ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

صحت کہانی – امتحان – ڈاکٹر زاہدہ ثقلین

گھر میں عجیب سی بے چینی پھیلی ہوئی تھی سب اپنی اپنی جگہ پریشان اور سوچوںمیں گُم تھے ، ’’ بھلا ڈاکٹر نے یہ کیوںکہا ؟‘‘
’’ یہ کینسر کے مریضوںوالا انجکشن ہم کیوںلگوائیں ؟‘‘
’’ نمرہ کوکینسر تو نہیں‘‘۔
’’ اس سے زیادہ نقصان ہو گیا تو…‘‘
’’ کسی اورسے مشورہ کر لینا چاہیے….‘‘
’’فلاں کہہ رہی تھی….‘‘
’’فلاں کےساتھ یہ ہؤا ….‘‘
’’ ڈاکٹر تو یونہی ڈرا کررکھ دیتے ہیں‘‘
’’ اللہ خیر کرے گا ‘‘
اسی شش و پنج میں مزید کچھ دن گزرگئے اور پھر وہی ہؤا جس کا ڈر تھا ۔ اور وہ نمرہ کو ہسپتال لے کر بھاگے۔
کچھ روزقبل کی بات تھی۔
’’ بھابھی لگتا ہے دوبارہ good newsہے‘‘ فرح نے نمرہ کی اُتری ہوئی صورت اورکھانے سے عدم دلچسپی سے نتیجہ اخذ کیا ۔
نمرہ مسکرادی’’ صحیح کہہ رہی ہو، کل ہی ٹیسٹ کیا ہے ، پازیٹو (مثبت) ہے ‘‘ اس نے دیورانی کے شک کی تصدیق کی ۔
’’ ڈاکٹر کے پاس کب جانا ہے ؟‘‘
’’ اب اتنی تو تجربہ کار ہو گئی ہوں، خود ہی فولک ایسڈ یک گولی کھانا شروع کردی ہےاگلے ماہ ہی چیک کرائوں گی ‘‘ نمرہ مسکرائی۔
’’ شکر ہے آپ کے تینوںبچوں کی بار کوئی پیچیدگی نہیں ہوئی ۔ اللہ اب بھی کرم کرے گا ۔میرےلیے بھی دعاکیجیے گا ‘‘۔
’’ جزاک اللہ فرح ، اللہ تمھارے بیٹے کو بھی جلد بھائی یا بہنا دے دے ‘‘۔
’’ آمین ‘‘ فرح نے کہا اور ناشتے کے برتن سمیٹنے لگی ۔ ان کے شوہر اوربچے سکول جا چکے تھے ۔ اور اب دونوں نے مل کر ناشتہ کیا تھا ۔ ’’ بھابھی آپ آرام کریں ۔ امی جی کوناشتہ میںدے دیتی ہوں ‘‘ فرح نے اپنی ساس کے حوالے سےکہا تو نمرہ شکر گزاری کے تاثرات لیے اٹھ کھڑی ہوئی ۔
فرح نے ناشتے کے ساتھ نئی خبر بھی ساس کے گوش گزار کی اور انہوںنے نمرہ اوراسے ڈھیروںدعائیںدے ڈالیں۔
٭
دو دن بعد ہی نمرہ کو پیٹ کے نچلے حصے میں درد اورخون آنے کی شکایت ہوئی ۔ اسی شام شوہرکے ساتھ ڈاکٹر کے پاس پہنچی انہوں نے تسلی سے معائنہ کیا اور گویا ہوئیں ۔’’ دیکھیںابھی توالٹرا سائونڈ پر حمل کے کوئی آثار نہیں ہیں یا تو ابھی بہت تھوڑے دن کا حمل ہے کہ ظاہر نہیں ہو رہا یا پھر ضائع ہو گیا ہے ‘‘۔
’’ لیکن مجھے وقفے وقفے سے درد اٹھتا ہے‘‘ نمرہ نے شکایت کی۔
’’ آپ یہ دوا استعمال کریںاورکچھ دن بعد دوبارہ چیک کروائیں ‘‘۔
’’ جی بہتر ‘‘۔
دوا کھانے سے کچھ دیر کو آرام آجاتا مگر پھر وہی علامات ظاہر ہوتیں ، متلی بھی بہت ہو رہی تھی ۔ چوتھے روز وہ دوبارہ ڈاکٹر کے سامنے موجود تھی ۔ الٹرا سائونڈ رپورٹ میں ابھی بھی کچھ واضح نہیں تھا۔
’’ ڈاکٹر صاحبہ اگر حمل ضائع ہو گیا ہے تو میری طبیعت کیوں نہیں ٹھیک ہو رہی؟‘‘
’’ نمرہ میں نے دو امکانات کاذکر کیا تھا ایک یہ کہ ابھی حمل الٹرا سائونڈ پرظاہر نہیں ہو رہا صرف پیشاب ٹیسٹ کے ذریعے کنفرم ہؤا ہے اور دوسرا یہ کہ حمل ضائع ہو گیا ہے ۔ آپ کی حالت دیکھ کر محسوس ہو رہاہے کہ حمل ضائع نہیںہؤا مگر بچہ دانی خالی ہے ‘‘ ۔
’’ اس کا کیا مطلب ہؤا ؟ حمل کہا ں ٹھہرا؟‘‘
’’ہزار میں سے 11خواتین میں یہ خطرہ ہوتا ہے کہ حمل بچہ دانی کے علاوہ کسی جگہ ٹھہر جائے اورنمو پائے جیسے ٹیوب، انڈا دانی ، آنتو ں کے درمیان۔ اسے ectopic pregnancyکہتے ہیں‘‘ ڈاکٹرنے سمجھایا ۔
نمرہ حیرت سے ان کی بات سن رہی تھی ۔ ایسی بات نہ کبھی پڑھی نہ سنی ۔
’’ کیامجھے ectopic pregnancyہے؟‘‘
’’ابھی کنفرم نہیں ہے کیونکہ الٹراسائونڈ پر مجھے کہیںبھی حمل نظر نہیں آیا ‘‘
’’ اب کیا ہوگا ؟‘‘
’’ آپ دو کام کریں ۔ ایک یہ خون کاٹیسٹ کروائیںاور دوسرے الٹرا سائونڈ سپیشلسٹ سے الٹرا سائونڈ کروا کر دکھائیں ‘‘ ڈاکٹر نے نسخہ اس کی طرف بڑھایا ۔
’’ ڈاکٹر صاحبہ زیادہ خطرے والی بات تو نہیں ؟‘‘
’’ اللہ خیر کرے گا ، آپ تسلی رکھیے یہ رپورٹس کروا لائیں پھر ہی صورتحال واضح ہوگی ‘‘۔
٭
رپورٹس ڈاکٹر صاحبہ کے سامنے دھری تھیں اورنمرہ بے چینی سے ان کے چہرے کوتک رہی تھی۔
’’ ان رپورٹس کے مطابق حمل توہے مگر ابھی بھی الٹرا سائونڈ پرواضح نہیں ہؤا کہ کہاں ہے ؟‘‘
’’ اب کیا ہوگا ؟‘‘
’’ گھبرانے کی بات نہیں ، خون کے ٹیسٹ کی رپورٹ میںابھی حمل زیادہ دن کا نہیں ہے Ectopic pregnancyخود بخود بھی ختم ہوجاتی ہے یا دوائی کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے ‘‘۔
’’ خود بخود کتنے دن میں ختم ہو جائے گی ؟‘‘
’’بالکل صحیح وقت تونہیںبتاسکتی ۔ یہ جوخون کا ٹیسٹ کروایا ہے (B-ncg)اس کوپہلے ٹیسٹ کے 48گھنٹوںکے بعد دوبارہ کروا ئیں ۔ہر 48گھنٹوںکےبعد یہ کرواتے رہیں گے ۔ اگر اس میںلیول کم ہونا شروع ہوگیا تواس کا مطلب ہے حمل ختم ہو رہا ہے ، اگر بڑھتا رہا توخطرے کی علامت ہے ‘‘۔
’’ جی اچھا ‘‘۔
’’ اورایک ہفتے بعد دوبارہ الٹرا سائونڈ بھی کروا لیں ۔شاید پتہ چل جائے کہ حمل کہاں ہے ‘‘۔
نمرہ نے گھر آکر ڈاکٹرکی ہدایات من و عن ساس کو بتائیں ۔ انہوںنے اپنی گھبراہٹ کوچھپاتے ہوئے نمرہ کوتسلی دی ۔’’ تم ڈاکٹر کی بات پر عمل کرو ، اللہ بہتری کرنے والا ہے، پریشان نہ ہو ‘‘۔ ان کی باتوںسے نمرہ کی ڈھارس بندھی ،’’ امی جی کسی اورڈاکٹر سے مشورہ لے لوں‘‘۔
’’ بیٹی یہ ڈاکٹر بھی بہت اچھی ہیں ، اتنی تجربہ کار، پہلے بھی تو ہر حمل میں انہی کوچیک کرواتی رہی ہو ، کبھی کوئی شکایت نہیںہوئی میرا تومشورہ ہے کہ کسی اور کے پاس نہ جائو ‘‘۔
’’ جی بہترجیسے آپ کہیں ‘‘۔
48 گھنٹوں کے وقفے سے خون کا ٹیسٹ کروا لیاگیا اورالٹرا سائونڈ کے ڈاکٹر نے بھی خبر سنائی کہ دائیں ٹیوب میں حمل ٹھہرا ہے۔ وہ دوبارہ مشورہ کے لیے اپنی ڈاکٹرکے پاس پہنچی ۔ انہوںنے ترتیب وار خون کے ٹیسٹ کی رپورٹس دیکھیں اورگویا ہوئیں ۔
’’ آپ نے خود بھی دیکھا ہو گا کہ Bncgکی رپورٹ میں اس کی سطح بلند ہو رہی ہے مگر ابھی بھی خطرے کی حد سے کم ہی ہے اور الٹرا سائونڈ پربھی حمل ٹیوب میں تو ہے مگر اس کا سائز بھی کم ہے اور ابھی بچے کی دھڑکن بھی نہیں آئی ‘‘۔
’’ کیا یہ بچہ ٹیوب میں ہی پروان نہیںچڑھ سکتا ؟‘‘
’’ ٹیوب کی چوڑائی بہت کم ہوتی ہے اوراس کی دیوار بھی نازک سی ۔ آٹھ نو ہفتے کا حمل تو اس میں بآسانی سما سکتا ہے مگراس کے بعد بچہ بڑھتا ہے تو ٹیوب پھٹ جاتی ہے جس سے ماں کے پیٹ میںخون کا اتنا اخراج ہوتا ہے کہ اگر فوری اقدام نہ کیا جائے تو ماں کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے ‘‘ نمرہ دہل گئی۔
’’ کیا کسی دوائی سے اس کا علاج نہیں ہو سکتا؟‘‘
’’ جی ایک علاج ہے تو سہی ‘‘ ڈاکٹر بولیں ۔
’’ پٹھوں میں ایک انجکشن لگایا جاتا ہے جس سے حمل ٹیوب ہی میں ختم ہوجاتا ہے ‘‘۔
’’ یہی لگا دیں ‘‘ نمرہ فوراً بولی۔
’’ یہ ذہن میں رکھیں کہ یہ کوئی عام انجکشن نہیں ۔ یہ کینسر کے مریضوں کو لگایا جاتا ہے اورظاہر ہے اس کے سائیڈ ایفیکٹ بھی ہوتے ہیں۔انجکشن لگانے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی آپ کے خون کے ٹیسٹ کروائے جائیں گے ‘‘۔
’’ مگر نمرہ کوکینسر تو نہیں ‘‘نمرہ کے شوہر نے بے چینی سے پہلو بدلا ۔ نمرہ بھی پریشان ہو گئی ۔
’’ جی کینسر تو نہیں مگر ایک دوائی مختلف بیماریوںمیں استعمال ہو سکتی ہے ‘‘۔
’’ دوسرا حل یہ ہے کہ آپریشن کے ذریعے ٹیوب میں موجود حمل کو نکال دیا جائے ۔ اس کے لیے آپ کو داخل ہونا پڑے گا ۔ بے ہوشی دی جائے گی پھر لیپرو سکوپی ہوگی ‘‘۔
’’ یعنی آپریشن ہوگا ‘‘۔
’’ کر سکتے ہیں ، آپ کے پیٹ میں ننھے سے تین سوراخ ہو ں گے جن سے کیمرہ اور اوزار پیٹ میں جائیں گے کیمرے کی رہنمائی میں باقی کام ہوگا ‘‘۔
آپریشن کے نام سے ہی نمرہ پریشان ہو گئی ۔ پہلے کبھی آپریشن نہیںہؤا تھا تینوں بچے بھی نارمل ہی ہوئے وہ اُٹھ کھڑی ہوئی ، ’’ ڈاکٹر صاحبہ ہم آپ کومشورہ کر کے بتائیں گے ‘‘۔
’’ ٹھیک ہے ۔ مگر ذرا جلد فیصلہ کر لیجے گا ‘‘۔
گھر میں عجیب سی بے چینی پھیلی ہوئی تھی ۔ سب اپنی اپنی جگہ پریشان اور سوچوںمیں گم تھے ۔
’’ یہ کینسر کے مریضوں والا انجکشن….
فائدہ!
نقصان!
Side effect
آپریشن !
خطرہ!
نمرہ کی تو بھوک پیاس ہی ختم ہو گئی تھی ۔ اس دن وہ صبح باورچی خانے میں آئی توچکرا کر گر گئی ۔فرح نے بڑھ کر سنبھالا اور شور مچایا ۔ نعیم (نمرہ کا شوہر ) بھاگا آیا ، اس کوبستر پر لٹایا ، شور کی آواز پر سب نمرہ کے گرد اکٹھے ہو گئے ۔ فرح پانی میں گلو کوز گھول کرلائی اور گھونٹ گھونٹ نمرہ کو پلانے لگی ، ’’ میں ٹھیک ہوںبس چکر آگیا تھا ‘‘۔
’’ کچھ کھاتی پیتی بھی تو نہیں ہو، فکریں ذہن پر سوار کی ہوئی ہیں‘‘ ساس نے ڈپٹا پھر بیٹے کی طرف متوجہ ہوئیں ’’ نعیم ، ابھی ڈاکٹر کے پاس لے جائو اوروہ جو کیمرے والا آپریشن کہہ رہی تھیں وہ کروا لو ، اتنے دن سے فیصلہ ہی نہیں کر پارہے ۔
’’ جی ۔ امی جی ‘‘ وہ خود بھی گھبراگیا تھا ۔
’’ مجھے درد ہو رہا ہے ‘‘ نمرہ نے تڑپ کرکروٹ لی۔
’’ یہ درد کی گولی کھا لو پھر چلتے ہیں‘‘ نعیم نے دراز سے گولی نکالی جو حمل کے ابتدا میں ڈاکٹر نے درد کے لیے دی تھی ۔
’’ جلدی چلونعیم دیکھو تو بچی کا رنگ پیلا پڑ گیا ہے ‘‘ ساس نے تاکید کی ،’’ شاید بلڈ پریشر لو ہو رہا ہے ‘‘ گویا اپنے آپ کوتسلی دی ۔
ہسپتال پہنچنے تک نمرہ کا یہ حال تھا کہ لگتا تھا جسم سے خون نچڑ گیا ہے ۔ ڈاکٹر اسے دیکھتے ہی اُٹھ کھڑی ہوئیں ۔
’’ مجھے لگتا ہے ٹیوب پھٹ گئی ہے ‘‘ ، الٹرا سائونڈ سے ان کے خدشے کی تصدیق ہوئی ۔ پیٹ میں خون جمع ہو رہا تھا ۔ نمرہ کو فوراً آپریشن تھیڑ لے جایا گیا ان سے آپریشن کے اجازت نامہ پردستخط لیے گئے اور یہ بھی بتایا کہ مریضہ کی حالت کے پیش نظر اب لیپرو سکوپی ممکن نہیں ۔ پیٹ کاٹ کر آپریشن کیا جائے گا ۔ جی ، جی جیسے بھی کریں ۔ میری بیوی کو بچا لیں ‘‘ نعیم کی حالت خراب تھی چھوٹے بھائی سلیم نے اس کو تسلی دی اور انتظار گاہ میں بٹھا دیا۔
نمرہ کا خون کا گروپ کیا ہے ؟ ‘‘ نرس نے پوچھا ۔
’’بی نیگیٹو‘‘ نعیم فوراً اُٹھ کھڑا ہؤا۔
’’ خون کی بوتل کا جلد انتظام کریں ‘‘۔
’’ میرا بی پازیٹو ہے ، کیا اسے لگ جائے گا ؟‘نعیم بےتاب ہؤا۔
’’ نہیں ۔بی نیگٹیو یااو نیگیٹو لگ سکتا ہے ‘‘۔
’’ بھائی آپ بیٹھیں ‘‘ سلیم نے اسے تھاما ،’’ میرا او نیگیٹو ہے ، میں بلڈ بنک جاتا ہوں ، اپنے دوستوں سے بھی پتہ کرتا ہوں ‘‘۔
٭
نمرہ کو کمرے میںشفٹ کردیاگیا ۔ پھٹی ہوئی ٹیوب کو نکال دیا تھا جس سے پیٹ میں جاری خون کا اخراج رک گیا ۔ مگر تقریباً اڑھائی لیٹر خون ضائع ہوچکا تھا ۔ سلیم کا دیا گیا خون لگ گیا تھا ۔ مزید چار افراد آ چکے تھے جن میں نمرہ کابھائی بھی شامل تھا۔
’’ مریضہ اب بہتر ہیں ، پریشانی کی کوئی بات نہیں ‘‘ ڈاکٹر نے نعیم کوتسلی دی ۔
’’ بہت شکر یہ ڈاکٹر صاحبہ ‘‘۔
’’ اندرونی Bleeding کی وجہ سے Hb بہت کم ہو گئی ہے ۔ مزید تین بوتلیں خون لگوا لیں ‘‘۔
’’ جی ابھی انتظام ہو جائے گا ان شاء اللہ ‘‘
آپ کو تو علم ہوگا کہ نمرہ کوبچوں کی پیدائش کے بعد anti-Dکا انجکشن لگتا تھا ؟‘‘
’’ جی تینوں بچوں کے بعد لگا تھا ‘‘۔
٭
’’ وہی انجکشن اب بھی لگے گا ‘‘۔
’’ جی ٹھیک ہے میں لے آتا ہوں‘‘۔
دو دن بعد نمرہ ہسپتال سے گھر منتقل ہو گئی۔ ساس نے خوب صدقہ دیا ، فرح نے بھی بہت خیال رکھا۔
’’ شکرہے مصیبت ٹلی ‘‘ نعیم نے اطمینان کا سانس لیا۔
’’ نہ میرے بچے ‘‘ ماں نے ٹوکا ،’’ ایسے نہیں کہتے ، یہ تو اللہ کی طرف سے امتحان تھا ۔ مومن کے لیے تو ہر حال میں خیر ہے مشکل آئے تو صبر کرتا ہے ، آسانی ملے تو شکرکرتا ہے ‘‘۔
’’ جی امی جی ‘‘ آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں ۔’’ نعیم شرمندہ ہوا ’’ اللہ جی آپ کا بے حد شکریہ کہ آپ نے نمرہ کو صحت دی اور ہمیں اتنی اچھی امی جی دیں ۔‘‘
اس کے انداز پر سب ہنس دیے۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
2 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x