ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ڈاکٹر صاحب – بتول مئی ۲۰۲۲

ہمارے گاؤں کا واحد ڈاکٹر جس نے شہر میں کسی ڈاکٹر کے کلینک میں صرف چار ماہ کمپوڈری کرکے چھ چھ سال ایم بی بی ایس کی پڑھائی میں سر کھپانے والے ڈاکٹروں کے منہ پر شرمندگی اور پچھتاوے کا طمانچہ مار کر بڑے دھڑلے سے اپنے گھر کی بیٹھک کو ہی کلینک بنا کر ڈاکٹر شبیر کے نام کی تختی لگا لی بلکہ نام کے نیچے ایم بی بی ایس بھی لکھ ڈالا۔ سارا گاؤں حیران تھا کہ اس صاحب نے کس معجزے کے تحت راتوں رات ایم بی بی ایس کر لیا ہے۔ بہرحال وہ پکا ڈاکٹر تھا اور گاؤں والوں نے بھی تسلیم کرلیا۔ یوں ڈاکٹر شبیر کی اپنے ذاتی کلینک میں پریکٹس شروع ہوگی۔ دو چار دن تو ڈاکٹر صاحب فارغ بیٹھ کر مکھیاں ہی مارتا رہا نہ صرف مارتا بلکہ مارنے کے بعد ان کا مکمل معائنہ بھی کرتا اور دوسری جماعت کے بچے کی طرح بلند آواز سبق بھی پڑھتا۔’’آنکھیں، سر،دھڑ، پیٹ‘‘۔ سائنس کی کتاب کا جو سبق ماسٹر جی کے ڈنڈوں سے بھی یاد نہ ہو پایا وہ اب ازبر تھا۔
’’ کاش….. کاش! ان سب باتوں کی سمجھ مجھے سکول کے زمانے میں ہوتی۔ نہ ماسٹر جی کی مار کھانی پڑتی، نہ ہر بار فیکے کے پیپر کی نقل کرنے کی ضرورت پڑتی اور نہ پھر اباجی کو مجھے پاس کروانے کے لیے پہلے ماسٹر جی کی منت کرنی پڑتی اور پھر مجھے پھینٹی لگانی پڑتی‘‘۔
یہ سب کچھ سوچ کر ڈاکٹر صاحب کے منہ سے حسرت بھری لمبی سی آہ ہی نکلتی لیکن ساتھ وہ اس بات پر بھی نازاں تھا کہ اس نے امتحانوں میں اپنے زور بازو پر جدوجہد کرکے، چاہے دوسروں کی نقل کر کے یا پھر اپنی محنت کے بل بوتے پر بوٹیاں لگا لگا کر تھرڈ ڈویژن میں میٹرک پاس کر ہی لیا۔ پھر بھلا ہو شہر کے ڈاکٹر کا جس نے ڈاکٹر بننے کے شوقین، میٹرک پاس شبیر کو بغیر تنخواہ کے اپنے کلینک میں ملازم رکھ لیا۔ ذہین و فہیم شبیر نے تین چار دن میں ہی ٹیکہ لگانا سیکھ لیا۔جب مریض آتے اپنی بیماری کا بتاتے اور ان کے علاج کے لیے جو دوائیاں ڈاکٹر صاحب بتاتے وہ غور سے سنتا اور جیب میں رکھی جیبی سائز ڈائری میں ان کے نام لکھ لیتا ۔ پھر چلتے پھرتے یہ نام ایسے رٹے لگا لگا کر یاد کرتا رہتا جیسے کوئی صوفی حضرت ہر پل محو ذکر و درود رہتا ہے۔ وہ کچھ گھنٹے کلینک میں ہی ایک طرف بنے چھوٹے سے میڈیکل سٹور میں کام بھی کرتا تھا۔ وہ بہت کم آرام کرتا تھا۔ وہ قائد اعظم کا مخلص تابعدار بن کر کام کام صرف کام کے فارمولے پر عمل پیرا تھا۔ اسی لیے تو صرف چار ماہ کے قلیل عرصے میں اس نے اپنی ڈاکٹری میں ایم بی بی ایس تو کیا سپیشلائزیشن بھی کرلیا۔ اسے کھلی آنکھوں ہر طرف جراثیم نظر آنے لگے یعنی خورد بین سے دیکھنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ اسی لیے تو جب گاؤں کا کوئی فرد اس سے ہاتھ ملاتا تو وہ جلدی سے ہاتھ دھو لیتا کیونکہ صاف ستھرے کپڑے پہنے ڈاکٹر صاحب کے گلے لگنے کی کوئی ہمت ہی نہ کرتا۔
اس کے نام کے ساتھ لفظ ڈاکٹر کے لگتے ہی گاؤں میں اس کی عزت دوگنی چوگنی ہو گئی۔ وہ جس گلی میں جاتا گاؤں کے بچے اس کے پیچھے پیچھے چلتے۔ خواتین اپنے ڈوپٹوں کے پلّو منہ پر رکھ کر اسے دور تک جاتے دیکھتیں رہتیں اور مرد حضرت ڈاکٹر صاحب سے دو چار باتیں کرنا اپنے لیے کسی اعزاز سے کم نہ سمجھتے۔ باہر تو کیا گھر میں بھی ڈاکٹر صاحب کی عزت آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگی۔ جو ابا جی کل تک اسے مارنے کےلیے ہاتھ میں جوتا پکڑے، ہوا میں بازو لہراتا ہؤا میراتھن ریس کے کھلاڑی کی طرح اس کے پیچھے دوڑتا ہؤا نظر آتا تھا، آج وہ بھی بڑی تعظیم سے’’پتر ڈاکدار‘‘ کہتے ہوئے اس کی زبان نہ تھکتی تھی۔ بس جی وقت وقت کی بات ہے۔
کڑی دھوپ کی دوپہر میں دھان کی فصل بوتے ہوئے چاچا لبھا جب وہیں پانی میں بے ہوش ہو کر گر گیا تو لوگ فوراً اسے چارپائی پر ڈال کر ڈاکٹر کے کلینک میں لے آئے تو ڈاکٹر نے فورا ًدو لال رنگ کے طاقت کے ٹیکے لگا دیے۔ چاچے کو اپنے گھر سے ٹھنڈی کچی لسی منگوا کر پلائی۔ ڈیڑھ دو گھنٹے میں ہی چاچا بھلا چنگا ہو گیا۔ چارپائی پر آنے والا اپنے پاؤں پر چل کر واپس گیا۔
چچا ٹھیک ہو گیا اور ڈاکٹر صاحب کو کامیابی کی سند مل گئی۔ نا صرف اپنے گاؤں بلکہ آس پاس کے دیہاتوں کے مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے سب اسے اپنا مسیحا سمجھ کر اس کے پاس آنے لگے۔ اس کی تیز نگاہیں بغیر الٹراساؤنڈ اور ٹیسٹ کے اندرونی بیماریاں دیکھ لیتیں تھیں۔ہر آنے والے کو لال پیلا اور گلابی رنگ کا ٹیکہ ضرور لگتا چاہے کسی کا سر درد ہوتا یا کان، پیٹ، بخار ہوتا یا کھانسی،نزلہ ،زکام۔ کفایت شعار اتنا تھا کہ ایک سرنج سے دسیوں مریض بھگتاتا۔اس وقت تک اس کی جان نہ چھوڑتا جب تک سوئی کی نوک گھس گھس کر ختم نہ ہو جاتی۔ صرف ٹیکہ ہی نہیں ساتھ رنگ برنگی گولیوں کی پڑیاں بھی بنا کر دیتا پھر ان پر صبح، دوپہر، شام بھی لکھ دیتا تاکہ مریضوں کو دوائی کھانے میں سہولت ہو ۔شہر کے بڑے ہسپتال بھی کسی مریض کو لاعلاج قرار دے دیتے ہیں لیکن ڈاکٹر شبیر نے کبھی کسی مریض کو لاعلاج قرار نہ دیا۔
مجھے بھی بچپن میں یعنی تقریباً پانچ چھ سال کے درمیان کی عمر میں اس ڈاکٹر صاحب کی مریضہ بننے کا شرف حاصل ہؤا۔ ہمارے گھر کو خصوصیت حاصل تھی کہ اگر کبھی ہمیں ضرورت پڑتی تو ڈاکٹر صاحب بخوشی ہمارے گھر تشریف لاتے۔ مجھے بخار تھا میری دادی نے میرا معائنہ کروایا۔ جب ڈاکٹر صاحب نے اپنا سب سے اہم علاج ٹیکہ مجھے لگایا تو میں بے ہوش ہوگئی۔ میری دادی نے رونا شروع کر دیا اور ساتھ ہی ڈاکٹر کو دھمکی دے ڈالی کہ اگر میری بیٹی کو کچھ ہؤا تو میں تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گی۔
پریشانی میں ڈاکٹر کا چہرہ اپنی پیلی گولیوں سے بھی زیادہ پیلا ہوگیا۔ پاس کھڑے کسی بچے نے خبر دینے کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے دوڑ کر ڈیرے پر جا کر دادا جی کو ساری صورت حال بتا کر اپنا آج کے سوشل میڈیا والا کردار ادا کیا۔ دادا جی بھی اپنی چھڑی لہراتے ہوئے فوراً گھر کو چل پڑے۔ دور سے ہی تابڑ توڑ جملوں سے ڈاکٹر صاحب پر حملہ کردیا۔ اس کے ماضی کی ساری نالائقیوں کی ساری داستانیں نئے سرے سے زندہ کر دیں۔ لیکن دادا جی کے موقع و محل پر پہنچنے سے پہلے ہی ڈاکٹر صاحب دوڑ کر گھر کے ساتھ ہی بننے جانوروں کے باڑے میں بنی کھرلی کے پیچھے چھپ گیا۔ البتہ وہ ہر دو منٹ بعد کھرلی کے پیچھے سے سانپ کی طرح سری نکال کر وہاں برپا جنگی فضا کا جائزہ ضرور لیتا رہا۔ ہاں….گھر کی عورتوں نے ڈاکٹر صاحب کی جائے پناہ جانتے ہوئے بھی پردہ رکھ لیا ورنہ بیچارا دادا کے ہاتھوں پٹ جاتا۔ اس دن سے آج تک اس ڈاکٹر صاحب نے مجھے انجیکشن لگانے کی کبھی ہمت نہیں کی اور میرے علاج سے ہمیشہ معذرت ہی کی اور فرماتے’’ اس کا علاج میرے بس کی بات نہیں‘‘۔
کیسا لگا آپ کو ہمارے ڈاکٹر صاحب کا تذکرہ؟ ایسا قابل فخر ڈاکٹر صرف ہمارے گاؤں میں ہی نہیں بلکہ پاکستان کے ہر گاؤں، محلے میں ملے گا۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x