ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

بے شکن – فرح ناز

ترتیب کا اس کی زندگی میں بڑا عمل دخل تھا۔ صبح کتنے بجے اٹھنا ہے اور کتنے بجے سونا ہے سب طے شدہ تھا۔گھرشخصیت کاآئینہ ہوتا ہے ۔بکھری ہوئی یا لاابالی شخصیت کا گھر بھی بکھرا ہؤا بے تر تیب ہؤاکرتاہے اور رباب کاگھر اس کی شخصیت کی طرح مکمل اور باترتیب تھا۔
لیکن یہ ترتیب دا نیا ل کے آنے تک تھی ۔وہ جب بھی ان کے گھر آتا ہر چیز تہس نہس کر دیتااور رباب اس کےپیچھے پیچھے گھومتی رہتی۔ جہاں چادر پہ کوئی شکن پڑی اور وہیں رباب نے کھینچ کر اسے شکنوں سے پاک کیا ۔دانیال جانتا تھارباب کی کمزوری، اسی لیے اسے چڑانے کو مزید پھیلاوا کرتا اور رباب کے غضب کا نشانہ بنتا۔
’’خالہ ! آپ کے گھر مہمانوں کی خاطر تواضع کا رواج نہیں ہے کیا‘‘۔دانیال کچھ دیر پہلے ہی وارد ہؤا تھا اور اب صوفہ پہ نیم درازتھا اس کے پاؤں میز پر تھے۔ شکر ہے جوتے اس نے کمرے سے باہر ہی اتار دیےتھے۔
’’ بدتمیز مہمانوں کی تواضع کا واقعی رواج نہیں ہے ہمارے گھر‘‘۔ رباب نے جلے کٹے انداز میں کہا ۔
’’ جاؤ بیٹا چائے لے کر آؤ‘‘۔ فاطمہ خالہ کو اپنا یہ بھانجا بڑا عزیز تھا۔ انہوں نے دل ہی دل میں اسے اپنا داماد مان لیا تھا۔ رباب جتنازیادہ دانیال سے چڑتی تھی فاطمہ اس سے کہیں زیادہ دانیال سے پیار کرتی تھیں۔
’’ اور ہاں دوچار کباب بھی تل لینا‘‘ دانیال نے بڑی بے تکلفی سے کہا اسے بھی رباب کو چڑانے میں بہت مزہ آتا تھا ۔ رباب پیرپٹختی ہوئی کچن کی طرف چل دی ۔
آج صبح سے دل بہت اداس سا تھا حالانکہ موسم بہت سہانا تھا ۔ابر چھایا ہؤا تھا ،بارش کی پیشگوئی تھی لیکن جانے کیوں کچھ اچھا ہی نہیں لگ رہا تھا ۔ صحن میں لگے موتیے کی خوشبو بھی اس کے دل کا موسم نہ بدل سکی ۔
’’ یہ جو دل ہے نا کم بخت جانے کیوں اداس ہے بے وجہ موسم کا بھی ستیا ناس کر دیا “رباب نے موتیے کے پھول توڑتے ہوئے سوچا ۔
’’رباب اندر آؤ ذرا‘‘۔ امی کی آواز سن کر وہ امی کے پاس اندر چلی آئی ۔ امی کچھ خوش اور کچھ پریشان دکھائی دے رہی تھیں۔
’’جی امی ؟“ اس نے چادر کی شکنیں دور کرتے ہوئے تخت پہ بیٹھتے ہوئے کہا ۔
’’ ابھی زاہدہ کا فون آیا تھا “۔ رباب کو اس میں کوئیخاص بات نظر نہیں آئی۔ زاہدہ خالہ کا فون تو روز آتا ہے دانیال کی امی اور رباب کی امی بہنیں ہی نہیں سہیلیاں بھی تھیں ۔جب تک ایک دوسرے کو پورے دن کی رپورٹ نہ دے دیں انہیں چین نہیں آتا تھا ۔
’’اس نے دانیال کے لیے تمہارا رشتہ مانگا ہے اور شام کو وہ اعجاز بھائی کے ساتھ باقاعدہ تمہارا ہاتھ مانگنے آرہی ہے‘‘امی نےاب تفصیلًا اسے بتایا اور اس کے تاثرات کا جائزہ لینےلگیں۔
’’کیا….دانیال….نہیں امی کبھی نہیں‘‘ امی کو اس ردِ عمل کی توقع نہیں تھی ۔
’’کیوں ؟کیا برائی ہے اور دانیال تمہارے ابو کو بھی بہت پسند ہے“۔ امی کو کچھ سمجھ نہیں آیا ۔
’’ بس امی میں نے منع کر دیا نا بات یہیں ختم کریں “اتنا کہہ کر رباب وہاں رکی نہیں اب وہ اپنے کمرے میں جا چکی تھی اورفاطمہ زاہدہ کو جواب دینے کے طریقے سوچنے لگیں۔
جانے امی نے کیا کہا ہو گا خالہ سے ،اس دن کے بعد گھر میں اس موضوع پہ کوئی بات نہیں ہوئی اور اتنے دنوں سے دانیال بھی نہیں آیا ورنہ ہفتے میں ایک چکر تو لگتا ہی تھا اس کا ۔اس کا آفس ان کے گھر سے قریب تھا لہٰذ ا وہ چائے پینے کے بہانے رباب کوستانے کسی بھی دن آدھمکتا ۔دل کے کسی گوشہ میں اپنی صفائی پسند کزن کے لیے محبت موجود تھی ،جب کہ وہ رباب کو ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا ۔اس کی وجہ رباب کی عادتوں کااس کی عادتوں سےمتضاد ہو نا تھا ۔ چادر پہ پڑی ایک شکن اسے پریشان کر دیتی تھی۔ دن میںکئی مرتبہ وہ چادروں کی شکنیں نکالتی ،چیزوں کو تر تیب سے رکھتی۔ ہر وقت ڈسٹنگ کا کپڑا اس کے ہاتھ میں ہوتا اور وہ جھا ڑپونچھ میں لگی رہتی۔
’’مجھے تم سے بات کرنی ہے‘‘ابھی وہ ڈرائنگ روم میں کشن تر تیب سے رکھ کر پلٹی ہی تھی کہ اس کے سامنے دانیال کھڑا تھا۔وہ اپنے کام میں اتنی محو تھی کہ اسے اس کے آنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔
’’کیا مطلب ! کیا بات کرنی ہے “ اس نے بھی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔
’’ مجھے رد کرنے کی وجہ‘‘ دانیال کی آنکھوں میں وحشت تھی اور رباب کی نظریں اس کے جوتوں پر تھیں جن پر صحن کی گیلی مٹی لگی ہوئی تھی۔ اس کے قدموں کے نشان بیرونی دروازے سے ڈرائنگ روم تک دیکھے جا سکتے تھے۔
’’تمہیں بتانے کی پابند نہیں ہوں میں “۔ اس نے جلے کٹے اندااز میں جواب دیا اور اس سے کترا کے گزرنے کی کوشش کی۔
’’ تمہیں بتانا ہوگا‘‘ دانیال کے پاگل پن سے اسے ڈر لگنے لگا تھا۔
’’کیا کوئی اور ہے “دانیال اس کی آنکھوں میں جواب ڈھونڈ رہا تھا ۔
’’ ہاں‘‘اس کی آنکھیں اس کے جواب کا ساتھ نہیں دے رہی تھیں جب ہی تو وہ اس کے سامنے زیادہ ٹھہر نہیں سکی جب کہ وہ ایک بت کی طرح کھڑا رہا ۔اسے جانے کیوں اس کا یہ جواب ہضم نہیں ہو رہا تھا –۔
٭
خالہ زاہدہ نے زیادہ دیر نہ لگائی دانیال کی شادی کرنے میں ۔رباب نے لاکھ حیلےبہانے کیے شادی میں نہ جانے کے لیکن اتنا قریبی رشتہ ہونے کے سبب کوئی بہانہ نہ چل سکا۔ تمام وقت وہ دانیال کی زخمی نگاہوں سے بچتی رہی ۔ شادی کے بعد اس نے سکون کاسانس لیا ۔
٭
آج اس کا آخری پیپر تھا ۔یونی ورسٹی سے آتے ہی اماں نے شام کوکچھ خاص مہمانوں کے آنے کی اطلاع دی ۔
’’ کیا مشغلے ہیں آپ کے بیٹا ؟‘‘ مہمان بزرگ خاتون نےبڑی شفقت سے پوچھا ۔
’’ جی ! کوئی خاص نہیں بس ابھی تک تو اسٹڈی ہی چل رہی تھی “رباب نے جواب دیا اور چائے کا کپ ان کی طرف بڑھایا۔ اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں، چاہنے کے باوجود وہ ان کے ساتھ آئے ان کے بیٹے کو نہیں دیکھ پائی۔ اماں اور بابا کی موجودگی میں ویسےبھی یہ ممکن نہ تھا ۔
’’ بھئی مجھے تو لڑکا بہت پسند آیا ۔ لوگ بھی بڑے نفیس ہیں “۔ بابا جان کو تو یہ رشتہ بہت پسند آیا تھا ۔ اماں بھی جلد از جلداس کے فرض سے سبکدوش ہونا چاہتی تھیں ۔ لہٰذا چٹ منگنی پٹ بیاہ والا سلسلہ ہؤا ۔زندگی ایک نئی ڈگر پہ چل پڑی تھی جس پہ چلتے چلتے کبھی قدم ڈگمگا جاتے تو آنکھ سے ٹپکتے۔ آنسو ماں کو ڈھونڈتے لیکن جب یہ احساس ہوتا کہ خود ہی سنبھلنا ہے تو قدم جمانے کی کوشش دوبارہ شروع ہو جاتی ۔
شارق ایک بہت پریکٹیکل آدمی تھا۔ شادی کے دوسرے دن ہی رباب نے محسوس کیا کہ وہ رسم رواج، ہنسی مذاق یا ہلہ گلہ پسند نہیں کرتے۔ ان کے ماتھے پہ ناگواری کی شکنوں کا ایک جال ہر وقت موجود ہوتا۔ کسی موضوع پہ بات کرنے سے پہلے ان کے مزاج اور ان کےماتھے پہ آئے بلوں کا خیال کرنا پڑتا تھا ۔شادی کے بعد کی کئی دعوتیں اسی وجہ سے ملتوی کرنی پڑیں کہ صاحب کا موڈ خراب ہے ۔
٭
’’ شارق !شادی کارڈ آیا ہے میری خالہ زاد بہن کی شادی ہے‘‘۔ رباب نے رات کے کھانے کے بعد کافی کا کپ اس کے قریب رکھی میز پرکھتے ہوئے کہا۔
’’تو؟‘‘ اس کی ماتھے کی شکنوں میں اضافہ ہو گیا۔
’’ ہم چلیں گے ناں…. صرف شادی میں ….اگلے دن آف ہے آپ کا‘‘رباب کی آواز میں التجا ، منت اور امید تھی۔
’’ ٹھیک ہے “ اس کا یہ کہنا ہی کافی تھا ۔تفریح تو زندگی سے تقریبًا غائب ہو چکی تھی اپنوں سے ملنے کی خوشی نے اسے اندر تک سر شار کردیا۔
شادی کےکئی ماہ بعد آج وہ بڑے اہتمام سے تیار ہوئی تھی آئینہ دیکھ کر وہ خود شرما گئی ۔ شارق بھی کافی ہینڈسم لگ رہا تھا ۔
’’ اچھے لگ رہے ہیں‘‘رباب نے ڈرتے ڈرتے تعریف کی۔
’’تم بھی “ اس نے بغیر دیکھے گویا کوئی ادھار اتارا تھا اور گاڑی کی چابی لے کر باہر نکل گیا۔
ہمیشہ کی طرح بارات آنے میں دیر ہوگئی ،اسے اس چیز کا احساس اتنا نہیں تھا کیونکہ بہت سے لوگوں سے وہ بہت دن بعد مل رہی تھی لیکن شارق کے ماتھے کی شکنوں میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ بارات آنے کا شور ہؤا تو اس کے موبائل پہ گھر چلنے کا میسج آگیا۔ کچھ کہنے سننے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ وہ سب کو بتائے اور ملے بغیر چپکے سے باہر کی طرف چل دی ۔
’’رباب “! جانی پہچانی آواز پہ اس کے قدم رک گئے۔
’’کہاں جارہی ہو ؟‘‘
دانیال اپنے ایک سال کے بچے کو گو د میں لیے کھڑا تھا۔ اس کی شرٹ بیٹے کو گود میں لینے کی وجہ سےمسلی ہوئی تھی۔ اس کا بیٹا مسلسل کبھی اس کا کالر اور کبھی جیب کھینچ کر اسے اپنی طرف متوجہ کر رہا تھا اور وہ مسکر ا مسکراکر اس کوایسا کرنے سے باز رکھنے کی کوشش کررہا تھا ۔ اس کی شرٹ کی شکنیں دیکھ کر اسے بے شکن لباس پہننے والے شارق کےماتھے کی شکنیں یاد آگئیں جن کا دور کرنا رباب کے لیے ناممکن تھا۔
’’اپنے گھر‘‘رباب نے جواب دیا اور تھکے تھکے قدموں سےپارکنگ کی طرف چل دی۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
4 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x