ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

اک ستارہ تھی میں – بتول نومبر ۲۰۲۲

خلاصہ: پون بطور سکول ٹیچر شہر سے گائوں منتقل ہوتی ہے ۔ وہ اپنے ذہن کو پرانی یادوں سے آزاد کرنے کی کوشش میں ہے۔ گائوں کا ماحول اس کے لیے بالکل نیا ہے ۔ یہاں آکر وہ سکول کی حالت پر بہت پریشان ہے ، وہ سکول اور بچوں کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہے مگر خود اس کی اپنی زندگی مشکل میں ہے ۔ وہ میڈم کے گھر کرایہ دار ہے اور وہ اس سے گھر کے سارے کام کرانا چاہتی ہیں ۔ ایسے میں اس کی ملاقات گائوں کی ایک معزز خاتون ’’ بی بی ‘‘ سے ہوتی ہے ، پون ان کے ساتھ رہنے کی اجازت مانگ لیتی ہے اور یوں اسے کچھ سکون میسر آتا ہے ۔

کئی اندیشوں میں گھری اگلی صبح وہ سکول پہنچی تھی ،اُسے معلوم تھا کہ اُس کے یوں چلے آنے پر میڈم سخت ناراض ہوں گی ۔اب یہی خوف اُسے ستا رہا تھا کہ اگر انہوں نے اُس کے خلاف کوئی محاذ بنا لیا یا اس کے خلاف کوئی رپورٹ لکھ دی تو اُس کی نوکری پر بہت برا اثر پڑ سکتا ہے اور اگر یہ نوکری چھن گئی تو وہ کہاں جائے گی کیا کرے گی !
اور اس وقت اسے اس نوکری کی سخت ضرورت تھی۔
وہ آزمائشوں اور مصیبتوں سے بھرا ایک لمبا سفر کر کے یہاں تک پہنچی تھی … بہت تھک چکی تھی بس اب کسی ایک جگہ رکنا چاہتی تھی ، اپنی آئندہ زندگی کے بارے میں سکون سے کچھ سوچنا چاہتی تھی ۔ موجودہ حالات میں اس میں ہمت نہیں تھی کہ کسی نئی مخالفت کا سامنا کرتی ۔
انہی سوچوں میں گم وہ اپنی حاضری لگانے دفتر پہنچی تھی ۔ صدر شکر میڈم ابھی نہیں آئی تھیں ورنہ صبح صبح اُن کا بُرا موڈ دیکھ کر سارا دن خراب گزرتا ۔ وہ اپنی کلاس میں آگئی جس میں بچوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی تھی ۔ جھوٹے جھوٹے پیارے پیارے سادہ اور معصوم بچے جنھیں کوئی ایک زبان بھی ٹھیک سے نہیں آتی تھی ۔ وہ اُردو کے ساتھ مقامی بولی ملا کر بولتے تو گلابی اُردو میں ان کی کہانیاں اور بھی مزیدار ہو جاتیں اور پَون اپنی ہر فکر اور پریشانی بھول جاتی ۔ وہ سارا دن اسی ایک کلاس کو پڑھاتی تھی پڑھائی سے زیادہ وہ ان بچوں کے ساتھ کھیلتی اور انہیں طرح طرح کے دلچسپ کھیل کھلاتی جس پر میڈم کو بہت اعتراض ہوتا ۔
’’آخر یہ اے بی سی اور الف ب پ کب سیکھیں گے ؟‘‘
اور اُس کا جواب ہوتا ’’ پڑھنے کے لیے ساری عمر پڑ ی ہے ، اگلے کئی سال انہوں نے پڑھائی ہی تو کرنی ہے ۔ ابھی ان کی کھیلنے اور خوش رہنے کی عمر ہے ، انہیں کتابوں کے نیچے دفن کر دینا زیادتی ہوگی ‘‘۔
مگرمیڈم اس کے جواب سے ذرا بھی مطمئن نہیں تھیں۔
’’ ارے سال بعد میں ان کے ماں باپ نتیجہ پوچھیں گے ۔ کتنے نمبر آئے کون سی پوزیشن آئی پھر کیا جواب دیں گے ہم ان کو … تم ابھی نئی ہو یہاں پر … اپنے طور طریقے بدلو ۔ پڑھانے والوں کے یہ اندازنہیں ہوتے ‘‘۔
میڈیم بولتی رہتیں اور وہ اپنے کام میں لگی رہتی آج بھی دو گھنٹے کے کیسے گزرے پتہ ہی نہیں چلا ۔ اچانک ہی ساتھ والے کمرے سے کچھ آوازیں آنے لگی تھیں ، تشدد اور مار کٹائی کی آوازیں ، یعنی میڈم آچکی تھیں ۔ شاید آج پھر ان کی اپنے شوہر کے ساتھ بحث ہوئی تھی جس کا غصہ بچوں پر اُتار ا جاتا تھا ۔ لیکن جب وہ پیریڈ لے کر کمرے سے باہر آئیں تو پَوَن کو اندازہ ہؤا کہ آج میڈم اور ان کے شوہر کے درمیان بحث سے کچھ زیادہ ہؤا تھا ۔ اُن کا ہونٹ پھٹا ہوا تھا اور آنکھ کے نیچے کچھ نیلے جامنی نشان تھے ۔ انہوں نے دوپٹہ کافی آگے کر کے لیا ہؤا تھا کہ ان کے ساتھ یہ سب تو اکثر ہوتا ہے ، ان کی تنخواہ ان کے شوہر کو چاہیے ہوتی ہے اور نہ ملنے پر یہ نتیجہ نکلتا ہے ۔ اُسے اچانک ہی میڈم پر بہت رحم آیا تھا ۔ اپنی کمائی

ہوتے ہوئے بھی مجبور اور مظلوم عورت! اور اُن سے زیادہ رحم ان بچوں پر آیا تھا جو بالواسطہ طور پر میڈم کے شوہر کے تشدد کا نشانہ بن رہے تھے ۔ اُس نے اللہ کا شکر ادا کیا تھا کہ وہ بر وقت ان کے گھر سے نکل آئی تھی۔ ورنہ شاید یہی نشان اُس کے جبڑے پر بھی ہوتے کیونکہ تنخواہ تو وہ بھی لے رہی تھی اور رہتی بھی اُسی گھر میں تھی ۔مگر اللہ نے اُسے ایک بار پھر بچا لیا تھا۔
پھر جب بارش خوب زور سے برستی اور چھت ٹپکنا شروع ہو جاتی تو بی بی جگہ جگہ برتن رکھتی پھرتیں ۔ کہیں ٹب کہیں بالٹی اور ساتھ ساتھ اُن کے ہونٹ ہلتے رہتے الّلھُمَ صَیَّباًنْافِعاً اللہ فائدے کی بارش دے ،یا اللہ میری چھتیں کمزور ہیں اور میں بھی … اور پَوّن کو ہنسی آجاتی ۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے وہ دونوں زور و شور سے دعا کر رہی تھیں بارش کے لیے اور اب …
وہ ہر دفعہ سوچتی اگلی تنخواہ ملنے پر ضرور بی بی کی چھت کی مرمت کروائوں گی مگر ہر ماہ اس کی ساری تنخواہ کچھ اور ہی کاموں پرصرف ہو جاتی اور اگلی بارش پر بی بی کی چھت پھر خوب ٹپکتی ۔ اُسے معلوم تھا اُن کا کل کا دن بہت مصروف گزرے گا ۔ کل وہ سارا دن چھت پر مٹی ڈالیں گی۔ خود اُسے تو وہ کوئی کام کرنے ہی نہ دیتیں ۔ وہ میٹھی ناراضگی دکھاتی تو کہتیں بیٹا جب تم چلی جائو گی پھر بھی تو سب خود ہی کرنا ہے ناں ۔ لیکن بی بی میں تو کہیں نہیں جا رہی یہیں رہوں گی آپ کے ساتھ ، اسے کہیں نہ جانے کا پورا یقین تھا اور اس یقین کی بڑی ٹھوس وجوہات تھیں اس کے پاس ۔ مگر بی بی اُس سے متفق نہیں تھیں وہ ان کی ناراضگی کے خوف سے زبان بند کر لیتی۔
’’ یوں کیوں بیٹھی ہو؟‘‘ وہ جھکے جھکے اُسے دیکھتیں ۔’’ تھوڑی دیر سو جائو ، اتنے کام گلے میں ڈال رکھے ہیں … کچھ آرام کر لو ‘‘۔
’’ بہت کوشش کرتی ہوں سونے کی مگر نیند نہیں آتی‘‘ وہ بے بسی سے بولی تھی۔ انہیں کیسے بتاتی کہ آنکھ بند کرتے ہی مختلف چہروں کی فلم سی چل پڑتی ہے اور ہر چہرہ ایک الگ کہانی ہے ۔
’’ چلواگر نیند نہیں آ رہی تو ویسے ہی لیٹ جائو ‘‘ وہ دوسرا مشورہ دیتیں۔
’’ نہیں میں آپ کے لیے چائے بناتی ہوں ‘‘اُسے نیا خیال آیا۔
ویسے بھی اُسے مصروف رہنا پسند تھا ۔ صبح اُٹھ کر وہ اپنا اور بی بی کا ناشتہ بناتی تھی ، پھر ضروری کام نمٹا کر سکول جاتی ۔ شام کو پڑوس سے سلمیٰ اور اُس کی کچھ سہیلیاں آجاتیں جنھیں وہ گھر پر پڑھاتی تھی اور کچھ نہیں تو سکول سے رجسٹر ،کاپیاں پرچے نجانے کیا کچھ اٹھا لاتی اور رات گئے تک اُن پر جھکی رہتی ۔ رات کے لیے روٹی بھی وہ ہی بناتی تھی حالانکہ بی بی اسے منع کرتی رہ جاتیں ۔ وہ جانتی تھیں اُسے لکڑیوں والا چولہا جلانا نہیں آتا پھر بھی وہ لگی رہتی ۔
آج بھی بارش خوب برسی تھی ۔ باہر شام بے حد حسین ہو رہی تھی ۔ وہ اٹھ کر باہر آگئی فضا میں ایک عجیب طرح کی خوشبو تھی ، اس نے گہرا سانس لے کر اس خوشبو اور تازگی کو اندر اتارنے کی کوشش کی تھی ۔ آسمان پر کہیں کہیں بادل ابھی بھی موجود اور جمے کھڑے تھے کچھ دیر اور برسنے کی ضد میں ، اورکچھ ہوا کے رتھ پر سوار نئے دیسوں کی جانب سفر کر رہے تھے۔ برستے رہنے کی خواہش انہیں اڑائے پھرتی تھی ، اس دیس سے اُس دیس اور اس دیس سے اگلے دیس !
کچھ ہی دیر میں بی بی کا صحن بچوں سے بھر چکا تھا ۔ یہ سب یہاں قرآن شریف پڑھنے آتے تھے ۔ سروں پر ٹوپیاں پہنے رحلوں پر قرآن رکھے وہ ہل ہل کر سبق یاد کر رہے تھے ۔ اس کے کان اب اس مخصوص آواز کے عادی ہو گئے تھے ۔ کبھی کبھی اس کا دل چاہتا وہ بھی اس آواز میں اپنی آواز ملا دے ، ان لفظوں کا حصہ بن جائے مگر ہمیشہ ایک جھجک آڑے آجاتی بی بی سے یہ بات کیسے کہے۔حالانکہ بی بی نہایت سادہ اور آسان ترین شخصیت کی مالک تھیں ۔ اُن سے ہر طرح کی بات کی جا سکتی تھی اور اُسے وہ کہہ بھی لیتی تھی ۔ اسے یہ خیال تک نہیں آتا تھا کہ وہ اس کی بات پر غصہ کریں گی یا اُسے بے وقوف سمجھیںگی ، اس پر ناراض ہوں گی یا دل ہی دل میں ہنسیں گی لیکن پھر بھی نجانے کیوں وہ یہ بات اُن سے کہہ نہیں پاتی تھی۔ بی بی ایک ایک بچے کا سبق نہایت توجہ سے سنتیں ۔ اگر کسی کو یاد نہ ہوتا تودوبارہ سہ بارہ یاد کرا دیتیں ، مار پیٹ تودور کی بات ڈانٹ ڈپٹ تک نہیں ہوتی تھی ۔ اسی لیے بچے ان کے گھر بہت خوش رہتے ۔ وقت

سے پہلے آجاتے اور دیر سے جاتے ۔ گھروں میں شاید ان کو یہ آزادی حاصل نہ تھی جویہاں تھی ۔ پوری ایک نسل تھی جو بی بی کے زیر سایہ تربیت پا رہی تھی اگران کے عمل اور کردار کا عُشرِ عشیر بھی لے لیتے تو ان کی قسمت سنور جاتی ۔
اگلے دن سکول سے چھٹی تھی ، وہ نماز کے بعد سو گئی تھی اور کافی دیر سے اٹھی تھی ۔ اٹھنے سے پہلے وہ بستر پر لیٹی چھت کو دیکھتی رہی تھی ۔ کبھی کبھی اُسے یقین نہیں آتا تھا کہ وہ یہاں اس گائوں میں بی بی کے گھر پر ہے یہاں زندگی کتنی مختلف تھی،اُس زندگی کے بالکل اُلٹ جو وہ اب تک گزارتی آئی تھی ۔ اب وہ ایسے ایسے کام کر رہی تھی جن کے بارے میں اُس نے سوچا تکنہ تھا وہ انہیں کبھی کر پائے گی ۔ نماز انہی کاموں میں سے ایک تھی ۔مگر بی بی کی دیکھا دیکھی اس نے یہ بھی شروع کر دی تھی ۔ یقینا کوئی اہم چیز تھی یہ نماز اسی لیے تو چھوٹی بڑی ہر بات پر وہ نماز پڑھنے کھڑی ہو جاتی تھیں ۔ غم میں خوشی میں ضرورت میں شکر میں اور صبر میں بھی۔’’ آپ ہر چیز ہر کام کے لیے نماز پڑھتی ہیں ۔ کیوں ؟‘‘ اس نے اپنی حیرت دور کرنے کے لیے پوچھ لیا تھا۔
’’ پیارے نبیؐ کی سنت ہے ، وہ ایسا ہی کرتے تھے !‘‘
بی بی کا طرز عمل دیکھ کر اُسے پہلی بار پتہ چلا تھا کہ پیارے نبیؐکونماز سے اتنا پیار تھا ۔
’’ ہر انسان کی زندگی میں کوئی نہ کوئی ایسا ہوتا ہے جوبہت عزیز اور محبوب ہوتا ہے ‘‘۔
بی بی کی بات پر اس کا دھیان کہیں اور چلا گیا تھا ۔
’’ اور اگر اس ہستی سے ملاقات بھی ایک ہی بار ہو تو انسان اس ملاقات کا لمحہ لمحہ سینت سینت کر سینے سے لگا لگا کر رکھتا ہے ۔ جب موقع ملتا ہے چاہے ہجوم میں ہو یا تنہا یادوں کیاس پوٹلی کو کھول کر دن میں کتنی بار اس ملاقات کی یاد تازہ کر لیتا ہے ۔ ایک ملاقات جو زندگی کاحاصل بن جاتی ہے ‘‘۔
وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ وہ کیا کہنا چاہ رہی ہیں مگر پھر بھی غور سے سن رہی تھی۔
’’ جانتی ہو پیارے نبیؐ کو نماز اس قدر محبوب کیوں تھی ؟کیونکہ یہ نماز ہی تھی جو انہیں اپنی سب سے محبوب ہستی سے ملاقات کا موقع دیتی تھی ۔ وہ جب بھی نماز پڑھتے تھے در اصل وہ اپنے رب سے ملاقات کر رہے ہوتے تھے ۔ وہ ملاقات جس کا خیال انہیں بھلائے نہیں بھولتا تھا ۔ وہ ملاقاتجس کا تصور ان کے لیے متاعِ عزیز تھا ۔ تو جب بھی انہیں اپنے محبوب رب کی اس ملاقات کا منظر اپنی آنکھوں کے سامنے لانا ہوتا وہ نماز پڑھنے کھڑے ہو جاتے اور ہمارے لیے بھی یہی سنت ہے کہ ہر لمحہ اللہ کو یاد کریں ، دکھ مصیبت پریشانی خوشی ہر چیز میں ، اور نماز اس کا بہترین طریقہ ہے ‘‘۔
وہ سمجھ گئی تھی بی بی کو نماز سے اس قدر محبت کیوںتھی ۔ وہ بھی در اصل ہر نماز میں اپنے رب سے ملاقات کرتی تھیں ۔ ایسی ملاقات جس سے کبھی ان کا دل نہیں بھرتا تھا !
اب یہ ہوتا کہ وہ جب بھی نماز کے لیے کھڑی ہوتیں وہ دوڑ کر ان کے ساتھ جا کھڑی ہوتی ۔ بی بی کا ہر عمل اس قدر خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ ہوتا تھا کہ ان کی پیروی کرنے کے سوا اور کوئی راستہ ہی نہ بچتا تھا ۔ ان کا عمل خود ایک تبلیغ تھی ۔ ایسی تبلیغ جس میں کچھ کہہ کر کروانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
بی بی کے ساتھ باتیں کرتے چھوٹے موٹے کام کرتے کب شام ہوئی اسے پتہ ہی نہیں چلا ۔ سلمیٰ اور اس کی سہیلیاں اپنی کتابیں لیے آچکی تھیں اور اس کے دائیں بائیں بیٹھی تھیں۔
’’ہاں تو آج سب سے پہلے کون سبق سنائے گا ‘‘ اُس نے چاروں کو دیکھ کر پوچھا تھا۔
کچھ عرصہ پہلے جب اسے پتہ چلاتھا کہ سلمیٰ پڑھنا لکھنابالکل نہیں جانتی تو اسے کافی حیرت ہوئی تھی ۔ آج کے دور میں یہ بڑی عجیب سی بات تھی۔
’’ اصل میں میرے ماں باپ کے گھر میں کام زیادہ اور ہاتھ کم تھے ‘‘ اس کے پوچھنے پر سلمیٰ نے سادگی سے بتایاتھا ’’ ابا بیچارے اکیلے زمینوں پر کام کرتے اور امی گھر ،بچے ،جانور سب سنبھالتیں ، پانچ بہن

بھائیوں میں سب سے بڑی تھی ۔جب چھوٹی تھی تو اماں کے چھوٹے چھوٹے کام کرتی تھی ۔ جیسے جیسے بڑی ہوئی بڑے بڑے کام ذمے لگتے گئے یوں میں بے چاری سکول نہ جا سکی ‘‘۔ اس نے اپنے آپ پر ترس کھایا ۔’’ اب شادی ہو گئی ، یہاں اتنا کام ہے ہی نہیںاور فارغ بیٹھنے کی مجھے عادت نہیں تو میں نے سوچا اس فراغت اور آپ کی موجودگی کا فائدہ اٹھائوں اورمیں بھی تھوڑی پڑھی لکھی بن جائوں ۔ بس ایک ہی ڈر کہ لوگ مذاق نہ اڑائیں ‘‘۔
’’ارے نیکی اور پوچھ پوچھ ‘‘۔ پَوّن خوش ہو گئی تھی اسے اس دیہاتی ان پڑھ لڑکی پر بہت پیار آ رہا تھا ۔
’’ تم لوگوں کی بالکل پروا نہ کرو، اپنا فائدہ دیکھو اور علم حاصل کرنے کی تو کوئی عمر نہیں ہوتی ۔ یہ جہاں سے جب بھی ملے فوراً لے لینا چاہیے‘‘۔
’’ ٹھیک ہے پھر تو میں ضرور پڑھوں گی ‘‘ پَوّن کی باتوں نے اس کا حوصلہ بڑھا دیا تھا ’’ اور میں پڑھائی کے معاملے میں آپ کو بالکل تنگ نہیں کروں گی ، اماں کہتی ہیں میرا دماغ اچھا ہے سب یاد کر لوں گی ‘‘۔
اور یوں اس نے پَوّن کی باقاعدہ شاگردی اختیار کرلی تھی ۔ اس کی دیکھا دیکھی دو تین اورلڑکیاں بھی آنے لگی تھیں اور پَون کو واقعی ان پر زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی تھی ۔ اُسے پوری امید تھی وہ بہت جلد میٹرک کا امتحان پاس کر لیں گی ۔ یوں شام کے وقت تعلیم بالغاں کا ایک اچھا خاصا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
رات جب وہ سونے کے لیے لیٹتی تو خوب تھکی ہوئی ہوتی ۔ وہ دن بھر خود کو مصروف رکھتی ، ایک کام سے دوسرا کام اور دوسرے سے تیسرا تاکہ اُس کا دھیان کسی اور طرف جانے نہ پائے اوررات جب وہ بستر پر آئے تو لیٹتے ہی سوجائے ۔ ذہن کو ماضی کی طرف جانے کا موقع ہی نہ ملے اُسے یاد آیا کچھ عرصہ پہلے جب وہ یہاں آئی تھی تو ہر وہ یاد جو وہ پیچھے چھوڑ آئی تھی، اسے بہت پریشان کرتی تھی ۔ اس کا دل کسی بوجھ کے نیچے دبا رہتا ، ذہن آگے کی بجائے ہر وقت پیچھے سوچتا رہتا مگر اب کچھ اس کی مصروفیت اور کچھ بی بی جان کی وجہ سے اسے تھوڑی تسلی رہتی۔
وہ اُن کے ساتھ بہت خوش تھی ۔ اُس نے اس سے پہلے اس طرح کا کوئی انسان نہیںدیکھا تھا جو ہر وقت دوسروں کی خدمت اور مدد کے لیے تیار رہے ۔ وہ جب سے آئی تھی منتظر تھی کہ وہ کب سوال جواب کا سلسلہ شروع کریں گی ۔ مگر وہ منتظر ہی رہی ، انہوں نے کبھی کچھ نہیں پوچھا تھا۔پَوّن اگر اپنا نام بھی نہ بتاتی تو وہ شاید یہ بھی نہ پوچھتیں ۔ عجیب خاتون تھیں ہر قسم کے تجسس سے خالی ! وہ چند دنوں میں ہی اس کو اس قدر عزیز ہو گئی تھیں جیسے وہ ہمیشہ سے ہی اُن کے ساتھ رہ رہی ہو ۔ وہ بھی اس کا اتنا خیال رکھتیں کہ وہ شرمندہ ہو جاتی ، کوئی کسی اجنبی کے لیے اتنا کچھ کیسے کر سکتا ہے وہ حیران ہوتی ۔ ہر معاملے میں اُس کی پسند نا پسند کا خیال رکھتیں اُس کی رائے کو ترجیح دیتیں ، اسے لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ کسی اور کے گھر رہ رہی ہے جن سے کچھ عرصہ پہلے ہی اس کی ملاقات ہوئی تھی مگر اُن سے تعلق اتنا گہرا ہو گیا تھا کہ خون کے رشتوں سے بڑھ کر لگتا تھا ۔ اُن کی شخصیت ہی ایسی تھی کہ جوبھی اُن کے قریب آتا اُن کی طرف متوجہ ہوئے بغیر رہ ہی نہیں سکتا تھا۔
ابھی کچھ دن پہلے اُسے موسمی بخار نے آ گھیرا تھا اور بی بی نے تو اسے ہتھیلی کا چھالہ بنا لیا تھا ۔ دن رات کسی چھوٹے بچے کی طرح اس کی دیکھ بھال کی تھی ۔ رات کوکئی دفعہ اُٹھ کر اُسے دیکھتیں اُس کا بخار چیک کرتیں اس کی دوا کا خیال رکھتیں ۔ اُسے ماننا پڑا ابھی دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو کسی غرض کے بغیر لوگوں سے محبت کرتے ہیں اور بی بی انہی میں سے ایک تھیں۔
٭…٭…٭
وہ پچھلے ایک گھنٹے سے بے زار چوکیدار کے سر پر کھڑے ہو کر گملے صاف کروا کر اُن میں نئی مٹی بھروا رہی تھی اور وہ زہر کے گھونٹ بھر رہا تھا ۔
’’اس گملے میں تم نے بہت زیادہ مٹی ڈال دی ہے اس میں پودا کہاں لگے گا … اور یہ پتھر تو لگا لو اور اس میں گھاس کی جڑیں نکالو ‘‘۔
وہ مسلسل اس کی لا پروائی پر اُسے ٹوک رہی تھی کوئی مصیبت سی مصیبت تھی میں پَوّن کے آنے سے پہلے تک اُس کی نوکری کس قدر

آسان تھی اور زندگی کتنی پر سکون تھی وہ اپنی مرضی سے سکول آتا تھا اور ہر دوسرے دن جلد ی چھٹی کر کے چلا جاتا تھا ۔ سکول میں کام ہی کتنا تھا ! دو تین بالٹیاں پانی کی اس گندے حمام میں ڈالنی ہوتی تھیں ، پھر پانی ختم ہوجائے یا رہے یہ اس کا مسئلہ نہیں تھا ، اور استانیوں کو تفریح کے وقت گائوں کی دُکان سے سموسے پکوڑے لاکردینے ہوتے تھے اور بس ۔
مگر جب سے مس پَوّن سکول آئی تھیں زندگی اور نوکری دونوں ہی ڈرائونا خواب بن کر رہ گئی تھیں اور تو اور میڈم بھی انہی کا ساتھ دے رہی تھیں ۔ معلوم نہیں انہیں کیا ہو گیا تھا ۔ اس کی شکایت پر کہنے لگتیں ۔
’’ دیکھو ملازم حسین ! تم نے بہت آرام کر لیا اب ٹھیک سے اپنا کام کرو اور چار پیسے حلال کے بھی کما لو ، تمہیں کون سا ہم کھیتوں میں ہل چلانے کو کہہ رہے ہیں … وہی سارے کام ہیں جو ویسے بھی تمہاری ہی ذمہ داری ہیں ‘‘ میڈم نے بات ہی ختم کر دی تھی۔
اور تب سے وہ اپنے تئیں کولہو کا بیل بنا ہؤا تھا ۔ مس پَوّن اُسے سارا دن دوڑاتیں کبھی چیزیں لینے شہر بھیجتیں تو کبھی گائوں اور باقی کسر سکول میں کام کروا کر پوری کر لیتیں وہ دل ہی دل میں دعا کرتا اللہ کرے یہ نئی استانی جہاں سے آئی ہے وہیں واپس چلی جائے یا پھر سکول کی دوسری استانیوں جیسی ہو جائے ، مگر اس کی کوئی دعا پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی تھی۔
آج تو چھٹی ہونے کے باوجود اس کی جان چھوٹنی مشکل لگ رہی تھی ۔ صاف پتہ چل رہاتھا مس پَوّن پورا باغیچہ اس سے لگوا ئیں گی اور جب یہ لگ جائے گا تو اس کے لیے پانی بھی اسی کو بھر کر لانا اور دینا پڑے گا ۔
’’ تم کیوں یہاں اپنا قیمتی وقت اور پیسہ برباد کر رہی ہو ؟‘‘ اچانک اسے حمیرا کی آواز آئی تھی ۔’’ یہاں کچھ نہیں بدلنے والا ‘‘ وہ مایوس تھی ۔
’’ اچھا ؟ تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے … اتنی بھی بے دلی اچھی نہیں‘‘۔
تین سال سے پہلے میں بھی اسی جوش اور جذبے کے ساتھ آئی تھی یہاں مگر اب دیکھو انہی جیسی ہو گئی ہوں ۔ دیکھنا تمہارے ساتھ بھی یہی ہوگا‘‘ وہ پر یقین تھی۔
’’ بھئی میں کوئی لمبی چھلانگ نہیں مار رہی نہ مار سکتی ہوں میں تو قدم قدم چلنے پر یقین رکھتی ہوں چاہے آدھا قدم کیوں نہ اٹھائوں مگر اٹھائوں گی ضرور ۔ آگے اللہ مالک ہے ‘‘۔ وہ حمیرا کے ساتھ باتیں بھی کر رہی تھی اور چوکیدار پربھی نظر رکھے ہوئے تھی۔
’’ مگر جس طرح تم مصروف ہو مجھے لگتا ہے تمہارے تو کوئی لمبے چوڑے ارادے ہیں ۔ بس یہ دیکھنا کہیں یہ سب بیچ میں ہی نہ رہ جائیں‘‘ حمیرا نے پھر ڈرانے کی کوشش کی ۔
’’ ارے نہیں بھئی ایسا کچھ نہیں ہوگا اور پھر میں تو بس چھوٹے موٹے کام کرا رہی ہوں ۔ بڑے کاموں کے لیے تو نہ میرے پاس ہمت ہے نہ پیسہ ‘‘۔
’’مگر میں نے تو سنا ہے تم نے مستری کو بھی بلوایا ہؤا ہے ‘‘وہ پاس پڑی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولی۔
’’ہاں ٹھیک سنا ہے تم نے ‘‘اُس نے اپنے جوتوں پر پڑی مٹی جھاڑی ۔’’ در اصل میں میرا اور تمہارا کلاس روم ایک ہے ناں تو اسی وجہ سے کسی کی بات کسی کو سمجھ نہیں آتی ، کمرہ مچھلی منڈی کا نمونہ پیش کرتا ہے ۔ تو ارادہ ہے بیچ میں سے پارٹیشن کراوائوں تاکہ ہم الگ الگ سکون سے پڑھا سکیں اس کے علاوہ کمرے کا فرش بہت خراب ہے چھوٹے بچے فرش پر پڑے گڑھوں میں گر گر کر زخمی ہوتے رہتے ہیں تو فرش بھی مرمت کرانا ہے ۔ کمرے میں ٹیوب لائٹس بھی لگوانی ہیں کھڑکیاں چھوٹی ہونے کی وجہ سے روشنی بہت کم ہوتی ہے کمرے میں ۔ مگر یہ کام اگلے تین چار مہینوں میں ہوگا ابھی پیسے نہیں ہیں ۔اور ہاں یاد آیا … دیواروں پر سفیدی بھی کرانی ہے کمرہ بہت ہی گندا لگتا ہے ۔ بس اسی طرح کے کچھ اور چھوٹے چھوٹے کام ہیں ‘‘۔ اس نے تفصیل بتائی۔
’’ ویسے چوکیدار کو تو تم نے خوب کام پر لگایا ہے بے چارا کتنا بے بس اور مظلوم نظر آ رہا ہے ناں آج ‘‘ حمیرا نے اس کی طرف اشارہ کیا جو ضبط کی کڑی منزلوں سے گزر رہا تھا ۔
’’ یہ جو ہماری صفائی والی مائی ہے ذرا اس کو بھی تو کسی کام سے لگائو کمروں میں کیسے خوفناک جالے لٹک رہے ہیں ۔ آتی ہے اور بس دھول مٹی اڑا کر چلی جاتی ہے ‘‘۔
’’ ارے تم نے اچھا یاد دلایا ‘‘ پَوّن کو حمیرا کی بات پر کچھ یاد آگیا

تھا ’’ مائی سے صفائی تو کرانی ہی ہے ۔ آج چوکیدار شہر جا کر دو تین بڑے واٹر کولر لائے گا … اس گندے حمام کو تو دور سے ہی دیکھ کر مجھے اُلٹی آجاتی ہے… تو ساتھ ہی کوڑے دان بھی لیتا آئے گا شکر ہے تم نے یاد کرایا ‘‘ اس نے حمیرا کا شکریا ادا کیا ۔
’’ ارے ڈسٹ بن تو تم منگوا لو گی اور شاید بچوں سے استعمال بھی کروالومگر ان استانیوں کو کون سمجھائے گا ‘‘ حمیرا نے اہم نکتے کی طرف متوجہ کیا ’’ یہ تو آدھا گھنٹہ بھی کہیں بیٹھیں تو کوڑے کا ڈھیر لگا دیتی ہیں آس پاس … یہ سوچے بغیر کہ بچوں کے لیے کیسی بد ترین مثال قائم کر رہی ہیں ‘‘ حمیرا ان استانیوں سے کچھ زیادہ ہی مایوس تھی ۔
’’ ارے تم ان کی فکر نہ کرو‘‘ پَوّن خوشدلی سے بولی ۔’’ بس تم اپنے جوش کو ہوا دو اور میرے ساتھ مل کر کام کرو جب ہم مل کر کام کریں گے تو ان شاء اللہ بہت کچھ تبدیل ہو جائے گا ‘‘ پَوّن پر امید تھی ۔
’’ اچھا تم سے ایک چھوٹا سا کام اور بھی تھا ‘‘ حمیرا اٹھنے لگی تو پَوّن کو یاد آیا ’’ آج تم تھوڑی دیر کے لیے میرے ساتھ رُک جانا چوکیدار کا کچھ کام ابھی باقی ہے اگر میں چلی گئی تو یہ بھی یہیں چھوڑ دے گا اور یہ پودے کل تک سوکھ جائیں گے ‘‘۔
’’ چلو ٹھیک ہے میں رُک رہی ہوں آج ہم تمہارا باغیچہ لگوا کر ہی گھر جائیں گے ‘‘ وہ آرام سے دو بارہ کرسی پر بیٹھ گئی تھی ۔
پھر تین بجے کے قریب چوکیدار کا کام ختم ہؤا تو وہ دونوں گھر کی طرف روانہ ہوئیں ۔ آج وہ کچھ زیادہ ہی تھکاوٹ محسوس کر رہی تھی ۔ ارادہ تھا کمرے میں جا کر تھوڑی دیر آرام کرے گی پھر کچھ اور کرے گی مگر گھر میں داخل ہوتے ہی اُسے اندر سے آتی آوازوں نے قدم روکنے پر مجبور کر دیا ۔ باتوں کی قہقہوں کی آوازیں دروازے تک آ رہی تھیں ۔ ایسا لگتا تھا کوئی پارٹی چل رہی ہے پھر اسے خود ہی ہنسی آگئی تھی اپنے خیال پر ، بی بی جان کے ہاں کیا پارٹی ہو گی بھلا ! یقینا کوئی مہمان ہوں گے۔
باورچی خانے سے آتی آوازیں سن کر وہ پہلے ادھر ہی آگئی تھی ۔ اندر بی بی جان سخت مصروف نظر آئیں ۔
’’ واہ بھئی آج تو یہاں سے زبردست خوشبوئیں آ رہی ہیں ۔ کیا بن رہا ہے ؟‘‘
’’ارے شکر ہے تم وقت پر آگئیں میں بس کھانا لگانے ہی والی تھی ‘‘ وہ اُسے دیکھ کر مسکرائیں اور پھر سے کام میں لگ گئیں ۔ اس نے آگے ہو کر دیکھا بریانی دم پر تھی اور ساتھ کدو کا حلوہ بھی تیار تھا ، بی بی اس کے لیے پستہ بادام کتر رہی تھیں ۔
’’ مگر یہ ساری تیاریاں ہو کس کے لیے رہی ہیں ؟‘‘
’’ ماریہ آئی ہے ناں ‘‘ انہوں نے خوشی سے جگمگاتے چہرے کے ساتھ اطلاع دی ’’ آج دوپہر کو ہی پہنچی ہے اور دیکھو اُس کے آتے ہی اُس کی سہیلیاں بھی پہنچ گئیں ، تو میں نے سوچا ماریہ کی پسند کی چیزیں بنا لوں اس کی سہیلیاں بھی آج کا کھانا یہیں کھا لیں گی ‘‘۔
وہ دیکھ رہی تھی بیٹی کی آمد نے اُن کے چہرے کا رنگ ہی بدل ڈالا تھا ۔ خوشی ان کے چہرے سے پھوٹ رہی تھی ۔
’’ اچھا اب باقی کا کام مجھے کرنے دیں ‘‘ اُس نے سلاد کی چیزیں اُن کے ہاتھ سے لے لیں ۔
’’ارے نہیں بھئی تم اندرجائو ماریہ جب سے آئی ہے تمہارا ہی پوچھے جا رہی ہے ویسے بھی یہاں کام تقریباً ختم ہی ہو چکا ہے ‘‘ انہوں نے چھری اس کے ہاتھ سے لے لی ۔
’’ چلیں ٹھیک ہے میں پہلے ماریہ سے مل لیتی ہوں پھر آکر کھانا لگاتی ہوں آپ نے اب اور کچھ نہیں کرنا ‘‘۔
وہ کہتی ہوئی کمرے کی طرف بڑھ گئی جہاں سے ہنسی اور باتوں کی آواز مستقل آ رہی تھی اس نے اندر داخل ہوتے ہی سلام کیا ۔
’’ آپ پَون ہیں ناں !‘‘ ماریہ اسے دیکھتے ہی بولی تھی اور پھر آکر اس کے گلے لگ گئی ’’ میں نے دیکھتے ہی پہچان لیا تھا ، امی آپ کی اتنی باتیں کرتی ہیں … اتنی باتیں کرتی ہیں کہ بس ! میں نے سوچا جا کر دیکھوں تو سہی وہ کون ہے جس نے اتنی آسانی سے میری جگہ لے لی ، میں تو مارے حسد کے مری جا رہی ہوں ‘‘۔
وہ اس کے گلے لگی مسلسل بولے جا رہی تھی جبکہ پَون اس انداز کے استقبال کے لیے تیار نہ تھی اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا اسے کیا کہے اور پھر جب

وہ پَون سے الگ ہوئی تو اس نے دیکھا وہ اپنی امی کی طرح ہی خوبصورت تھی ، وہی سرخ و سفید رنگت بڑی بڑی کالی آنکھیں سنہری مائل بال… بس اس کا قد بی بی سے تھوڑا لمبا تھا اور طبیعت تو بالکل ہی مختلف تھی ۔ بی بی اگر ہلکی سی مسکان تھیں تو وہ ایک بھر پور ہنسی تھی جو اکثر قہقہے میں بدل جاتی ، پوَن نے دل ہی دل میں تجزیہ کیا تھا اور وہ باتونی بھی بہت تھی۔ یہ اُن کی پہلی ملاقات تھی او وہ نجانے کہاں کہاں کے قصے سنا رہی تھی ایسے جیسے وہ بچپن سے ہی ساتھ کھیلتی آرہی ہوں۔پون کو بار بار باورچی خانے میں کام کرتی بی بی کا خیال آ رہا تھا وہ اُن کی مدد کو جانا چاہتی تھی مگر وہ اسے اٹھنے ہی نہیں دے رہی تھی۔
’’ اچھا اب آپ یہ بتائیں آپ نے اس گائوں میں آکر نوکری کرنے اور رہنے کا فیصلہ کیوں کیا ؟‘‘
شام ہو چکی تھی ماریہ کی سہیلیاں جا چکی تھیں لہٰذا اب وہ بڑی تسلی سے اس کا پوسٹ مارٹم کرنے پر تلی ہوئی تھی۔
’’ماریہ ! ‘‘ بی بی جان کی تنبیہہ بھری آواز آئی تھی ’’ وہ دن بھر کی تھکی ہوئی ہے اسے آرام کرنے دو ‘‘۔
’’ امی در اصل چاہتی ہیں کہ میں آپ سے کوئی سوال نہ کروں ‘‘ اس نے پَون کے کان میں سر گوشی کی تھی۔
’’ارے نہیں بی بی جان اسے بولنے دیں ‘‘ اسے کہنا پڑا ۔ ویسے بھی وہ اتنی معصوم تھی کہ اس کا کوئی سوال اسے تکلیف نہیں دے سکتا تھا ۔
ماریہ ان لوگوں میں سے تھی جو اپنے سامنے کوئی راز کوئی اسرار برداشت نہیں کر سکتے۔ پھر وہ کافی دیر تک اُس کے سوالوں کے بڑی احتیاط کے ساتھ مناسب قسم کے جواب دیتی رہی تھی ۔ وہ اس کے ساتھ کوئی جھوٹ نہیں بولنا چاہتی تھی۔ آدھی رات ہوئی تب کہیں جا کر اس نے اسے سونے دیا تھا۔
(جاری ہے )
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x