ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

چار دن کے فاصلے پر عید – بتول مئی ۲۰۲۲

شاہدہ منیر کو اچھی طرح یاد تھا کہ وہ بمشکل چھ سال کی تھی جب اس نے پہلا روزہ رکھا .اس نے اپنی خالہ زاد بہن کے کہنے پر ابو سے کہا ،’’ابو میں بھی روزہ رکھوں گی….اسوہ نے بھی کل چڑی روزہ رکھا تھا ‘‘۔
ابو مسکرائے ’’جھلیے یہ چڑی روزہ کیا ہوتا ہے ؟‘‘
امی میدان میں آئیں ۔
’’بچی ہے ناں اتنی گرمی میں سارا دن کیسے بھوکی رہے گی‘‘۔
ابو نے جھٹ سے دلیل دی ’’کیوں جب ہم اسے روزہ رکھنے پر انعام بتائیں گے روزہ کے بارے میں ساری فضیلت سمجھائیں گے تو کیسے نہیں رکھے گی ؟ ‘‘
اماں نے بولنا چاہا تو ابو نے سو سنار اور ایک لوہار والی مثال دی اور کہا ’’کیوں تم بچے کو سات سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے چڑی نماز پڑھاتی ہو یا صرف قیام کے بعد روک دیتی ہو ؟ او بھلیے لوکے! روزے والے کا ساتھ اللہ سوہنا اور اس کے فرشتے دیتے ہیں‘‘۔
پھر اس نے روزہ رکھا۔ ابو نے سارا دن اس کی انگلی پکڑ کر ساتھ ساتھ رکھا۔ سہہ پہر کے بعد اس کی پسند کی سلائی مشین (کھلونا) اور ڈھیر ساری کھانے پینے کی اشیاء بھی خرید کر دیں ۔افطاری کی تیاری اس کی پسند سے ہوئی پکوڑے ،چنا چاٹ اور جگ بھر کر سرخ رنگ کا برف والا شربت ۔
اس روزے کی اس سے زیادہ ابو کو خوشی تھی۔ اسے خود بھی روزہ رکھ کر بہت اچھا لگا۔ اگلے سال اس نے دس اور اس سے اگلے سال اس نے سارے روزے رکھے ۔
پھر پندرہ سال تک اس نے اپنی زندگی میں کوئی روزہ نہیں چھوڑا۔ وہ اور رمضان کے روزے لازم و ملزوم تھے۔
یہ ابا ہی تھے جو روزے کی اہمیت ،فضیلت اور اجرو ثواب ہی نہیں اس کے تقاضے بھی کانوں میں انڈیلتے رہتے۔
’’شادہ پتر یہ روزوں کا مہینہ اللہ کا خاص مہمان ہوتا ہے جس نے اسے راضی باضی رکھاوہ جنتی اور جو بد بخت اسے ناراض کر بیٹھے وہ جہنمی ہو جاتا ہے‘‘۔
’’شادہ پتر ،یہ روزے روز روز نہیں آتے….. گیارہ مہینوں بعد آتے ہیں۔ پہلے دس دن آہستہ آہستہ گزرتے ہیں جیسے پیدل چل رہے ہوں۔ اس عشرے کو رواں کہتے ہیں۔پھر اگلے بیس دن دوڑ کر گزر جاتے ہیں ۔ان دس دنوں کو ہمارے وڈے (بزرگ) دوڑاں کہتے ہیں اور آخری دس دن تو مانو پر لگا کر گزر جاتے ہیں ان کو پراں کہتے ہیں …..ایسے پر لگا کر گزرتے ہیں کہ بندہ منہ دیکھتا رہ جاتا ہے اگلے سال کے روزے کسے نصیب ہوں گے اللہ ہی جانے!‘‘
ابا کو نماز روزے اور حلال روزی سے عشق تھا۔ کسی حد تک روزوں کا عشق شاہدہ کو بھی لاحق ہو گیا ۔گرمی ہو یا سردی ،مینہہ ہو یاآندھی روزہ ہر حال میں رکھنا ہی ہے۔ ابا کہا کرتے’’چند دن تو ہوتے ہیں…..ایاماً معدودات‘‘۔
وہ اکثر اپنی کلاس فیلو سے کہتی ،روزہ رکھنے کی چیز ہوتی ہے نہ کہ چھوڑنے کی !
پھر اس کی تعلیم مکمل ہونے سے قبل ابا وہاں چلے گئے جہاں سے کبھی کوئی واپس نہیں آیا ۔
کل نفس ذائقہ الموت!!
ابو کے بعد تو جیسے اس میں قدم اٹھانے کا حوصلہ بھی باقی نہ رہا ۔ چھوٹے تین بہن بھائی ،ان پڑھ ماں اور گھر کی بیٹھک میں کھولی دکان جس میں پاپڑ ،کرکرے ،نمکو بسکٹ ،پاپے اور برف میں رکھی ٹھنڈی بوتلوں کے علاوہ دال چنا ،مونگ مسور مرچ،ہلدی،چینی نمک اور گھی شامل تھے ۔
ایف اے مکمل ہو چکا تھا لیکن بی ایڈ میں تو ابھی داخلہ لیا تھا ۔سارا بوجھ سر پر تھا ۔ خدا خدا کر کے تعلیم کا آخری سمیسٹر شروع ہؤا۔ہاسٹل میں اس کی سہیلیوں نے اسے نوکری کا مشورہ دیا۔ اس کی بے بسی یہ تھی کہ انگلی پکڑ کر چلانے والا کوئی نہ تھا۔ اس کی ایک سہیلی مصباح نے سچا اور پکا وعدہ کیا کہ وہ اسے نوکری ڈھونڈ کر دے گی خواہ کتنا ہی مشکل میں کیوں نہ مبتلا ہونا پڑے۔
اگلے تین ماہ میں اس کی خوش قسمتی سے نوکریوں کے دروازے سرکار نے کھولے ،انٹرویو ہوئے سی وی جمع کروائی اور اسے اس کی سہیلی مصباح کی اطلاع کے مطابق چودھویں سکیل کی نوکری مل گئی ۔ لیکن ایک رکاوٹ باقی رہی۔
اسے پتہ چلا کہ چودھویں سکیل کی نوکری کسی کو بھی پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملتی اس کے لیے کم از کم دو لاکھ جمع کروانے ہوں گے جو درجہ بدرجہ حق داروں کو ملیں گے ۔
دو لاکھ بہت بڑی رقم تھی اس کے پاس دو لاکھ کیا دو ہزار بھی نہیں تھے۔
دن رات سوچ سوچ کر اس نے ان پڑھ ماں کو دکان کاسارا سودا سلف پچھلی گلی کے چاچے منظور کو فروخت کرنے پر منا لیا اسی ہزار کاسارا سودا ہؤا جواس نے یتیم بچوں کے ساتھ خدا خوفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوری طور پر ادا کر دیا بلکہ چاچے منظور نے دو ہزار روپے زائد ادا کیےباقی رقم اس نے ماں کی جمع شدہ بچتوں سے بنائے سونے کے سیٹ کو بیچنے کے علاوہ دو تین لوگوں سے ادھار لے کر مکمل کی ۔اب مسئلہ یہ تھا کہ اس کی نوکری بستی ملوک سے پہلے سٹاپ پر واقع سرکاری سکول میں تھی اور رہائش پل چٹھہ کے قریب ۔نوکری تو بعد کی بات تھی پہلے تو بستی ملوک پہنچنا درد سر تھا ۔گھر جس گلی میں تھا اس کی نکر تک پیدل جاتی ۔پھر سڑک ہر پل چٹھہ کا رکشہ لیتی وہاں سے ملتان کی بس پکڑتی، بس سے اتر کر بستی ملوک کی ویگن اور ویگن سے اتر کر پھر پیدل فرلانگ کا فاصلہ طے کرتی۔ پہلے دن سکول میں داخل ہوئی۔ اچھی کھلی عمارت پندرہ سولہ ٹیچرز کا سٹاف اور ہیڈمسٹریس صاحبہ !
اسے کولڈ ڈرنکس اور بسکٹ کے ساتھ تواضع سے خوش آمدید کہا گیا ۔ ہونقوں کی طرح سارا دن گزرا۔ وہ تو بس ملتان سے آگے کبھی نہیں گئی تھی اب چار چار سواریاں بدل کر منزل مقصود تک پہنچنے کا کام کافی مشکل لگا ،خواری ہی خواری …..
سکول سے واپسی پر ہیڈ نے مسکرا کر کہا :
’’آپ اتنی بادشاہی ملازمت ملنے پر خالی ہاتھ ہی آگئیں ؟ بہت افسوس ہؤا‘‘۔
اگلے دن اس نے ملتان وہاڑی چوک اتر کر ریوڑی والوں کی مٹھائی کاڈبہ خریدااور بستی ملوک کی ویگن میں بیٹھ گئی۔
سکول پہنچتے ہی اس نے مٹھائی کا ڈبہ آفس میں ہیڈ کی میز پررکھ دیا۔ وہ خود تو دیر سے آتی تھیں ۔
دوسرے پیریڈ میں اس کی طلبی ہوئی ۔وہ حیران بلکہ پریشان ہو کر آفس میں حاضر ہوئی۔
’’جی میڈم !‘‘اس نے کہا ۔
’’یہ کیا ہے مس شاہدہ منیر ؟‘‘ انہوں نے مٹھائی کے ڈبے کی طرف اشارہ کیا
’’میڈم کل آپ نے کہا تھا ناں کہ…..‘‘
’’مٹھائی تو محلے اور شریکے میں بانٹی جاتی ہے میں نے تو ٹریٹ مانگی تھی سٹاف کے لیے اور باقی جو کلرک ،چوکیدار مالی قاصد وغیرہ ہیں بلکہ آپ مس نائلہ سے پوچھ لیں انہوں نے کس عمدگی سے ٹریٹ دی تھی بریانی کی دیگ ،کولڈ ڈرنک کا خرچہ انہوں نے ادا کیا تھا سویٹ ڈش کی آپ ٹینشن نہ لیں یہاں حکیم دین گجر کی بھینسیں ہیں کافی دس بارہ کلو دودھ سے اس کے گھر والی بہت مزے کی کھیر بنا دے گی اس کی تم ٹینشن نہ لینا ‘‘۔
شاہدہ ہکا بکا میڈم کا منہ دیکھ رہی تھی کیا کہے اور کیا نہ کہے ؟ ہزار سوالوں کا گلا گھونٹ کر اس نے اقرار میں سر ہلایا اور پھنسی آواز سے بولی
’’میڈم ،جس دن آپ کہیں گی اس دن بندوبست کر لوں گی ‘‘۔
’’گڈ ‘‘وہ دل سے مسکرائیں ، لڑکی سمجھدار ہے! کچھ سوچنے کے سے انداز میں بولیں ۔
’’ٹھیک ہے آج پیر ہے اسی ویک اینڈپر رکھ لیتے ہیں ،دیگ کا اس لیے کہا ہے جس دن یہ ٹریٹ کا چکر ہوتا ہے زیادہ تر سٹاف اپنے بچوں کو ساتھ لے کر آتا یے پھر یہ کلرک مالی وغیرہ کے علاوہ علاقے کے نمبردار ، چوہدری ایم پی اے کا گھریہ سب ہم سے اور ہمارے سکول سے بہت تعاون کرتے ہیں ناں ،اس کے بعد ظاہر ہے تم بھی کھیر کا ڈونگہ اور چاول گھر لے کر جاؤ گی کوئی پلیٹ دو پلیٹ بچ گئے تو میں بھی لے لوں گی ،خوشی میں سب گھر والوں کو بھی شامل ہونا چاہیے ناں‘‘انہوں نے پورا منصوبہ گوش گزار کیا۔
’’جی میڈم ‘‘تابعداری سے شاہدہ نے سر جھکایا ۔
اگلے چار دن اس نے جس طرح پیسوں کا بندوست کیا اور جتنی اذیت کا سامنا ہؤا اتنا تو باپ کے مرنے پر بھی سامنا نہیں کیا تھا تب دکھ اور صدمہ تھا اب ذہنی اذیت اور ٹینشن …..بہر حال رقم کا بندوبست ہؤا تو سکول میں پڑھائی کا سیزن زوروں پر تھا اس نے کبھی بلند آواز سے گھر یا باہر کہیں بات نہیں کی تھی اب کلاس میں ساٹھ بچیوں کو حلق پھاڑ کر سبق رٹواتی تو گھر واپسی تک دماغ پلپلا ہوجاتا ،چار مرتبہ سواری بدل کر سکول پہنچتے پہنچتے گھنٹہ بھر درکار ہوتا واپسی کا سفر اس سے بھی مشکل !
جس دن سے نوکری ملی تھی نماز بھی بس ٹکریں مارنے جیسی رہ گئی تھی وہ بھی وقت ملنے پر ۔
خدا خدا کرکے ٹریٹ دینے کا دن آیا سکول میں خوب رونق تھی سب ٹیچرز نئے جھلملاتے ہوئے کپڑے پہنے ہوئے تھیں بچوں کو سکول سے جلدی چھٹی کر دی گئی تھی ۔
بہت اہتمام سے سب نے کھانے میں حصہ لیا سلاد اور رائتے کا بھی ڈونگہ نظر آرہا تھا کھیر ،سلاد اور رائتے پر آئی لاگت کا پوچھنا بھی لازم تھا۔ وہ تو دیگ کے پیسے پتہ نہیں کیسے جمع جتھا کر کے لائی تھی اب یہ فضولیات !!
اس کی آنکھوں میں پانی آتا رہا وہ پیتی رہی ۔اور کیا کرتی ؟
میڈم نے اپنی نگرانی میں تعاون کرنے والے گھرانوں کو پرات بھر بھر چاول بھیجے اپنے لیے بھی رکھتے ہوئے ان کا حوصلہ اور ظرف خاصا بلند رہا بس شاہدہ کی دفعہ بریانی کی کھرچن رہ گئی تھی ہاں سلاد رائتے کے ڈونگے بچ بچا گئے تھے وہ سب اس کو دیئے کمال مہربانی سے اپنی گاڑی اور ڈرائیور کے ساتھ اسے اس کے گھر بھیجا اس تاکید کے ساتھ کہ ہزار پانچ سو ڈرائیور کو دے دینا یہ بہت مستحق لوگ ہوتے ہیں ۔
جاتے ہوئے ایک اور احسان کیا کہ اپنی اور سٹاف کی طرف سے ایک بڑی سی جہازی سائز کی سینری اسے بطور یادگار تحفے میں دی۔
گھر میں پہنچ کر اس نے کھانا ماں کے سپرد کیا ۔چار سو روپے پرس میں سے نکلے، سو روپیہ ماں سے لے کر پانچ سو ڈرائیور کے حوالےکیے اور خود تھک تھکا کر بے سدھ لیٹ گئی ۔جس دن کی ٹینشن نے اس کی چار راتوں سے نیند اڑا دی تھی بہر حال وہ دن گزر گیا تھا۔ وہ نرم و نازک سی شاہدہ جس کو کبھی باپ کی زندگی میں کانٹا نہیں چبھا تھا گرم ہوا کا جھونکا چھو کر نہیں گزرا تھا ،اب گرم ہواؤں کے تھپیڑے برداشت کرنے پر مجبور تھی۔
گھر میں اس نے بس ماں کو سلام کیا کھانا رکھااور بغیر کپڑے تبدیل کیے گھوڑے بیچ کر سو گئی ۔سوتے میں اسے ماں کا پکارنا بہن کا آ کر کندھا ہلانا محسوس ہوتا رہا لیکن سچ کہیں تو ہفتہ بھر کی ٹینشن سے اسے نیند نہیں آئی تھی ۔وہ کروٹ بدل کر سوتی رہی یہاں تک کہ سورج نے اس کی کھڑکی سے جھانک کر دیکھا ۔شاید بجلی بند تھی وہ پسینوں پسین ہو کر اٹھی ۔ عجیب سا خواب تھا ابا کو سر جھکائے روتے دیکھا تھا۔
میز پر رکھی بوتل سے غٹا غٹ پانی پیا اور بستر سے اتر کر کمرے سے باہر آئی ۔تیز دھوپ سے گرمی کی حدت ناقابل برداشت تھی اس نے دوسرے کمرے میں جھانکا۔
اوئے سب سوئے ہوئے ہیں ؟ وہ حیران ہوئی ۔
قریب ہی میز پر کھانے کے برتن ،لسی کا آدھ بھرا جگ اور پھینیاں پڑی ہوئی تھیں ۔بس چند سیکنڈ اس معمے کو حل کرنے میں لگے پھر اس کے منہ سے چیخ نکلی ۔
روزے شروع ہو گئے ؟ اوہ میرے خدایا اب ؟ میں نے تو کل سکول میں بریانی بس چمچ منہ میں لے کر چکھی تھی ،اوپر سے اب پانی بھی پی لیا…..اوہ میرے خدایا اب؟
وہ سارا دن بہانے بہانے سے آنسو پونچھتے ،ضمیر کی کھٹک پر آہیں بھرتے گزرا ۔اگلے دن سحری کھانے کے بعد اسے سکول کے لیے نکلنا تھا ۔حسب معمول وہ روز کی طرح گھر سے نکلی لیکن ملتان بس اڈے پر اترتے ہی اسے سورج سوا نیزے پر محسوس ہونے لگا۔ ویگن بھی ابھی نہیں بھری تھی اس لیے اسے انتظار میں دس بارہ منٹ کھڑے رہنا پڑا ۔ جب ویگن بھر گئی اور وہ مطلوبہ سٹاپ سے اتر کر ایک ڈیڑھ فرلانگ چلنے کے بعد سکول میں داخل ہوئی تو اس کی زبان باہر تک لٹک رہی تھی۔ اندر جاتے ہی وہ بے دم ہو کر گر پڑی۔ سانس بحال کرنے میں کچھ دیر لگی لیکن اس نے جیسے تیسے ایک دو پیریڈ پڑھایا پھر اس کی بس ہو گئی…..اس کی آنکھیں باہر آرہی تھیں واپسی کے سفر کی اس میں ہمت نہیں تھی۔
سکول میں کسی ٹیچر کا روزہ نہیں تھا۔اس نے تعجب سے ایک ٹیچر سے پوچھا ۔
’’تم لوگوں نے روزہ کیوں نہیں رکھا؟ ‘‘
وہ طنزیہ مسکرائی ’’نوکری بھی تو مجبوری ہے اور مجبور بندے سے تو روزہ ویسے ہی ساقط ہو جاتا ہے نماز آدھی سے بھی کم ہو جاتی ہے‘‘۔
شاہدہ کا دل تو نہیں مانا لیکن چپ ہو گئی ۔
تازیانہ سے ضرب میڈم نے لگائی ،جب انہوں نے وارننگ دی کہ حکومت بدل گئی ہے اب حاضری کے علاوہ بچوں کی پڑھائی رزلٹ سب کچھ اوپر والے چیک کریں گے روزہ رکھ کر نہیں پڑھا سکتیں تو روزہ چھوڑ دو یا نوکری چھوڑ دو !
شاہدہ ٹکر ٹکر میڈم کی شکل دیکھ رہی تھی ۔یہ کیسی مسلمان ہیں ؟
’’تم خود اپنی حالت پر غور کرو اس حالت میں پڑھانا تمہارے لیے ناممکن ہے اللہ نے کہاں یہ لکھا ہے کہ اپنی جان مشکل میں ڈالو بار بار اللہ نے فرمایا تو ہےکہ نہیں رکھ سکتے تو بعد میں گنتی پوری کر لو ‘‘۔
’’جی اچھا میڈم کہہ کر اس نے اپنی بے بسی مان لی پاس کھڑی ٹیچر نے بھی وعظ کا سلسلہ شروع کیا‘‘۔
’’دیکھو میرے بھی حالات تمہارے حالات سے ملتے جلتے ہیں۔ میں نے اپنے مفتی صاحب سے فتویٰ لیا تھا انہوں نے کہا تھا کہ گھر والوں کو پالنا فرض ہے جس کا متبادل نہیں روزے کا متبادل موجود ہے فدیہ…..اپنی جان کا خیال رکھو اللہ سائیں نے خود فرمایا ہے کہ اپنی جان کو تنگی میں نہ ڈالو میں تم پر آسانی چاہتا ہوں تنگی نہیں چاہتا‘‘۔اچھے موسم میں چھوڑے روزوں کی گنتی پوری کر لینا ’’اب فدیہ دے لو‘‘۔
اس فتویٰ نے اسے یکسو کر دیا اور فتویٰ کا کیا ہے جس سے چاہو جیسا چاہو لے لو، اس نے میڈم سے دوبارہ ان کی گاڑی اور ڈرائیور مانگا معاوضہ تنخواہ ملنے پر دینے کا وعدہ کیا اور گھر پہنچی ۔
اگلا دن ،بغیر روزے کے اس کی شعوری زندگی کا پہلا دن تھا !
وہ گھر سے سکول پہنچنے کے عرصے میں اپنے آپ کو مجرم قرار دیتی رہی ، لعنت ملامت کے کوڑے برساتی رہی آنکھوں کے گیلے گوشے پونچھتی رہی۔ لیکن اسے حیرت ہوئی گھر سے سکول تک کے سفر میں کسی کا بھی تو روزہ نہیں تھا ۔سڑک پر چلتے پھرتے سب معمول کے مطابق کھانے پینے میں مصروف تھے ،اس چیز نے اس کے ضمیر کے جاگنے کا احساس بہت حد تک سلا دیا ۔سکول میں سب بے روزہ تھے ،یہ آخری تھپکی تھی ضمیر کو سلانے کے لیے !
ہاں اتوار کے دن بہت اہتمام سے روزہ رکھتی رہی۔
پھر اسے پہلی تنخواہ ملی۔آپ پہلی تنخواہ ملنے والی خوشی محسوس کر سکتے ہیں کیا ہوتی ہے…..جیسے مردہ وجود میں زندگی کی لہر!
جیسے ڈوبتے کو سہارا مل جائے مہینے بھر کی کلفت اور کوفت تنخواہ ملتے ہی خوشی میں بدل جائے ۔
اس نے تنخواہ کےچار حصے کیے آدھا قرضے کی ادائیگی کی مد میں باقی دو حصوں میں سے ایک ذاتی اخراجات ،سفر کا کرایہ ناگہانی خرچے کی مد میں اور آخری حصہ کمیٹی ڈالنے کے لیے ۔
اب اسے ملازمت مشکل نہیں لگتی تھی۔ تنخواہ کے نوٹوں کے نشے نے تکلیفوں کو راحتوں میں بدلنا شروع کر دیا تھا۔ حالات بھی پہلے سے بہت بدل گئے ۔
آہستہ آہستہ غیر محسوس طریقے سے اس کے اندر بھی میڈم کی وہ صفات آنا شروع ہو گئیں جن کا سن کر اور دیکھ کر اسے ابکائی آتی تھی۔ وہ بھی سکول کی بچیوں سے ضروریات زندگی پورا کروانے میں جتنی مدد لے سکتی تھی لے رہی تھی اس کی عقابی نظروں سے اوجھل ہونا ناممکن تھا کس کے ابا کی زمین پر کون سی فصل ہے اور اسے کتنی ضرورت ہے ،کس کی کتنی بھینسیں ہیں وہ دودھ دہی اور اصلی گھی میں کتنا حصہ وصول کر سکتی ہے ،سبزی کس کے ذمہ لگائی جائے ،پیریڈ کے دوران کیسے دوسرے مشاغل اپنائے جا سکتے ہیں پہلے والی میڈم کی ریٹائرمنٹ کے بعد تو گھر بیٹھے آن لائن سکول میں حاضری لکھوانا بھی چٹکی بجانے جتنا کام رہ گیا تھا ۔
بہترین رزلٹ کے لیے کارکردگی مختلف اجناس کی وافر سپلائی تھی ۔ پوزیشن لینے والیوں کے لیے سوٹ ہینڈ بیگ جوتا لازم تھا۔ نہ لینے والوں کے لیے بھی کچھ دینا دلانا ہی امید کا باعث تھا۔جس نظریہ کے تحت اس نے روزے چھوڑنے کا عمل شروع کیا تھا کہ سارے ہی چھوڑتے ہیں اب حرام کمانے میں بھی یہی نظریہ کارگر تھا ،سارے ہی ایسے کرتے ہیں !
پھر ان کے سکول میں ایک ٹیچر کی ریٹائرمنٹ کے بعد نئی ٹیچر آئی ۔ شکل من موہنی ،چہرے پر بھولپن ،نرم نرم لہجے میں بات کیا کرتی منہ سے لفظوں کے پھول جھڑتے۔لیکن تھی پردے کی بوبو…..اسی پر بس نہیں، پکی نمازن ۔جہاں اذان کی صدا سنائی دی سٹاف روم کے ساتھ بنے سائڈ روم میں جائے نماز بچھاتی اور رکوع سجدے کر کے آجاتی۔ سکول سے سوائے پانی کے کچھ نہیں لیتی تھی ،دبے دبے لفظوں میں سب نے مائل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ نہ مانی ،بقول اس کے اپنی اجرت میں وصول کر لیتی ہوں باقی چیزوں پر میرا کیا حق؟
جب رمضان شروع ہؤا تو وہ اس سڑی غلیظ گرمی میں روزے سے تھی ہاں اس نے روزوں کے مہینے میں ذاتی سواری رینٹ پر لی تھی گھر سے اس پر بیٹھتی اور سکول کے دروازے پر اترتی ویسے بھی اس کا گھر نسبتاً قریب تھا ۔
روزوں سے پہلے وہ اپنا کھانا گھر سے لاتی تھی اس کی اشتہا انگیز خوشبو شاہدہ کو بہت تڑپاتی۔ اب جب وہ روزے سے ہوتی تو ظاہر ہے کچھ کھانے پینے کی بجائے پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ جاری رکھتی ۔
شاہدہ کو اس سے عجیب سا حسد محسوس ہؤا۔وہ بھی تو کبھی ایسی تھی !
ایک دن شاہدہ نے اس ٹیچر سے کہا کہ اتنی گرمی میں روزے رکھ کر ملازمت مشکل ہے وہ اللہ کی دی سہولت سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتی؟ ہم بھی تو روزہ نہیں رکھ رہیں ۔
اس نے لمحہ بھر کو ان سب سینئرز ٹیچرز کی طرف دیکھا اور مسکرائی ۔
’’روزہ کیا ہر عبادت مشکل ہی ہوتی ہے اگر رب سے تعلق مضبوط نہ ہو۔ رہی دوسری بات کہ آپ بھی تو روزہ نہیں رکھتیں۔معذرت کے ساتھ برا مت مانیےایسا نہیں کہ آپ روزہ نہیں رکھ رہیں ! بلکہ یوں ہے کہ اللہ ہی آپ سے روزے نہیں رکھوا رہا وہ رمضان میں بھی آپ سے سجدے نہیں کروا رہا ‘‘۔
وہ شاید کچھ اور بھی بول رہی تھی لیکن شاہدہ کے کان سائیں سائیں کر رہے تھے ۔
اللہ مجھ سے روزہ نہیں رکھوارہا ،مجھ سے رکوع سجدے نہیں کروا رہا۔کیوں کی نوبت تو تب آتی اگر اسے وجہ معلوم نہ ہوتی ۔
بے دھیانی میں اس کا ہاتھ منہ پر گیا اس کا منہ گیلا تھا ،ندامت کے آنسو نہیں قرب کے موتی تھے ،وہ واش روم میں جاکر جتنا منہ دھوتی اتنے ہی آنسو مزید اچھل کر آنکھوں سے بے تاب ہو کر باہر نکلتے ۔سارے راستے وہ دبی دبی ہچکیوں سے روتی رہی آج اسے زندگی کا پہلا روزہ رکھنے والی شاہدہ یاد آرہی تھی جس کی نیکی بھی ابا کو ادھوری نہیں مکمل طور پر چاہیے تھی ۔
اگلے دن پھر سے ابو کی شاہدہ زندہ ہو گئی تھی ۔
دوپٹہ کے ہالہ میں چھپا چہرہ ،زیر لب تسبیحات کا ورد ،فارغ پیریڈ میں جائے نماز پر لمبا سجدہ بس سٹاف روم میں اس نے کھانے والی ٹیچرز کو جھانک کر بھی نہیں دیکھا کہ اس کا تو روزہ تھا ۔ابا کہتے تھے روزے کون سا سدا رہتے ہیں گنتی کے چند دن گزر ہی جاتے ہیں لیکن اجرت گنتی کے انہی چند دنوں کی ملتی ہے اور سب سے اہم بات تو وہ بھول ہی گئی تھی روزے ہی نہیں زندگی بھی ایاماًمعدودہ ہے، یہ کون سا ان گنت دنوں یا سالوں پر مشتمل ہے گنتی کے ہی دن چند سو چند ہزار بس ۔
اعتراف جرم کے آنسو اب احساس تشکر میں بدل رہے تھے اور چار دن کے فاصلے پر کھڑی عید اسے مسکرا مسکرا کر دیکھ رہی تھی۔٭
٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x