ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

کبھی ہم خوبصورت تھے – فاطمہ طیبہ

صبا اپنی سوچوں میں گم تھی، اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۔ پڑوس کے گھر سے نیرہ نور کی مترنم آواز آ رہی تھی۔
ہمیں ماتھے پر بوسہ دو
کہ ہم کوتتلیوں کے، جگنوئوں کےدیس جانا ہے
ہمیں رنگوں کے جگنو، روشنی کی تتلیاں آواز دیتی ہیں
کبھی ہم خوبصورت تھے
صبا تصور میں اس منے سے خوبصورت بچے کو دیکھ رہی تھی جو پھولوں کے ، تتلیوں کے ، جگنوئوں کے دیس میں رہتا تھا ۔ وہ اور اس کی چھوٹی بہن سارا دن اپنی جنت میں دوڑتے بھاگتے کبھی تتلیوں کے پیچھے ، کبھی جگنوئوں کوامی کے نیٹ کے دوپٹے میں قید کرنے ، دوپٹے میں جگمگ کرتا جگنو ، بہت خوبصورت لگتا ۔
وہ بچہ احمد اور اس کی بہن صبا ایبٹ آباد میںپہاڑوں سے گھری ہوئی ایک چھائونی میں اپنے امی ابو اور بڑے بھائی کے ساتھ رہتے تھے ۔ اس وادی میں سبزے کی ، پھولوں کی اورپھلدار درختوںکی بہتات تھی ۔ انگریزوں کے زمانے کی بنی ہوئی لکڑی کی بیرک نماHuts تھیں جن کی ڈھلواں چھتیں جن کی ڈھلواں چھتیں سرخ،سفیداورگلابی گلاب کی بیلوں سے ڈھکی ہوئی بہت خوبصورت منظر پیش کرتیں ۔ باغیچوں میں رنگا رنگ پھول خوبانی ، لوکاٹ اور آلوبخاروں کےدرخت ہوتے ۔ ان درختوں پر چڑھ کرکچے پھل توڑنا وہاں کے بچوںکا پسندیدہ مشغلہ تھا ۔ گرمیوںکی لمبی چھٹیوں میں احمد اور صبا سارا دن درختوں پرچڑھے رہتے اورکچے پھل کھا کھا بیمار ہو جاتے گلاخراب ہو جاتا لیکن وہ باز نہ آتے یہاں تک کہ بخار چڑھ جاتا پھر پنسلین(Penicilin)کے انجکشن لگتے جس کا درد صبا کے ہاتھ میں ایک سال تک رہتا جس پر بڑے بھائی خوب مذاق اڑاتے ۔
وہ دونوں اور ان کے منے منے دوست مل کر اکثر پہاڑوں کی سیر کرتے ۔ آجکل کے دنوں کی طرح خطرات نہیں تھے بچے اکیلے ہی چھائونی سے نکل کر پہاڑوں کی سیر کر آتے تھوڑی تھوڑی کھانے پینے کی چیزیں لے آتے اور پہاڑ پر بیٹھ کر پکنک کرلی جاتی ۔ احمد اور صبا پہاڑ چڑھنے میں ماہر تھے بکری کے بچے کی طرح مشکل سے مشکل چڑھان چڑھ جاتے ۔ جب ان کے رشتہ دار گرمیوں میں ان کے پاس آتے تو انہیں بھی پہاڑوں کی سیر پر لےجایا جاتا اور وہ دونوں بچوں کی پھرتی اورمہارت دیکھ کرحیران رہ جاتے۔
ایبٹ آباد اس وقت گرم نہیں ہوتا تھا ۔ ائیر کنڈیشنر کا استعمال نہیں ہوتا تھا۔صرف دن میں کبھی کبھار پنکھوں کی ضرورت محسوس ہوتی شام کوخنکی ہو جاتی ۔ راتوں میں لان میں سونے کا رواج تھا ۔ سر شام بستر بچھا دیے جاتے ان پر دھوبی کی دھلی ہوئی سفید چادریں چاندنی کا سماں پیش کرتیں ۔ آسمان پر ستارے جھلملا رہے ہوتے ۔ احمد اورصبا اپنے ابو سے کہانیاں سنتے اور ستاروں کودیکھتے دیکھتے نیند کی خوبصورت وادی میںپہنچ جاتے۔
ان دونوں کےایک بڑے بھائی جان بھی تھے۔ صبا کے پاس عیدی کے پیسے جمع ہوگئے تو بھائیوں نے اس کو ٹھگنے کی ترکیبیں سوچیں ۔ احمد صبا سے ایک سال ہی بڑا تھا لیکن وہ بہت ذہین تھا،ایسے موقعوں پر بھائی جان کے ساتھ مل جاتا اورصبا بے وقوف بن جاتی ۔ گنتی تو اس وقت اسے آتی نہیں تھی امی کو پتہ چلا تو بھائیوں کو بہت ڈانٹ پڑی اور امی نے اس کے پیسے اپنے پاس رکھناشرو ع کردیے۔
صبا کو اپنے اسکول کے دن یاد آگئے جب اس کا داخلہ کرایا گیا تھا تو رو روکر اس کا برا حال ہو گیا تھا ۔ احمد پہلے سے اسکول میں پڑھتا تھا تو اس نے اپنے ننھے کندھوں پر بہن کی ذمہ داری اٹھا لی ۔ صبا سارا دن کلاس میں روتی چند اور بچے بھی اسے دیکھ کر رونے لگتے ۔ پھر بریک کے وقت احمد جب اس کولینے آتا تواس کا رونارکتا ۔ احمد اس کے گلے میں ہاتھ ڈال کر پیار سے اسے لے جاتا ، کینٹین سے کچھ خرید کر کھلاتا ۔ امی کا دیا ہؤا ٹفن بھی دونوں مل کر کھاتے پھر واپس کلاس میں چھوڑ کر جاتا تو صبا کی پھر سے ہچکیاں بندھ جاتیں ۔
کچھ دن میں اس کا دل اسکول میں لگ گیا پھر تو اسکول سے ایسی محبت ہوئی کہ چھٹی کرنے کاسوال ہی نہیں تھا جبکہ احمد کا اکثر موڈ ہوتا کہ آج چھٹی کرلی جائے ۔ اسکول بس آنے کے وقت باتھ روم میں جا کر بیٹھ جاتا اور چپکے چپکے صبا سے پوچھتا رہتا ۔ جب بس چلی جاتی تو باتھ روم سے نکلتا ۔ صبا اسکول جانے کے لیے بے چین ہوتی بار بار کہتی بھائی نکل آئو اسکول چلتے ہیں لیکن احمد قائل نہ ہوتا ۔
سردیو ں میں ہر چیز برف سے ڈھک جاتی ۔ جس رات برفباری ہوتی اس کی صبح انتہائی روشن ہوتی بچے خوشی سے اچھلنے لگتے اور ناشتہ کرتے ہی امی کے ساتھ باہر نکل کر برف کا آدمی بنانے میں لگ جاتے ۔ ہر گھر میں رونق آئی ہوتی خوب برف سے کھیلا جاتا ۔ ایک بارسنو مین کے سرخ ہونٹ امی کی نئی رضائی کا لال استر کاٹ کر بنا ئے گئے اور ابو کا قیمتی گرم مفلر بھی اسے اوڑھا دیا گیا تو امی سے بہت ڈانٹ پڑی۔ پوری چھائونی میں ایک ہی فوٹوگرافر تھا اس کی ڈیمانڈبڑھ جاتی ، ہرگھر میں جا کر تصویریں کھینچتا لہٰذا وہ دن اس کا مصروف ترین دن ہوتا۔
سردیوں میں شام ہی سے امی ابو کے کمرے میں کوئٹہ سٹوو جلا دیا جاتا اور رات گئے تک سب اسی کمرے میں رہتے ۔ سٹوو اتنا شدید گرم ہوتا کہ اس پر کیتلی رکھ کر چائے بھی بنا لی جاتی ۔ بجلی اور گیس کے ہیٹر جلانے کا رواج نہیں تھا دوسرے کمروں میں بھی آتش دان میں آگ جلائی جاتی۔ صبااور احمد امی ابو کے کمرے میں بیٹھ کر خوب کھیلتے ، کبھی لڈو کی بازی لگتی ، کبھی تاش کھیلے جاتے جس میں امی بھی شامل ہو جاتیں ، کبھی زمین پر چینجو کا نقشہ بنا کر گھنٹوں کھیلا جاتا ۔ میرے اورمالٹے کھائے جاتے ۔ امی ابو سے بھی کہانیاں سنی جاتیں ۔ بھائی جان کہانی نویس تھے وہ بھی اپنی لکھی ہوئی کہانیاں سناتے ۔ بہت ہی پر لطف زمانہ تھا ٹیلی ویژن نہیں تھا لیکن زندگی بھرپور اورمزیدار تھی۔
ایک بار ابو کی پوسٹنگ کسی اور شہر میں ہوئی تو چھائونی میں گھر نہ مل سکا شہر میں گھر کرائے پر لیا گیا ۔ چھائونی میں پلے بڑھے بچوں کے لیے شہر میں رہنا انتہائی دلچسپ تجربہ تھا کیونکہ سارا دن میں مختلف اشیا بیچنے والے صدالگاتے دونوں دوڑ کرجاتے کبھی آئس کریم خرید تے ، کبھی چاٹ تو کبھی چنا چورگرم، ہر چیز کے لیے دونوں اپنی پاکٹ منی سے آدھے آدھے پیسے ڈالتے پھر انصاف سے مل کر کھاتے ۔
لڑائیاں توکھیل کا حصہ تھیں تو وہ برابر جاری رہتیں ۔ ہر کھیل مل کر کھیلا جاتا ، کبھی گڑیاں کھیلی جا رہی ہیں ، کھانا پکایا جا رہا ہے ، کبھی گڑیا کی سالگرہ کی تیاری ہو رہی ہے ، احمد ہر کھیل میں صبا کا مدد گارہوتا ۔ گڑیا کی سالگرہ کے لیے اسکول کی کینٹین سے لوازمات لائے جاتے اور مختلف گیمز بھی تیار کی جاتیں ۔ صبا کی سہیلیاں آتیں اور خوب ہلا گلا ہوتا ۔ کبھی فٹ بال میچ ہوتا تو صبا بھائی کے دوستوں کے ساتھ کھیل میں شامل ہوتی ۔ پتی کے ڈبے سے پنی نکال کر کپ بنائے جاتے اور باقاعدہ کھیل کا آغاز ہوتا ۔ ابو سے یا کسی دوست کے والد سے افتتاح کرایا جاتا پھر کوئی دوسرے انکل مہمان خصوصی بن کر انعامات تقسیم کرتے ۔ اسی طرح سال میں ایک دو بار بچے مینا بازار لگاتے اپنے گھر کے لان میں ۔صبا اوراحمد کے سٹال ہوتے اور کچھ ان کے دوستوں کے سٹال بھی ہوتے ۔ امی اور آنٹیاں بہت ہنستی تھیں کیونکہ ان ہی کے باورچی خانے سے کھانے کی چیزیں بن کر آتیں اور وہی خریدار ہوتیں ۔
ایک بار افتتاح کے لیے ربن نہیں ملا تو ایک دھاگہ باندھا گیا باریک سا جو بمشکل نظر آرہا تھا ۔ ایک عمر رسیدہ انکل کو ربن کاٹنے کی تقریب کے لیے مدعو کیا گیا ان بے چارے کووہ دھاگہ نظر نہ آیا چلتے چلے گئے اور خودہی افتتاح ہو گیا ۔ بچوں نے بہت برا مانا جبکہ ان کے والدین بہت محظوظ ہوئے ۔
احمد بہت نرم دل تھا بہن کوکبھی نہیں مارا البتہ چھیڑ خانیاں اورلڑائیاں جاری رہتیں ۔ بھائی جان کی عدالت میں مقدمہ پیش ہوتا تو حکم صادر ہوتا کہ اب اکٹھے نہیں کھیلنا ہے ۔ ان دونوں کوایک دوسرے کے بغیر چین کہاں تھا تھوڑی دیر میں پھر اکٹھے کھیلتے نظر آتے ۔ ایک بار بھائی جان نے شرط لگا دی کہ لڑنے کے لیے چاندنی چوک جانا ہوگا اورکہیں لڑنے کی اجازت نہیں ہے ۔ دونوں نے ایک دن صبر کیا لیکن اگلے دن بغاوت کردی ۔ صبا نے کہا بھائی جان چاندنی چوک تو دورہے ہم گھر میں ہی لڑلیتے ہیں ۔
ایک بار گرمیوں کی چھٹیوں میں ان کے چچا اپنے دو بیٹوں کے ساتھ ان کے گھر آئے ، ان کے چچا زاد بھائی ان ہی کی عمر کے تھے لیکن حیران کن بات یہ تھی کہ وہ آپس میں بالکل نہیں لڑتے تھے ۔ امی کو تومثال مل گئی احمد اور صبا کو شرمندہ کرنے کے لیے ۔ ہر موقع پر ان کا حوالہ دیا جاتا۔احمد اورصبا کو ان سے سخت جلن ہو گئی اورانہوں نے متفقہ فیصلہ کیا کہ یہ بچے ابنارمل ہیں ۔
اسی طرح ہنستے ، کھیلتے بچپن گزر گیا ۔ اسکول ، کالج اوریونیورسٹی کے ہرمرحلے پر صبا کے سارے مسئلے احمدحل کرتا، صبا کااس کے بغیر گزارا نہ ہوتا وہ احمد کوبھائی کہتی تھی صرف ایک سال توبڑا تھا ہر وقت بھائی بھائی کی رٹ ہوتی اور بھائی بھی اتنا خیال کرنے والا کہ اس کی فرمائش پوری کرتا کبھی اسے سہیلیوں کے گھر لے جا رہا ہے ، کبھی اس کے نوٹس فوٹوکاپی کرا رہا ہے کبھی اس کے یونیورسٹی کے داخلے فارم بھر رہا ہے ، کبھی اس کے لیے بازار کے چکر لگا رہا ہے ، کبھی کچن میں اس کی مدد کر رہا ہے ۔ اپنے بھی سب کام خود ہی کرتا بلکہ گھر میں الیکٹریشن یا پلمبر کا کوئی کام ہوتا تو وہ بھی کر لیتا۔
زندگی کے سفر میںدونوں اپنے اپنے راستوں پر چل نکلے ، شادیاں ہوگئیں، ایک دوسرے کے بچے آنکھوں کے تارے بن گئے ، پیار کی کوئی حد نہ تھی ۔ اپنے اپنے حصے کے دکھ درد اٹھاتے نجانے کب دوریاں آگئیں کوئی دکھ درد شیئرنہ کیا ۔ صبا کا بھائی قابل ڈاکٹر بن گیا ، رشتہ داروں،دوستوں اورملنے والوں کی ہر موقع پر بڑھ کر مدد کرنے والا ، ہر ایک اس سے طبی مشورہ لیتا ، اس کی رائے کے بغیر کسی ڈاکٹر کا علاج نہ کرایا جاتا ۔
سب کے دکھ بانٹنے والا پتہ نہیں کب ایسی بیماری کی لپیٹ میں آگیا جس کا بہن بھائی کو علم بھی نہ تھا ۔ احمد نے بہن ، بھائی اور اپنی بیوی کو بھی اپنی بیماری کے بارے میں لا علم رکھا اکیلے ہی دکھ جھیلتارہا ۔ جب بیماری کا اثر چہرے کے پٹھوں پر پڑنے لگا تو صبا حیران ہو کراس کا چہرہ دیکھتی کہ بھائی تو اتنا وجیہہ تھا اب چہرہ ویسا کیوں نہیں رہا۔ پوچھتی بھائی تم ٹھیک تو ہو تو ٹال جاتا ۔ روز بروز کمزور ہوتا جارہا تھا ، کھانسی ختم نہ ہوتی ۔ بھائی جان ، بھابھی ،صبا اوراس کا میاں دیکھ دیکھ کرپریشان ہوتے رہتے پوچھنے پر تسلی کر وا دیتا اورزیادہ تفصیلات نہ بتاتا۔اکلوتی بچی کی نا قدری کاغم بھی اسے کھا گیا لیکن ایک لفظ نہ بولا ، صبا اور اس کی بھابھی اس کے سامنے بیٹھ کر روتی رہیں لیکن اس نے ایک آنسو نہ بہنے دیا۔ صبا جانتی تھی کہ یہ آنسو اس کے دل پر گررہے ہیں جن سے دل گھائل ہوگیا اورآخر ہسپتال پہنچ گیا۔
صبا اس پر روزانہ دعائیں پڑھ کردم کرتی اور پوچھتی بھائی کیسے ہولیکن کوئی تکلیف نہ بتاتا ۔ خود ڈاکٹر تھا اپنی حالت کا بخوبی اندازہ ہو گا لیکن گھر والوں کو حالات کی سنگینی کا اندازہ نہیں تھا جبکہ احمد کی بیوی بھی ڈاکٹر تھی ۔ صبا حیران ہو کر سوچتی بھائی تم میں اتنا صبر کہاں سے آگیا پھر ابوکی شکل اس کی نظروں میںگھوم جاتی جوکسی تکلیف پر واویلا نہیں کرتے تھے۔
ایک رات دل کی دھڑکن اتنی تیز ہوئی کہ ایمرجنسی میں ہسپتال لایا گیا ۔ صبا اور اس کا میاں بھاگے ہوئے آئے جب تک حالت سنبھل گئی تھی ان سے بات بھی کی ۔صبح ترو تازہ لگ رہا تھا، اپنی بیوی کے ہاتھ کے بنے سینڈوچ بھی کھائے ۔ شام کو صبا بھائی کے سر ہانے کھڑی حسب معمول اس پر دعائیں پڑھ کر دم کر رہی تھی کہ سانس تیز چلنے لگی اور دل کی دھڑکن بھی بڑھتی چلی گئی ۔ بھائی کی تکلیف دیکھ کر صبا مشکل سے آنسو رو ک رہی تھی کہ اللہ نے اسے ہر تکلیف سے آزاد کردیا ۔
صباکویقین ہی نہیں آرہا تھا بھائی تم کیسے میرے ہاتھوں سے پھسل گئے ابھی تو تمہارا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھا ۔ بھائی تم اکیلے ہی پریوں کے دیس میں چلے گئے ، اتنی جلدی کیوں کی مجھے بھی ساتھ جانا تھا ۔ بھائی کچھ توبولتے ، کچھ تو کہتے ایک لفظ بولے بغیرہی چلے گئے ۔ صبا کے آنسو بہہ رہے تھے اپنی بھتیجی کوسینے سے لگا کروہ بار بار پڑھتی گئی۔
اِنّا للہ وَاِنّا الیہ راجعون
ہم تو اللہ ہی کا مال ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔
وہ کہتی چلی گئی اللہ کی امانت تھی اس نے واپس لے لی۔ اس نے دیکھا کہ بھائی پہلے کی طرح جوان اور خوبصورت ہے اور پھولوں سے بھرے باغ میں بہتی آبشاروں کے قریب کھڑا مسکرا رہا ہے ۔ صبا نے کہا بھائی تم پریوں کے ، پھولوں کے ، جگنوئوں کے دیس میں اکیلے ہی آگئے ۔ وہ کہنے لگا میں تویہاں ہی رہتا ہوں ۔
اتنے میںفون کی گھنٹی سے صبا کی آنکھ کھل گئی ۔ اس کاچہرہ آنسوئوں سے تر تھا، اس کے دل سے دعائیں نکل رہی تھیں۔
’’ یا رحمٰن یا اللہ،میرے مہر بان رب تیری رحمت تیرے غضب پر چھائی ہوئی ہے میرے بھائی کو بخش دے ، اس نے تیری مخلوق کے ساتھ بہترین معاملہ کیا تو بھی اس کے ساتھ عمدہ معاملہ کرنا اورا س کے لیے لوگوں کی اچھی گواہیاں قبول فرما لینا ، میرے رب تجھے معاف کرنا پسند ہے پس میرے بھائی کو معاف کر کے جنت الفردوس میں مقام عطا فرمانا ۔ آمین
٭٭٭

ادارہ بتول کی کتب
درج ذیل مکتبوں سے دستیاب ہیں
1۔ اسلامک پبلی کیشنز لاہور6۔مکتبہ علوم اسلامیہ آرام باغ کراچی
2۔البدر پبلی کیشنز راحت مارکیٹ اردو بازار لاہور7۔مکتبہ معارف اسلامی ایف بی ایریا کراچی
3۔مکتبہ تعمیر انسانیت اردو بازار لاہور8۔مکتبہ تعمیر افکارناظم آباد کراچی
4۔ مکتبہ شرکت الامتیاز غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور        9۔ مکتبہ تحریک محنت واہ کینٹ
5۔مکتبہ معارف اسلامی منصورہ ملتان روڈ لاہور10۔دارالکتب کالج روڈ ،راولپنڈی

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x