ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

مصور اور حسن -بتول دسمبر ۲۰۲۱

پچھلے ماہ ترکی جانا ہؤا ایک کانفرنس کے سلسلے میں۔
استنبول کے’پل مین ہوٹل‘ میں وقفوں میں استقبالیہ سے متصل اس گیلری کا رخ کرتی جہاں مایہ ناز مصوروں کے فن پاروں میں اہلِ ذوق کی’’ تسکین‘‘ کا سامان میسر تھا۔
آپ کو اکثر پینٹنگز میں ایک چیز مشترک نظر آتی ہے اور وہ عورت کے خدوخال کی مختلف زاویوں سے تصویر کشی ہے۔
ہوٹل کی گیلری میں میرے سامنے جو پینٹنگز تھی اس میں عورت کی پشت نمایاں تھی۔ لکیریں اور رنگ ہی تو ہیں۔
رنگ بھی باتیں کرتے ہیں اور باتوں سے خوشبو آتی ہے۔
اس کی پشت پر نیم کھلے بال تھے اور جسم پر آسمانی ساڑھی، سامنے کئی درخت اور ایک درخت پر گھونسلہ۔
اس نے اپنے ہاتھ یوں اُٹھائے ہوئے تھے جیسے کسی پرندے کو ابھی ابھی آزاد کیا ہو۔
ایک دوسری پینٹنگ میں عورت کا پورا وجود گویا اس کی آنکھوں میں سمٹ آیا تھا۔وہ آنکھیں جو نم ناک تھیں۔پس منظر میں ٹوٹی ہوئی چوڑیاں تھیں،آسمان پر شفق اور کوچ کرتے پرندے۔
ایک پینٹنگ میں دیہاتی پس منظر کے ساتھ لہنگے اور بلاؤز میں بڑے سے دوپٹے کو بازوؤں کے نیچے سے سنبھالے ہوئے دیہاتی عورت تھی۔ اپنے حجم جتنا گھاس کا گٹھا سر پر رکھے ہوئے سنسان راستےپر چل رہی تھی۔
ایک پینٹنگ میں بہت سی کرچیاں تھیں جوعورت کا نصف چہرہ تھیں۔
کچھ بے حجاب تصاویر پر نظر ٹھہر نہ سکی آنکھوں کے سامنے حجاب سا آگیا۔
دکھی تو مرد بھی ہوتے ہیں مگر کم ہی کسی عورت نے اپنے برش سے کینوس پر مردوں کے دکھ پینٹ کیے ہوں گے۔
کسی نامور مصور کے لیے شاید ضروری ہے کہ اس کابرش’’دکھ نسواں‘‘ سے آشنا ہو۔
سماج میں کتنے ہیں جو عورت کی آنکھ سے ڈھلکے آنسوؤں کو صاف کرنے کے جتن کرتے ہیں اور کتنے ان کی تشہیر کو فن سمجھتے ہیں۔
ذوق جمال تو بلاشبہ اللہ کی ودیعت کی ہوئی چیز ہے۔ یہ درست ہے کہ ہر صاحب تخیل کی الگ دنیا ہوتی ہے ۔
اس کی تخلیق اس کے باطن کا عکس ہوتی ہے۔
تخلیق کار جب اپنے مشاہدات و احساسات کی ترجمانی کرتے ہوئے کائنات کے جمالیاتی مناظر کو اپنی گرفت میں لیتا ہے تو اس کی تان آکر عورت پر کیوں ٹوٹتی ہے؟
یہ درست ہے کہ وجود زن سے تصویر کائنات میں رنگ ہے۔ کیا کسی تخلیق کار کی تلاش کا منتہا عورت کی ذات کے رنگوں کا کھوج ہی ہے!
ساری کائنات حسین ہے۔ اپنے تخلیق کار کے جمال کا پر تو ہے۔
اللہ جمیل و یحب الجمال۔
حسن….. صنف نسواں سے آگے بھی کسی واسکوڈی گاما کا منتظر ہے۔
سمندر،دریا،آبشار،جھیلیں،سطح آب پر بہتی کشتیاں،پانی میں تیرتی حسین سمندری مخلوقات،نباتات جمادات،آسمان کے پر پھیلائے پرندے،یا سیپی کا موتی، پانیوں میں مسکراتا کنول یا نغمے بکھیرتی کوئل یہ سب کائنات کا جمال ہی تو ہے۔
اللہ نے کائنات اس لیے حسین و جمیل بنائی کہ وہ ہمیں مسرت سے ہمکنار کرنا چاہتا ہے۔اس لیے حسن کی طلب ہمارے اندر رکھ دی۔

حسن ہمیں طمانیت بخشتا اور خوشی کا باعث بنتا ہے ۔
ایک مصوّر کے برش سے اس کا عقیدہ،نظریہ،زاویہ نگاہ اور رجحان کھلتا ہے۔
سگمنڈ فرائڈ کے نظریات سے متاثر تخلیق کار کائنات کے ہر منظر اور دل کشی کو ایک ہی جذبے سے دیکھے گا۔
اگرچہ نسوانی حسن اور اس کے محرکات بہت پر کشش ہیں مگر ان میں منہمک ہو جانا نہ صرف انسانوں بلکہ قوموں تک کی تباہی کا موجب رہا ہے۔
تباہ حال قوموں کی تاریخ پڑھیں۔ ان کا ادب افسا نے، شاعری، مجسمے، محلات سب ہیجان انگیز نفسیات کا عکس نظر آئیں گے۔
نسوانی حسن ہی گویا آرٹ اور ذوق جمال کا نام ٹھہرا۔
ہیجان انگیز، شاعری، مجسمہ سازی، مصوری،نثرنگاری، پتہ نہیں یہ کسی آگ کو بجھانے کا سامان ہے یا بھڑکانے کا۔
نام نہاد ارباب ذوق کہتے ہیں کہ تخیل کو کسی سمت اور مقصد کا پابند نہیں کیا جاسکتا۔
اگر ادب کو نظریے کا محتاج کر دیا تو گویا پرندہ دام صیاد آگیا۔
قدرت کا حسن بکھرا پڑا ہے۔ ایک تخلیق کار حسن نسواں کی قلم اور برش سے اظہار پر پابندی قبول نہیں کرے گا۔
اس کی آزادی کے پر نہیں کاٹے جاسکتے۔
بات یہ ہے کہ جو تخلیق کار ملحدانہ اور سیکولر افکار کا حامل ہو اس کے نزدیک صنفی میلانات کا غیر ضروری تذکرہ بھی سماج کی ضرورت ہے۔
لب و رخسار کا ذکر ایک نشہ طاری کرتا ہے۔نشہ پلا کے گرانا تو آسان ہے۔مگر گرتوں کو تھام لینا آرٹ ہے
جن ادیبوں کو صالح فکر اور نظریے کی دولت عطا ہوئی ہے ان کے عقائد ہی تخیل کی سمت اور فکر کو منضبط رکھتے ہیں۔جس کے نتیجے میں ان کا تخیل ہر وادی میں بھٹکتا نہیں پھرتا۔ پھر وہ برش کے ذریعے منظرکشی ہو یا لفظوں کی بنت ،کائنات کی حقیقت کا بیان ہو یا ذوق جمال کا اظہار۔
کسی بھی عنصر کے تخلیق کا حصہ بننے سے عقیدہ کی گرفت نہ قلم کار کے قلم پر ڈھیلی پڑتی ہے نہ مصور کے برش پر۔
ادب سے جڑے عنوانات کو سماجی زندگی اور تمدن سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔
فرد کی فکر اور شخصیت پر ادب کے گہرے اثرات ہوتے ہیں۔
رائے عامہ ادب کے پیچھے پیش قدمی کرتی ہے۔
ادیب معاشرے کا ذوق بناتے ہیں۔
صالح ادب صالح فکر کا ذریعہ بنتا ہے۔
ذوق جمال تمدن کی جان اور لطافت کا سرچشمہ ہیں لیکن ….سوسائٹی کی زندگی اور اجتماعی فلاح ان سے زیادہ قیمتی ہے ۔
جو مصوری یا شاعری ذہنی ہیجان کی کی طرف لے جانے والی یا صنفی جذبات مشتعل کرنے والی ہو اسے سماجی دائرے میں پھلنے پھولنے کا موقع نہیں ملنا چاہیے۔
اگر فکر اور خیال کے گھوڑوں کی ٹاپیں عقائد اور نظریات کے قلعے مسمار کر دیں،ہم طاؤس و رباب کو ثقافت قرار دے لیں۔
قلم اور برش ان مکھیوں کی طرح اڑتے پھریں جو غلاظت کے ڈھیر کی پہچان نہ رکھتی ہوں۔
ادیب سماج کی رگوں کو مصفا خون مہیا کرنے کے پابند ہیں۔جیسے شہد کی مکھی ہمیشہ پھولوں پہ بیٹھتی ہے،شہد بناتی ہے جو شفا ہے۔
پاکیزہ ادب وثقافت پاکیزہ سماج کی ضامن ہے ۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x