ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ہلکا پھلکا – حیدرآبادی چٹکلے – آمنہ رمیصا زاہدی

حیدرآباد دکن سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والے والوں کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑا ان میں ایک یہ بھی تھا کہ یہاں آتے ہی لوگ ان کا شین قاف درست کروانے میں جت گئے۔ متاثرین میں ہمارا خاندان بھی شامل تھا۔
سکول میں ہماری بلند خوانی پر دبی دبی ہنسی سنائی دیتی تھی اور ہماری چھوٹی بہن سے تو سہیلیاں فرمائش کرتیں کہ بولو’’قرطبہ کا قاضی‘‘ اور وہ جھوم کے کہتی’’خرطبہ کا خاضی‘‘ تو سب کے کھلکھلا نے کی وجہ ہمیں کبھی سمجھ نہیں آتی تھی۔ لیکن چونکہ بچپن سے بغیر کسی وجہ کے خوش رہنے کی عادت ہے تو وجہ تلاش کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ ہماری ایک دوست کہتی بولو’’کائد اعظم‘‘، دو نکتوں والی بڑی کاف سے ’’کائد اعظم‘‘ اور ہم کہتے کیوں؟ جب ہمیں پتہ ہے کہ خائد اعظم ہوتا ہے تو کیوں کائد اعظم بولیں. وہ جھلا کے کہتی نہیں کائد اعظم …. کائد اعظم…. مگر جناب ہمیں اپنے حق پر ہونے کا اتنا یقین تھا کہ ہم بڑی خوداعتمادی سے کہتے خائد اعظم…. خائد اعظم! اور دل ہی دل میں ان معصوموں کی حالت پر ترس کھا رہے ہوتے تھے کہ ان لوگوں کو کتنی شرمندگی ہوگی جب صحیح تلفظ سمجھ آئے گا۔
ایک دن تو حد ہی ہوگئی ۔مطالعہ پاکستان کی ٹیچر مسز فاروقی کو کسی نے چھیڑ دیا کہ قائد اعظم کے چودہ نکات آمنہ رمیصاء سے پڑھوائیں ۔ مسز فاروقی ایسی رعب دار خاتون تھیں کہ آرمی پبلک اسکول کی مینیج منٹ ٹیم میں وائس پرنسپل کے بعد وہی کمان دار تھیں۔ اب جیسے ہی ہم نے پڑھنا شروع کیا پہلا ہی لفظ’’خائد اعظم‘‘…. انہوں نے کہا وہاٹ….What did you say? ہم نے پھر بڑے فخر اور محبت سے کہا ’’خائد اعظم‘‘۔
انہوں نے اپنی ناک کی چوٹی پر ٹکے ہوئے سنہری فریم والے چشمے کے اوپر سے جو ہمیں گھور کے دیکھا تو پہلی بار ہمیں معاملے کی سنگینی کا احساس ہؤا۔ ان کے چہرے کے تاثرات سے لگ رہا تھا کہ دل ہی دل میں کوئی راست اقدام کرنے کا فیصلہ کر رہی ہیں۔ ساری کلاس کا سانس رکا ہوا تھا کہ مسز فاروقی گویا ہوئیں’’ بیٹا بولو قائد اعظم‘‘ اور ہم نے کہا’’جی ، خائد اعظم‘‘ لیکن اللہ کا شکر ہؤا کہ ان کو غصے کے بجائے ہنسی آگئی اور سب کا سانس بحال ہوا۔ بعد میں جب ہم نے تجوید پڑھی تو استانی صاحبہ نے ہمیں حلق کے اندر کی تصویر دکھائی اور حروف کی ادائیگی سمجھائی تب ہمیں اندازہ ہوا کہ حلق کے اس حصے کو تو ہم نے کبھی زحمت ہی نہیں دی تھی جہاں سے قاف کی درست آوازنکلنی تھی۔
تھوڑے بڑے ہوئے تو شادی بھی ایک حیدرآباد دکن سے آئے ہوئے صاحب سے ہو گئی…. اب ان نجیب الطرفین حیدرآبادی بچوں کی اردو کی استانیاں اکثر ہمیں شرف ملاقات بخشتی رہتیں۔
ایک دن جب ہمارے صاحب زادے جماعت اول میں تھے ان کی اردو کی ٹیچر نے ہمیں بلوایا اور کہنے لگیں، آپ کا بیٹا املا میں بڑی عجیب و غریب غلطیاں کرتا ہے…. میں کہتی ہوں لکھو’’نازیہ اسکول چلی جاتی ہے‘‘ اور یہ لکھتا ہے’’ نازیہ اسکول چلے جاتی ہے‘‘۔
ہماری معصوم شکل دیکھ کران کو اندازہ ہؤا کہ مسئلہ ہماری سمجھ میں بالکل بھی نہیں آیا ہے تو انہوں نے کتاب اٹھائی اور جملہ لکھا ہؤا دکھایا اور ساتھ میں ہمارے منے کی تحریر ہمیں دکھائی۔ اب تو جناب ٹیچر صدمے سے نڈھال ہو گئیں کہ منے کی اماں کو دونوں جملوں میں فرق سمجھ نہیں آرہا تو منے میاں خاک سمجھیں گے۔ ہم نے انہیں تسلی دی کہ اس میں اتنی پریشانی کی کوئی بات نہیں ،شریف گھرانے کا بچہ ہے…. آخر نازیہ کو سکول ہی لے کر گیا ہے ناں…. لیکن بھئ انہوں نے صاف کہہ دیا امتحان میں نمبر نہیں ملیں گے۔
ایک دن استانی صاحبہ نے بلایا اور کہنے لگیں آپ کا بچہ ابھی تک مذکرسے مؤنث اور مؤنث سے مذکر نہیں بنا سکتا۔ ہم نے کہا (دل میں) بس جی یہ تو اللہ کا کرم اور بزرگوں کی دعائیں ہیں کہ ہمارا بچہ ٹرانس جینڈر کے فتنے میں پڑنے سے بچ گیا۔ انہوں نے گھور کے دیکھا اور بولیں میں کہتی ہوں لکھو ’’آپ کیسی ہیں؟‘‘یہ لکھتا ہے ’’آپ کیسے ہیں؟‘‘ہم نے کہا اصل میں ہم حیدرآبادی ہیں ہمارے ہاں جینڈر ڈسکریمینیشن بالکل نہیں ہوتی۔ کوئی خاتون ہوں یا مرد ہم دونوں سے یہی پوچھتے ہیں کہ آپ کیسے ہیں؟ ہم نے کافی کوشش کی ان کو سمجھانے کی کہ فارسی میں بھی مذکر مؤنث نہیں ہوتا مگر پورا ایران ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے خوب ترقی کر رہا ہے ،اور پاکستان اسے لیے ابھی تک ترقی نہیں کر سکا کہ لوگ یہاں لاجک کی بات نہیں سمجھتے۔
جیسے تیسے منے میاں آگے بڑھتے رہے لیکن اردو زبان میں ان کی نت نئی تراکیب میں اضافہ ہوتا گیا۔
اپنے چچا کو خط لکھ کر اپنے امتحانات کی کارکردگی بتانے کا کہا گیا تو منے میاں کچھ یوں رقم طراز ہوئے’’ السلام علیکم چاچو، امید ہے آپ ٹھیک ہوں گے، چاچی کیسے ہیں؟ میرا رپورٹ آیا ہے اور وہ بہت ہی اچھا آیا ہے۔ میرے امی ابو میرے اس انجام پہ بہت خوش ہیں اور مجھے بہت تعریفیں سنا رہے ہیں۔ والسلام ، آپ کا پوتا…. محمد مصطفیٰ زاہدی‘‘۔
جب ہم نے صلاح دی کہ بیٹا ’انجام‘ کے بجائے رزلٹ کو ’نتیجہ‘ لکھ لیتے، تو کہنے لگے۔
’’امی میں گوگل کرا تھا…. رزلٹ کا مطلب انجام ہے اور او لیول کے ایگزامنربھی گوگل کرکے پیپر چیک کریں گے ،میں پاس ہو جاؤں گا‘‘۔
ایک دفعہ چھوٹے منے میاں کے مدرسے سے شکایت آئی کہ وہ جھوٹ بولنے لگے ہیں۔ ہمارے تو تن بدن میں آگ لگ گئی ۔جھوٹ سے ہمیں سخت نفرت ہے۔ پوچھا کہ کس بات پہ جھوٹ بول رہے ہیں تو قاری صاحب کہنے لگے، جب ان سے پوچھو کہ روٹی کھا لی تو یہ صاف مکر جاتے ہیں کہ نہیں کھائی حالانکہ ان کا ناشتے دان خالی ہوتا ہے۔ اب حاشر صاحب یا تو بریانی لے جاتے تھے یا نگٹس ،اور فرائز اور قاری صاحب کے سوال ’’روٹی کھا لی‘‘ کے جواب میں سچ سچ بتا دیتے تھے کہ ’روٹی‘ تو نہیں کھائی۔ اس معاملے میں وہ اتنے سچے ہیں کہ پوری یا پراٹھا بھی کھایا ہو اور آپ پوچھیں کہ روٹی کھالی تو وہ انکار ہی کریں گے۔ قاری صاحب سے درخواست کی کہ آئندہ یوں سوال کر لیا کیجیے کہ ’حاشر آپ نے لنچ کر لیا ؟‘ تو یہ آپ کو سچ سچ بتا دیں گے کہ جی کر لیا۔
حیدرآبادی زبان کی مٹھاس کا اندازہ لگائیں کہ ہماری خالہ کو اگر ایک گلاس پانی چاہئے تو وہ یوں کہیں گی’’روما اماں…. آپ ذرا ہم کو تھوڑا پانی پلا دیتے کیا؟‘‘ویسے بظاہر تو یہ ایک سوال ہے جس میں پانی پلانے یا نہ پلانے کا آپشن دیا گیا ہے لیکن ادائیگی جس کمال کے صوتی اثرات کے ساتھ ہوتی ہے کہ آپ کا دل چاہے پانی کے ساتھ جو کچھ دستیاب ہے سب پلا دیں۔ ویسے اس طرزِ تخاطب کی وجہ سے کچھ دل جلے حیدرآبادیوں کو میٹھی چھری بھی کہتے ہیں۔
ہماری ایک نان حیدرآبادی عزیزہ کو یہ بھی شکایت تھی کہ تم لوگ ہر کام ’بول کے‘ کیوں کرتے ہو؟ یہ اعتراض ہماری سمجھ میں نہیں آیا تو انہوں نے ہماری بات دہرا دی کہ تم کہہ رہی تھیں’ سالن جل نہ جائے بول کے میں چولہا ہلکا کر دی‘اور ’بارش ہو ری بول کے میں کپڑے اندر لے آئی‘۔ہمیں پریشان دیکھ کے انہوں نے اگلی چوٹ کی تمہارے میاں جا رہے ہوں تو تم یہ کیوں کہتی ہو کہ ’انوں جا رے‘۔ہم نے معصومیت سے پوچھا ’آپ کیا کہتی ہیں؟‘ بڑے فخریہ انداز میں انہوں نے بتایا کہ میں تو کہتی ہوں’یہ جا رہے ہیں‘
حیدرآباد دکن کی کچھ خوتین مردانی بات کرتی بھی پائی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پہ خاتون اپنے بارے میں کہیں گی کہ ‘میں جا رہا ہوں ‘۔ایک خاتون نے بتایا کہ وہ شادی سے پہلے اپنے لیے صیغہ مذکر استعمال کیا کرتی تھیں۔ شادی کے بعد ان کے میاں جی بولے کہ اگر آپ آؤں گا جاؤں گا بولیں گے تو میں آؤں گی جاؤں گی بولوں گا ،یوں بے چارے اس کے بعد اپنے لیے صیغہ مونث استعمال کرنے لگے۔
حیدرآبادی گالیوں کی بھی ایک الگ لغت ترتیب دی جا سکتی ہے لیکن زیادہ ثواب ملنے کی امید نہیں اس لیے ہم کچھ ضروری الفاظ کا ہی تذکرہ کریں گے۔ ان الفاظ کے بارے میں اکثر حیدرآبادیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ ان کے استعمال سے گناہ نہیں ہوتا اور کلیجے میں ٹھنڈ ایسی ہی پڑتی جیسی کسی موٹی گالی کے استعمال کی صورت میں حاصل ہوتی ہے۔
اجاڑ صورت :’’آئی وہ اجاڑ صورت کام والی آئی کئی کو نئیں آج؟‘‘ آگے آپ خود سمجھدار ہیں۔
’’بمبڑیاں مارنا: اجی یہ صبح صبح بمبڑیاں کئ کو مار رئے؟‘‘ آپ سمجھ گئے ہوں گے دانت پیس کر کچکچا کے تھورا زور سے چیخنے اور برا بھلا کہنے کو بمبڑیاں مارنا کہتے ہیں۔
ماٹھی ملا : ریختہ ڈکشنری کہتی ہے کہ یہ ایک شائستہ گالی تھی۔ لیکن بزرگ حیدرآبادی خواتین جب پیار بھرے انداز میں کسی کو ماٹھی ملا کہتیں تو ایسا لگتا کہ اپنے بچپن کے کسی دوست کو پکار رہی ہیں۔
پتھرے پڑو: یہ دراصل’’مٹی پاؤ‘‘ کا حیدرآبادی ورژن ہے۔ مٹی سے تسلی نہیں ہوئی تو پتھر بھی ڈال دیے۔
ہؤ : ہاں کو ہؤ بولتے حیدرآبادی لوگاں اور ساتھ میں گردن کو ایک جھٹکے سے دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں ایک ردھم میں ایسا ہلاتے جیسا عام طور پہ لوگ نہیں کی ادائیگی کے لیے کرتے۔ اب آپ سوچتے ہی رہیں کہ ہاں بولے یا نئیں یا ہاں رے ناں ناں…. ففٹی ففٹی۔
جب کہنا ہو کہ ’ایسا ہی ہے‘ تو دکنی لوگ کہیں گے ’ایسا اچ ہے‘ ۔ کمالات تو اور بھی بہت یاد آرہے ہیں لیکن آخرکو ان اچ حیدرآباد یوں میں رہنا ہے بول کے، اللہ حافظ!
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
1 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x