ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

بدلتاآسماں – نور اپریل ۲۰۲۱

ستمبر1947 کی ایک سرد رات تھی ، میں اپنے خیمے میں لیٹا ہوا تھا ۔ ہم چند لا وارث بچے تھے جن کے ماں باپ آزادی کے سفر میں کھو گئے تھے۔ ہمیں مختلف قافلوں کے ساتھ شامل کر کے یہاں تک لایا گیا تھا۔
کیمپ میں بہت سے لوگ تھے جو سرحد پار سے لٹے پٹے آئے تھے۔ ان لٹے پٹے خاندانوں میں بڑے بڑے زمیندار ،سرمایہ دار اور کاروباری لوگ بھی شامل تھے ۔ محلوں کے مکین جھونپڑیوں میں زندگی گزار رہے تھے ۔ سونے کا نوالہ کھانے والے مٹی کے پیالے ہاتھوںمیں پکڑ کر قطاروںمیں کھڑے تھے ۔سب لوگ اتنی اذیتیں اور تکلیفیں اس لیے برداشت کر رہے تھے کہ ان کا اپنا وطن پاکستان بن چکا تھا۔
کچھ دنوں بعدوالٹن کیمپ میں موجود سبھی لوگوں کو مختلف علاقوں میںبھیج دیا گیا ۔زیادہ مسئلہ ہم لاوارث بچوں کا تھا ۔کیمپ میں موجود لوگوں کے حالات ایسے نہ تھے کہ وہ ہم لا وارث بچوں کو گود لیتے ۔بڑی سوچ بچار کے بعد ہم سب لا وارث بچوں کوبے اولاد جوڑوںمیں تقسیم کر دیا گیا ۔ میں جس گھر میں آیا وہ لوگ گائوں چھوڑ کرشہر میں آباد ہوئے تھے۔دونوں میاں بیوی بے اولاد تھے اور ادھیڑ عمری کو پہنچ چکے تھے ۔اب وہ میرے ماں باپ تھے۔
٭…٭…٭
میری عمر دس سال کے لگ بھگ تھی ۔میرا باپ پٹیالہ میں ایک جنرل سٹورچلاتا تھا ۔انھوں نے مجھے تین سال کی عمر میں ایک انگریزی اسکول میں داخل کروا دیا تھا جب حالات بگڑے تو میں پانچویںجماعت میں پڑھتا تھا ۔ اچانک اسکول بند کر دیے گئے حالات دن بدن کشیدگی کی طرف بڑھنے لگے ۔ ہندوئوںاورسکھوں نے مسلمانوں کوچن چن کرقتل کر نا شروع کردیا ۔ مسلمان گھروں میں دبک کربیٹھ گئے ۔سکھوں اورہندوئوں نے مل کرمسلمانوں کے دروازے توڑ کر گھروں میں گھس کر قتل کرنا شروع کردیا ۔میرا باپ جنرل سٹور سمیت جلا دیا گیا اورمیری ماں کوبرچھیوں اورتلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا ۔میں ڈر کر ایک چار پائی کے نیچے چھپ گیا تھا۔ جب وہ لوگ خون کی ہولی کھیل کر چلے گئے توفوج آگئی۔ انھوں نے سارے گھر کی تلاشی لی اورمجھے چار پائی کے نیچے سے نکال لیا۔نفسانفسی کا عالم تھا سبھی کو اپنی اپنی پڑی ہوئی تھی ۔کوئی کسی کا مدد گار نہیں تھا ۔
فوجیوں نے مجھے ایک ٹرک پر سوار کیا اس ٹرک پر اوربھی لوگ تھے۔ٹرک کے پیچھے پیچھے کافی لوگ نعرے بازی کرتے ہوئے آ رہے تھے جنھوں نے ہاتھوں میں تلواریں ،برچھیاں اورنیزے پکڑے ہوئے تھے ۔ ایک بار انھوں نے ٹرک پر حملہ کرنے کی کوشش بھی کی مگرفوجیوں کی ہوائی فائرنگ سے ڈر کر بھاگ نکلے ۔فوجی ٹرک پر سوارتمام لوگوں کوایک جگہ اتارکرواپس چلے گئے ۔لوگوں کی آپس کی گفتگو سن کرمعلوم ہوا کہ ہم واہگہ بارڈر پر پاکستان کی حدود میں ہیں۔اب ہمیں کوئی ڈر خوف نہیں ۔اب ہم آزاد ہیں ۔وہاں سے ہم سب کو گاڑیوں میں بٹھا کروالٹن کیمپ لایا گیا تھا۔ اوراب میری نئی زندگی کا آغاز ہو رہا تھا۔
٭…٭…٭
میرے ماں باپ نے مجھے اسکول میں داخل کروا دیا ۔ قابلیت کی بنا پر مجھے چھٹی جماعت میں داخلہ مل گیا ۔مجھے یہاں جو پیار اورمحبت ملا اس نے مجھے میرے حقیقی ماں باپ بھلا دیے مجھے اپنے ماں باپ کی شہادت کا دکھ تو تھا مگرمیں نے اسے اللہ کی رضا سمجھ کرقبول کرلیا تھا۔میری ماں کومیری آنکھوں کے سامنے نہایت سفاکی سے قتل کیا گیا تھا۔ وہ منظر توشاید میں ساری زندگی نہ بھول سکوں مگر اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے میں ہی عافیت ہے سو میں نے اس درد ناک منظر کواپنے دل و دماغ سے نکالنے کی بھرپورکوشش کی مگر میں مکمل طور پر اس سے نجات نہ پا سکا۔
میری تعلیم جاری تھی میرے ماںباپ مجھے اپنا مستقبل سمجھ کرمجھ پربھر پور توجہ دے رہے تھے ۔میں محسوس کر رہا تھا کہ وہ دونوں خوش نہیں ہیں ظاہر اً ان کا رکھ رکھائوایسا نہیں تھا جس سے ان کی مایوسی ، نا امید ی یا کوئی پریشانی محسوس ہوتی ہو،لیکن انھیں کوئی دکھ ضرور تھا ۔
ایک روز میں نے اپنی ماں سے پوچھا ’’ امی جان آپ مجھے کچھ پریشان سی دکھائی دیتی ہیں۔ابو جان کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے حالاں کہ پاکستان بن چکا ہے اوریہاں ہندو سکھ بھی نہیں ہیں جن سے کوئی جانی و مالی خطرہ ہو لیکن آپ پھر بھی پریشان ہیں ۔‘‘
ماں جی میری بات سن کر پہلے توخاموش رہیں پھربتایا ’’ ہم گائوں سے شہرمنتقل ہوئے ہیں۔ گائوں میں ہماری اچھی خاصی زمین ہے ۔اولاد نہ ہونے کی وجہ سے چودھری گلزار کے بھائیوںنے ان کے حصے کی زمین اپنے نام کروانی چاہی تھی انھوں نے انکارکر دیا تو دن بدن لڑائی جھگڑے بڑھنے لگے ۔ان کے بھائیوں کوخوف ہے کہ چودھری گلزارکے مرنے کے بعد اس کے حصے کی زمین میرے نام منتقل ہوجائے گی جوانھیں گوارہ نہیں ۔وہ لوگ گلزارکے مرنے سے پہلے پہلے زمین اپنے نام کروانا چاہتے ہیں۔‘‘
میں امی جان کی باتیں سن کر سر پکڑ کر بیٹھ گیا ۔ سگے بھائی خون کے پیاسے ہوں گے یہ تو میںنے کبھی سوچا بھی نہیں تھا اور پھر مسلمان ہو کر۔ میں سوچنے لگا کہ پاکستان بننے کا کیا فائدہ ہوا ۔ یہاں مسلمان ہی مسلمان کے خون کا پیاسا ہے اور ایک دوسرے کا حق کھا رہا ہے ۔
ایک دن میں سکول سے واپس آیا تو گھر میں کچھ لوگ موجود تھے ۔ میرے پوچھنے پر مجھے کچھ نہیں بتایا گیاشاید اس لیے کہ میرے ماں باپ مجھے پریشان نہیں کرنا چاہتے تھے۔مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ ابو جی کے بھائی وغیرہ تھے اور وہ لازماً زمین کے بارے میں ہی بات کرنے کے لیے آئے ہوں گے ۔ یقینا انھیں یہ خبر بھی ضرور پہنچی ہو گی کہ انھوں نے کسی کو گود لے لیا ہے۔
میری چھٹی حس مجھے بار بار جھنجھوڑ رہی تھی کہ کچھ انہونی ہونے والی ہے ۔ میرے باپ نے ایک دن مجھے اپنے پاس بٹھایا اور کہا :
’’ کل تم نے میرے ساتھ بینک جانا ہے تاکہ میں اپنا کائونٹ تمھارے نام کروا دوں ۔ تمھیں ہمارے بعد کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ اٹھانی پڑے ۔کچھ اورقانونی کارروائی بھی ہے ۔‘‘
اس بات کو چند دن ہی گزرے تھے کہ ایک رات دو بجے چند افراد دیواریں پھلانگ کر گھر میں داخل ہوئے اور انھوں نے میری ماں اور باپ کو بے دردی سے قتل کر دیا ۔میں کمرے میں تھا جب کہ امی اورابو باہر صحن میں سوئے ہوئے تھے ۔میں ایک بار پھر یتیم ہوگیا تھا۔
میںپاکستان میں رہتے ہوئے پٹیالہ پہنچ گیا اور سوچنے لگا’’ یا رب پاکستان اس لیے بنا ہے کہ اب ہندوئوں اور سکھوں کی جگہ مسلمان ہی مسلمان کو قتل کرتے پھریں ؟‘‘میرے ساتھ قسمت نے عجیب مذاق کیا تھا ۔ تقسیم ہند میںحقیقی ماں باپ سے محروم ہوا اور جائیداد کے تنازع پر گود لینے والے ماں باپ سے ۔مالک مکان بہت اچھا انسان تھا اس نے میرا ہر طرح کا خیال رکھا۔ میں نے اپنی تعلیم جاری رکھی اور دل لگاکر پڑھتا رہا ۔دو گھرانوں کا بے گناہ قتل میری آنکھوں کے سامنے ہوا تھا ۔ جس کا مجھے انتہائی دکھ تھا مگر میں کچھ نہیں کر سکتا تھا کیوں کہ ابھی بچہ تھا ۔
مالک مکان کی محبت اور سر پرستی میں میری تعلیم جاری رہی۔ وقت گزرتا رہا اب میں 25سال کا گبھرو جوان تھا چوہدری ریحان گلزار ڈی جی لینڈ ریکارڈ ۔ میری میز پر بہت سے ایسے کیس پڑے ہوئے تھے جو نہ جانے کب سے چلتے آ رہے تھے ۔ لینڈ ریکارڈ کا سربراہ بنتے ہی میں نے یہ سب کیس نبٹانے کا عہد کیا۔میں نے فائلیں کھنگالنی شروع کیں تو ان میں سے قبضہ گروپ کے بڑے بڑے مگر مچھ نکلنے شروع ہو گئے ۔جب چوہدری گلزار کی فائل میرے سامنے آئی تو میں ماضی میں کھو گیا۔ میرے باپ کے قاتل چار مربع زمین اپنے نام کروانا چاہتے تھے۔
میں نے ایک روز انھیں دفتر بلایا انھوں نے مجھے بتایا ’’ چوہدری گلزار ہمارا بھائی تھا۔ وہ بے اولا د تھا اس لیے وہ ترکے میں جوچار مربع زمین چھوڑ گیا ہے وہ ہمیں اس کا قانونی وارث ہونے کے سبب ملنی چاہیے ۔‘‘
میںنے انھیں اگلے روز آنے کا کہا ۔ دوسرے دن جب وہ میرے دفتر آئے تو میں نے ان کے سامنے وہ قانونی دستاویز رکھ دیں جن کے مطابق چوہدری گلزار نے اپنی زمینیں میرے نام منتقل کر دیں تھیں۔
جب وہ شکستہ قدموں سے میرے دفتر سے باہر جا رہے تھے تو شکست ان کے چہروں پر رقم تھی ۔ جس زمین کی خاطر انھوں نے اپنے بھائی کی جان لینے سے بھی دریغ نہ کیا تھا ، ان کی دست رس سے دور ہی رہی تھی ۔٭

٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x