ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

فالوورز کی دنیاہے – بتول اپریل ۲۰۲۳

مذاق ہی مذاق میں کدو کے رائتے کی خوبصورت لفاظی اور دل نشین لہجہ میں حمنہ نے یو ٹیوب پر ڈیڑھ منٹ کی وڈیو بنا کر اپ لوڈ کردی ۔
ہائیں یہ کیا ! منٹوں سکینڈوںمیں اس کو پسند کرنے والے سینکڑوں سے ہزاروں میں جا پہنچے ۔
کچھ دنوں کے بعد اس نے اپنے فریج کی صفائی کی ایک منٹ کی وڈیو کھلکھلاتے جملوں میں بنا کر اپ لوڈ کردی تو سراہنے والے پانچ ہزار ہو گئے۔ اس نے سب کے مشورے پر یو ٹیوب چینل کھول لیا۔ عجیب حیرت کی بات تھی ، وہ مکھی مارنے کی وڈیو بھی بنا کر شیئر کرتی جیسے لوگ اسی کے انتظار میں بیٹھے ہوتے۔ ٹک ٹک ٹک … لائکس کو منٹس… اللہ اللہ اس نے سوچا بھی نہ تھا کہ مذاق میں شروع ہونے والے کام میں اتنی لذت، شہرت اور دولت ہے !
پھر جب اس نے اپنے ہاتھوں پر مہندی لگانے اور مخروطی انگلیوں میں نقلی ہیرے والی انگوٹھی کی وڈیو بنا کر خوبصورت کیپشن اور پس منظر میں دھیمے بہتے سُروں والا لتامنگیشکر کا گانا بھی ڈال دیا تو لوگ جیسے پاگل ہی ہو گئے ۔
آپ خود سامنے کیوںنہیںآتیں ؟ کیا آپ پردہ نشین ہیں ؟ کہیں آپ بھائی جان تو نہیں کہ بھابھی جان کے پردے میں چھپ کر یہ واردات کرتے ہیں… پر کمال کرتے ہیں !
جیسے کومنٹس نے اسے سوچنے پر مجبور کردیا کہ وہ خود ٹک ٹاکر کے طور پر سوشل میڈیا پر آئے حمنہ سوشل میڈیا پر آگئی اور چھا گئی ۔ حمنہ کے ٹپس، کچن حمنہ کے ساتھ حمنہ کا کراکری اور جیولری آفیشل پیج ، کوئی ایک رنگ ڈھنگ تھا اس کا سوشل میڈیا پر آنے اور چھاجانے کا !
شروع کی وڈیوز میں وہ قدرے موٹی دکھائی دیتی تھی لوگوں کے کومنٹس پڑھ پڑھ کر اس نے اپنے آپ پر توجہ دی ۔ کاسمیٹکس سرجری کی ہونٹوں کو پھیلانے والے انداز میں شیپ دلوائی ۔ یہاں تک کہ اب اس کا چہرہ ایک بہترین ماڈل کا بن چکا تھا۔
میاںملک سے باہر تھا وہ اپنے کاموں میں آزاد خود مختار بلکہ کسی حد تک خود سر ، ایک دو اشتہارات میں ماڈلنگ کی پھر ایک مشہور رائٹر کی ویب سیریز میں انٹری دے ماری ۔ قسمت پیر پھیلائے خوب مہر بان تھی ۔ وہ دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹ رہی تھی ۔ شہرت تو اسے مل بھی رہی تھی۔ لیکن اب بھی اس کی اصل پہچان یوٹیوبر کی ہی تھی لوگ اسے ہر رنگ میں ہر لباس ہرانداز میں پسند کرتے ۔ پھر یہ ہؤا کہ ہفتہ میں ایک وڈیو اپ لوڈ کرنے والی کی دن میں چار چار وڈیو ز سامنے آنے لگیں۔
ہم مارکیٹ میںجا رہے ہیں، ہم نے فوڈ سٹریٹ سے کیا کھایا ۔ کوئی موضوع ایسا نہیں تھا جس پر وہ بہترین قرار نہ پائی ہو ۔ لوگوں کاکیا ہے لوگ تو ہوتے ہی فارغ ہیں … ویلے ! سوائے تبصروں کے انہیں کیا آتا ہے ! وہ اسے تعریف کر کر کے اوپر چڑھاتے گئے مینار کی چوٹی سے کوہ ہمالیہ کی چوٹی تک پہنچا دیا ۔ وہ بھی چوبیس گھنٹے بس ’’ آن کیمرہ‘‘رہتی !
پھر اس کامیاں پاکستان آیا تو اس نے ائیر پورٹ جانے ، میاں کے ویٹنگ روم میں داخل ہونے سے گھر پہنچنے تک کی وڈیو میں سب کو لائیو شامل رکھا ۔ رات میں میاں کا کھانا کسی فائیو سٹار میں تھا ۔ دونوں فائیو سٹار ہوٹل کی پارکنگ میں پہنچے سب نے وڈیو میں دیکھا۔
لیکن پتہ نہیں کیا ہؤا ، پائوں میں موچ آئی یا پائوں رپٹا یاچکر آیا ۔ بس وہ گر پڑی ۔ گرتے ہوئے سب نے دیکھا ہوش میںآئی تو ہسپتال میں اپنے آپ کو دیکھا ۔ سفید پٹیوں میں جکڑی ہوئی سفید پری ! جونہی ہوش میں آکر بیٹھنے کی کوشش کی پھر بے ہوش۔ قدم زمین پر نہیں پڑ رہا تھا ۔ دس دن گزر گئے ۔ ہوش میں آتی ہاسپٹل کے سٹاف سے اپنی بیماری پوچھتی میاں سے بصد اصرار میڈیکل رپورٹس لانے کا کہتی مگر بیماری سمجھ

میں آتی تو کوئی بتاتا ۔ دس منٹ کیمرہ سے دور نہ رہنے والی دس دن سے کیمرہ سے دورتھی۔
پھر اس نے ہلکا پھلکا سا میک اپ کر کے ہاسپٹل کے بیڈ سے وڈیوبنوا کر ریلیز کی ۔ دعائوں کی درخواست اور بہتے آنسو ۔ لیٹی رہتی تو ٹھیک ہلتی تو جیسے ساتوں آسمان گھوم رہے ہیں۔ پورے دوماہ وہ ہاسپٹل اور گھر کے درمیان پنڈولم بنی رہی ۔ کبھی کبھار اپنے فالوورز سے رابطے کے لیے فیس بک پر لائیو آتی ۔ اس کا سوجا ہؤا منہ ، پیلا پھٹک زردی جیسا رنگ مریل آواز سب کو سنائی دیتی مگر وہ کیا کرتی ۔ مچھلی کیا پانی کے بغیر تڑپتی ہو گی جووہ فالوورز کے سامنے لائیو نہ آکر تڑپ رہی تھی۔
ڈاکٹر نئے سے نئے ٹیسٹ کے بہانے خون لے رہے تھے کبھی گردن سے کبھی بازو سے کبھی ٹانگ سے ۔ آئے روز ڈرپس لگتیں مگر طبیعت سنبھلنے کی بجائے بگڑنے کی طرف ہی جا رہی تھی ۔ پھر کچھ کومنٹس میں اسے مشورہ ملا کہ آپ نظر بد کا شکار ہوئی ہیں اور آپ کو فلاں عالم سے دم کروانا چاہیے میاں کے ساتھ ان مولانا صاحب کے پاس پہنچی ۔ ساری کتھا سنائی کس طرح اللہ نے راتوں رات لوگوں کے دلوں میں جگہ دی ، کیسے لوگ اسے پسند کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔
خشخشی سی داڑھی والے پینتالیس چھیالیس سالہ ’’بابے‘‘ نے نظریں جھکائے پوچھا۔
’’توآپ کی وڈیوز پورے ملک میں دیکھی جاتی ہیں !‘‘
’’جی نہیں جہاں جہاں اردو دان طبقہ موجود ہے دنیا بھر میں … سب بے تحاشہ کومنٹس کرتے ہیں سراہتے ہیں ‘‘۔اس کی آواز میں جوش تھا۔
’’ بی بی اگر پوری دنیا کے لوگ آپ کو پسند کرتے ہیں تو پوری دنیا کو بنانے والا بھی آپ کو پسند کرتا ہے ‘‘ ۔
لمحہ بھر کے لیے رک کر پھر اس نے کہا ’’ جب تک آپ چھپی ہوئی تھیں اس کی عافیت میں تھیں ۔ یوں عیاں ہو کر اس کے حکموں کی خلاف ورزی کر بیٹھیں ۔ وہ آپ کو اپنے سے دورنہیں کرنا چاہتا وہ آپ کو قریب رکھنا چاہتا ہے اور اپنے نا پسندیدہ کاموں سے بچانا چاہتاہے تاکہ آپ روز حشر اکیلی نہ رہ جائیں ۔ کیونکہ وہاںآپ کے فالوورز کام آئیں گے نہ مدد گار۔ الٹا ان کی گواہی آپ کے خلاف ہو سکتی ہے اس لیے اس نے ایک سپیڈ بریکر آپ کی بیماری کی صورت میں آپ کی زندگی میں ڈال دیا ۔ رک جائو بی بی ، یوں زیب و زینت کی نمائش صرف میاں کے لیے جا ئز ہے ۔ فالوورز آپ کے کیا لگتے ہیں ؟ بس یہ نشہ ہے شہرت ، دولت اور فالوورز کے چاہے جانے کا نشہ! اترے گا تو سفید کپڑوںمیں قبر میں تنہا ہوں گی ۔ سوچ لیجیے کون سارا ستہ چننا ہے دنیا کے فالوورز کا یا آخر کے … فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے ‘‘۔
حمنہ کا جھکا سر ، زمین پر گرتے آنسو اور سوں سوں کی آواز اس کے تائب ہونے کی نشاندہی کر رہی تھی کہ بیماری تو وہی بھگت رہی تھی ۔ اور قبر کے اندر کا حال بس مردہ ہی جانتا ہے!
٭…٭…٭

 

رمضان المبارک رعایتی سکیم

رمضان المبارک میں
ادارہ بتول کی تمام کتب پر

50فیصدرعایت
یہ رعایت صرف نقد ادائیگی
کی صورت میں ہوگی

ادارہ بتول

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
5 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x