ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

بس سٹاپ – بتول نومبر ۲۰۲۲

مجھے گمان ہے کہ آج پھر میں ناکام لوٹ جائوں گا۔
معید ہا تھ میں بریف کیس لیے بس اسٹاپ پر کسی حقیقی ضرورت مند کے انتظار میں تھامگر روزمرہ کے فقیر اور خواجہ سرا جو ہرطرح سے کما کر اپنا گزارا کر لیتے تھےعلاوہ اس کو کوئی حقیقی ضرورت مند نظر آیا نہ سمجھ ۔وہ اپنی چالیس سالہ زندگی میں بہت سا تجربہ جمع کر چکا تھا۔
رات خاصی گہری ہو چکی تھی اور سخت سردی کے باعث نیون سائن بھی اونگھ رہے تھے ۔وہ بریف کیس لیے مایوسی سے پلٹ رہا تھاکہ سستے پرفیوم کی تیز مہک نے اس کو پلٹنے پر مجبور کردیا۔ وہ میک اپ اور خوب تراش خراش کے کپڑوں سے آراستہ تھی جن کی فٹنگ نے اس کے جسم کی بناوٹ کو اچھی طرح نمایاں کر دیا تھا۔ حلیے سے وہ خواجہ سرالگ رہی تھی مگر معید کو اس کی حرکات میں کوئی چیز کھٹک رہی تھی۔
اپنے جیسے دوسرے لوگوں کی طرح وہ بھیک نہیں مانگ رہی تھی بلکہ بار بار اپنی کلائی پر بندھی گھڑی پر ٹائم دیکھتی ، پھر بس اسٹینڈ کی یخ بستہ اسٹیل کی بنچ پر بیٹھتی اور پھر کھڑی ہوکر ٹہلنے لگتی ۔ایک دو افرادبھی اس کے پاس آئے، کچھ بات چیت کی پھر چل دیے۔شاید بات نہیں بنی،معید نے سوچا۔
بالآخر وہ مایوس ہوکر چل دی ۔
نجانے معید کو کیوں یہ محسوس ہؤا کہ آج اس کے من کی مراد بر آئی ۔
معید کا تجسس قابل دید تھا ۔مناسب فاصلہ رکھ کر اسنے پیچھا شروع کیا ۔معید نے دیکھا کہ اس نےبس اسٹاپ سے ایک ڈبہ اٹھایا کچھ سوکھی روٹیوں کے ٹکڑے جمع کیے۔وہ اس کی تمام حرکتوں کو نوٹ کر رہا تھا۔اس کا تعاقب ایک تنگ اور بدبودار گلی میں ختم ہؤا مگر پردہ اٹھتے ہی دو تین بچوں کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی اور نہ چاہتے ہوئے بھی وہ درز سے جھانکا ۔اس کو معلوم تھا کہ یہ غیر اخلاقی حرکت ہے ۔
’’آگئیں تم ….کتنی رقم لائیں ؟‘‘
کوئی نہیں۔ بس کچھ کھانے کو لے آئی ہوں‘‘ اس کی آہستہ آواز آئی۔
’’کیسی عورت ہو تم رابعہ ؟کوئی بھیک نہیں ملی؟آخربھیک میں رقم لینا کون سا مشکل ہے؟‘‘
’’عورت‘‘ سن کرمعید نے گہرا سانس لیا جیسے اس کے شک کی تصدیق ہو گئی ہو۔
’’حلال کام ختم ہوگئے کیا؟‘‘رابعہ تلخی سے بولی۔
اس کے ہاتھ میں تھیلی دیکھ کر بچے خوش ہوگئے۔
اس نے بس اسٹاپ کی بینچ پر رکھا جوڈبہ اٹھایاتھا اس میں کچھ فرنچ فرائز تھےاور سینڈوچ کے ٹکڑے….دس روپے کا پوڈر والا ساشا خریدا تھا اور بیس روپے کے کچھ پاپے….یہ سب وہ راستے بھر دیکھتا ہؤا اس کے پیچھے آیا تھا۔
’’مجھ سے نہیں ہوگا یہ کام‘‘وہ آنسو پونچھتے ہوئے بولی ’’میں محنت مزدوری کرلوں گی مگریہ سوانگ بھرنا مجھ سے برداشت نہیں ہوتا‘‘۔
بچے بہت ہی طریقے سے اورمل بانٹ کر کھا رہے تھے۔
اس کے باپ نے اس کا نام رابعہ بصری پر رکھا تھا ۔وہ ان کابہت بڑاعقیدت مند تھا۔مگر رابعہ کو آج اپنا نام ہی اس دھندے کے لیے راہ کی رکاوٹ محسوس ہو رہا تھا۔ورنہ دو دن سے خالد اس کو بھیک لینےکے لیے اکسا رہا تھا اور وہ لڑائی جھگڑے کے خوف سے بس اسٹاپ پر گھنٹے دوگھنٹے کھڑے ہو نے کے بعدمایوس لوٹ جاتی۔ معید دو دن سے اس پر نظر رکھے ہواتھا۔

’’کیا کروں…. ان سب کو ختم کرکے اپنے آپ کو ختم کرلوں تاکہ بھوک سے ترستے چہروں سے نجات مل جائے…. ایک ہی دفعہ کی تکلیف….‘وہ بڑبڑا رہی تھی۔
خالد کے ایکسیڈنٹ سےپہلے ان کی زندگی پرسکون تھی۔ قدرے بہتر علاقے میں گھر ان کا ذاتی تھا مگر خالد کے علاج کے لیے اس کے منع کرنے کے باوجودگھر بیچ کر خالد کا بہت محنت اور محبت سے علاج کروایا کہ وہ تندرست ہوکر گھر اور بچے سنبھال لے کیونکہ تینوں بچے بہت چھوٹے تھے۔ مگر وہ پوری طرح تندرست نہ ہوسکا۔کچھ بچے ہوئے پیسوں سے صرف یہ ہی گھر آسکا تھا۔
صبح جب وہ اٹھی تو نہایت مایوسی کی حالت میں باہرآئی۔
مگر صحن میں پڑے نئے نکور پھولے ہوئےبرائون لفافے نے اس کی توجہ کھینچ لی۔اس نے جلدی جلدی لفافہ کھول کر دیکھا اس میں بھرے نوٹ دیکھ کر اس کی آ نکھیں پھٹ گئیں۔ نوٹوں کے ساتھ ایک چٹ نکلی ۔
’’یہ آپ کی فیملی کے لیے ہیں ۔اور اگر ان کی حقیقت جاننا چاہتی ہیں کہ کیوں؟ تو اسی بس اسٹاپ پر اسی ٹائم پرآجانا جہاں گزشتہ دو دوز سے آرہی ہیں۔معید‘‘۔
وہ سمجھی شاید کوئی گاہک مل گیا ۔مگر اتنے پیسے….اس کی آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں ۔پتہ نہیں اس کا کیا مقصد ہے؟
پھراس کے ذہن میں پوری رات کروٹ بدلتے بھوکے بچے آئے ۔
اس پیکٹ میں سارے پانچ پانچ ہزار کے نوٹ تھے۔سب سے پہلے اس میں سے ایک نوٹ لے کروہ ناشتا لینے بازار پہنچی۔ادائیگی کے لیے جیسے ہی اس نے نوٹ حلوائی کو تھمایاتو وہ غلیظ مسکراہٹ سے بولا ۔
’’راتوں رات یہ نوٹ تیرے پاس کہاں سے آگیا‘‘۔
’’تجھے اس سے کیا مطلب ….تو اپنے پیسے کاٹ کر بقایا واپس کر ‘‘وہ تلخی سے نوٹ پھینکتی ہو ٸ بولی۔
دو چار گاہک مزید آگئے۔وہ اوقات میں واپس آگیا۔ ’’باجی دوہزار ہیں ابھی ،باقی بعد میں لے جانا‘‘۔
بچے اس کا انتظار کر رہے تھے۔ اس کے ہاتھوں میں ناشتا دیکھ کر خوش ہوگئے۔
اب وہ اسی ادھیڑ بن میں تھی کہ پتہ نہیں یہ معید کون ہے ۔حالات ویسے ہی بہت خراب تھے ۔ کہیں کوئی اسے بم بلاسٹ کے لیے تو استعمال کریگا؟ کبھی کچھ اندیشہ آتا کبھی کوئی ڈر۔ اور وہ ان تمام چیزوں کے لیے اپنے آپ کو ذہنی طورپر تیار کرچکی تھی۔
بالآخر مقررہ وقت سے دس منٹ پہلے وہ وہاں پہنچ گئی ۔کچھ دیر میں معید بھی پہنچ گیا ۔رابعہ نےاس کو خاموشی سے جائزہ لیتی ہوئی نگاہوں سے دیکھا۔
ہلکی خشخشی داڑھی ویل ڈریس ۔ بریف کیس اس کے ہاتھ میں تھا۔
رابعہ نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’کیا کرناہوگا مجھے ؟‘‘وہ بدقت بولی ۔
’’میں نے یہ پیسے حرام کاری سے ناچ گا کر اور غلط کام کرکے کمائے تھے۔میں خواجہ سراہوں ‘‘۔
یہ الفاظ سنتے ہی رابعہ بے یقینی سے اس کو دیکھنے لگی۔
’’میں مردسے مشابہت رکھتا ہوں مگراپنی خواہش کی بنا پر زبردستی لڑکی بنا رہتا، میری گوری رنگت اور سنہرے بال….مجھے لڑکی کے روپ میں بہت پسند کیا جاتااور میری خوب کمائی ہوتی۔مگر مجھے محسوس ہوتا تھا کہ میں ٹھیک نہیں کرتا، اگر میں مرد بن کر رہ سکتا ہوں تو عورت بن کر حرام کام کرنے کی کیا ضرورت ہے، مگر مجھے اس زندگی سے نکلنے کا راستہ نہیں ملتا تھا۔ رمضان کا مہینہ آنے والا تھا۔ بس پتہ نہیں کیوں اس سال مجھے قرآن پڑھنے کا شوق ہؤا ۔میرے سارے ساتھیوں نے میرا بہت مذاق بنایا۔مولویوں نے مجھے قرآن پڑھانے سے انکار کردیا ۔
جب سے قرآن پڑھنے کی خواہش نے جنم لیا تو میں نے مردانہ حلیہ اختیار کرلیا تھا۔ داڑھی مونڈنا ترک کردیا ، کرتا شلوار اور پینٹ شرٹ پہنا شروع کردی۔ایک دن میں پارک میں بیٹھا اپنے بےمقصد وجود پر

لعنت بھیج رہا تھا ۔اور شاید آنسو بھی بہہ رہے تھےکہ ایک فرشتہ صورت بزرگ میرے پاس آئے ۔
کیا بات ہے بر خوردار ۔وہ میرے برابر ٹکتے ہوئے بولے۔
کچھ نہیں ،میں ہچکچایا۔میں سوچ رہاتھاکہ کہیں وہ بھی میری اصلیت سن کر بھاگ نہ جائیں ۔مگر وہ مجھے بہت ہمدرد محسوس ہوئے ۔ میں نے اپنا آپ ان کے سامنے کھول دیا۔ انہوں نے مجھے قرآن پڑھانا شروع کردیا ہےترجمے کے ساتھ ۔میں نے اپنے سارے گناہوں کا اعتراف کیا ان کے سامنے….اور یہ و ہی پیسہ ہے جو میں نے حرام کام سے کمایا تھا اور انہوں نے ہی مجھے یہ مشورہ دیا تھا کہ کسی حقیقی ضرورت مند کو دے دو ۔میں نے خود ایک جگہ نوکری کرلی ہے۔
الحَمْدُ ِللہ اگلا رمضان شروع ہونے سے پہلے یہ کام بھی ہوگیا۔
اب آپ اپنے شوہر کا علاج کروائیں ۔بچوں کو پڑھوائیں ۔ یہ قرض حسنہ ہے ۔جب آپ کسی قابل ہوجائیں تو یہ رقم کسی حقیقی ضرورت مند کو پہنچا دیجیے گا۔ اپنا کاروبار کریں ۔کسی اچھے علاقے میں شفٹ ہوکر کوچنگ سینٹر کھول لیں۔ہاں کوشش کیجیے گا کہ دو تین سال بعد اسی طرح کسی بس اسٹاپ پر کسی ضرورت مند کی مدد کر دیجیےگا‘‘۔
وہ بس اسٹاپ کی سیڑھیاں اترتے ہوئے بولا۔
’’اور ہاں میرے استاد نے مجھےایک بات اور بتائی کہ اللہ نے کوئی انسان بے مقصد نہیں بنایا‘‘۔
وہ یہ کہہ کر جس متانت سے آیا تھا اسی سنجیدگی سے واپس مڑ گیا۔
٭٭٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x