ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

جیل کہانی – وہ جو قافلے سے بچھڑ گئے – آسیہ راشد

ان کی آہ و بکامیں ان راستوں کی تلاش تھی جوان کے گھروں کوجاتے تھے …. ایک انوکھے تجربے کا احوال

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ویمن ایڈ ٹرسٹ کا ایک گروپ قیدی خواتین کے مسائل حل کے لیے کوٹ لکھپت جیل لاہور میں اپنی خدمات انجام دے رہا تھا۔ جو خواتین کسی بھی وجہ سے جیلوںمیں قید تھیں اور ان کے پیچھے کوئی پر سانِ حال نہیں تھا اور نہ ہی ان کو دیکھنے والا تھا، دوران قید فی سبیل اللہ ان کی مدد کی جا رہی تھی ۔ ان کی صحت کی دیکھ بھال ، تعلیم و تربیت قانونی مشورے اور وکیل کی خدمات (WAT)کی طرف سے سبھی ان کو مفت فراہم کیا جا رہا تھا ۔ قید سے رہائی کے بعد اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے مواقع بھی فراہم کیے جا تے تھے ۔ اس کے ساتھ ساتھ وسائل اور رہنمائی بھی دی جاتی۔
خواتین کا ایک گروپ ہر ہفتے یا پندرہ دن کے بعد جیل جا کر خواتین کا میڈیکل چیک اپ کرتا ۔ ان کے ساتھ ایک لیڈی ڈاکٹر یا ہیلتھ وزیٹر ہوتیں جو ان خواتین کا بلڈ پریشر چیک کرتیں ان کا مکمل طبی معائنہ ہوتا اور روز مرہ کے معمولی بخار ، انفیکشن ،ڈائریا، پیٹ کی خرابی وغیرہ کی دوا دی جاتی۔
اس گروپ میں شامل غزالہ ہاشمی انتظامات کی ڈیوٹی سنبھالے ہوئے تھیں ۔ ان کی نظر کرم مجھ پر پڑی اور صبح صبح ان کا فون آگیا ۔ باجی ہم کل کوٹ لکھپت جیل جا رہے ہیں ۔ آپ نے ہمارے ساتھ چلنا ہے۔مگر میں وہاں کیا کروں گی ؟ میں نے استفسار کیا ۔ آپ نے قیدی خواتین کو کسی بھی موضوع پر لیکچر دینا ہے آپ کوئی بھی موضوع تیار کر لیجیے۔
میں نے حامی بھرلی بھٹکے ہوئے لوگوں کے لیے ’’ توبہ‘‘ سے بہتر کوئی ٹاپک نہیں ہو سکتا مگر کسی گناہ گار کو اس کے گناہ کا احساس دلانا بھی بہت حساس موضوع تھا ۔ بہر حال میں نے اپنی تیاری کرلی ۔ کل مجھے جیل اوراس کے مکینوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا تھا۔
اگلی صبح ہم دس بجے کوٹ لکھپت جیل کے گیٹ پر تھے ۔ ہمیں کہا گیا کہ آپ لوگ ابھی گاڑی میں بیٹھے رہیں ۔ آپ کو باری آنے پر بلایا جائے گا ۔ پہلی بار کسی جیل کو دیکھنا اور قیدی عورتوں سے ملنا یہ سب میرے لیے بالکل نیا تھا۔
پاکستان کے دل شہر لاہور کی ہنگامہ خیز زندگی جہاں چہار سو روشنیوں کے رنگ بکھرے ہیں جہاں ہمہ وقت حیات جاوداں رہتی ہے، وہیں پر شہر سے الگ تھلگ کوٹ لکھپت جیل کی بلند بالا چہار دیواری میں زندگی جیسے ٹھہر گئی تھی ۔ مدھم روشنیوںمیں اداسیوں اور پچھتاوے کا بسیر ا تھا ۔ نہ جانے وہ کون سے کمزورلمحات تھے یا ان کو درپیش محرکات تھے جن کے جرم کی پاداش میں وہ یہ سزا بھگت رہی تھیں۔
جیل کا تصور ہی رونگٹے کھڑے کر دینے والا احساس تھا میرے دل و دماغ میں دنیا کی بڑی بڑی جیلوں کی تصویریں گھومنے لگیں ۔ جہاں دہشت گردی کے الزامات والے مجرموں کو رکھا جاتا ہے ۔دنیا کی سب سے خطر ناک جیل گوانتانا موبے جو امریکہ اور کیوبا کے ساحلی علاقے میں واقع ہے اس کے بارے میں جو کچھ سن رکھا تھا وہ جسم پر لرزہ طاری کر دینے کے لیے کافی تھا ۔وہاں کے ماحول کی خوفناکیاں اور انسانی جسموں پر ڈھائے جانے والے ظلم کی داستانیں نہ تو سنائی جا سکتی ہیں اور نہ ہی سنی جا سکتی ہیں ۔ اس ظلم و بربریت کے نتیجے میں بے شمار ، قیدی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور متعدد ذہنی ٹارچر کی وجہ سے اپنا دماغی توازن کھو بیٹھے۔ جیسے ہی یہ خیالات میرے ذہن میں گردش کرنے لگے میرے دل میں گھبراہٹ شروع ہوگئی ۔ میں نے بے بسی سے جیل کے سلیٹی رنگ کے آہنی گیٹ کو دیکھا ۔ نہ جانے اندر کیا دیکھنے کو ملے گا ۔
اتنے میں ایک محرر نے آ کے پیغام دیا آجائیں اب آپ کی باری ہے ۔ ہم چھ خواتین کا قافلہ جیل کے گیٹ کے اندر بنے ہوئے چھوٹے دروازے سے داخل ہؤا۔ وہاں ہماری شناخت ہوئی ۔ موقع پر موجودوزیٹر بک میںہمارے نام موجود تھے ۔ ہمارے شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد ہمیں اندر جانے کی اجازت ملی۔
میں نے اپنی ساتھیوں سے کہا ’’ میں پہلی بار آپ کے ساتھ آئی ہوں ۔ کیا یہاں ہمارے ساتھ کوئی حادثہ بھی ہو سکتا ہے؟‘‘اس نے مسکراتے ہوئے مجھے دیکھا اور کہا ’’ ہو بھی سکتا ہے ‘‘۔
’’ کیسا حادثہ ؟ کیا کوئی قیدی فائرنگ بھی کر سکتا ہے جیساہم اخباروںمیںپڑھتے ہیں ‘‘ میں نے دوبارہ پوچھا۔
’’ جی ہاں ‘‘ وہ اطمینان سے بولیں۔
’’ آپ لوگ ہر ہفتے آتے ہیں ۔ کیا کبھی کوئی حادثہ یا واقعہ پیش آیا ؟‘‘
’’ نہیں ابھی تک نہیں ‘‘انہوں نے لا پروائی سے کہا ۔
’’ پھر آپ مجھے کیوں ڈرا رہی ہیں ‘‘۔
’’ ڈرانا تو چاہیے آپ جیل کے کمپائونڈ میں ہیں ۔ مجرم عورتوں کے درمیان ۔ کیا پتا کسی وقت بھی کچھ ہوجائے ۔ آپ کو ہر طرح سے چاق و چوبند رہنا چاہیے ۔ ہم لوگ ان تمام خطرات کے باوجود ہر ہفتے آتے ہیں۔ ابھی تک تو اللہ کا فضل ہے ‘‘۔
جیل کی سوشل ویلفیئر آفیسر خالدہ بٹ صاحبہ ہمارے ساتھ تھیں ان کی موجودگی میں ہمیں دلی اطمینان تھا۔
آج تعلیم و تربیت کا دن تھا ۔ ایک بڑے ہال نما کمرے میں قیدی عورتوں کو لایاجا رہا تھا ۔ اس ہال میںقیدی خواتین کے لیے چارپائیاں بچھی تھیں جیسے کسی ہسپتال کے بڑے وارڈ میں بیڈ بچھے ہوتے ہیں۔ کچھ عورتوں کے ساتھ نو مولود اور چند ایک کے ہمراہ دو دو ، تین تین سال کے بچے تھے ۔ یہاں چند چار پائیوں کے ساتھ بے بی کاٹ بھی تھیں ۔ کچھ نو عمر بچیاں جو غالباً بارہ تیرہ برس کی ہوں گی اپنے دوپٹے منہ میں ٹھونسے اپنی ہنسی روکتے ہوئے داخل ہوئیں ۔ میںنے حیرت اور پریشانی سے ان کھلتی کلیوں کودیکھا۔ نہ جانے یہ کس جرم میں یہاں لائی گئی تھیں ۔ بہت سی عورتوں نے اپنے دوپٹوں سے اپنے چہرے ڈھانپ رکھے تھے تاکہ پہچانی نہ جائیں ۔ کچھ ہی دیر میں ہال نما کمرہ خواتین سے کھچا کھچ بھر گیا ۔ کچھ چار پائیوں پر بیٹھ گئیں کچھ چار پائیوں کے درمیان بچی جگہ پر بیٹھ گئیں جن کو بیٹھنے کو جگہ نہ ملی وہ دروازے کے پاس کھڑی ہوگئیں ۔
کچھ جیل کے ماحول کا خوف او دوسرے اتنے بڑے مجمعے سے خطاب کا خوف ان دونوں نے مل کر مجھ پر گھبراہٹ طاری کردی ۔ تلاوتِ قرآن پاک کے بعد جیسے ہی میں نے بات شروع کی اللہ نے خاص مدد فرمائی اورچند ہی لمحوں میں ساری گھبراہٹ دور ہو گئی تو بہ کے موضوع پر سیرت النبیؐ کے واقعات سناتے ہوئے میں نے مجمع پر نگاہ دوڑائی تو مجھے ہر آنکھ اشکبار دکھائی دی یہ موضوع ان کے دل کے بہت قریب تھا پورا مجمع سانس روکے اپنے نبی پاکؐ کی سیرت کے دلنشیں واقعات سن رہا تھا ان کی رحمت کے تذکرے ہو رہے تھے ۔ اللہ پاک کے انعامات کا ذکر ہو رہا تھا جو توبہ کرنے والوں کو ملنے والے تھے۔ ہال میں سوئی کے گرنے کی آواز بھی سنائی دے سکتی تھی ۔ دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو رہی تھیں ۔ سبھی کے دل اللہ کو پکار رہے تھے ۔ کاش انہیں اپنی غلطیوں کی معافی مل جائے ۔ وہ کون سی نامراد گھڑ ی تھی جب وہ راہِ راست سے بھٹک گئی تھیں اور آج دنیا سے منہ چھپائے بیٹھی تھیں۔
لیکچر کے بعد دعا کا وقت شروع ہؤا۔ یہ دکھ، تکلیف ، کرب اور پچھتاووں سے بھرے ہوئے لوگوں کے اللہ کے آگے رو روکر گڑ گڑانے کا نا قابلِ فراموش منظر تھا ۔ آہوں سسکیوں ، اشکوں ،دھاڑوں کاایک سیل رواں تھا۔ یوں لگ رہا تھاجیل کے درو دیوار بھی اس اشک باری میںان کا ساتھ دے رہے ہیں ، سبھی توبہ کرنے کو بے تاب تھے سبھی آخرت کی سزا سے ڈرے ہوئے تھے ہر کوئی اس قید خانے سے باہر کی دنیا میںجانا چاہتاتھا جہاںان کے پیارے برسوں سے ان کی راہ تک رہے تھے ، اگر اللہ کے ہاںسے معافی مل گئی تو شاید دنیا بھی معاف کر دے۔ ان کی آہ وبکامیں ان راستوں کی تلاش تھی جو ان کے گھروںکو جاتے تھے ۔ ان کی سسکیوںمیں ندامت کے وہ تمام چراغ جل رہے تھے جن کوجلانے کے لیے انہوں نے اپنے آنسوئوں اور معافیوں کا تیل ڈالا تھا، ان کے پھیلے ہوئے ہاتھ اپنے غفور رحیم آقا سے ان بخششوں کا وعدہ لے رہے تھے جن کے بعد جنتوں کی طرف جانے والے راستے آسان ہو جاتے ہیں ۔
ایسا دلدوز منظر میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی نہیںدیکھا تھا۔ آج ضبط کے تمام بندھن ٹوٹ گئے تھے ۔ یوں لگتا تھا اشکوں کا سیلاب جیل کی چہار دیواری کو اپنے ساتھ بہا لے جائے گا۔
دعا کا اختتام ہوچکا تھا ۔ ہلکی ہلکی سسکیاں ابھی بھی جاری تھیں ۔ آہوں اور چیخ وپکار کا طوفان تھم چکا تھا ۔ جیسے کسی میت کے اٹھنے کے بعد کہرام مچتا ہے اور پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔نہ جانے ان سے جیل میںکیسا سلوک ہوتا ہوگا ۔ میرے اندر سے آواز آئی ۔ ان بھٹکے ہوئے لوگوںکوکوئی سیدھا راستہ دکھا بھی پائے گا یا نہیں ، کیا جیل میں ان کی اصلاح کا کوئی انتظام ہے یانہیں میرے ذہن میں یکدم بہت سے سوالات گردش کرنے لگے ۔
میرےدل سے ان کے لیے ایک آہ نکلی۔ کاش میں قافلے سے بچھڑے لوگوں کے لیے کچھ کر سکتی۔ میں نے گروپ ہیڈ اسما خان سے کہا میں ان سب سے انفرادی طور پر ملنا چاہتی ہوں ۔ جی ضرور! وہ بولیں ۔ مگر آج کا وقت ختم ہوچکا ہے وہ بولیں ۔ اس کے لیے آپ کو اگلے ہفتے دوبارہ آنا ہوگا پھر آپ ان میں سے کسی ایک دو سے ملاقات کر سکتی ہیں ۔
دوبج رہے تھے ۔ ہم لوگ واپسی کے رجسٹر پر اپنی حاضری لگوا کرگاڑی میں آ بیٹھے ۔ میرا دل پکار رہاتھا۔
؎ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
٭٭٭

ڈاکٹر مقبول احمد شاہد کی تصنیف
قرآن کا معجزہ
دوبارہ شائع ہو گئی ہے
آج ہی اپنے آرڈر سے مطلع کریں
قیمت:90روپے
ملنے کا پتہ:
ادارہ بتول
14-Fسیدپلازہ30فیروزپورروڈلاہور۔
فون:042-37424409

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x