ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

لوگ کیا کہیں گے! – بتول فروری ۲۰۲۳

یہ سوچ سب سے پہلے غالباً قابیل کے دماغ میں اس وقت آئی ہوگی جب اپنے بھائی ہابیل کو اپنے ہاتھوں قتل کر کے لاش پہ نظر پڑی ہوگی۔ کاش قابیل کو یہ خیال قتل سے پہلے آیا ہوتا کہ ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘۔ شاید اس وقت لوگ ہی کم تھے اور لوگوں کی فکر و فہم نے دوسروں کے بارے میں ’’کچھ نہ کچھ‘‘ کہنے کی رسم ایجاد نہیں کی تھی۔
اس پہ بھی تاریخ خاموش ہے کہ پہلے لوگوں نے’’کچھ‘‘ کہنے کی ابتدا کی تھی یا انسان کے ذہن میں یہ خیال جاگزیں ہو&ٔا تھا کہ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘
پہلا جرم سرزد ہؤا تو شاید لوگوں کو اس بات کا احساس نہیں تھا کہ’’کچھ کہنا بھی ہوتا ہے‘‘ مگر قابیل نے کوّے کو اپنا استاد مانتے ہوئے یہ ضرور سوچا ہوگا کہ:
’’کوّا میرے بارے میں کیا کہتا ہوگا؟‘‘
یہ بہت تعجب کی بات ہے کہ انسان جرم کرنے سے پہلے نہیں سوچتا کہ لوگ کیا کہیں گے۔سیدنا یوسف کے بھائیوں نے اپنے والد کے چہیتے بیٹے کو کنوئیں میں ڈالتے وقت نہیں سوچا کہ جب پتہ چلے گا تو لوگ کیا کہیں گے۔ عزیزِ مصر کی بیوی کو بھی خیال نہ آیا کہ جب بات کھل گئی تو سارے شہر کے لوگ کیا کہیں گے۔
جس وقت نفس لوامہ سو جاتا ہے تو پھر کون کیا کہتا ہے کی بھی پروانہیں رہتی۔ جس کو اپنی عزتِ نفس پیاری ہو وہی اس کے پامال ہونے کا کچھ خوف بھی رکھتا ہے۔
لوگوں کی طرف سے کچھ کہے جانے کا خوف انسانی تاریخ میں کیوں اور کب وارد ہؤا….؟
انسان فطری طور پر اپنے جیسے انسانوں میں یا معاشرے میں تنقید کا نشانہ بننے سے گھبراتا ہے۔ وہ نئی چیز کو اختیار کرنے اور پرانی رسوم و رواج کو چھوڑنے کی ہمت اس لیے نہیں کرتا کہ لوگوں کی طرف سے سوالیہ، ناقدانہ اور استہزایہ نظروں اور جملوں کا سامنا کرنا نہیں چاہتا۔ ہر انسان اپنی عزت نفس پہ آنچ آنے اور نکو بننے سے خائف رہتا ہے اور اچھے معاشرے میں بدنامی سے ڈرتا ہے۔ اور بُرے معاشرے میں اچھائی اختیار کرنا بھی سہل نہیں ہوتا۔اس لیے انسان اکثر اچھائی کو بہتر سمجھنے کے باوجود اپنے لیے کسی مفید بات کو بھی قبول نہیں کرتا اور ’’طرزِ کُہن‘‘ پہ اڑا رہتا ہے۔
جن لوگوں میں کچھ دم خم ہوتا ہے وہ جو کرنا ہو اپنی سی کر گزرتے ہیں۔قطع نظر اس کے کہ وہ اقدام اچھا ہے یا برا، ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘ کا خیال انہیں نہیں ستاتا۔ استقامت اور بہادری، دونوں صورتوں میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ ضد، ہٹ دھرمی اور انا کے مارے جب اپنے بُرے کرتوت پہ ڈٹ جاتے ہیں تو اپنے انجام تک پہنچ کر ہی دم لیتے ہیں۔
شیطان کی ضد اور ہٹ دھڑمی پہ استقامت پہلے دن سے اسی طرح قائم ہے اور وہ قیامت کو ہی اپنے برے انجام سے دوچار ہوگا۔ شیطان سب کچھ جاننے کے باوجود اس بات کی پروا نہیں کرتا کہ انجام کیا ہوگا۔اس نے ٹھان لی اور اس پہ قائم ہے۔
شیطان بھی انسان کو برائی کی طرف مائل کرنے اور قائل کرنے کے بعد استقامت کے لیے اسی بہادری کا سبق پڑھاتا ہے کہ لوگوں کے کہنے کی پرواہ کرنا بزدلوں کا کام ہے۔
رحمان کے حقیقی بندے بھی جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ پہ ایمان کا اقرار کرتے ہیں تو پھر نہیں سوچتے کہ خاندان، برادری اور معاشرے میں ان کے بارے میں کیا کچھ کہا جاتا ہے۔ایمان اور استقامت لازم وملزوم عمل

ہے۔ قرآن مجید اور حدیث پاک کے مطابق ’’استقامتِ ایمان‘‘ ہی وہ وصف ہے جس سے دنیا و آخرت کی کامیابی ممکن ہے۔جھوٹ اور باطل اسی وقت حق پہ حاوی ہوتا ہے جب ایمان ڈانواں ڈول ہوتا ہے۔
جس نے اپنے مشن میں سر دھڑ کی بازی لگائی، وہی راج کرے گا۔ اس فانی دنیا کا قدرت نے یہی اصول طے کیا ہے۔ اور قیامت تک حق و باطل کی یہ عارضی ہار جیت کا پلڑا بھاری یا ہلکا ہوتا رہے گا۔ اور پھر فیصلے کا وہ دن (یوم التغابن) آجائے گا جب ہار جیت کا آخری اور حتمی فیصلہ ہوگا اور جو جس کا حق دار ہوگا اسے دائمی طور پہ وہی ملے گا۔ اور اس دن لوگ جو بھی کہیں گے وہ بلا شک و شبہ سچ ہوگا حتیٰ کہ انسان زندگی میں کیے ہوئے اپنے اچھے برے اعمال پہ بھی جو خود کہے گا وہی چشم کشا ہوگا۔ جس نے ساری عمر نیکی کی راہ اختیار نہ کی وہ اسی دھوکے میں رہا کہ اپنے سٹیٹس، جاہ و اقتدار اور خاندانی رسم و رواج سے نکل جائوں تو لوگ کیا کہیں گے؟ اب آنکھیں کھلیں گی کہ یہاں سب اپنی جان بچانے کی فکر میں ہیں کسی کو دوسرے کے بارے میں ہوش نہیں ہے۔ حسرت و یاس کی وہ کیفیت ہوگی کہ انسان ان پہ غصہ کرے گا جن کی زبانوں کو کچھ کہنے سے روکنے کے لیے یہ مصیبت مول لی تھی۔
’’دنیا کیا کہے گی‘‘ کا ایک پہلو تو تشویش سے تعلق رکھتا ہے کہ میرے کسی برے عمل سے میری طرف ناقدانہ یا استہزایہ انگلیاں نہ اٹھ جائیں۔ یا ساری دنیا جس ڈگر پہ چل رہی ہے اس کے علاوہ کچھ اختیار کیا تو معاشرے میں کہیں حقہ پانی بند نہ ہو جائے۔
لوگ کیا کہیں گے کا دوسرا پہلو بھی انسانی سوچ میں موجود رہتا ہے۔ اس فکر کی زیادتی سے اپنی ذات کو دوسروں کی زبان سے ’’سب سے الگ سب سےجدا‘‘ سننے کی بیماری لگ جاتی ہے۔
’’لوگ کیا کہیں گے‘‘ جملہ ایک ہی ہے مگر باطنی احساس اور زاویہ فکر میں فرق ہے۔ ایک میں فکر اور تشویش کے ساتھ سوالیہ نشان ہے اور دوسرے میں منفرد کہلانے کا تفاخر، شوق، تجسُّس اور انتظار کی استعجابیہ رمز ہے۔ اگر ایک احساس میں لوگوں کی سوالیہ نظروں میں نہ آنے کی خواہش ہے تو دوسری طرف لوگوں کی نظروں میں رہنے کی ستائش طلب استعجابیہ تمنا ہے کہ لوگ دیکھیں، سراہیں اور وہ کچھ کہیں جو وہ سننا چاہتے ہیں تاکہ ان کی خود پسندی کو تسکین ملے۔
چہرے کا میک اپ، لباس اور پھر اس کے ساتھ میچنگ کی دیگر اشیاء، مکان اور اس کی آرائش یا دیگر قیمتی اثاثہ، سیر و تفریح اگر حلال کمائی سے ہے اور اسراف وتبذیر نہیں ہے تو مستحسن ہے۔ اور اگر اس میں مقابلہ بازی، دوسروں کو زیر کرنے اور تعریفیں سننے کی خواہش ہے تو یہ سب ریا کاری، خود پسندی اور رعونت ہے۔
ہر قدم پہ اور ہر کھانے کے ساتھ سیلفی لینا اپنے روز و شب کے ہر کام کو میڈیا کے ہر ذریعے سے دنیا کو دکھانا اور ردعمل کا انتظار کرنا اپنے فالورز اور پسند ناپسند کرنے والوں کی تعداد گنتے رہنا بھی نشہ اور ذہنی بیماری ہے۔
بے شک انسان کی فطرت میں دوسروں سے ممتاز رہنے کا احساس بھی رکھا گیا ہے، اسی احساس کی بدولت انسان میدانِ عمل میں سبقت لے جانے کی سعی کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کو بھی ایسے لوگ پسند ہیں جو نیکی کے میدان میں دوسروں سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور نیکی کے اعلیٰ معیار تک پہنچنا ان کی زندگی کا مقصد ہوتا ہے۔ یہ خوش بخت لوگ نیکی کو اور ایسی سنت رسولﷺ کو زندگی کا معمول بناتے ہیں جو معاشرے میں رائج نہ ہو، اور سو شہیدوں کے برابر اجر پانے کے لیے لوگوں کی طرف سے تکلیف دہ باتوں کی بھی پروا نہیں کرتے۔
اور وہ لوگ بھی خوش بخت ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کو استعمال کرتے ہوئے عاجزی و انکسار کے وصف پہ قائم رہتے ہیں، دوسرے بندوں کی ضروریات کا خیال رکھتے اور اپنی نیکی کو پوشیدہ رکھتے ہیں۔ ان کی یہ تمنا نہیں ہوتی کہ لوگ ان کو سر آنکھوں پہ بٹھا کر ان کے متقی ہونے کے ببانگ دہل اعلان کریں اور ان کو اس بات کی پروا بھی نہیں ہوتی کہ ان کی نیکی پہ کس نے کتنی واہ واہ کی۔
بعض نیکیاں کتنی بھی پوشیدہ ہوں نیکی کرنے والے کے لیے زندہ رہتی ہیں۔ اس کی زندگی میں کسی کو کانوں و کان خبر بھی نہ ہوئی ہو لیکن اللہ تعالیٰ اس بندے کی نیکی کو صدیوں بعد زندہ کر دینے پہ قادر ہے۔ اس میں

خصوصاً ان خوش قسمت لوگوں کا مقام بلند ہوتا ہے جنہوں نے اپنے قلم سے انسانیت کی فلاح کا کام کیا۔
اس صدی میں بتدریج ابلاغی امور کے جس قدر پہلو سامنے آ رہے ہیں ان کی بدولت علم کے پرانے خزانے مزید سہولت سے عام لوگوں تک بھی پہنچ رہے ہیں۔ ان علم والوں نے کب سوچا ہوگا کہ ہمارے قلم سے لکھی تحریریں مدت دراز بعد نئی نئی جہت سے منظر عام پہ آئیں گی اور لوگ استفادہ کریں گے اور ان کے لیے صدقہ جاریہ بنیں گے۔ حتیٰ کہ ان علماء کی تحسین و تعریف کرنے والے بھی ثواب پائیں گے اور وہ خوش بخت صاحبِ علم خود نمائی، احساس تفاخر، ریا اور تکبرجیسی بری خصلت سے بھی بچے رہیں گے۔
دگرگوں معاشرے میں کسی نیکی کو اختیار کرنے پہ اگر تشویش ہوتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے تو تصور کی آنکھ سے دیکھا جائے کہ حشر کے میدان میں یہی لوگ کیا کہیں گے؟
وہاں تو شیطان بھی یہی کہے گا کہ:
’’میں تمہارے کرتوتوں کا ذمہ دار نہیں ہوں آج تو مجھے رب العالمین سے ڈر لگ رہا ہے‘‘۔(الحشر)
اور چشم تصور سے دوسرا منظر بھی دیکھتے رہنا چاہیے کہ نیکی اختیار کرنے، اور استقامت کی وجہ سے حوضِ کوثر پہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے بارے میں کیا کہیں گے؟پیار سے بُلائیں گے یا میری طرف اشارہ کر کے اللہ تعالیٰ سے شکایت کریں گے کہ:
’’اس نے میرے بعد قرآن کو چھوڑ چھاڑ دیا تھا‘‘۔ (الفرقان)
فیصلہ میرا اور آپ کا ہے کس سے کیا سننا ہے۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x