ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

بریکنگ نیوز – بتول مئی ۲۰۲۲

خبر کی دنیا بہت وسیع ہے اور اسی لیے اسی نسبت سے اس کی تعریفات میں بھی بہت وسعت ہے۔ بسا اوقات یہ تعریفیں ایک دوسرے کے متضاد نظر آتی ہیں لیکن دراصل یہ خبر کو دیکھنے کا زاویہ ہے جہاں سے تعریف مرتب کرنے والا خبر کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر خبر کی چند ایک معروف تعریفیں مندرجہ ذیل ہیں:
خلیل اللہ فراز کہتا ہے، خبر ایسا جملہ ہوتا ہے جس کا کوئی منشا ہے، اور اس جملہ کے بعد ایک انشائیہ جملہ بنے۔ جیسے کسی نے خبر دی ’’آپ کی سائیکل کا ٹائر پنکچر ہے‘‘انشا ئیہ بنا کہ پنکچر بنوا لو۔
امریکی صحافی اینڈرسن ڈانا کے مطابق’’اگر کتا انسان کو کاٹے تو یہ خبر نہیں لیکن اگر انسان کتے کو کاٹے تو یہ خبر ہے‘‘۔
ڈاکٹر عبد السلام خورشید فنِ صحافت میں خبر کی تعریف یوں کرتے ہیں ’’خبر کا تعلق ایسے واقعات اور مشاہدات سے ہوتا ہے جو معمول سے ہٹ کر ہوں‘‘۔
برطانوی پبلشر’’لارڈ نورتھ کلف‘‘ کے مطابق’’خبر وہ اطلاع ہے جسے کوئی ایک شخص چھپانا چاہتا ہے جبکہ دیگر تمام لوگ اسے مشتہر کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
امریکی صحافی ’’کرٹ لوڈر‘‘ کے مطابق’’خبر کوئی بھی ایسی چیز ہوسکتی ہے جو دلچسپ ہو جس کا تعلق دنیا میں ہونے والے واقعات سے ہو‘‘۔
فرانسیسی صحافی’’ہاولے‘‘ کے مطابق ’’اچھی خبر کوئی خبر نہیں ہوتی‘‘۔
کینیڈین ماہرِ ابلاغیات کے مطابق ’’حقیقی خبر کوئی بدخبری ہی ہوتی ہے‘‘۔
امریکی پبلشر’’ایل گراہم‘‘ کے مطابق “خبر تاریخ کا پہلا مسودہ ہوتا ہے‘‘۔
کارل وارن ’’خبر عموماً وہ رپورٹ ہوتی ہے جو اس سے پہلے عام لوگوں کو معلوم نہیں ہوتی۔ یہ رپورٹ بنی نوعِ انسان کی ایسی سرگرمیوں کے متعلق ہوتی ہے جو قارئین یا سامعین کے لیے دلچسپی، تفریح یا معلومات کا موجب ہوں‘‘۔
ولیم ایف بروکس خبر کو اس انداز سے بیان کرتے ہیں کہ’’خبر دراصل غیر متوقع کا مترادف ہے‘‘۔
ویلکم سٹیڈ کے مطابق’’ہر وہ چیز جو غیر معمولی اور انوکھی ہو خبر کہلاتی ہے‘‘۔
ڈاکٹر مسکین علی حجازی اپنی کتاب فنِ ادارت میں خبر کی تعریف یوں کرتے ہیں’’ہر وہ واقعہ خبر ہے جو درست ہو، لوگوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہو، جس کے متعلق لوگ جاننا اور اخبار نویس بتانا چاہیں‘‘۔
آکسفورڈ لغت (انگریزی) میں خبر ’’نئی اطلاع، تازہ واقعات کی رپورٹ کو کہتے ہیں‘‘۔
ان تمام تعریفوں سے جامع تر تعریف مندرجہ ذیل ہے:
’’حالیہ واقعات سے متعلق ایسی قابلِ ذکر نوموصولہ اطلاع کو خبر کہتے ہیں جو نشر و اشاعت سے وابستہ کسی ادارے کی جانب سے جاری کی گئی ہو‘‘۔
آکسفورڈ لغت (انگریزی) میں خبر’’نئی اطلاع، تازہ واقعات کی رپورٹ کو کہتے ہیں‘‘۔
رحم علی شاہ کے مطابق’’news‘‘ جس کے معنی تازہ اور جدید کے ہیں۔یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ’’NEWS‘‘ کے چاروں حرف سے’’North,

رحم علی شاہ کے مطابق’’news‘‘ جس کے معنی تازہ اور جدید کے ہیں۔یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ’’NEWS‘‘ کے چاروں حرف سے’’North, East, West, South‘‘ یعنی شمال، مشرق، مغرب اور جنوب بنتا ہے گویا چاروں اطراف ہونے والا ہر غیر معمولی واقعہ خبر ہے۔
میڈیا میں ایک اصطلاح ’’بریکنگ نیوز‘‘بھی ہے۔ یعنی ایسی خبر جو باقی ساری خبروں اور معمولات کو غیر اہم کر دے۔
عربی لفظ خبر کے مفہوم سے کسی معاملے کے بارے میں جان لینا، واقفیت یا معلومات ہونا، اور یقینی اطلاع ہونا کے لیے جاتے ہیں۔
’’خبیر‘‘اللہ تعالیٰ کے مبارک ناموں میں سے ایک نام ہے۔ یعنی وہ ذات جو ساری کائنات کے ذرے ذرے سے واقف ہے۔
دنیا میں جس خبر رساں ادارے کی اطلاعات مستند و مصدقہ ہوں اس پہ سب بھروسہ کرتے ہیں۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ مالکِ کائنات کی طرف سے جب سیدنا جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے کسی نبی کے مبعوث ہونے کی خبر نشر کی جاتی ہے تو وہ ایک ’’بریکنگ نیوز‘‘ ہوتی ہے۔ یقیناً بریکنگ نیوز وہی ہوتی ہے جو اتنی غیر معمولی ہو کہ افکار کا رخ تبدیل ہو جائے۔ ہر فرد کے لیے وہ اس قدر نئی اور تعجب خیز ہو کہ اس پہ بات کرنا ناگزیر ہوجائے۔ پھر اس خبر پہ یقین کرنے اور نہ کرنے کے دو گروہ بن جائیں اور کشکمش کا دور شروع ہوجائے۔ اور انفرادی طور پہ انسان’’مانوں یا نہ مانوں‘‘ کی بے چینی میں مبتلا ہو جائے۔
یقیناً اللہ رب العزت کی طرف سے نازل کرده کتاب کی ہر آیت پوری انسانیت کے لیے’’بریکنگ نیوز‘‘ ہے۔
اب وحی کی صورت میں بریکنگ نیوز کا سلسلہ قیامت تک کے لیے ختم ہو گیا ہے۔ مگر ایک بریکنگ نیوز سے واسطہ ہونا ہر مخلوق کے لیے ناگزیر ہے۔
روزانہ انسان کو بے خبری میں ایسی خبر سننا پڑتی ہے جس کا گمان بھی نہیں ہوتا کہ کب کہاں اور کیسے وہ خبر ملے گی۔ اور اس میں کیوں کا سوال ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اور North, East, West, South سے اس کا تعلق ہو سکتا ہے۔
جب ملَک الموت انسان کے سامنے حاضر ہو جاتا ہے تو اسے ہکّا بکّا ہونے کا بھی ہوش نہیں رہتا۔ پلَک جھپکنے سے پہلے انسان نے اس فرشتے سے ملاقات کا تصور بھی نہیں کیا ہوتا۔ یہ اتنی مصدقہ بریکنگ نیوز ہوتی ہے کہ انسان اس سے نہ سوال کر سکتا ہے نہ مہلت مانگ سکتا ہے اور نہ ہی محبتوں کے دعوے کرنے والے اس کو جانے سے روک سکتے ہیں۔ اور مال متاع میں سے ایک سکہ بھی ساتھ لے جانے کا یارا نہیں ہوتا۔ اس خبر کا کوئی وقت نہیں، کوئی عمر کی قید نہیں اور نہ ہی مقام کی پابندی ہے۔ زندگی کی بھاگ دوڑ کو بریک لگ جاتی ہے۔ اور رشتہ دار، دوست احباب کے معمولات میں بھی تعطل آجاتا ہے۔
منصوبے دھرے رہ جاتے ہیں۔ پروگرام بدلنے پڑتے ہیں۔ ملاقاتوں کا رخ بدل جاتا ہے۔ جذبات کے اظہار میں تبدیلی آجاتی ہے۔ غرض کسی کی موت کی شکل میں جو بریکنگ نیوز پہنچتی ہے وہ زندگی کا دھارا بدل دیتی ہے۔ کسی کا چند گھنٹوں کے لیے، کسی کا چند دن کے لیے اور کوئی اپنی پوری زندگی کا رخ بدل دینے پہ مجبور ہو جاتا ہے۔ ایک فرد کی موت کتنے ہی لوگوں کی زندگی میں ہلچل مچا دیتی ہے۔ پھر وراثت کی تقسیم کتنے لوگوں کی زندگی میں بریکنگ نیوز ثابت ہوتی ہے۔
کیا ہم اور آپ اپنی موت کی بریکنگ نیوز سننے کے لیے تیار ہیں؟
ہم دنیا والوں کو بریکنگ نیوز دے کر خود ایک ایسی دنیا میں داخل ہو جائیں گے جہاں ہر لمحے کی بریکنگ نیوز ہمیں قیامت تک کے لیے خود ہی سننا اور بھگتنا ہوگی۔ وہاں مال کی نہیں اعمال سے انسان کی قدر و قیمت لگائی جائےگی اور کسی پیارے کو خبر بھی نہ ہوگی کہ ہم قبر کے اندر کن امتحانات سے گزر رہے ہیں۔ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ نصیب میں ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔
موت کے بعد جو کچھ بیتنے والا ہے اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے موت سے پہلے تیاری کرنی ہے۔ اور موت تو پلک جھپکنے کے فاصلے پہ گھات میں کھڑی ہے۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x