ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

قحط ہے – اسما صدیقہ

گیت کیا سناؤں میں ،شادماں نظاروں کا
غم زدہ سے موسم میں خوش بیاں نظاروں کا
تلخ سی حقیقت میں قہقہوں کے افسانے
کھوکھلی سی جدت میں لذتوں کے دیوانے
روشنی کی قیمت میں جل رہے ہیں پروانے
ماجرا تو ایسا ہے بس ٹھہر کے دیکھو تو
واسطہ تو ایسا ہے آنکھ بھر کے دیکھو
٭

عجیب ہیں یہ معرکے یہ روزوشب کے حادثے
قدم قدم ہیں دور تک شقاوتوں کے سلسلے
یہ روگ نارسائی کا یہ سوگ کج ادائی کا
نہیں رہا ہےدسترس میں مول ناروائی کا

نظر نظر میں روگ ہے نفس نفس میں یاس ہے
تو منظروں میں سوگ ہے یا خوف ہے ہراس ہے
تھما تھما رکا ہؤا،ڈرا ہؤا ہے ہرکوئی
عجیب کشمکش میں جیسے ڈولتا ہے ہرکوئی
یقیں بھی پاش پاش ہے،گماں فقط نراش ہے
سکوت بھی ہے چیختا،پکار میں بھی یاس ہے
عجب طرح کی وحشتوں میں گھر چکا معاش ہے
یہ قلتیں عجیب ہیں ہراک کا جو نصیب ہیں
کہ رابطوں کے شور میں نہ رابطے قریب ہیں

نہ فاصلوں میں حوصلے،نہ حوصلوں کی پشت پہ
لگن کی کوئی آس ہےملن کی کوئی پیاس ہے
کہ مرگِ جذب وچاہ میں ہے زندگی بکھر گئی
ٹٹولتا ہے ہرکوئی کہ روشنی کدھر گئی

نظرمیں دور دورتک نہیں بہارِ شادماں
بچانہیں ہےآنکھ میں کوئی بھی خوابِ خوش بیاں
نگر سبھی جھلس گئے ہیں حسرتوں کی آگ میں
ڈگر سبھی جھلس گئے ہیں قلتوں کی آنچ میں
کہیں پہ قحط اناج کا،کہیں پہ دکھ خراج کا
خراج کے سماج میں یہ قحط بھی ہے آج کا

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x