ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

انما المؤمنون اخوۃ – بتول مئی ۲۰۲۲

اسلام محبت اور رحمت کا دین ہے۔ معاشرتی زندگی میں مسلمانوں کے درمیان اخوت کا رشتہ وہ مضبوط تعلق ہے جس نے اسلام کی عمارت کو نہایت دلکش اور پائیدار بنا دیا ہے۔یہ دنیا کے تمام انسانوں کو ایک ایسی لڑی میں پروتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے جڑ جاتے ہیں اور نہ تو بکھرتے ہیں نہ منتشر ہوتے ہیں۔ اخوت کا رشتہ بھائی اور بھائی کا رشتہ ہے۔یعنی یہ ایک دوستی ، محبت، مودت اور تعاون کا رشتہ ہے جو تمام مسلمانوں کے درمیان پایا جاتا ہے۔
اخوۃ ’’اخا‘‘ کا مصدر ہے، جو یک جہتی اور مودت کا اظہار ہے۔اصطلاح میں اسلامی اخوت ’’باہمی یک جہتی اور مودّت اور افرادِ معاشرہ کے درمیان تعاون کا تعلق ہے۔یہ مسلمانوں کے درمیان ایسا تعلق ہے جس کی بنیاد اللہ پر ایمان، اس کے تقوی ٰاور خشیتِ الٰہی پر ہے۔ یہ دونوں جانب الحب للہ کے فروغ کا ذریعہ ہے۔یہ بھائیوں کے درمیان ایسی محبت، اخلاص،وفا، اعتماد، اور دوستی ہے جس میں نہ کوئی دنیاوی غرض ہے نہ مفاد، بلکہ یہ ایک سچائی کی بنیاد پر قائم رشتہ ہے۔
اسلامی اخوت اللہ تعالیٰٰ کا مومنوں پر بہت بڑا احسان ہے۔ یہ محبت کی فضا ہے، اور مومن گروہوں کی باہمی مضبوطی کا نام ہے۔ رسول اللہ ؐ نے انصار کے گروہ کو مخاطب کر کے فرمایا تھا: ’’اے گروہ ِ انصار، کیا میں نے تمہیں گمراہی پر نہ پایا تھا، پھر اللہ نے تم کو میرے ذریعے سے ہدایت دی، اور تم تنگدست تھے، پھر میرے ذریعے تمھیں فراخی ملی، اور تم ایک دوسرے سے الگ الگ تھے، پھر اللہ نے تمہیں میرے ذریعے سے باہم جوڑ دیا‘‘۔(رواہ الترمذی،۱۹۲۹)
یہ ایک ایسا رشتہ ہے جس کی مثال دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی، اور یہ عمومی تعلقات اور روابط کے مقابلے میں گہرا اثر رکھتی ہے۔اللہ تعالیٰٰ نے ’’انما المؤمنون اخوۃ‘‘ کہہ کر تمام اہل ِ ایمان کے درمیان ایسا اٹوٹ رشتہ بنا دیا ہے جو کسی خارجی اثر یا عصبیت سے کمزور نہیں پڑتا بلکہ لا الہٰ الا اللہ کے مقابلے میں زبان ، نسل، رنگ اور علاقہ کی بنیاد پر قائم ہونے والی ہر گروہی تقسیم کی بیخ کنی کرتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ؐنے فرمایا: ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے،وہ اس پر ظلم نہیں کرتا ، اسے رسوا نہیں کرتا اور اسے حقیر نہیں جانتا‘‘۔ (رواہ مسلم،۲۵۶۴)
اخوت لازم ہے
اللہ تعالیٰٰ نے تمام اہلِ ایمان پر اخوت اور بھائی چارے کو لازم کیا ہے، یہ وہ بنیاد ہے جس پر اسلامی معاشرت کی عمارت قائم ہوتی ہے۔ یعنی صرف اللہ کے نام پر ایک عالمگیر برادری کا قیام! اسلامی نظامِ زندگی کی رفاقت اور اسلامی نظام کے قیام کے لیے جدو جہد کی رفاقت!
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمہارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے۔ تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے، اللہ نے تم کو بچا لیا۔ اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمہارے سامنے روشن کرتا ہے شاید کہ ان علامتوں سے تمھیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آجائے‘‘۔ (آل عمران، ۱۰۳)
یہ اخوت گویا خدا خوفی اور ایمان سے پھوٹتی ہے، یعنی اسلام کی اساسِ اوّل ہے۔ اور اخوت کی بنیاد اللہ کی رسی ہے، یعنی اللہ کے ساتھ کیے ہوئے عہد کی اساس۔ اخوت اسلامی اللہ تعالیٰٰ کی بہت بڑی نعمت ہے جس سے اللہ تعالیٰٰ صرف ان لوگوں کو سرفراز فرماتے ہیں جن سے اللہ کو محبت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰٰ اس نعمت کا ذکر کرتے ہوئے جاہلیت کا وہ دور یاد دلاتے ہیں جب وہ باہم ’’اعداء‘‘ یعنی دشمن تھے، اوس اور خزرج کے قبیلے مدینہ میں دشمنی کا نمونہ تھے، اور یہود ان کی دشمنی کی آگ کو بڑھکاتے رہتے تھے۔اللہ تعالیٰٰ نے اسلام کے ذریعے ان پر احسان کیا اور وہ باہم بھائی بھائی بن گئے۔ یہ صرف اسلامی اخوت ہی ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں اتحاد پیدا ہو سکتا ہے اور وہ اس کی وجہ سے اپنی تاریخی دشمنیاں بھول سکتے ہیں، یا اپنے قبائلی انتقام معاف کر سکتے ہیں، یا لوگ اپنے ذاتی مفادات اور فرقہ وارانہ روایات کو ترک کر سکتے ہیں اور پھر تمام لوگ اللہ کے سامنے ایک صف میںکھڑے ہو جاتے ہیں۔ (فی ظلال القرآن، تفسیر نفس الآیۃ)
رسول اللہ ؐ نے مکہ میں اسلام کی دعوت پہنچانی شروع کی تو کفارِ مکہ آپؐ کے دشمن بن گئے، اور آپؐ کو اور آپؐ کے ساتھیوں کو اذیتیں دینے لگے۔ ایسے میں ’’دارِ ارقم وہ پہلی محفوظ پناہ گاہ تھی جو مسلمانوں کا ایک محفوظ مرکز بن گئی۔ یہ مشرکین کی آنکھوں سے اوجھل اسلامی معاشرت کی تربیت کا پہلا مقام تھی۔جب رسول کریمؐاور مسلمان اپنے گھر اور اموال، اپنی تجارت اور رشتہ داروں کو چھوڑ کر مدینہ تشریف لائے تو آپؐ نے مدینہ کے باشندوں اور مہاجرین کے درمیان اخوت کی ناقابلِ تسخیر بنیاد قائم کی۔ اور ہر مہاجر کو ایک انصاری کا بھائی بنا دیا۔ اور رسول اللہؐ نے انہیں خوش خبری سنائی کہ : ’’دو مسلمان بھائی جو اللہ کی خاطر آپس میں محبت کرتے ہیں اور اسی کی خاطر الگ ہوتے ہیں، انہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے سائے میں جگہ دے گا‘‘۔ (دیکھیے: صحیح بخاری، ۶۶۰)
اور آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰٰ قیامت کے دن فرمائے گا: باہم محبت کرنے والے کہاں ہیں۔ میرے جلال کی قسم ! میں آج انہیں اپنے سائے میں جگہ دوں گا، جس روز میرے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہے‘‘۔ (رواہ مسلم، ۲۵۶۶)
رسول اللہ ؐ نے ان کی مدح میں فرمایا: ’’اللہ کے بندوں میں ایسے بھی ہیں جو انبیاء اور شہداء میں سے نہیں ہیں مگر قیامت کے دن ان کا مرتبہ دیکھ کر انبیاء علیھم السلام اور شہداء ان پر رشک کریں گے۔ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہؐ، ہمیں بھی بتائیے وہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی خاطر باہم محبت کرتے تھے، نہ تو ان کی آپس میں رشتہ داری تھی نہ مال کی شراکت، اللہ کی قسم! ان کے چہرے پر نور ہوں گے، اور وہ نور کی جگہ پر ہوں گے۔ اور جب لوگ ڈر رہے ہوں گے انہیں کوئی خوف لاحق نہ ہو گا۔اور نہ انہیں کوئی غم ہو گا جب لوگ غمزدہ ہوں گے۔ پھر آپؐ نے یہ آیت پڑھی: ’’سنو! جو اللہ کے دوست ہیں، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے‘‘۔(یونس،۶۲) (رواہ ابو داؤد)
اسلام کی بنیاد پر صالحین کی ہم نشینی اور ان کی مجلس میں بیٹھنا بھی عطر فروش کے پاس بیٹھنے کی مانند ہے۔آپؐ نے فرمایا: ’’ آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، پس ہر شخص دیکھے کہ وہ کسے دوست رکھتا ہے‘‘۔ (رواہ الترمذی، ۲۳۷۸)
مومن بھائی بھائی ہیں
ارشادِ الٰہی ہے:
’’مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات درست کرو‘‘۔
یہ آیت دنیا کے تمام مسلمانوں کی ایک عالمگیر برادری قائم کرتی ہے۔ اور یہ اسی کی برکت ہے کہ کسی دوسرے دین یا مسلک کے پیروؤں میں وہ اخوت نہیں پائی گئی ہے جو مسلمانوں کے درمیان پائی جاتی ہے۔ رسول اللہ ؐ نے بھی بھائی چارے کی تلقین کی ہے۔
آپس میں محبت اس برادری کی بنیاد ہے۔ ’’اصول کافی‘‘ میں ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’مومن دوسرے مومن کا بھائی ہے، اس کی آنکھ ہے، اس کا راہ نما ہے۔ مومن، مومن کے ساتھ خیانت نہیں کرتا، اس پر ظلم نہیں کرتا، جھوٹا وعدہ نہیں کرتا۔ اس کی کسی جائز خواہش کو رد نہیں کرتا‘‘۔
حضرت جریر ؓ بن عبد اللہ کہتے ہیں کا رسول اللہ ؐ نے مجھ سے تین باتوں پر بعیت لی تھی: ایک یہ کہ نماز قائم کروں گا۔ دوسرے زکوٰۃ دیتا رہوں گا۔ تیسرے یہ کہ ہر مسلمان کا خیر خواہ رہوں گا۔ (رواہ البخاری، باب الایمان)
جب کتب احادیث کا مطالعہ کریں تو مسلمان کی مسلمان سے محبت، اور اس سے اخلاص برتنے کی احادیث ’’کتاب الایمان‘‘ میں بیان کی گئی ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے باہمی تعلقات کی درستی ،ایمان کے قوی ہونے میں مددگار ہے۔ اور اس اخوت اور دوستی کے لیے صرف یہی شرط ہے کہ یہ خالص اللہ کے لیے ہو، اس میں دنیاوی اغراض و مقاصد اور مادی ضروریات بالکل دخیل نہ ہوں اور اس کا باعث صرف ایمان و اسلام ہو۔
حضرت عبد اللہؓ بن مسعودسے روایت ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا: ’’مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے جنگ کرنا کفر ہے‘‘۔ (رواہ البخاری، کتاب الایمان)
اللہ تعالیٰٰ کے صالح بندے نیک بندوں ہی سے محبت کرتے ہیں۔ رسول اللہ ؐ نے اسی کی ترغیب دی ہے، فرمایا:
’’مومن دوستی لگاتا ہے اور اس سے دوستی کی جاتی ہے (اور) اس شخص میں کوئی خیر نہیں جو نہ تو کسی سے مانوس ہوتا ہے نہ کوئی اس سے مانوس ہوتا ہے‘‘۔ (مسند احمد)
اخوت میں دراڑ ڈالنے والے اعمال
مسلمانوں کا معاملہ مسلمانوں کے ساتھ باہمی اخوت کی بنیاد پر ہونا چاہیے، نہ کہ پارٹی اور گروہ کی عصبیت کی بنیاد پر۔سورہ الحجرات میں مسلمانوں کو ان برائیوں سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے، جو اجتماعی زندگی میں فساد برپا کرتی ہیں، اور جن کی وجہ سے بھائیوں کے تعلقات آپس میں خراب ہو جاتے ہیں، ان کا نام بنام تذکرہ کر کے ان سے اجتناب کی تلقین کی گئی ہے، جو درج ذیل ہیں:
٭ ایک دوسرے کا مذاق اڑانا
اسلام مسلمانوں کو باہم تکریم کا حکم دیتا ہے۔ وہ ایسی معاشرت قائم کرنا چاہتا ہے جس میں بہت بلند معیار کے آداب اور اخلاق ہوں، جس میں ایک فرد کی ہتک کو پوری انسانی سوسائٹی کی ہتک سمجھا جائے۔اور ایک انسان کی تذلیل پوری انسانیت کی تذلیل ہو۔
مذاق اڑانے سے مراد محض زبان سے مذاق اڑانا نہیں بلکہ کسی کی نقل اتارنا، اس کی طرف اشارے کرنا، اس کی بات یا اس کے کام ، یا اس کی صورت یا اس کے لباس پر ہنسنا، یا اس کے کسی نقص یا عیب کی جانب لوگوں کو اس طرح توجہ دلانا کہ لوگ اس پر ہنسیں، یہ سب بھی مذاق اڑانے میں داخل ہے۔ اصل چیز جو ممنوع ہے وہ کسی کی تضحیک ہے، کیونکہ اس تضحیک میں لازماً اپنی بڑائی اور دوسرے کی تذلیل و تحقیرکے جذبات کارفرما ہوتے ہیں۔ مزید براں اس سے دوسرے کی دلآزاری بھی ہوتی ہے، جس سے معاشرے میں فساد برپا ہوتا ہے۔ (تفہیم القرآن، ج۵،ص۸۵)
دنیا میں مختلف مرد اور عورتیں اپنے اندر جو بھلائیاں اور برتریاں رکھتے ہیں وہ حقیقی برتریاں نہیںہیں جن کے ساتھ اللہ کے ہاں لوگوں کو تولا جاتا ہے۔اللہ کے ہاں کچھ اور قدریں ہیں جو ہو سکتا ہے کہ مذاق کرنے والوں کی نظروں سے اوجھل ہوں، صرف اللہ انہیں جانتا ہو اور ان کے ساتھ بندوں کا وزن مقرر کرتا ہو۔بعض اوقات امیر غریبوں کا، قوی کمزوروں کا، مضبوط نوجوان ضعیفوں کا، ذہین افراد غبی لوگوں کا، صاحبِ اولاد بے اولادوں کامذاق اڑاتے ہیں، حالانکہ یہ چیزیں اس عارضی دنیا سے تعلق رکھتی ہیں، اور اللہ کے ترازو میں بالکل بے وزن ہیں۔(دیکھیے: فی ظلال القرآن، تفسیر نفس الآیۃ)
٭ ایک دوسرے پر طعن کرنا
قرآن کہتا ہے: ’’اور اپنے ہی نفوس پر طعن نہ کرو‘‘۔ (الحجرات، ۱۱)
یہ معنوی عیب جوئی نہیں بلکہ جسمانی مار ہے اور آنکھوں سے بھی اشارہ ہے۔
اسلام ایک بلند اخلاقی معیار رکھتا ہے، اسی لیے قرآن میں طعنہ زنی اور عیب جوئی سے لوگوں کو منع کیا گیا ہے۔وہ شخص جو دوسروں کی تحقیر کرتا ہے، انہیں دیکھ کر انگلیاں اٹھاتا ہے، اور آنکھوں کے اشارے کبھی زبان و ہاتھ سے کسی کے نسب میں طعن کرتا ہے، کسی کی ذات میں کیڑے نکالتا ہے، کسی پر منہ در منہ چوٹیں کرتا ہے، کسی کی پیٹھ پیچھے چغلیاں کھاتا ہے اور ان پر عیب لگاتا ہے اس کے لیے تباہی ہے۔
٭ ایک دوسرے کے برے برے نام رکھنا
مومن کا مومن پر حق ہے کہ وہ اسے اس نام سے نہ پکارے جسے وہ پسند نہیں کرتا، یا اسے ہتک سمجھے۔ رسول اللہ ؐ نے جاہلیت کے کئی نام اور لقب بدل دیے تھے۔ رسول اللہ ؐ نے اپنے حساس اور مہربان دل سے محسوس کر لیا تھا کہ یہ لوگ ان ناموں کو پسند نہیں کرتے جن کے معنی خراب تھے یا جن سے مذمت کا پہلو نکلتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی مومنین کو ڈرایا کہ کہیں تم سے ایمانی شعور گم نہ ہو جائے، اور مزاح، طعن و تشنیع اور برے ناموں سے ایک دوسرے کو پکارنے سے تم فاسق نہ بن جاؤ۔ (فی ظلال القرآن)
٭ بدگمانی کرنا
ارشاد الٰہی ہے:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں‘‘۔ (الحجرات،۱۲)
یہ حسن ِ معاشرت کی حفاظت کے لیے ایک باڑ ہے۔بعض گمان گناہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ بد گمانی گناہ ہے، لہٰذا مسلمانوں کو ایک دوسرے سے اچھا گمان رکھنا چاہیے اور ہر قسم کے شکوک وشبہات سے دلوں کو صاف رکھنا چاہیے۔جس سوسائٹی میں ایک دوسرے کے خلاف شبہات نہ ہوں اس میں لوگوں کے دل ایک دوسرے سے صاف ہوتے ہیں۔ کوئی کسی پر شک نہیں کرتا۔ ہر شخص دوسرے سے مطمئن ہوتا ہے، اس معاشرے کے افراد باہم خوشی اور مسرت کی زندگی گزارتے ہیں۔
رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’اگر تم نے بد گمانی شروع کر دی تو پھر کوئی تفتیش نہیں ہے‘‘۔ (طبرانی)
یعنی جب کسی معاملے میں تفتیش بھی کرو تو لوگوں کو بے گناہ سمجھ کر کرو، ان کی آزادی بحال ہو اور ان کے حقوق محفوظ ہوں۔ ان کا اعتبار اور وقار بحال ہو۔ کسی کو اس وقت پکڑا جائے، جب اچھی طرح معلوم ہو کہ اس نے کسی جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ محض تفتیش اور شک کے لیے کسی کو ہراساں نہیں کیا جا سکتا۔
٭ تجسس کرنا
ارشاد ہے: ’’اور تجسس نہ کرو‘‘۔ (الحجرات،۱۲)
بسا اوقات تجسس بدگمانی ہی کے نتیجے میں ہوتا ہے اور بعض اوقات لوگوں کے راز معلوم کرنے کے لیے ہوتا ہے، اور کبھی لوگوں کی کمزوریاں معلوم کرنے کے لیے۔ قرآن کریم اس گھٹیا حرکت کی اصلاح کرتا ہے اور اسے خلافِ اخلاق قرار دیتا ہے۔وہ لوگوں کے دلوں کو اس سے پاک کرتا ہے کہ وہ دوسروں کے خفیہ حالات معلوم کریں اور دوسروں کی کمزوریوں کی ٹوہ میں لگے رہیں۔ اور یہ مومن کی اخلاقی تطہیر ہے کہ وہ لوگوں کی پوشیدہ کمزوریوں کو نہ اچھالے۔
یہ اسلامی اخوت کے لیے محض اخلاقی ضابطہ ہی نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق اجتماعی پاکیزگی، اور قانونی و انتظامی معاملات سے بھی ہے۔ اسلام میں لوگوں کی بعض آزادیاں، بعض عزتیں اور بعض شرافتیں ایسی ہیں کہ ان پر کسی صورت دست درازی جائز نہیں ہے۔
اسلام لوگوں کے ساتھ ان کی ظاہری حالت کے مطابق برتاؤ کرتا ہے اور کسی کے لیے، حتیٰ کہ تفتیشی اداروں کو بھی یہ اجازت نہیں کہ وہ کسی کے گھر کے اندر گھس کر اندرونی حالات معلوم کریں۔
حضرت معاویہؓ کہتے ہیں کہ میں نے خود رسول اللہ ؐ کو یہ فرماتے سنا: ’’تم اگر لوگوں کے مخفی حالات معلوم کرنے کے درپے ہو گے، تو ان کو بگاڑ دو گے یا بگاڑ کے قریب پہنچا دو گے‘‘۔ (رواہ ابو داؤد)
ایک اور حدیث میں حضورؐ کا ارشاد ہے: ’’جب کسی شخص کے متعلق تمھیں کوئی برا گمان ہو جائے تو اس کی تحقیق نہ کرو‘‘۔ (احکام القرآن للجصاص)
ایک اور حدیث میں آپؐ نے فرمایا: ’’جس نے کسی کا کوئی مخفی عیب دیکھ لیا اور اس پر پردہ ڈال دیا تو یہ ایسا ہے جیسے کسی نے ایک زندہ گاڑی ہوئی بچی کو موت سے بچا لیا‘‘۔ (الجصّاص)
٭ لوگوں کی پیٹھ پیچھے ان کی برائیاں کرنا
ارشاد ربانی ہے: ’’اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔ کیا تمھارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ دیکھو تم خود اس سے گھن کھاتے ہو؟ ‘‘۔(الحجرات، ۱۲)
اللہ تعالیٰ نے غیبت کرنے والے کے لیے ایک ایسا منظر پیش کیا ہے جس سے نہایت سنگ دل آدمی بھی متاثر ہو جاتا ہے۔ ایک بھائی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھا رہا ہے۔ یہ منظر دکھا کر کہا جاتا ہے کہ اگر تم نے اس منظر کو ناپسند کیا ہے تو پھر غیبت کو بھی ناپسند کیا ہے۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا:
’’جب مجھے معراج کا سفر کرایا گیا تو میں کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا، ان کے ناخن تانبے کے ہیں جن سے وہ اپنے منہ اور سینے نوچ رہے ہیں۔ میں نے کہا: ’’یہ کون لوگ ہیں؟ جبرائیل ؑ نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے ہیں اور ان کی بے عزتی کرتے ہیں‘‘۔ (رواہ ابو داؤد)
یہ سب افعال بجائے خود گناہ بھی ہیں اور معاشرے میں بگاڑ بھی پیدا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نابنام ان کا ذکر کرکے انھیں حرام قرار دیا ہے۔سورہ الحجرات کی یہ ہدایات اسلامی اخوت اور مسلمان معاشرت میں تمام بھائیوں کے بنیادی حقوق کی ضامن ہے۔
اسلامی اخوت کے حقوق
۱۔ مال کے ساتھ ایک دوسرے کی ہمدردی کہ دونوں ضرورت کے وقت ایک دوسرے کی مدد کریں۔
۲ ۔دونوں ایک دوسرے کے معاون و مددگار بن جائیں، جس طرح ایک انسان اپنے ذاتی معاملات پر نظر رکھتا ہے، دونوں ایک دوسرے کے معاملات پر نظر رکھیں۔ اگر کسی کام میں ہے تو ہاتھ بٹائے، اگر بیمار ہے تو بیمار پرسی کرے، اسے کوئی بات بھول گئی ہو تو اسے یاد دلائے، ملے تو سلام کہے، ساتھ بیٹھے تو مجلس میں وسعت پیدا کرے، بات کرے تو توجہ سے سنے۔
رسول اللہ ؐ نے اشعریوں کی مدح کرتے ہوئے فرمایا: ’’اشعری (یمن کاقبیلہ) جب کسی جنگ میں ہوتے، یا مدینہ میں ان کا کھانا کم ہو جاتا، تو وہ سارا کھانا ایک کپڑے میں جمع کر لیتے، پھر اسے ایک برتن میں ڈال کر برابر تقسیم کر لیتے، تو میں ان سے ہوں اور وہ مجھ سے ہیں‘‘۔ (رواہ البخاری، ۲۴۸۶)
یعنی مشکل وقت میں جب کسی کا کھانا زیادہ اور کسی کا کم ہوتا تو وہ باہم برابر تقسیم کر لیتے۔ اس عمل کو رسول اللہ ؐ نے پسند فرمایا اور اپنی نسبت ان کے ساتھ قائم کی۔
۳ ۔اپنی زبان سے اپنے بھائی کا تذکرہ اچھائی سے کرے۔ اس کے سامنے یا پیٹھ پیچھے اس کے عیوب کا تذکرہ نہ کرے، اس کے راز فاش نہ کرے، اس کی مخفی باتوں کی ٹوہ میں نہ لگا رہے، اسے اچھائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں نرم رویہ اختیار کرے، گفتگو میں جھگڑے اور بحث مباحثے کا انداز نہ اپنائے، اور کسی معاملے میں بھی عتاب اور ناراضی نہ کرے۔
۴ ۔اپنے ساتھی سے ایسی زبان میں بات کرے جیسے وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے، اس کے پسندیدہ نام سے اسے پکارے، لوگ اس کی تعریف کریں تو اسے اطلاع دے، نصیحت کو اتنا طول نہ دے کہ وہ اکتا جائے۔
۵ ۔دوست کی لغزشوں کو معاف کرے اور بے فائدہ باتوں سے صرف ِنظر کرے، اس کے بارے میں حسنِ ظن کو اپنائے۔حضرت ابودرداءؓ فرماتے ہیں:
’’تیرا بھائی بدل جائے اور نیکی کے حال پر قائم نہ رہے تو اس وجہ سے اسے چھوڑ دینا درست نہیں، کیونکہ اگر وہ خراب ہو سکتا ہے تو پھر ٹھیک بھی ہو سکتا ہے‘‘۔
۶ ۔اخوت میں وفا، ثابت قدمی اور دوام ضروری ہے۔اگر بھائی فوت ہو جائے تو ’’حسنِ سلوک‘‘ اس کی اولاد اور دوستوں میں منتقل ہو جانا چاہیے۔ اسی میں اخوت کی حفاظت اور وفا ہے۔
۷ ۔ساتھی پر اتنی مشقت نہ ڈالے جو وہ برداشت نہ کر سکے یا وہ اس پر خوش نہ ہو۔ ایک اثر میں ہے: ’’میں اور میری امت کے متقی تکلف سے بری ہیں‘‘۔
۸ ۔اپنے ساتھی اور اس کی اولاد کے حق میں دعائے خیر، چاہے وہ زندہ ہو یا فوت شدہ، حاضر ہ یا غائب۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’جب ایک شخص اپنے دوسرے بھائی کے لیے غائبانہ دعا کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے تجھے بھی اس کے مثل (اجر ملے گا)‘‘۔
۹ ۔نیک لوگوں کی اخوت ان کی نیکی میں مددگار بنتی ہے۔ اور آدمی شیطانی غلبے سے محفوظ رہتا ہے، خاص طور پر جب بھائی نیکی اور تقویٰ میں باہم تعاون کرنے والے ہوں۔ اگر ایک سے لغزش ہو تو دوسرا اس کا ہاتھ تھام لے۔ اور نیکی کے کاموں میں مدد گار بنیں، جس طرح رسول ِ کریم ؐ خندق کھودنے میں اپنے بھائیوں کے ساتھ شریک ہوئے۔
نماز ِ فجر کے وقت سوئے ہوئے رفقاء کو بیدار کر دینا ، اور سفر میں کسی ایک کا حفاظت کی خاطر پہرہ دینا جب کہ دوسرے سو رہے ہوں اس کی عمدہ مثال ہے۔
اللہ کے محبوب لوگ
فرمایا: ’’اللہ کے سب سے پسندیدہ لوگ وہ ہیں جو لوگوں کے لیے سب سے زیادہ نفع بخش ہیں۔اور اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل کسی مسلمان کو خوش کرنا ہے، جب وہ اس کی کسی مصیبت کو دور کرتا ہے، یا اس کا قرض ادا کر دیتا ہے، یا س کی بھوک دور کرتا ہے، اور مجھے اپنے بھائی کی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اس کے ساتھ چلنا اس مسجد (مسجد نبوی میں جس کی ایک نماز کا ثواب ہزار نمازوں کے برابر ہے) میں اعتکاف سے زیادہ پسند ہے۔ اور فرمایا: مجھے اس مسجد میں ایک ماہ اعتکاف سے زیادہ پسند ہے ۔ اور جو شخص اپنے بھائی کے ساتھ چلے حتی کہ اس کی حاجت پوری کر ،ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اسے اس روز ثابت قدم رکھے گا جس روز قدم ڈگمگا رہے ہوں گے‘‘۔ (رواہ الطبرانی فی الاوسط، ۶۰۲۶)
اخوت ِ اسلامی ہی امتِ مسلمہ کی طاقت اور اس کا خزانہ ہے۔ یہی بھائی چارہ اسے ایک عمارت کی مانند مضبوط اور مستحکم رکھتا ہے۔اسی کے ذریعے اسلام کی تبلیغ اور اللہ کے احکامات کا نفاذ کیا جاتا ہے۔اسی سے امتِ مسلمہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنتی ہے۔باہم اکٹھے ہو کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑنانہ صرف مسلمانوں کی قوت میں اضافہ کرتا ہے بلکہ دشمن پر ان کی ہیبت کو بڑھاتا ہے۔کٹھن معرکوں اور جانگسل لمحات میں یہی قوت نصرتِ الٰہی کا سبب اور ذریعہ بنتی ہے، ورنہ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اور انتشار انہیں ضعف اور ہلاکت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اخوت ِ اسلامی ہی آفات و مشکلات کے ازالے کا مؤثر حل ہے۔اس لیے اے امتِ مسلمہ، اکٹھی ہو جاؤ، اور آپ کی صفوں میں باطل کو کوئی شگاف نہ ملے، اور اپنے آپ کو اس طرح باہم جوڑ لو کہ زبان، رنگ، نسل، اور مسلک کی کوئی عصبیت آپ کو ایک دوسرے سے نہ کاٹ سکے۔ باطل طاقتیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے مسلمان ملکوں اور معاشروں کو آپس میں لڑانے میں کسی صورت کامیاب نہ ہو سکیں۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x