’’میرا مسئلہ تمہاری خودمختاری نہیں تمہاری بے حسی ہے۔تم ان لوگوں میں سے ہو جو اپنی ذات کے لیےسب کچھ قربان کر سکتے ہیں حتیٰ کہ اپنے بچے بھی اپنے گھر کا سکون بھی …..تم اپنے کیریئر کے لیےاپنا سب کچھ داؤ پر لگا سکتی ہو۔ تمہارے بچے کیا پڑھ رہے ہیں کیا کھا رہے کیا پی رہے ہیں تمہیں کوئی پروا نہیں…..گھر کاکیا حال ہے تمہیں کوئی پروا نہیں۔ پرواہے تو صرف یہ کہ تمہاری جاب کو کچھ نہ ہو‘‘۔

’’ بچے صرف میرے ہی نہیں ہیں آپ کے بھی ہیں۔ آپ پر بھی ان کی تربیت اتنی ہی فرض ہے جتنی مجھ پر۔ آج وہ شہر کے سب سے بہترین اسکولوں میں پڑھتے ہیں تو وہ بھی میری وجہ سے ورنہ آپ کہاں ان کی فیس افورڈ کر سکتے تھے ‘‘ میں نے بھی اس کے دماغ کو ٹھکانے لگانے کی ٹھانی۔
’’صرف اسکولوں میں جانے سے کچھ نہیں ہوتا۔ تربیت بھی کسی چیز کا نام ہے، پر تمہارا کبھی پالا پڑا ہو اس سے تو تم جانو‘‘۔
’’میرے گھر تک مت آنا…..یہ میری ماں ہی تھی جس کی وجہ سے یہ گھر اتنے سال چل گیا ورنہ آپ کی کیا کوشش تھی‘‘۔
’’کاش تمہاری ماں نہ ہی آتی….. تمہیں پتہ تو چلتا کہ گھر چلانا کہتے کسے ہیں اور اس کے لیےکیا کیا کرنا پڑتا ہے۔ جو کچھ اب ہونا ہے وہ نوسال پہلے ہو جاتا‘‘۔
‘‘ کیا ہو جاتا…..؟ آپ سمجھ رہے ہیں میں ان دھمکیوں سے ڈر جاؤں گی…..؟‘‘
’’یہ دھمکی نہیں ہے سچ ہے اور حقیقت ہے ۔میری جاب اتنی اچھی ہے کہ میں تم لوگوں کو ایک اچھی زندگی دے سکوں۔میرے بچے شہر کےسب سے اچھے اسکول میں نہ بھی پڑھیں تو بھی ایک اچھے اسکول میں پڑھ سکتے ہیں جبکہ ان کی ماں ایک بہترین پڑھی لکھی ماں انہیں گھر پر بھی توجہ دے سکتی ہے۔ میں چاہتا ہوں جو ہو گیا سو ہو گیا ،پراب ہم دونوں کو مل کر گھر پر توجہ دینی ہو گی ‘‘۔
’’میری جاب کی قیمت پر کبھی نہیں‘‘ میں نے پھر بحث کو ختم کرنے کی کوشش کی۔
’’جاب کی قیمت پر نہیں لیکن گھر کی قیمت پر….. اس کے سکون کی قیمت پر …..‘‘ بلال نےبھی شاید نہ رکنے کی قسم کھائی ہوئی تھی۔ مجھے بلال سے اس بات کی توقع نہیں تھی۔
’’ سوچ لو بہت اچھی طرح تم کیا چاہتی ہو اور کیا کر سکتی ہو۔ میں امی کے ہاں جا رہا ہوں ۔بچے جہاں پچھلے ایک ہفتے سے ہیں وہ اور بھی وہاں رہ سکتے ہیں اور وہ وہاں خوش بھی ہیں۔ انہیں کم سے کم ایک گھرکا ماحول تو ملا ہؤا ہے۔ وہ پیار محبت اور توجہ تو ہے وہاں جس کو وہ اپنے ماں باپ کے ہوتے ہوئے یہاں ترس گئے تھے‘‘۔
یہ بلال کے آخری الفاظ تھے اور اس کے بعد مجھے وہ ساکت چھوڑ کر چلا گیا فیصلہ سنا کر….. گھر جیسے ایک دم سے خالی خالی سا ہو گیا تھا ۔ میری بھوک پیاس تھکن سب جیسے ختم ہو گئی تھی۔ میرے ہونے کا احساس ہی جیسے ختم ہو گیا تھا۔ اس سچویشن کا میں نے سوچا بھی نہ تھا۔
صبح کے چار بج گئے تھے اور نیند جیسے میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔مجھے فیصلہ کرناتھا، اپنی زندگی کا سب سے مشکل فیصلہ…..اور وہ میں نے کر لیا تھا۔ میں کسی قیمت پر نہیں جھکوں گی ۔کوئی آخر کب تک کسی کے بچوں کو اپنے پاس رکھ سکتا ہے ۔خود ہی عقل ٹھکانے آجائے گی بلال کی اور پھر جب وہ میرے پاس آئےگا تو دوبارہ جاب کی بات ہی نہیں ہو گی۔ مجھے صرف اپنے آپ پر تھوڑا کنٹرول کرنا ہوگا۔ میں نے خود کو تھوڑا تسلی دی۔
٭ ٭ ٭
دوہفتے ہونے کو آئے تھے، بلال نے مجھے فون بھی نہیں کیا، ہاں اس کے نمبر سے فون آتا تھا لیکن وہ بچوں کا ہوتا تھا۔ بچوں کو اس نے کیا بتایا مجھے سمجھ نہیں آرہاتھا لیکن بچے پریشان نہیں تھے۔ وہ مجھ سے بات تو کرتے تھے لیکن واپس آنے کی بات اس میں نہیں ہوتی تھی۔ صرف پانچ سال کا اسامہ یہ سوال کرتا تھا کہ میں کب آؤں گی وہاں ان کے پاس، لیکن واپس گھر آنے کی بات وہ بھی نہیں کرتا تھا ۔
رہ گئی میں، تو مجھے سب بہت یاد آرہے تھے …..بچے بھی اور بلال بھی۔ ان دو ہفتوں میں دونوں بار ہفتہ اتوار میں اماں کی طرف ہی گزار کر آئی تھی اور انہیں بھی سمجھ آگئی تھی کہ معاملہ کس طرف جا رہا ہے مگر مجھے سمجھانے کی ہمت کسی میں نہیں تھی اور نہ ہی میں چاہتی تھی کہ کوئی میرے معاملات میں ٹانگ اڑائے ۔مجھے اپنا اچھا برا بہت اچھی طرح پتا تھا۔ بھائیوں کے تیور دیکھ کر لگ رہا تھا کہ اب اگر اماں ٹھیک ہو بھی گئیں تو وہ انہیں نہیں بھیجیں گے۔اماں کے گھر ایک سکون سا تھا۔ گھر ہمارے جتنا ہی تھا لیکن اس میں دوبھائیوں کی فیملی رہتی تھیں اس کے باوجود لڑائی جھگڑا نہیں تھا۔ دونوں بھابیاں سلجھی ہو ئی تھیں۔ میں نے اپنا ذہن بٹانے کے لیےباہر شاپنگ پر جانا مناسب سمجھا۔ مجھے کچھ نئے کپڑوں کی ضرورت بھی تھی۔ ظاہر

ہے جس پوسٹ پر میں تھی وہاں ظاہری حلیہ بھی بہت شمار ہوتا تھا۔
تقریبا ًدو گھنٹے شاپنگ پر لگا کر اور کچھ کھا پی کر میں شاپنگ سینٹر سے نکلی ۔ابھی گاڑی پارکنگ سے تھوڑا آگے ہی نکلی تھی کہ ایک جانے پہچانے چہرے نے توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔ گاڑی کی اسپیڈ آہستہ کرتے ہوئے میں بغور خاتون کا جائزہ لیا اور پاؤں بریک پر آگیا۔ مجھے یقین نہیں آیا وہ سدرہ تھی! کتنے سالوں بعد میں نے اسے دیکھا تھا۔ گاڑی سے نکلنے سے پہلے میں نے لاشعوری طور پر اپنا جائزہ لیا۔ ایک مہنگے برینڈ کےکپڑے، مہنگا میچنگ بیگ، برینڈڈ گاگلز، میرا چہرہ، ہر چیز میرے اسٹیٹس کی گواہی دے رہی تھی۔
گاڑی کو رکتے ہوئے سدرہ نے بھی دیکھ لیا ۔ایک خوشگوار حیرت اس کے چہرے پر بھی در آئی تھی۔
’’امامہ !‘‘اس نے شہادت کی انگلی میری طرف اٹھاتے ہوئے جیسے کنفرم کیا۔
’’ ہاں ‘‘ اثبات میں سر ہلاتے مسکراتے ہوئے میں اس سے گرمجوشی سے گلے لگ گئی ۔میرے چہرے پر کتنے دنوں بعد ایک دلی مسکراہٹ آئی تھی۔
’’کیسی ہو سدرہ ! کتنےےےے دنوں بعد دیکھا ہے تمہیں….. چینج ہو گئی ہو یار تم ‘‘ خوشگوار حیرت سے میں ابھی تک نہ نکل پائی تھی۔
’’ہاہاہا…..ہاں صحیح کہا۔ بس یار لائف بہت مصروف ہو گئی ہے‘‘ شاپنگ بیگ اپنے دوسرے ہاتھ میں منتقل کرتے ہوئے اس نے جواب دیا۔
’’کہاں کا ارادہ ہے؟‘‘ میں نے شاپنگ بیگزپر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
’’گھر ہی جانا ہے اب تو… ابھی مال سے نکلی تھی ‘‘۔
’’میں ڈراپ کر دوں اگر تم اپنی گاڑی میں نہیں ہو تو…….. اس بہانے تم سے بات بھی ہو جائے گی ‘‘ میں یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا دینا چاہتی تھی ۔ویسے بھی گھر کون سا کوئی انتظار کر رہا تھا۔
’’ہاں ہاں کیوں نہیں اگر تم فری ہو تو ……..میرے ہزبینڈ آج کسی ضروری کام سے نکلے ہوئے ہیں تومیں نے سوچا کہ ان کی غیر موجودگی میں کیے جانے والے کام کر لیےجائیں ‘‘ اس نے شگفتگی سے مسکراتے ہوئے میری آفر قبول کر لی۔
گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے مجھے وہ دن یاد آگئے جب وہ مجھے گھر ڈراپ کرنے کی آفر کرتی تھی اور میں اسے قبول نہیں کرتی تھی۔ کل میں اور آج میں کتنا فرق ہے !میری مسکراہٹ خود بخود گہری ہو گئی۔ مارکیٹ سے اس کے گھر تک کا فاصلہ عام سی باتوں میں طے ہؤا۔ میری شادی اس کی شادی ،ہمارے بچے ۔ہم دونوں کے ہی تین بچے تھے، اس کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا، ہز بینڈ ایک نجی ادارے میں اچھی پوسٹ پر تھے۔ یہ پہلا موقع تھا میں اپنے اور فیملی سے متعلق ہر خوف اور احساس کمتری سے آزاد تھی۔
’’تم کہاں جاب کر رہی ہو آجکل ؟‘‘میں نے اپنی جاب کا بتاتے ہوئےسوال کیا-
’’میں نے تو جاب چھوڑدی یار…..بہت ٹائم ہوگیا اب تو‘‘ وہ مسکرائی۔
’’واقعی!!!!‘‘ مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا … میرے خیالوں میں سدرہ کوکسی کمپنی کی بہت اچھی پوسٹ پر ہونا چاہیے تھا اور وہ کہہ رہی تھی کہ اس نے جاب چھوڑ دی… وہ تو کہتی تھی کہ ہمیں اپنے کیریئر پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔وہ تو مجھ سے بہت پہلے ہی سمجھوتے کے اسٹیج سے گزر چکی ہے شاید…..
’’ الٹے ہاتھ پر موڑ لو آگے ہی ہمارا گھر ہے ‘‘اس نے اشارے سے بتایا۔ وہ ایک اچھی ہاؤسنگ سوسائٹی میں اچھا بنا ہؤا گھر تھا۔ ہم اندر آگئے اور اندر آتے ہوئے میں نے اس کے حلیہ پر غور کیا. وہ سادہ سے گھریلوکپڑےپہنے تھی اور آج بھی ان میں اتنی ہی سٹائلش لگ رہی تھی جیسی کبھی ہوتی تھی۔
’’ ماما! ایک چار ساڑھے چار سال کی بچی بھاگتی ہوئی آئی اور سدرہ کی ٹانگوں سے لپٹ گئی ۔
’’ماما کی جان‘‘ سدرہ نے ہنستے ہوئے بچی کو گود میں اٹھا لیا۔
’’ کیسی ہے میری گڑیا ‘‘ سدرہ نے اسے پیار کیا۔
’’ میں ٹھیک ہوں میں نے آپ کو بہت مس کیا ۔آپ مجھے لے کر

کیوں نہیں گئی تھیں ‘‘ بچی نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔
’’بیٹا ماما اکیلے گئی تھیں نا اس لیےورنہ جب بابا جاتے ہیں تب تو آپ کو لے کر جاتے ہیں نا ! ‘‘ لہجے میں بہت نرمی اور پیار تھا۔
میرے اندر جیسے کچھ ٹوٹا۔ مجھے اپنے بچے یاد آنے لگے۔ مجھے ان سے اس طرح بات کیے کتنے دن ہو گئے تھے۔ اب تو وہ ہفتوں ہفتوں کہیں بھی میرے بغیر رہ سکتے تھے۔
’’دیکھو بیٹا ساتھ ماما کی فرینڈ آئی ہیں آپ نے انہیں سلام کیا؟‘‘ اس نے دوبارہ اس کے چہرہ پر پیار کرتے ہوئے اسے میری طرف متوجہ کیا ۔
سدرہ کی بیٹی نے سر ہلاتے ہوئے چہرہ جھکائے جھکائے مجھے دیکھا، آہستہ سے ہاتھ آگے بڑھایا اور ہاتھ ملاتے ہی بھاگ گئی۔ ہم دونوں ہی کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔ گھر بڑا اور صاف ستھرا تھا۔ سدرہ مجھے ڈرائنگ روم میں لے جانے کے بجائے اندر ہی لے گئی تھی۔
’’کوئی بھی نہیں ہے گھر میں آرام سے آجاؤ ‘‘ سدرہ بے نیازی سے کہتی آگے بڑھ گئی اور لاؤنج میں جا کر رکی۔
جہاں تک میری نظر پڑ رہی تھی گھر صاف ستھرا تھا. اس نے لاؤنج میں رکھے صوفوں کی طرف اشارہ کر کے مجھے بیٹھنے کا کہااور خود اس سے ملحقہ اوپن کچن میں چلی گئی۔
میں نے بغور اس کا جائزہ لیا۔ وہ ایک ماہر خاتون خانہ کی طرح کچن میں اِدھر سے اُدھر گھوم رہی تھی۔ کچھ ہی دیر میں وہ میرے سامنے کچھ اسنیکس لے آئی ۔سموسہ، کباب ،سینڈوچز اور ساتھ میں چائے۔ میں حیران رہ گئی، ان میں سے کچھ بھی باہر کا نہیں تھا ۔دوبارہ کچن میں جا کر اس نے بچوں کو آواز دی۔ اس کی بڑی بیٹی آئی اور اس نے اسے سینڈوچز کی ٹرے تھما دی۔
’’ بہن اور بھائی کو بھی بلا لینا‘‘ سدرہ نے ساتھ ہی ہدایت بھی دی ۔وہ سر ہلاتے ہوئے ایک کمرے میں چلی گئی اور سدرہ میرے پاس آ کر بیٹھ گئی۔
‘‘ ارے تم نے کچھ بھی نہیں لیا‘‘اس نے اب مجھ پر توجہ کی۔
’’ہاں لے رہی ہوں‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کباب اپنی پلیٹ میں ڈالتے ہوئے کہا۔
’’ میں تمہیں دیکھ رہی تھی ۔تم تو ایکسپرٹ ہو بھئی مجھے کبھی نہیں لگا تمہیں کھانا پکانے سے اتنی دلچسپی ہو گی ‘‘ ۔
’’ ہاہاہاہا …..اس وقت تھی بھی نہیں ‘‘ سدرہ نے بے ساختہ ہنستے ہوئے کہا’’ یہ تو اب شادی کے بعدوہ بھی جب میرا بیٹا چار سال کا تھا تب سے مجھے دلچسپی ہوئی ہے۔ میں نے اصل میں جاب ہی تب چھوڑی تھی‘‘۔
جاب کا ذکر آیا تو میں بھی سیدھی ہو گئی کہ ایسی کیا وجہ تھی جو سدرہ جیسی لڑکی نے جاب چھوڑی وہ بھی اتنی اچھی – ۔
’’جاب کیوں چھوڑی یار تم نے؟‘‘ میں نےبظاہر سرسری انداز میں سوال کیا۔
’’ بس یار کیا بتاؤں اچھی خاصی جاب چل رہی تھی ۔سسرال بھی اچھا تھا۔ میری ساس سسر میرے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ آج کل اپنے ایک اور بیٹے کے ہاں گئے ہوئے ہیں۔ اب ظاہر ہے ورکنگ وومن کے لیےشادی کے بعد جاب اتنا ایزی نہیں ہوتی سو میں نے دو تین میڈ رکھی ہوئی تھیں اور خود بھی جب گھر پہ کچھ فراغت ملتی تو گھر کو وقت دیتی۔چار پانچ سال تک یہ سب چلا پھر میں نے محسوس کیا کہ میرے بچے مجھ سے زیادہ میری میڈ سے قریب ہیں ۔میڈ اچھی سلجھی ہوئی خاتون تھی لیکن میں نے محسوس کیا کہ میری موجودگی میں بھی بچے اپنی روزمرہ ضرورت کے لیےاسی کو تلاش کرتے ہیں، اسی سے اپنی چھوٹی چھوٹی باتیں شئیر کرتے ہیں تو مجھے بڑا عجیب لگا۔ میں نے اس وقت محسوس کیا کہ میری یہ ساری بھاگ دوڑ کس کےلیےہے؟ ان بچوں کو اچھا پڑھا لکھا ماحول دینے کے لیےانہیں ہر آسائش اور ان کی وہ ضروریات پورا کرنے کے لیےجو ہماری نہیں ہو سکیں ؟مجھے بھی یہی احساس محرومی رہا کہ والدین کی اپنی مصروفیات کےچکر میں مجھے وہ توجہ نہیں مل سکی جس کی مجھے ضرورت تھی اور تمہیں پتہ ہے….. تم سے میری اتنی دوستی نہیں تھی پر تمہیں میں بہت رشک کی نظر سے دیکھتی تھی…..اکثر تمہاری اماں کی کال یونیورسٹی میں آتی تھی وہ تمہارےلیےفکر مند ہوتی تھیں۔ میرے دل میں ایک ہُوک سی اٹھتی تھی کہ کاش میری اماں بھی مجھے ایسے کال کریں میرے لیےکھانا

بنائیں میرا انتظار کریں‘‘۔
کباب کی پلیٹ میرے ہاتھ میں کپکپائی ۔زندگی کو ہم کن کن زاویوں سے دیکھتے ہیں مجھے آج سمجھ آیا۔ اپنی ماں کی قدر مجھے آج محسوس ہوئی۔ سدرہ کی آواز مجھے حواسوں میں لائی۔
’’ امامہ زندگی میں اپنے بچوں کودنیاوی آسائشیں دینے کے چکر میں ہم دن رات ایک کر دیتے ہیں، ہم انہیں خود سے دور بھی کر دیتے ہیں اور سب سے دلچسپ بات یہ کہ انہیں تو ہماری توجہ اور قرب کی ضرورت ہوتی ہے، ہمارے پیار کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ہی ہم انہیں نہیں دیتے۔جب میں چھوٹی تھی مجھے بھی اپنی ماں سے یہی چاہیےہوتا تھا کہ وہ مجھے ٹائم دیں توجہ دیں مجھ سے بات کریں میری دوست بنیں … بس اس خیال کا آنا تھا ،میں نے کچھ دن بھی سوچنے کے لیےنہیں لگائے۔ دوسرے مہینے سے میں نے جاب چھوڑ دی ۔پھر ان کےلیےچیزیں بناتے ان کو ٹائم دیتے مجھے سب آگیا‘‘ وہ مسکرائی پرانا وقت یاد کرتے ہوئے۔
’’ اتنی اچھی جاب چھوڑ دی …خیال نہیں آتا آج تم کہاں ہوتیں…..؟ ‘‘میں نے سوال کیا یا شاید وہ الجھن سامنے رکھی جو میرے اندر تھی۔
’’بچوں سے بڑھ کر کیا ہے امامہ…..یہی ہماری کمائی ہے اور یہی ذمہ داری….. سچ پوچھو تو اس وقت جاب چھوڑنے کا فیصلہ بہترین ثابت ہؤا۔ مجھے جیسے سمجھ آگیا میری آگے آنے والی زندگی کا مرکز کیا ہے اور میرے اس فیصلے نے مجھے میرے شوہر اور ساس سسر کے نزدیک بھی بہت معتبر کر دیا ‘‘ ایک طمانیت بھری مسکراہٹ اس کے چہرے کا جیسے حصہ ہو گئی تھی۔
’’ اور تم… … تم اپنا بتاؤ کیسے مینیج کر رہی ہو یہ سب ؟‘‘ اس نے دلچسپی سے پو چھا۔
’’ مینیج کرنا اب مشکل ہو گیا ہے۔ پہلے تو جیسے تیسے ہو ہی رہا تھا… سوچ تو میں بھی رہی ہوں کہ جاب چھوڑ دوں ‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
وہ فیصلہ جو کوئی مجھ سے نہ کرواسکا تھا آج ہو گیا… سدرہ پھر مجھ سے آگے نکل گئی تھی لیکن آج اس کو فالو کرنے میں مجھے کوئی جھجک نہیں تھی!
٭ ٭ ٭
آج اس بات کو تقریباً تین سال ہو چکے۔
’’ماما !….. ‘‘ حمزہ کو اچانک کھانا کھاتے کھاتے کچھ یاد آیا۔
’’ہمم…..‘‘ میں نے سر اٹھا کر اس کے چمکتے چہرے کو دیکھا۔
’’ سعد کی ماما مجھ سے سینڈوچز کی ترکیب مانگ رہی تھیں جو آپ نے اس دن مجھے بنا کر دیے تھے۔میں نے اس کے ساتھ بھی شئیر کیے تھےنا اسے بہت پسند آئے تھے‘‘۔
’’اچھا ٹھیک ہے….. ‘‘ اور دل ہی دل میں مجھے بہت ہنسی آئی تھی۔تین سال پہلے میں اس کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔
’’یہ بات تو ہے امامہ کھانا بہت اچھا بناتی ہے‘‘ میری ساس رہنے کے لیےآئی ہو ئی تھیں اور میری کوشش تھی کہ ان کا ہر ممکن خیال رکھا جائے۔ ان کی تعریف پر شرم سے میرا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔ بلال نے مسکراتے ہوئے محبت بھری نظروں سے میری طرف دیکھا۔
’’سدرہ سے میری بات ہوئی تھی۔ ہم دونوں پیرنٹنگ پر ایک یو ٹیوب چینل کھولنا چاہ رہے ہیں‘‘ سدرہ اب میری بہترین دوستوں میں سے تھی۔
’’ہاں ہاں کیوں نہیں جو کچھ ہمارے پاس ہے ہمیں دوسروں کی بہتری کے لیےاستعمال کرنا چاہیے‘‘ بلال نے بات آگے بڑھائی ۔
’’مگر گھر بچے….. ٹائم نکالنا مشکل ہو رہا ہے‘‘۔
’’ابھی تو امی بھی یہاں ہیں اچھا موقع ہے اور پھر میں بھی دیکھ لوں گا بچوں کو ‘‘ ان تین سالوں میں بلال ایک تعاون اور قدر کرنے والے شوہر کی حیثیت سے سامنے آئے تھے۔ ساس نے بھی تائید میں سر ہلایا۔
’’ٹھیک ہے پھرکچھ کرتی ہوں سدرہ کے ساتھ مل کر‘‘ میں اپنی مطمئن فیملی کودیکھتے ہوئے طمانیت سے مسکرا دی۔
٭ ٭ ٭

 

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x