ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

پل صراط پر – خود انحصاری کا ایک اندازہ یہ بھی ہے ! – افشاں نوید

پچھے چھ ماہ میں میں نے خود انحصاری کا نیا مفہوم جانا ۔ اس کے فائدوں سے میں نے لطف اٹھایا۔
ہمیشہ یونہی ہوتا رہا ہے کہ صبح ہوئی تو ماسی کا انتظار شروع کردیا ۔ ماسی دیر سے آئی توصبر کا پیمانہ لبریز ۔ پہلے اپنی توانائی اس کو صلواتیں سنانے پر خرچ کی، لہجہ تندوتیز ہو تو ذہن الگ مائوف ہوجاتا ہے ۔ ان بے چاری ماسیوں کے دسیوں گھر اور ہر ’’ باجی‘‘ کا الگ الگ مزاج ۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ چونکہ ہم مطلوبہ معاوضہ دیتے ہیں لہٰذا ہماری خدمت پوری ہونی چاہیے ۔
ہم میں کون ایسا ہے جو اپنی کام والی کی کار کردگی سے مطمئن ہو؟ دل عجیب مضطرب سا رہتا ہے کہ کاش اس سے اچھی کام والی مل سکتی۔
یہ بھلا کیا بات ہوئی کہ آدھے دن گھر پھیلا ہؤا بے ترتیب پڑا رہا تب ماسی دوپہرڈھلے ماتھے پردوپٹہ باندھے ’’ پینا ڈول‘‘ طلب کرتی ہوئی کچن میں داخل ہوئی ۔ ادھر ہانڈی چڑھانا دوبھر کہ اتنے پھیلے بے ترتیب کچن میں یہ کیسے ممکن ہو !
اس بے کسی و محتاجی میں ایک عمرگزری ۔ دن کا سب سے بہترین وقت تا عمر ماسیوں کی صحبت میں گزرتا رہا ۔ یہ حقیقت ہے کہ آپ کا وقت جس صحبت میں گزرتا ہے اس کے اثرات آپ کے اوپربہت نمایاں ہوتے ہیں۔
ہماری قریبی عزیزہ عمر کے ساتھ ساتھ تلخ ہوتی جا رہی تھیں ان سے میری اچھی ہم آہنگی تھی ، سو ایک دن پوچھ لیا کہ ’’ بھابھی آپ پریشان سی رہنے لگی ہیں۔ کچھ ذہنی تنائو کا شکار نظر آتی ہیں ‘‘ بولیں!’’ صبح دس بجے سے شام 4 بجے تک ماسیوں کے پیچھے پھرتی ہوں ۔ اب عمرڈھل رہی ہے میری ایڑیاں جواب دینے لگی ہیں ۔ آج تک جوکبھی اچھی ماسی ملی ہو ۔ ابھی تین ماسیاں ہیں میرے پاس ایک سےبڑھ کرایک کام چور اب الجھ الجھ کرمیرے اعصاب جواب دینے لگتے ہیں‘‘۔
ان خدمت گاروں کو ہم مالی معاوضہ ہی نہیں اپنا قیمتی وقت اوربہترین صلاحیتیں بھی ان سے اُلجھ کر ضائع کرتے ہیں۔
یہ سب میں نے جانا جب چھ ماہ کیلی فورنیا میں گزارنے کا موقع ملا ۔ وہ سب کتنے سمجھ دار ہیں خود کو’’ بچاتے ‘‘ ہیں اوراچھی جگہ پر خرچ کرتے ہیں ۔ وہ صبح کا قیمتی وقت اپنی مرضی سے پلان کرتے ہیں ۔ان کو کسی سے الجھنا نہیں ہوتا ۔ ان کی ہر صبح کسی ایسے فرد کے ساتھ نہیں گزرتی جو ان کی ’’ گڈبکس‘‘ میں نہیں ہے۔ وہ اپنا وقت اورمعاوضہ ہی نہیں ذہنی صحت بھی بچاتے ہیں۔
میں نے چھ ماہ میں خود کو بہت صحت مند پایا ۔ میری صبح اس خوف سے آزاد ہوگئی کہ اب ایک ایسا فرد گھر میں آنے والا ہے جس سے میری کشمکش کا آغاز ہونے والا ہے ۔ وہ فرد میری آنکھوںمیں دھول جھونکنا چاہتا ہے ۔ وہ خراب کارکردگی کو اچھابنا کرپیش کرے گا پھر مجھے اس سے الجھنا ہوگا کیونکہ گزرے ہوئے کل ایسا ہوچکا ہے ۔ایسا ہونے کا امکان بہت زیادہ ہے ۔مجھے اپنے دن کا سب سے قیمتی حصہ اس فرد کے ساتھ گزارنا ہوتا ہے جس کے ساتھ میری مثالی ہم آہنگی نہیں ہے ۔ جس کی کارکردگی سے میں کم ہی مطمئن ہو پاتی ہوں ، سچ میں تھک جاتی ہوں جب مجھے اس کے کیے ہوئے کام کودوبارہ اپنے ہاتھوں سے کرنا پڑتا ہے۔
ایک خوف سے باہرنکل کرمجھے سمجھ میں آیا کہ میری زندگی کتنے خوف کا شکار تھی ؟ ہاں وہ خوف ہی توہوتا تھا جب ۔ کپڑے استری کی میز پر رکھتے ہوئے میں سوچا کرتی کہ وہ کتنی ناقص استری کرتی ہے کل بھی مجھے اپنے کپڑے دوبارہ استری کرنا پڑے تھے ۔ دودھ ابل کرچولہے کو خراب کر گیا ۔ مگر مجھے خود ہی یہ صفائی کرنا ہوگی جب کہ دوسروں کی ماسیاں کتنی چاق و چوبند ہوتی ہیں ۔ میرا گندہ فریج میں خود ہی صاف کرتی ہوں جب کہ مسز خان توکہتی ہیں کہ ’’ ان کے کپڑوں کی الماری کو بھی کبھی انہوں نے ہاتھ نہیں لگایا ان کی خدمت گار اتنی چوکس اورپھرتیلی ہے ‘‘۔
ہمیں تیسری دنیا کے شہری ہونے کا بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے معاشی پسماندگی کے سبب ہمارے اطراف خدمت گار انتہائی معمولی معاوضے پر دستیاب ہوتے ہیں اس لیے ہمیں خدمت کی عادت پڑ گئی ہے ایک تن سست آدمی کے ذہنی کبر میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتےہیں ۔اس کی ایک جھلک ہم سماج میں اپنے خدمت گاروں کے ساتھ اپنے رویوں میں دیکھ سکتے ہیں۔
سوال یہ بنتا ہے کہ اس معاشرے میں عورت لازمی ملازمت کرتی ہے اس کے باوجود گھر میں کوئی خدمت گاردستیاب نہیں ہوتا اس لیے کہ مغربی معاشروں میں’’خدمت‘‘ بہت مہنگی ہے اورخدمت گارکی بہت قدر ہے۔اس لیے وہاں سب اپنا کام خود کرتے ہیں۔
ایک خام تصوریہ عام ہے کہ وہاں کام ہوتا ہی کتنا ہے ۔ دھول ، مٹی ہوتی نہیں ہر گھر میں ڈش واشر ہے ۔ ڈسپوزیبل دنیا ہے۔ ملنا ملانا کم ہے۔ پکے ہوئے کھانے اعلیٰ معیارکے دستیاب ہیں ۔فروزن فوڈز کا کلچر ہے وغیرہ۔
حقیقت کچھ اس کے برعکس بھی ہے ۔ چونکہ لیبر مہنگا اور گھر کے ہرفرد کے لیے ملازمت لازم ہے اس لیے انہوں نے ’’ خود انحصاری ‘‘ کی روش اپنائی ہوئی ہے گھرکی ماں اٹھ کرچھ افرادکے پراٹھے نہیں بناتی ۔ مرد کھا پی کر گھر سے نہیں نکل جاتے کہ پیچھے عورتیں سمیٹتی رہیں گی ۔ ہر فرد اپنا کام خود کرتا ہے ۔اگرگھرکا ہرفرد اپنے کھانے کے برتن کوچمچا، پلیٹ اورگلاس خود دھوئے ، اپنے کپڑوں کو ہفتہ وارلانڈری کر لے اور ویک اینڈ کو دیر تک سونے کے بجائے اورچھٹی کا دن سمجھ کر ضائع کرنے کے بجائے سب اہل خانہ مل کر گھر کی صفائی ستھرائی کر سکتے ہیں۔
چونکہ ہمیں ماسیاں میسر ہیں اس لیے ہم اپنے بچوں کو کام کی عادت نہیں ڈالتے ۔گھر میں بہن کی موجودگی میں بھائی کا کچن میں جانا معیوب سمجھا جاتا ہے ۔ بہو کی موجودگی میں بیٹا جھاڑ پونچھ کرلے تو یہ بہو پر ایک الزام کے مترادف ہے۔ گھر میں چار پانچ خواتین ہوں پھر بھی گھر اورکچن پھیلا پڑا رہے گا کہ یہ ماسی کے کام ہیں ! اسی لیے شادی کے بعد سسرال میں لڑکیوں کو مشکلات پیش آتی ہیں کیونکہ اپنے گھروں میں ان کوکام کرنے کی عادت نہیں ہوتی۔ اگر سسرال میں خاندان بڑا ہے یا مہمان داری زیادہ ہوتی ہے تو لڑکی کے گھروالے اس کو ظلم سمجھتے ہیں کیونکہ ہم ’’ پیرنٹنگ‘‘ اس کو سمجھتے ہیں کہ اپنی اولاد کو زیادہ سے زیادہ پیمپر کریں ۔ ہم انہیں سخت جان نہیں بناتے۔ آئندہ زندگی کی مشکلات کے لیے تیار نہیں کرتے ۔ اکثر لڑکیوں کے رشتے اس لیے ٹھکرادیے جاتےہیںکہ اپنے سے زیادہ خوش حال گھرانے کی تلاش ہوتی ہے جہاں بیٹی عیش کی زندگی گزار سکے ۔
بالفرض ہمارے پاکستانی معاشرے میں ایک لائق فائق دین دارنوجوان کا رشتہ مطلوب ہو مگرشرط یہ ہے کہ ان کے گھر میں کام والی نہیں آتی سب اپنے کام خود کرتے ہیں اس لیے بہو کو بھی یہ سہولت میسر نہیں ہو گی۔ آپ ہی جانیں ! کتنے گھرانے یہ سن کر ہی رشتے کومنع کردیں گے کہ سسرال میں بہوئوں کو ماسی بنا کر رکھنا مطلوب ہے ۔ جب کہ ہمارے ہاں عام طور پر خواتین ملازمت نہیں کرتیں اس کے باوجود گھر کے سارے کام خدمت گاروں سے لیے جاتے ہیں ۔
ہمارے سماج میں ان گنت مرد ہوں گے جنہوں نے کبھی اپنی ذاتی لانڈری بھی نہیں کی ہو گی ۔ کبھی اپنے باغیچے کی کانٹ چھانٹ نہیں کی ہو گی ، اپنی گاڑی خود نہیں دھوئی ہو گی ، کبھی کچن میں چولہا نہ جلایا ہوگا۔
ہمارا معاشرہ روایتوں کا اسیرمعاشرہ ہے۔ لڑکی کی تلاش کے وقت بہو کا معیار یہ قرار پاتا ہے کہ اس کو گھرداری آتی ہو ۔ کبھی لڑکی والے اس کا تصوربھی نہیں کر سکتے کہ وہ سوال کریں کہ ہونے والے داماد کو بھی گھر داری آتی ہے یا نہیں ؟ حالانکہ نکمے اورسست مردوں کی بیویاں جودکھ اٹھاتی ہیں وہی جانتی ہیں ۔
ہم جس دین سے تعلق رکھتے ہیں اس میں توگھر کے کام کاج اپنے ہاتھوں سے کرنا سنت مطہرہ ؐ ہے ۔ ہم میں سے کس کو نہیں معلوم کہ آپؐ اپنے جوتے خود گانٹھ لیتے تھے ، اپنی بکری کا دودھ خود دوھولیتے تھے ۔ غزوہ خندق کے موقع پرجب صحابہ کرام خندق کھود رہےتھے تو ایک پتھر ایسا سخت تھا کہ کسی ضرب سے نہ ٹوتا تھا ۔ آپ ؐ نے پوری قوت سے ضرب لگائی وہ ٹوٹ گیا ۔ آپ ؐ نے ایک جفا کش زندگی گزار کر امت کو یہ پیغام دیا ہے کہ دنیا پرغلبہ کا معرکہ درپیش ہو تب بھی گھرکے کاموں میں اہل خانہ کی مدد کرنا چاہیے۔ آپ ؐ کی ازواجِ مطہراتؓ سے ہمیں کوئی روایت نہیں ملتی کہ آپ ؐ خدمت کرانا پسند کرتے ہوں۔ روایات یہی ملتی ہیں کہ آپؐ اپنا کام خود کرنا پسند کرتے تھے ۔ ہم اس سنت مطہرہ ؐ سے کتنی دور نکل آئے !
ہمیں اپنے معاشرے میں کتنے درد ناک واقعات سننے کوملتے ہیں کہ خاتونِ خانہ نے کام والی کے ساتھ ایسا درد ناک سلوک کیا کہ کہیں وہ زخمی ہوئی اورکہیں کم سن ملازمہ زندگی کی بازی ہی ہار بیٹھی ۔چونکہ ہمارے پاس فراغت ہوتی ہےخواتین واک کرتی ہیں نہ جم جاتی ہیں صاحبِ ثروت گھرانوںکی خواتین کا اہم مشغلہ شاپنگ ہوتی ہے۔ جولوگ جسمانی طور پر متحرک نہیں ہوتےوہ زیادہ اسٹریس کا شکار ہوتے ہیں۔
مجھے گائوں دیہاتوں کی عورتوں کی زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا وہ اتنی سخت جان ہوتی ہیں جس کا ہم شہری زندگی سے مانوس لوگ تصوربھی نہیں کر سکتے ۔دودھ دوہنے سے لے کر اناج پیسنے تک کا کام وہ گھر میں کرتی ہیں ۔ پھر کڑھائی ، سلائی اور رسی بنانے میں بھی مہارت رکھتی ہیں ۔وہاں کے مرد بھی سخت جان ہوتے ہیں ۔ کنویں سے پانی لانے، جانوروں کی نگہداشت سے لے کرفصلوں کی کٹائی تک کے جملہ امورانہیں جسمانی طور پرچاق و چوبندرکھتے ہیں۔
چترال کے ایک سفرکے دوران میں نے ڈرائیور سے پوچھا کہ پہاڑوں کی اتنی بلندی پر لوگ ہیں وہاں توطبی سہولتوں کے ادارے نہیں توان کوہسپتال لے جانا کتنا دشوارہوتا ہوگا وہ یہ سن کر مسکراکربولا :’’ یہاں لوگ بیمار ہی نہیں پڑتے الحمد للہ اتنے سخت جان لوگ ہیں رات دن ان پہاڑوں پرچڑھتے اترتے ہیں ‘‘۔
المختصر یہ کہ اللہ نے وسائل دیے ہیں بڑے گھر اور پھیلے ہوئے کام ہیں خدمت گار ضروررکھیں مگرخود کوان کا محتاج نہ کریں اورکوشش کریں کہ اپنے ذاتی کام اپنے ہاتھ کرکے خود کومحتاجی سے بچائیں۔ خدمت گارہمارے ہیلپر ہونے چاہئیں نا کہ ہم ان کے محتاج ہو جائیں کہ خدمت گار کے بغیرزندگی کا تصور ہی محال ہوجائے ۔
اللہ رب کریم آپ کو ہر محتاجی سے بچائے اورصرف اپنا محتاج رکھے ،آمین۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
1 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x