ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

یہ ہے دو گھرانوں کی کہانی!- بتول جولائی ۲۰۲۱

مسز جلیل عالی شان کوٹھی میں دوسری منزل کے ایک سجے سجائے بیڈروم کے بیڈ پر آج کی خریداری کے تمام لوازمات انڈیلے بیٹھی تھیں۔چاروں بچے اپنے اپنے بیڈ رومز سے بہت دفعہ بلانے کے بعد آئے تھے۔کسی کے کان میں ہیڈفون لگا ہےتو کسی کے ہاتھ میں موبائل اور کوئی انگڑائیاں لیتا ہؤا چلا آ رہا ہے۔لیکن عید کی شاپنگ کا سامان دیکھتے ہی سب کی سستی جاتی رہی،بھاگ کر چیزیں اٹھا اٹھا کر دیکھنے لگے۔
’’اوہ ماما یہ کلر تو فرحان چچا کے بیٹے نے بھی لیا ہے۔تو کیا اب میں اس جیسا کلر پہنوں گا ماما سائز تو ٹھیک ہے لیکن کلر چینج کرادیجیے‘‘ سب سے بڑے بیٹے نے تبصرہ کیا۔
’’مام !شرٹ کا سائز اور کلر تو مجھے پسند آگیا ہے مگر پینٹ کا کلر کچھ میچ نہیں کرتا مام پلیز اس کو چینج کروا دیں‘‘چھوٹے کی بھی تسلی نہیں تھی۔
’’اووو ں ں……ممی یہ تو پرانی ڈیزائننگ لگ رہی ہے پچھلے سال کی۔لگتا ہے کہ مارکیٹ میں پرانا مال بک رہا ہے‘‘لاڈلی مریم نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔
’’تو ساتھ چلتے خود اپنی مرضی کی شاپنگ کرلیتے سب…… اتنی محنت سے خریداری کی ہے میں نے اور تم لوگ ہو کہ ایک جھٹکے میں ہی سب کچھ ریجیکٹ کر دیا‘‘مام نے خفگی کے ساتھ کہا۔
’’مما اس گرمی اور حبس زدہ موسم میں اب کون مالز میں پھرتا رہے…… آپ تبدیلی کے لئے ڈرائیور کو بھیج دیجئے ناں……‘‘ بڑے بیٹے نے کہا اور کہتے ہی سب اپنے اپنے کمروں کی طرف چل دیے۔
’’ارے سنو تو……‘‘ ماں کو اچانک کچھ یاد آیا۔
سب سن کر واپس پلٹے۔
’’قربانی کا کیا کرنا ہے…… کون سا جانور خریدنا ہے؟‘‘
’’اوہ …… قربانی……! ‘‘ سب نے بیک وقت کہا جیسے کوئی بھولی ہوئی بات یاد آ گئی ہو۔
’’اور نہیں تو کیا تمہارے ڈیڈی تو باہر ہیں ۔جو میرے کرنے کا کام تھا میں نے کر دیا..تم لوگوں کے لیے عید کی شاپنگ کرلی، اب جانور خریدنے میں منڈی تو نہیں جاؤں گی تمہیں ہی کچھ کرنا پڑے گا شیری‘‘۔
”جی مام…… don’t you worry میں دیکھ لوں گا‘‘۔
’’کب دیکھ لو گے دن ہی کتنے رہ گئے ہیں ‘‘۔
’’مام لاسٹ ڈیز میں جاؤں گا دوست کے ساتھ پلان کیا ہؤا ہے…… پہلے محلے کے سب لوگ لے لیں اس کے بعد میں خریدوں گا۔ پہلے ان لوگوں کی رینج تو دیکھ لوں اس کے بعد لے کر آؤں گا سب سے مہنگا جانور……‘‘شیری نے فخریہ انداز میں کہا۔
’’اوہ ٹھیک ہے‘‘ مام نے تھکاوٹ سے بھری آواز میں کہا اور بیڈ پر دراز ہو گئیں۔ سب بچے اپنے اپنے روم میں چلے گئے۔
’’زرینہ……جو کپڑے تبدیل کروانے والے ہیں ان کو الگ شاپر میں ڈال دو۔ باقی کپڑے ان بچوں کے رومز کی الماریوں میں رکھ دو‘‘مسز جلیل نے زرینہ کو آواز دے کر بلاتے ہوئے کہا۔
مگر کچھ لمحوں کے بعد زرینہ نے واپس آ کر انہیں بتایا کہ بچوں کی الماریوں میں پہلے سے کافی سارے کپڑے رکھے ہیں نئے کپڑے رکھنے کی جگہ نہیں ہے۔
’’اچھا ایسا کرو کہ پرانے کپڑے نکال کے شاپرز میں ڈال دو اور نئے کپڑے الماریوں میں لٹکا دو۔اور ان میں سے جو سب سے زیادہ پرانے اور گھسے ہوئے ہیں ان کا بھی ایک الگ شاپر بنا دو‘‘۔
اور اب یہ کہانی ہے دوسرے گھرانے کی……
رفیق جو کہ ایک محنت کش ہے اور فیقا کے نام سے مشہور ہے اپنے چھوٹے سے گھر میں چار بچوں کے ساتھ رہتا ہے۔سیڑھیوں کے نیچے

بنے ایک چھوٹے سے کچن میں ماں شدید گرمی میں اپنے چھوٹے بچوں کے لیے کھانا بنا رہی تھی کہ اس کا دس سالہ سب سےبڑا بیٹا اس کے پاس آکر بیٹھ گیا اور اسے بتانے لگا کہ ماں میرے دوست نے عید کے کپڑےخرید لیے ہیں ۔
’’ ماں ہم کس دن عید کے لیے چیزیں خریدنے جائیں گے؟‘‘
ماں کے پاس جواب تو تھا نہیں بس زرد چہرے اور بجھی آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھنے لگی۔
’’ماں میرے دوست نے نیلے رنگ کی قمیض اور سفید رنگ کی شلوار لی ہے‘‘ چھوٹا سات سالہ بیٹا بھی پاس آکر ماں کو بتانے لگا۔
’’لیکن بیٹا یہ عید قربان ہے اس پر نئے کپڑے لینا کوئی اتنا ضروری بھی نہیں ہے۔ اس پر تو جانور ذبح کیا جاتا ہے، گوشت تقسیم کیا جاتا ہے اور گوشت کھایا جاتا ہے بس یہی عید ہوتی ہے‘‘ ماں نے اپنی دانست میں تو بچوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی لیکن اسے کیا خبر تھی کہ اس نے ایک نیا مسئلہ چھیڑ لیا ہے۔
’’ہاں یاد آیا ماں! میرے دوست کے ابو نے بکرا خریدا ہے‘‘ چھوٹے بیٹے نے جوش سے بتایا۔
ماں نے حیران ہو کر بلکہ قدرے پریشانی میں اس کی طرف دیکھا ’’سچی؟‘‘
ان کے اردگرد کم ہی کوئی اتنی حیثیت رکھتا تھا کہ بکرا خریدے۔ مگر انہیں دیکھ کراب بچوں کو خواہش کرنے سے کون روک سکتا ہے!
’’ماں ہم بھی بکرا خریدیں گے ناں‘‘ چھوٹے بیٹے نے نے اٹھ کر بازو ماں کی گردن میں ڈالتے ہوئے لاڈ سے کہا۔
اب بچے نے کتنے لاڈ سے کہا تھا ۔ اس لیے ماں کا حوصلہ نہ ہؤا کہ وہ اپنی حیثیت کا ذکر کرے۔ غربت میں پلے بچے بہت کچھ کہے بغیر ہی سمجھ جاتے ہیں مگر خواب دیکھنے پر تو کوئی پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ماں کی ہمت نہ ہوئی کہ اس کے اتنے خوبصورت سے خواب کو چکنا چور کر دے۔
’’ارے تم پاگل ہو گئے ہو اتنے پیسے تو نہیں ہوں گے ناں ابو کے پاس……‘‘ بڑے بیٹے نے چھوٹے کو سمجھانا ضروری سمجھا۔
’’ اوں ں ں……وہ بکرے کو روزانہ باہر گھمانے لے کر جاتا ہے ۔ میرا جی چاہتا ہے میں بھی بکرا خریدوں اور اسے باہر لے کر جاؤں اس کے ساتھ کھیلوں اور اس کے جسم پر پیار سے ہاتھ پھیروں اور اس کی رسی کو پکڑے رکھوں۔وہ آگے آگے تیزی سے بھاگے اور میں اس کے پیچھے پیچھے دوڑوں…… اف کتنا مزا آئے گا ناں‘‘ چھوٹے نے بڑی وضاحت کے ساتھ اپنی خواہش بیان کی۔
’’اچھا دیکھوجیسے ہی لاک ڈاؤن ختم ہوگا تمہارے ابو کو کام ملے گا تو ہم کچھ پیسے اکٹھے کر کے تمہیں بکرا خرید دیں گے‘‘ماں نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
’’ہیں ں ں……سچ میں ؟آہا اااا…… مزہ آ جائے گا‘‘۔ ہم اس کو عید کے پہلے دن قربان کریں گے یا دوسرے دن؟ چھوٹے نے خوشی سے نعرہ لگایا۔
’’نہیں اس عید پر قربان نہیں کریں گے۔ وہ چھوٹا ہوگا ،تم اس کو پورا سال باہر گھمانے لے کر جانا گھاس کھائے گا بڑا ہو جائے گا۔ اگلے سال اس کو قربان کریں گے‘‘ ماں نے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا۔
کچھ لمحے تو چھوٹا بیٹا خاموش رہا اور ماں کی بات پر غور کرتا رہا ۔ پھر ماں کی بات سے اتفاق کرلیا اور اور کہا کہ ٹھیک ہے میں اگلے سال قربانی کروں گا۔ماں بھی مطمئن ہو گئی کہ ایک مسئلہ تو حل ہؤا۔اب بچے جانور ذبح کرنے اور خریدنے کے لیےاس سے ضد نہیں کریں گے۔
’’ماں مگر نئے کپڑوں کا کیا ہوگا ؟‘‘ سمجھ دار ہونے کے باوجود بچہ ہی تھا، بڑا بیٹا دھیمی آواز میں پوچھے بغیر نہ رہ سکا۔
’’تمہارے ابو کو پیسے ملنے ہی والے ہیں بس ہم بھی بازارجلد ہی جائیں گے۔اب تم لوگ کھانا جلدی سے ختم کرو‘‘۔
’’ہو ہوووو……‘‘
بچوں نے خوشی سے نعرہ لگایا اور جلدی سے کھانا ختم کرکے کھیلنے کو نکل گئے۔لیکن ان کو کیا پتا کہ ان کا خوشی کا یہ نعرہ ماں کے کلیجے پر تیر کی طرح جاکر نشانے پر لگا ہے۔

’’ ہر دوسرے دن بچے عید کے کپڑوں کی فرمائش کرتے ہیں کچھ کرتے کیوں نہیں تم؟‘‘ بچوں کے جانے کے بعد اس نےاپنے میاں کو مخاطب کرکے اونچی آواز میں کہا۔
رفیق پہلے سے ہی ماں بچوں کی باتیں سن رہا تھا اور مسلسل سوچ میں تھا۔ بیوی کے پوچھنے پر اور بیزار ہؤا۔
’’ بچے تو جانتے نہیں لیکن تمہیں تو پتا ہے کہ حالات کیسے جا رہے ہیں۔ مزدوری کبھی ملتی ہے کبھی نہیں ملتی……اب ایسے میں تو روٹی کھائی جاسکتی ہے یا عید منائی جاسکتی ہے‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ باہر نکل آیا۔
’’یہ کیا کہ میرے بچےاس عید پر نئے کپڑے نہیں پہنیں گے؟ کیا وہ عید نہیں منائیں گے؟سب کے حالات مشکل ہوگئے ہیں میں تو سمجھتی ہوں لیکن بچوں کو کیسے سمجھاؤں؟‘‘
’’اچھا دیکھتا ہوں ……کچھ کرتا ہوں…… جاتا ہوں باہر، امید تو نہیں مگر شاید کوئی کام مل جائے‘‘ اس نے اپنا رومال جھاڑا اور کندھے پر ڈالتے ہوئے باہر نکل گیا۔
اس کے باہر نکلنے کے کچھ دیر بعد ہی دروازے پر دستک ہوئی۔ مسز جلیل کی نوکرانی نے شاپر اس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا کہ یہ مسز جلیل نے بھیجا ہے ۔
اس نے شاپر کھول کر دیکھا، ان کے بچوں کے پرانے کپڑے تھے۔اسے لگا کہ ہفت اقلیم کی دولت مل گئی ہے۔ اس وقت یہی کپڑے اس کے بچوں کی آنکھوں میں خوشیوں کے دیے جلا سکتے تھے۔بس پھر کیا تھا…… اس نے مشین نکالی، کپڑوں کو کاٹا تراشا ،بچوں کے ناپ کے برابر کیے ۔بچے اتنی دیر میں کھیل کر آچکے تھے مگر اس نے ابھی بتانا مناسب نہ سمجھا۔
اگلے دن اس نے سب کپڑے دھوئے استری کر کے تہہ لگائی اوربستر پر سجا دیے۔شام کو جب بچے کھیل کے لوٹے تو حیران رہ گئے۔ ایک ایک نہیں بلکہ دو دو سوٹ موجود تھے اور ایک سے ایک خوبصورت۔
’’کیا ابا کو کام مل گیا ماں؟‘‘ حسب توقع بڑے والے نے ہی ٹھٹک کر سوال کیا۔
جواب میں اس کی ماں صرف مسکرا دی جیسے کہتی ہو کہ بس پہنو، اس بات کی فکر نہ کرو۔
مفت کے ملے ہوئے ان کپڑوں میں بچوں نے بھاگتے دوڑتے، پھرتے پھراتے، لوگوں کے گھروں سے آیا ہؤا قربانی کا گوشت کھاتے ہوئے ایسی عیاشی کے ساتھ عید منائی کہ ماں باپ کا دل باغ باغ ہو گیا۔

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
1.7 3 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
1 Comment
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
صوفیہ مظہر
صوفیہ مظہر
2 years ago

بہت خوب

1
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x