ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

محشر خیال – بتول نومبر۲۰۲۰

پروفیسر خواجہ مسعود ۔ راولپنڈی
’’ چمن بتول‘‘ کا اکتوبر 2020ء کا شمارہ سامنے ہے ۔ سب سے پہلے تو ٹائٹل پر نظر پڑی لالہ زار ساسر سبز میدان ، گلابی ، سفید اور پیلے دلکش پھولوں سے مزیّن ٹائٹل دل و نگاہ کو ایک تازگی اور فرحت بخش گیا ۔
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ مدیرہ محترمہ صائمہ اسما کا فکر انگیز اداریہ حالیہ عرصہ میں پیش آنے والے تمام اہم موضوعات اور مسائل کا احاطہ کیے ہوئے ہے ۔آپ نے ایک بار پھر ’کرونا‘ جیسی مہلک وبا سے ہمیں خبر دار کیا ہے کہ احتیاط کا دامن ہمیں نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ایف اے ٹی ایف بل کی بعض افسوسناک شقوں کی بھی آپ نے خوب نشاندہی کی ہے ۔ ایک اسلامی ملک میں ایسے قوانین کو سوچ سمجھ کر نافذ کرنا چاہیے۔
موٹروے پر پیش آنے والے دلخراش سانحہ پر بھی آپ نے جو تبصرہ کیا ہے وہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے ۔ آپ کے یہ جملے زبردست ہیں ’’ ایک مشہور حدیث کے مطابق معاشرہ تب محفوظ سمجھا جا سکتا ہے جب وہ ایک اکیلی عورت کے لیے بھی محفوظ ہو… ہم مسلمان ضرور ہیں مگر اسلامی اخلاقیات ہمارے مجموعی نظام کا حصہ نہیں بن سکی ‘‘۔ آپ نے میڈیا کو بھی احتیاط کا دامن تھامنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
’’ اللہ سے مغفرت مانگنا‘‘ ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحبہ کا خوبصورت ایمان افروز مضمون ہے ۔ آپ نے یہ جملے بڑے خوبصورت لکھے ہیں ’’استغفار شیطان اور اس کی فوج کے خلاف مومن کا ہتھیار ہے ۔ استغفار کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں اور رحمتوں کے دروازے کھولتا ہے ۔ استغفار کرنے والے کو اللہ تعالیٰ ہر غم سے نجات دیتا ہے اور رزق اور مال و اولاد سے نوازتا ہے‘‘ ۔
’’رسولؐ اللہ کی نماز‘‘ ڈاکٹر محمد عبد الحئی اس مضمون میں ڈاکٹر صاحب نے نماز کی اہمیت بخوبی واضح کی ہے اور نمازوں کے اوقات بھی اچھی طرح سمجھائے گئے ہیں ۔ صحیح انداز میں نماز پڑھنے کے طریقے بھی سمجھائے گئے ہیں جو رسولؐ پاک کی سنت ہیں ۔
’’ حجاب کا رحجان اور پاکستانی عورت‘‘ محترمہ صائمہ اسما کا حجاب کے موضوع پر ایک نہایت جامع مضمون ہے آپ نے واضح کیا ہے کہ 9/11کے بعد دیگر اسلامی ممالک کی طرح پاکستانی خواتین میں بھی حجاب کا رحجان بڑھا ہے ، جنرل مشرف کے دور میں پاکستان میں جدیدیت اور لبرل ازم کو دلکش بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ان دگر گوں حالات میں بھی پاکستانی خواتین میں مذہب کی جانب رحجان بڑھا یہ جملہ بطور خاص اہم ہے ’’ حکومتی سطح پر اسلام ، اسلام کا شور بہت مچایا جاتا ہے مگر اسلام کی خوبصورتی سے استفادہ کرنے کے لیے اس کو اجتماعی نظام کا حصہ بنانے پر کوئی پیش رفت نہیں کی جاتی ‘‘۔
نعت رسول ؐ مقبول ( عشرت گورداسپوری ) کے پیارے اشعار

مل گئی بے کسوں کو نئی زندگی
چھا گئی روشنی ، چھٹ گئی تیرگی
آئی پھولوں کے چہروں پہ اک تازگی

آپ سے رونما ہو گیا گلستان … آپ کی ذات پر ہو کروڑوں سلام

حبیب الرحمن صاحب کی خوبصورت غزل سے دو منتخب اشعار
چل دیا بزم سے یوں سر کو جھکائے ہوئے کیوں
اپنی آنکھوں میں کوئی اشک چھپائے ہوئے کیوں
چھوڑ جانے کا ترا فیصلہ خود کا ہے تو پھر
تیری آنکھوں میں یہ بادل سے ہیں چھائے ہوئے کیوں

اسی انداز کا عابد علی عابد کا ایک پیارا شعر:

وقت رخصت وہ چپ رہے عابدؔ
آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل

آمنہ رمیصا زاہدی کی چھوٹے بحر کی غزل سے منتخب پیارے اشعار

ان کی مرقد کے کچھ فقیروں نے
دل کی دنیا میں سروری کی ہے
یہ سرور اور نور کی برسات
کیفیت اب بھی حاضری کی ہے

’’ میرے گھر کو بنا دو گھر دوبارہ ‘‘(عشرت زاہد)۔
ایک خاتون خانہ جس کا شوہر بے حد مصروف رہتا ہے اور اپنی بیوی بچوں اور گھر کی طرف بالکل توجہ نہیں دے سکتا اس خاتون کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہوئی ایک خوبصورت نظم ۔

سنو تم چھوڑ دو سب کچھ خدارا
کہ ہم کم میںبھی کرلیں گے گزارا
ذرا سا وقت ہی مانگا ہے تم سے
میرے گھر کو بنا دو گھر دوبارہ

’’ مضطرب روح کو ایک گھر مل گیا ( ڈاکٹر میمونہ حمزہ)کے بے چین اور بے قرار روح کو چین ملا بھی تو کہاں ، اسلام کے وسیع دامن میں ۔ ایک مسلمان ہو جانے والی خاتون کا خوبصورت تذکرہ ، ڈاکٹر صاحبہ نے نہایت دلچسپ انداز میں اس نو مسلم خاتون کی زندگی کی ساری جدوجہد کا تذکرہ کیا ہے کہ کس طرح بالآخر اُسے اسلام کے اندر سکون اور روشنی حاصل ہوتی ہے ۔
’’ بند مٹھی میں ریت ‘‘ قانتہ رابعہ صاحبہ کی ایک خوبصورت کہانی ہے ۔ ہم کسی کے ساتھ نیکی کریں تو وہ کبھی رائیگاں نہیں جاتی ۔ ایک دل کو چھوتی ہوئی کہانی جسے پڑھ کر آنکھیں بھیگ گئیں۔
’’ سر پرائز‘‘ فرحی نعیم صاحبہ نے ایک اچھی سرپرائز دینے والی کہانی لکھی ہے ۔ عموماً لڑکا لڑکی ملتے ہیں تو ان کے درمیان محبت کا رشتہ استوار ہوتا ہے ، ردوستی ہوتی ہے لیکن اس کہانی میں جدت ہے کہ لڑکا اپنی کلاس فیلو نو مسلم لڑکی کو اپنی بہن بنا لیتا ہے ۔ ایک اچھے جذبے کا اظہار ہے ۔
’’ میری اماں‘‘ (فریدہ عظیم ) ماں کی محبت میں گندھی ہوئی ایک پیاری کہانی ۔ ماں کے لیے بچے واقعی جگر کا ٹکرا ہوتے ہیں ماں کی ڈانٹ ڈپٹ بھی بچوں کی اصلاح ک یلیے ہوتی ہے ۔ ماں بچوں کے لیے ایک ٹھنڈی چھائوں ہوتی ہے ۔
’’ انعام‘‘(شہلا ظفر ) سبق آموز کہانی جو سکھاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ پر پختہ ایمان میں ہماری سب مشکلوں کا حل ہے ، اللہ اپنے بندوں کو ضرور نوازتا ہے۔
’’ سعودی عرب میں رہنے کا تجربہ‘‘ ( ڈاکٹر فائقہ اویس) سعودی عرب کے موسموں کا حال بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ عام لوگ سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب میں ہر جگہ سخت گرمی پڑتی ہے حالانکہ سعودی عرب کا ایک مقام ابہاء ہے جہاں سردیوں میں برف بھی پڑتی ہے۔ طائف کا موسم گرمیوںمیں بھی خوشگوار ہوتا ہے۔سعودی عرب میں میڈیکل کی سہولتیں بڑی اچھی ہیں ۔ سعودی لوگ سیرو تفریح کے بھی بے حد شوقین ہیں۔اب تو خواتین بھی ڈرائیو کرسکتی ہیں ۔ سعودی عرب کے بارے میں دلچسپ معلومات کا یہ سلسلہ جاری ہے ۔
’’ بے بسی‘‘ (ذروہ احسن ) واقعی شگفتہ تحریر ہے ۔ ہلکے پھلکے انداز میں سمجھایا گیا ہے کہ شادی میں ماں باپ اور بزرگوں کی رضا مندی ہونی چاہیے اگر صرف اپنی پسند کی شادی کریں گے تو بعد میں پریشانیاں بھی جنم لے سکتی ہیں۔
’’ ناول نگاری کی آواز ‘‘( عبید حارث) دلچسپ مضمون ہے ۔ ناول نگار بننے کی خواہش نے دل میں ضرور جنم لیا لیکن یہ ان کے بس کا روگ نہ تھا اور یہ شوق دل میں ہی رہ گیا ۔
؎ دل کے ارماں آنسوئوں میں بہہ گئے
’’ سیرو سفر ساتھ ساتھ ‘‘ (قانتہ رابعہ صاحبہ )سیرو تفریح کا دلچسپ احوال ہے پہلے جہانیاں کی طرف اور پھر مری ایوبیہ کی طرف ۔ ایوبیہ کی سیر کا احوال دلچسپ ہے ۔ یہ پڑھ کر اور جان کر خوشی ہوئی کہ ’’ چمن بتول ‘‘ کی دو نامور ہستیاں ( قانتہ رابعہ صاحبہ اور بشریٰ تسنیم صاحبہ ) آپس میں کزن ہیں ۔ پھر اسلام آباد میں دامن کوہ ، پر سوہاوہ کی سیر کا ذکر بھی خوب ہے ۔
’’ تیری وادی وادی گھوموں‘‘ (آمنہ رمیصا زاہدی )وادی زیارت کی سیر کا احوال نہایت شاندار ہے ۔ وہاں قسم قسم کے پھل تھے ان کا ذکر پڑھ کے منہ میں پانی بھر آیا ۔ دلچسپ سفر نامہ ہے ۔ اگلی قسط کا انتظار رہے گا۔
’’کرو مہر بانی تم اہل زمیں پر ‘‘( ڈاکٹر ثمین ذکا صاحبہ ) سکاٹ لینڈ سے رخصتی کا ذکر خوب ہے لیکن ان کے میاں کی نا گہانی وفات کا پڑھ کے بے حد افسوس ہؤا۔ ڈاکٹرصاحب کے دنیا سے چلے جانے کا غم کوئی معمولی غم نہ تھا ۔ لیکن ڈاکٹر صاحبہ نے اس صدمے کو صبر کی طاقت سے شکست دی اور پاکستان واپس آکر بڑی جدوجہد کے ساتھ اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو بحال کیا ۔ محترمہ بنت الاسلام کی رفاقت اور رہنمائی آپ کے بہت کام آئی ۔ آپ نے خدمت خلق اور غریب مریضوں کے مفت علاج کا سلسلہ شروع کر دیا اور ان کی دعائیں سمیٹیں۔
’’ گوشہِ تسنیم شریک زندگی کا انتخاب‘‘ڈاکٹر بشریٰ تسنیم صاحبہ کا بیش قیمت کالم ہے ۔ اس بار بھی ڈاکٹر صاحبہ نے رشتے کے انتخاب کے لیے قرآن و سنت کی روشنی میں بہترین مشورے دیے ہیں ۔ قرآن پاک نے تو یہاں تک بتایا کہ میاں بیوی دونوں ایک دوسرے کا لباس ہیںتو اس سے گہرا رشتہ اور کون سا ہو سکتا ہے ۔ ڈاکٹر صاحبہ نے یہ جملے بڑے خوبصورت لکھے ہیں ’’ شریک زندگی کا لباس بننے کے لیے دونوں کا ایک دوسرے کے ظاہری و باطنی وجود سے سمجھوتہ کرنا کامیابی کی شرط ہے ۔ ساری کائنات ایک دوسرے کے ساتھ سمجھوتے کے اصول پر قائم ہے ‘‘۔
’’ سچ تو یہ ہے ‘‘( انصار عباسی) اپنے اس کالم میں عباسی صاحب نے واضح کیا ہے کہ قائد اعظم پاکستان میں ایک ایسی حکومت چاہتے تھے جو اسلامی اصولوں اور قوانین کی بنیاد پر چلے نہ کہ سیکولر نظام حکومت ہو ۔ ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کی کتاب کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جس میں انہوںنے یہ بات ثابت کی ہے کہ قائد اعظم پاکستان میں اسلامی آئین کی سر بلندی چاہتے تھے ۔
آخر میں پیارے ’’ چمن بتول‘‘ ، ادارہ بتول اور تمام قارئین بہنوں ، بھائیوں کے لیے نیک خواہشات۔

٭…٭…٭

خورشید بیگم ۔گوجرہ

اس دفعہ بتول دیر سے موصول ہؤا، اس لیے تبصرہ بھی دیر سے لکھا جا سکا ۔اللہ کرے شرف قبولیت حاصل کر لے۔
اداریہ ہمیشہ کی طرح مہینے بھر کی اہم خبریں لیے ہوئے ہے اور قابل توجہ بھی ۔ ناظمہ شہر نے ارکان کے گروپ میں بھیج دیا کہ سب اس کا بغور مطالعہ کریں۔
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے ہمیں استغفار کی فضیلت بتائی ہے ۔ واقعی استغفار بندے کو رب سے ملانے والی صفت ہے اور رب تک رسائی کادروازہ۔اس کے ساتھ ہی شیطان کو بندے سے دو رکرنے کا ہتھیار بھی ہے۔
قول نبیؐ ’’ رسول اللہ ؐ کی نماز ‘‘ تو بار گاہ ِ ایزدی میں جسم و روح کی مکمل حاضری تھی ہم اس مقام عبودیت کو تو کبھی نہیں پا سکتے لیکن پیروی کی کوشش تو کر سکتے ہیں۔
خاص مضمون ( حجاب کا رحجان اور پاکستانی عورت) ضرورت اس امر کی ہے کہ عورت کو اسلام کے عطا کردہ معاشرتی حقوق دلوائے جائیں وہ اپنے گھر کی ملکہ ہو ، تبھی وہ پردے کے حکم پر کاربند ہو سکتی ہے۔
’’ مضطرب روح کو ایک گھر مل گیا ‘‘ ماشاء اللہ مریم جمیلہ صاحبہ کی یاد تازہ ہو گئی ۔ کئی سال بیشتر ان کی بیٹی نے بتول کے ذریعے ان کے مومنانہ کردار سے ہمیں روشناس کروایا تھا ۔ میری تجویز ہے کہ اگر ہو سکے تو ان کے تفصیلی حالات زندگی سے بتول کے قارئین کو مستفید ہونے کا موقع فراہم کریں۔
’’ بند مٹھی میں ریت‘‘ قانتہ رابعہ صاحبہ نے حسب معمول مختصر سی کہانی میں بہت بڑا سبق سکھا دیا مگر اس کے ساتھ ہی ایک طویل سفر کے ذریعے ہمیں اسلام آباد اور مری کی سیر بھی کروا دی سیرو فی الارض فرمان ربی پر بھی تو عمل کرنا ہے۔
’’ سرپرائز‘‘ فرحی نعیم صاحبہ کا افسانہ ، کاش ہر پاکستانی نوجوان اس کہانی کے کردار حارث جیسا ہو جائے جو غیر مسلم عورت کو بھی بہن کی حیثیت سے دیکھے۔
فرید ہ عظیم صاحبہ کی کہانی ’’ میری ماں ‘‘ مختصر مگر پر مغز ہے ۔ مائیں واقعی بڑی محبت کرنے والی ہوتی ہیں ۔ ان کی ڈانٹ میں بھی پیار ہوتا ہے۔ بزرگوںنے یونہی تو نہیں کہا تھا کھلائو سونے کا نوالہ دیکھو شیر کی آنکھ سے ۔ آئندہ زندگی کے لیے تربیت کرنا بھی تو ضروری ہے ۔
’’ انعام‘‘ انسان جلد باز تو ہے ہی ۔ دکھ اور تکلیف آئے تو اللہ تعالیٰ کے سارے احسانات کو بھول کر گلے شکوے کرنے لگتا ہے ۔
’’ سعودی عرب میں رہنے کا تجربہ ‘‘ ڈاکٹر فائقہ اویس صاحبہ کا بہت شکریہ سعودی عرب کے بارے بہت سی معلومات سے ہمیں مستفید فرمایا ۔ خوشی ہوتی ہے اور اپنے مرکز سے قربت کا احساس بھی۔
’’ تیری وادی وادی گھوموں‘‘ آمنہ رمیصا صاحبہ نے بلوچستان کی خوب سیر کروائی ۔ کوئٹہ اور زیارت دونوں شہروں میں گھوم پھر لیا جن سے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی کے آخری دنوں کی یادیں بھی وابستہ ہیں۔
’’ کرو مہربانی تم اہل زمیں پر‘‘ ڈاکٹر ثمین ذکا صاحبہ کا زندگی کا ایک اور پر مشقت باب جو مصائب اور مشکلات میں گھری ہوئی عورت کے لیے حوصلہ و عزم کا درس رکھتا ہے۔
اور آئیے اب ذرا گوشہِ تسنیم میں جھانک لیں ۔ ’’ شریک زندگی کا انتخاب‘‘ سنجیدہ سوچ رکھنے والی نوجوان نسل کے لیے بہترین مشورے جو ان کی دنیاوی زندگی کے لیے بھی مفید اور اخروی زندگی بھی سنوار دیں۔ بتول سے مستفید ہونے والی سب بہنوں کو میرا سلام پہنچے۔

٭…٭…٭

آمنہ منظور۔ایبٹ آباد
ستمبر کے بتول میں محترمہ افشاں نوید صاحبہ کی تحریر بہت عرصہ بعد نظر سے گزری۔ سیدہ حضرت فاطمۃ الزہرہؓ کے بارے میں بہت خوبصورت مضمون پڑھنے کو ملا ۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ، ایک عرض یہ ہے کہ حضرت فاطمہؓ کے جہیز کے بارے میں جو تفصیل درج ہے وہ صحیح نہیں۔ اسلام میں جہیز کا کوئی تصور نہیں ۔ یہ تصور ہمارے ہاں ہندوئوں سے آیا جو بیٹی کو وراثت نہیں دیتے تو شادی کے وقت جہیز کا سامان دیتے ہیں ۔ اسلام میں نکاح کے بعد لڑکی کا کفیل اس کا شوہر ہے جو اس کی ہر ضرورت پوری کرے گا ۔ قرآن و حدیث میں جہیز ،بری کا ذکر ہی نہیں ۔ شادی کے لوازم صرف تین ہیں نکاح، مہر ، اور ولیمہ ، باقی سب بدعات ہیں جن کو معاشرے سے ختم کرنا بے حد ضروری ہے اور یہ تمام رسوم و رواج معا شر ے میں خرابیوں کا موجب ہیں۔
ذرا سوچیے اگر حضرت فاطمہؓ کے جہیز کی تفصیل یہ ہے تو حضورؐ کی دیگر صاحبزادیوں کے جہیز کی تفصیل تاریخ کی کتب میں کیوں نہیں ؟ اصل بات یہ ہے کہ حضورؐ کے چچا ابو طالب کثیر العیال تھے۔ اور غربت بھی تھی تو آپؐ نے حضرت علی ؓ کو اپنی کفالت میں لے رکھا تھا ۔ جب حضرت علیؓ کی شادی حضرت فاطمہؓ سے کی تو نئے جوڑے کو علیحدہ رہائش دی اور ابتدائی سامان بھی حضورؐ نے حضرت علی ؓ کو دیا ۔ اس کے علاوہ ’’ ایثار کی انتہا‘‘ کے عنوان سے جو واقعہ شامل ہے اور آخر میں سورۃ الدھر کا حوالہ دیا گیا ہے اس کے بارے میں مولانا مودودیؒ تفہیم القرآن میں رقمطراز ہیں:
’’یہ روایت اول تو سند کے لحاظ سے نہایت کمزور ہے اور پھر روایت کے لحاظ سے دیکھیے تو یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ ایک یتیم ، ایک مسکین اور ایک قیدی اگر آکر کھانا مانگتا ہے تو گھر کے پانچوں افراد کا پورا کھانا اس کو دے دینے کی کیا معقول وجہ ہو سکتی ہے ؟ ایک آدمی کا کھانا اس کو دے کر گھر کے پانچ افراد چار آدمیوں کے کھانے پر اکتفا کر سکتے تھے۔اس کے علاوہ قیدیوں کے معاملے میں یہ طریقہ اسلامی حکومت کے دور میں کبھی نہیں رہا کہ انہیں بھیک مانگنے کے لیے چھوڑ دیا جائے اگر وہ حکومت کی قید میں ہوتے تو حکومت ان کی خوراک اور لباس کا انتظام کرتی تھی اور کسی شخص کے سپرد کیے جاتے تو وہ شخص انہیں کھلانے پلانے کا ذمہ دار ہوتا تھا ۔ اس لیے مدینہ طیبہ میں یہ بات ممکن ہی نہ تھی کہ کوئی قیدی بھیک مانگنے کے لیے نکلتا‘‘۔( جلد ششم ص۱۸۱)۔
یہ حوالے اصلاح کی نیت سے لکھے ہیں میں بذات ِ خود افشاں نوید صاحبہ کی تحریر وں کو بے حد پسند کرتی ہوں اور کب سے ان کی تحریر کی منتظر تھی۔

٭_٭_٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x