ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

تبصرہ کتب – قیادت کا سفر – ڈاکٹر صائمہ اسما

نام کتاب:قیادت کا سفر
مرتّبہ:روبینہ فرید
صفحات :216، قیمت:۱۰۰۰روپے
شائع کردہ:تدوینِ تاریخ کمیٹی،حلقہ خواتین،جماعت اسلامی پاکستان
ملنے کا پتہ:الفلاح مرکز کراچی،مرکز خواتین منصورہ لاہور
دورِ حاضر میں یہ تصور کہ اسلام بطور دین زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے اور دینِ حق کے طور پہ انسانیت کے دکھوں کا ازالہ کرنے، دنیا کو حق و انصاف پر قائم رکھنے کے لیے بطور نظام اس کا غلبہ ناگزیر ہے، اسلامی تحریکوں کی بنیاد ہے۔ یہ تحریکیں اس وقت دنیا کے ہر خطے میں موجود ہیں اور اپنے اپنے جغرافیائی، تمدنی،اور سیاسی حالات کے مطابق اقامتِ دین کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ یہ جدوجہدایک طرف ذاتی زندگی کو اسلام کے مطابق ڈھالنے، تزکیہِ نفس اور کردار سازی پر مشتمل ہے تو دوسری طرف اجتماعی نظام کو خدائی احکام کے تابع لانے کی کوششیں بھی اس کے دائرے میں شامل ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں اس تصور کی فکری بنیاد سید ابولاعلیٰ مودودیؒ نے فراہم کی جنہیں بیسویں صدی کا مجدد دین کہا جاتا ہے۔
مولانا مودودی نے جماعتِ اسلامی کے قیام کے ساتھ ہی اس کا حلقہ خواتین منظم کرنے کی طرف بھی توجہ کی ۔ بیگم محمودہ مودودی، حمیدہ بیگم، ام زبیر اور نیر بانو وہ ابتدائی خواتین تھیں جنہوں نے اقامتِ دین کے تصور کو سمجھتے ہوئے مولانا کی دعوت پر لبیک کہا، شعوری طور پر دین کو اختیار کیا اور اس دین کی دعوت دوسروں تک پہنچانے کے لیے ایک اجتماعیت کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا ۔ انہی میں بیگم نصر اللہ خان عزیز، بیگم بختاور ملک غلام علی، محترمہ خورشید بیگم اورمحترمہ بنتِ مجتبیٰ مینا سمیت دیگر خواتین شامل تھیں۔
پاکستان بننے کے بعد چند با ہمت خواتین سے آغاز ہونے والی اس تنظیم نے دعوتِ دین کے مشن کو ہر سطح اور ہر معاشرتی طبقے کی خواتین تک پھیلایا اور آنے والے سالوں میں اپنے دروسِ قرآن کے حلقے پورے ملک میں قائم کر دیے ۔ برسہا برس تک پاکستانی معاشرے میں دین کا صحیح اور شرک و بدعات سے پاک تصور پیش کرنے میں حلقہ خواتین کے حلقہ ہائے دروس کا کردار مثالی رہا ہے ۔ یہ سب گھریلو خواتین تھیں جو دعوتِ دین کی خاطر اپنے گھروں سے نکلیں اور گھر گھر جا کر یہ بتایا کہ دین ہماری زندگیوں سے براہ راست جڑا ہوَا ہے ۔ پہلی بار دین’ مولوی ‘کے گھر سے نکلا اور پڑھی لکھی، حالاتِ حاضرہ پر بات کرنے ولی اچھے طبقے میں رہنے بسنے والی خواتین کے منہ سے’ درسِ قرآن ‘ کے ذریعے پتہ چلا کہ قرآن میں دراصل لکھا کیا ہے ۔ اس سے پہلے تک اشرافیہ میں یہ رواج تھا کہ میلاد کی پُر تکلف محفل میں قریبی مدرسے سے وعظ کہنے والی مولوائن کو چند نذرانوں کے عوض بلایا جاتا تھا ۔ یا برکت کے لیے ختم قرآن کی محفل رکھی جاتی تھی ۔ میرے اپنے بہت بچپن کی ایک دھندلی یاد قائم ہے کہ والدہ ایک ایسی ہی محفل میں گئیں اور درسِ قرآن شروع کیا تو چند بیگمات نے ماتھے پر بل ڈالے کہ یہ کیا عجیب انداز ہے، بھلا قرآن کو ایسے بھی پڑھا جاتا ہے!
لہٰذا اگر کہا جائے کہ قیام پاکستان کے بعد پاکستانی معاشرے میں تعلیم یافتہ طبقے کی خواتین کے اندر قرآن کا شعور بیدار کرنے کا آغاز حلقہ خواتین جماعت اسلامی نے کیا تو یہ تاریخی طور پر ایک بالکل درست بات ہو گی ۔ یہ کام سالہا سال سے ہورہا ہے یہاں تک کہ اب ملک بھر کے شہری علاقوں میں شاذ ہی کوئی جگہ ہوگی جہاں رہا ئشی خواتین کو اپنے قر ب و جوار میں حلقہ خواتین کا کوئی حلقہِ درس دستیاب نہ ہو ۔یہ انہی کے کام کا فیض ہے کہ اب دیگر حلقےقرآن کا شعور پھیلا رہے ہیں اور دین کی شعوری تعلیم کا تصور اب بے حد جانا پہچانا بلکہ مقبول عام ہو چکا ہے ۔ البتہ دیہاتی علاقوں کی اکثریت ابھی تک ان اثرات سے محروم ہے جس کی طرف توجہ کی جانی چاہیے ۔
برصغیر پاک و ہند میں حلقہ خواتین جماعت اسلامی خواتین کی پہلی تنظیم تھی جس کے معاملات خواتین ایک دستور کے تحت خود چلاتی تھیں ۔ اسی تنظیمی ڈھانچے پر ماضی قریب میں دیگر مذہبی تنظیموں نے اپنے اپنے خواتین ونگ منظم کیے، مگر اپنے بنیادی نظریے اور مضبوط دستورکے سبب حلقہ خواتین کے کام کی جس قدر مختلف جہتیں تھیں ، دیگر تنظیموں کا اس لحاظ سے کوئی موازنہ نہیں رہا ۔ حلقہ خواتین کے دائرہ کار میں دعوتِ دین کے ساتھ ساتھ ایک پُر امن دستوری جدوجہد کے تحت ریاستی نظام کی تبدیلی بھی شامل تھی، قدرتی آفات اور جنگوں کی صورت میں عوام کی مدد کو پہنچنابھی ضروری تھا، اور فکری و نظریاتی محاذوں پر گمراہی کا مقابلہ کرنا بھی لازم ۔ اپنی بے مثال تنظیم اور سمع و طاعت کے نظام کی وجہ سے کا م جتنا بڑھتا گیا اتنا ہی مستحکم ہؤا ۔ تاہم وقت کے ساتھ مختلف شعبوں میں کام کرنے کی اہمیت محسوس ہوئی اور فلاحِ عامہ و معاشرتی بہبود کے منصوبوں کو اداروں کی شکل میں قائم کر کے اپنے معاملات میں خود مختار بنانے کی پالیسی وضع کی گئی ۔
کتاب ’’قیادت کا سفر‘‘ حلقہ خواتین کےماضی قریب کے دو دہائیوں کے سفر کی داستان ہے۔اس کی مؤلفہ روبینہ فریدصاحبہ ہیں جو تدوین تاریخ جماعت کمیٹی کی نگران ہیں۔کمیٹی کا مقصد ان کے مطابق حلقہ خواتین کی تاریخ کو اس طرح محفوظ کرنا تھاجو فرد کی اس تحریک کے بارے میں آگہی کا باعث بھی ہو اور بعد میں آنے والے اس سے رہنمائی اور آگے بڑھنے کا جذبہ بھی حاصل کر سکیں۔
آج قیام پاکستان کے تقریبا ستر برس بعد اجمالی سا جائزہ لیا جائے تو حلقہ خواتین میں افرادی قوت اور حلقہ ہائے دروس کی تعداد میں کئی گنا اضافہ خوش آئند ہے البتہ مجموعی طور پردعوت کا معاشرتی اثرورسوخ اس تناسب سے نہیں بڑھا ۔ اس کی بے شمار وجوہات سامنے آ سکتی ہیں اور ان پر فرداً فرداً غورو خوض ہونا چاہیئے ۔ گزشتہ بیس برسوں میں ارکانِ جماعت اور مناصب پر فائز افرادکے مجموعی پروفائل کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ارکانِ جماعت وہ ستون ہیں جن پر تحریک کی ساری عمارت کھڑی ہے ۔ انہی میں سے قیادت منتخب یا نامزد ہوتی ہے اور قیاد ت سارے کارواں کو منزل کی طرف لے کر چلتی ہے ۔ سمع و طاعت کا نظام اہلِ کارواں کو خلوص اور تندہی کے ساتھ قیادت کے پیچھے چلنے کے لیے آمادہ و تیار کرتا ہے اور اس کام کو ان کی دینی ذمہ داری کے طور پر ان کے لاشعور کا حصہ بنا دیتا ہے ۔ یہ وہی نمونہ ہے جو ہم نے نبی اکرمﷺ اور ان کے جانثار صحابہ کی زندگیوں میں پایا ہے ۔ مولانا مودودی نے مشن کے مطابق ہی طریقِ کار بھی اختیار کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ انتشار و افتراق اور مناصب کی کھینچا تانی کے جو نفسانی مظاہر ہمیں دوسرے گروہوں میں نظر آتے ہیں ، ایسا ماحول حلقہ خواتین جماعتِ اسلامی میں دکھائی نہیں دیتا ۔
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ نبیﷺ اور ان کے بعد خلافتِ راشدہ میں جس پائے کی قیادت عوامی رائے سے آگے لائی جاتی تھی ، جیسا بے لاگ احتساب خلیفہ کا اپنی ٹیم کی جانب سے ہوتا تھا، جس گہرائی سے معاملات کو دیکھنے اور سوچنے والے قابل لوگ مسلمانوں کے قائد کے گرد جمع ہوتے تھے، ویسا معیار بھی اس نظام سمع و طاعت کا دوسرا نصف ہے جس سے مل کر قیادت کادائرہ مکمل ہوتا ہے ۔ جدید دنیا لیڈر شپ کے جن اسباق تک آج پہنچی ہے، وہ سب اپنی کامل شکل میں قرونِ اولیٰ کی مسلمان قیادت میں پائے جاتے ہیں ۔ یہ نظام پیروکار (followers) بنانے کا نہیں بلکہ لیڈر تیار کرنے کا نظام تھا، اسی لیے ہمیں پیغمبرؐ کےبعد بھی قائدین کی ایک کہکشاں جگمگاتی نظر آتی ہے ۔ اس نظام نے ایسے لیڈر تیار کیے جو پیروی میں یکتا تھے تو ساتھ ہی قائدانہ کردار میں ڈھلنے کے لیے ہر دم تیار رہتے تھے ۔ ان سے بیدار مغز ہونے کی جو توقع تھی وہ اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے جس میں آپ ؐ نےامیر کی جانب سے آگ میں کود جانے کے حکم پر عمل نہ کرنے والوں کو درست قرار دیاتھا ۔معاشرے کے باصلاحیت اور با اثر طبقے کو اپنی صفوں میں شامل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ قیادت ایسی ہو جو اُن کی سطح پر آکر انہیں قائل اور مائل کر سکے ۔ مولانا مودودی نے عوام الناس کی اصلاح کا کام کرنے کے لیے معاشرے کے پڑھے لکھے ، ذہین اور باصلاحیت افراد کو اپنے گرد جمع کیا تھا کیونکہ ان کی اپنی علمی سطح اتنی بلند تھی کہ وہ قوتِ استدلال سے ان کے اذہان کو متاثر کر سکتے تھے ۔
پھر انہوں نے افراد کی علمی و اخلاقی تربیت اور نشونما کی اور مستقبل کی قیادت تیار کی ۔ خواتین میں ان کی اہلیہ بیگم محمودہ مودودی خواتین کی تربیت کا وسیلہ بنیں اور محترمہ حمیدہ بیگم ،محترمہ نیر بانو، محترمہ ام زبیر سمیت کئی ابتدائی خواتین نے براہ راست مولانا سے تربیت کا فیض حاصل کیا ۔ نیر بانو۱۹۴۴ میں رکن بنیں اور مولانا محترم سے خط وکتابت کے ذریعے ان کا مسلسل رابطہ رہا ۔ مولانا انہیں ایک ہی کام کی ترغیب دلاتے رہے کہ پڑھیے، پڑھیے اور خوب پڑھیے ۔ یہ خواتین کے لیے تعلیم کا زمانہ نہیں تھا ۔ بہت کم خواتین ابتدائی تعلیم سے آگے بڑھتی تھیں ۔ ایسے میں حلقہ خواتین کی بانی رکن حمیدہ بیگم عام خواتین سے کہیں زیادہ تعلیم یافتہ تھیں ۔ انہوں نے ۱۹۳۶ میں مفتی فاضل، پھر ایف اے اور۱۹۳۹ میں پنجاب یونیورسٹی سے اعلیٰ پوزیشن کے ساتھ بی اے اور پھر بی ایڈ کیا، ۱۹۴۴ تک تدریسی خدمات انجام دیں ۔ نیر بانو نے میٹرک کے بعد طبیہ کالج دہلی سے طب کا تین سالہ کورس کیا اور کچھ عرصہ درس و تدریس سے وابستہ رہیں ۔ ام زبیر محض پانچ جماعت پڑھی ہوئی تھیں مگر جماعت نے انہیں اتنا نکھارا کہ انہوں نے کئی کتب تخلیق و تصنیف کیں ۔ حمیدہ بیگم نے ان دونوں خواتین، محترمہ رخشندہ کوکب اور ایک اور عالمہ خاتون ،صدرشعبہ علوم اسلامیہ لاہور کالج محترمہ بنت الاسلام کے ساتھ مل کر ماہنامہ بتول اور ادارہ بتول کی بنیاد ڈالی، جس کا مقصد ادب کے ذریعے اعلیٰ اقدار کا فروغ تھا ۔ ان خواتین نے اس وقت کے بڑے بڑے جغادری ادیبوں کے مقابل اپنی ادبی کاوشیں اعتماد سے پیش کیں اور ان کے رسالوں کے مقابل اپنے رسالوں کو عوام الناس میں فروغ دیا ۔ بیگم مودودی اپنے انداز واطوار، زبان و بیان اور رہن سہن کے باعث اس وقت کے اشرافیہ میں دعوت دین کا نہایت مؤثر کام کرتی تھیں ۔
ابتدائی خواتین کی علمی اور سماجی حیثیت کو ان کے معاشرے کے تناظر میں دیکھ کر بخوبی یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مولانا کے نزدیک قیادت کے لوازم کیا تھے ۔ قائد نہ صرف اپنے اخلاق و کردار کی پختگی میں ایک مثال بنتا ہے، وہ اپنی ذہانت اور علمی استعداد میں اپنے ہمعصروں سے آگے ہوتا ہے، بصیرت اور حکمت کی خوبیاں اس میں اضافی ہوتی ہیں جن کے تحت وہ نہ صرف آنے والے وقت کو بہتر طور پر دیکھ سکتا ہے بلکہ اس کی طرف پیش قدمی کرنے کے ذرائع صحیح وقت پر استعمال کرنا بھی جانتا ہے ۔ اپنے حالات اور لوگوں کے رجحانات سے گہری آگاہی رکھتا ہے ۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ’’قیادت کا سفر ‘‘ایک نہایت ضروری دستاویز ہے جو غوروفکر کرنے کا موقع دے رہی ہے کہ یہ تحریک اپنے مقاصد کے اعتبار سےکس معیار کی قیادت فراہم کرسکی۔دروں بینی(introspection)اور گزشتہ بینی(retrospection)آگے بڑھنے کا ناگزیر عنصر ہے جس کے بغیر ترقی ممکن ہی نہیں۔ تنظیمی رویوں کا ماہر جم کولنز لکھتا ہے کہ کامیاب تنظیموں کے زوال کا آغاز کامیابی کے اطمینان سے ہوتا ہے، جب وہ بہترین معیار کو یقینی بنائے بغیراپنے پھیلاؤ کو اہمیت دینے لگتی ہیں؛وہ تخلیقی جوہر جو انہیں یہاں تک لایا تھا،اس کو چھوڑ کر تبدیلی کے لیے مزاحم ہو جاتی ہیں،اور مناصب پر بہترین اہلیت کے لوگ بٹھانے کی صلاحیت کے بغیر بڑھتی اور پھیلتی جاتی ہیں۔
اس کتاب کی اہمیت ایک اور اعتبار سے بھی ہے۔دین کے کام میں ’’نتائج نکلیں یا نہیں،اجر محفوظ ہے‘‘ کا یقین اتنا خوش کن ہے کہ اکثر اوقات ہمیں اس اہم اصول کی غلط تعبیر کی طرف لے جاتا ہے۔دین کے کام میں اللہ کے آگے سخت جوابدہی بھی ہےجو ان دعووں کے مطابق ہوگی جو وژن اور مشن کے طور پہ طے کیے جاتے ہیں۔یہ کتاب اس بات کا ثبوت ہے کہ اس اصول کی غلط تعبیر کو رد اور جائزے کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔
کتاب تین قیمات (سیکرٹری جنرل) سے ان کے ادوار کے بارے میں انٹرویو ز پر مبنی ہے۔مجموعی طور پر بے حد دلچسپ کتاب ہے۔ تینوں محترمات عائشہ منور حسن، ڈاکٹر کوثر فردوس، ڈاکٹر رخسانہ جبین کے انٹرویو ہمہ پہلو اور تفصیلی ہیں۔ سوالات کی کیٹیگریز بہت سوچ سمجھ کربنائی گئی ہیں۔ ان کے تحت مزید تفاصیل ہردور کے حالات کے مطابق پوچھی گئی ہیں جن میں تجزیہ کا پہلو نمایاں ہے۔ جوابات میں بھی مسلسل تجزیاتی اور reflective انداز ساتھ چلتا ہےجو اس متن کی خوبی ہے۔تینوں ادوار میں حلقہ خواتین کے کام اور ملک میں اس کے سیاسی و معاشرتی سٹیٹس کی وہ صورت حال پوری طرح جھلک رہی ہے جو حقیقت میں محسوس کی گئی تھی۔ پہلے دورمیں ایک سادہ اور محدود سٹرکچر کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ہمہ جہتی اور پیچیدہ سیٹ اپ میں ترقی دینا، ایک بڑے وژن کےتقاضوں کے عین مطابق بالکل غیرروایتی طرز پہ کام کا آغاز، ملکی سیاست میں فعالیت اور مین سٹریمنگ، بین الاقوامی فورمز سے مربوط ہونا،عورتوں کے لیے دینی حلقوں کے تئیں کئی نوگوایریاز میں قدم رکھنا۔یہ سب اچھی طرح سمجھ میں آتا ہے۔
دوسرا دور سٹیٹس کو کا ہے۔ ایک بڑے وژن پر جارحانہ ہوتا ہؤا کام اسی نہج پرآگے بڑھنے کی بجائے ایک سطح پر رکتا ہے اور محتاط بلکہ مدافعانہ رنگ اختیار کرتا ہے جو کہ ایک لحاظ سے تنزل کی علامت ہے۔ معاشرے میں عورتوں کی فعالیت اور پبلک رول پر حلقہ خواتین اپنی جرأت مندانہ پالیسیوں کے ساتھ گامزن تو ہے مگر انداز جرأت مندی کی بجائے معذرت خواہانہ سا ہوگیا ہے (ہم کریں گے…کی بجائے…کیا کریں کرنا پڑ رہا ہے،وغیرہ)۔containment کا تاثر جابجا ہے۔ وہ انقلابیت جو پہلے دور میں نظر آتی ہے،دوبارہ سے دین کے لگے بندھے تصور میں سمٹتی اور پناہ لیتی نظر آتی ہے۔
تیسرا دورکسی حد تک رجعت کا ہے۔ ملکی سطح پہ مشکل حالات بہت حد تک گزر چکے تھے مگر اتحادوں کی سیاست نے اثر ڈالاتھا۔ لہٰذا اس دور کے مسائل میں سیاسی اور معاشرتی لحاظ سے گوشہ نشینی ، تخلیقی اپروچ سے تہی دامنی، بے نتیجہ کوششیں، لگے بندھے ضابطوں سے ہٹنے کی جرأت کا فقدان، دین کے تحریکی و مجتہدانہ تصور سےقدرے دوری اور فقہی وخانقاہی سوچ کا غلبہ،یہ سب جھلک رہا ہے ۔ ظاہر ہے اس میں بحیثیت مجموعی مصالحت پسندانہ پالیسیوں ،اور مردانہ نظم کی ترجیحات کا بہت دخل ہے جس کا اندازہ متن سے ہورہا ہے مگر حلقہ خواتین کا اس صورتحال کو محسوس کرنے کے باوجود اپنی تابع نظم کی حیثیت پہ قناعت کرتے رہنا اور کمفرٹ زون میں رہنابھی محسوس ہورہا ہے۔نیزحلقہ خواتین کے اندرونی معاملات کے سدھار کی ضرورت کا احساس اس حصے میں شامل ہے جو خوش آئند ہے ۔ لگی لپٹی کے بغیر سوالات اور جوابات میں ایماندارانہ رائے کا اظہار اس حصے کی سب سے بڑی خوبی ہے۔
میری رائے میں یہی اس کتاب کا مقصد تھا کہ سربراہان سے بات چیت کے ذریعے ان کے ادوار کا ایک پورا تجزیہ سامنے آجائے جو ایک نظر میں پڑھا جائے تو پاکستان میں خواتین کی اس واحد اسلامی تحریک کے دودہائیوں کے سفر کو حسن و قبح سمیت نگاہوں کے سامنے لے آئے۔جیسا کہ روبینہ فرید لکھتی ہیں کہ تاریخ قوموں کا حافظہ ہوتی ہے جس کی بنیاد پر آئندہ کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔اس اعتبار سے تدوینِ تاریخ کمیٹی خصوصاً روبینہ فرید صاحبہ مبارکباد کی مستحق ہیں کہ انہوں نے ایک اہم کام پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے۔
زبان سلیس اور رواں ہے،طباعت اچھی ہے،متن اغلاط سے پاک ہے ، تزئین و ترتیب بہتر ہو سکتی تھی۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x