ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ابھی یہ عمر باقی ہے – اسماء جلیل قریشی

ابھی یہ عمر باقی ہے
ابھی یہ سانس چلتی ہے
ابھی یہ دل دھڑکتا ہے
یہ دھڑکن شور کرتی ہے
ابھی قوسِ قزح
آنکھوں کے پردے پر اترتی ہے
ابھی پلکوں کی باڑوں پر
سجے ہیں ان گنت سپنے
ابھی دہلیزِدل پہ نت نئے موسم ابھرتے ہیں
ابھی ہے دلکشی باقی ابھی ہے چاشنی باقی
وہ جیسے گرتی بوندوں کی
ہے رہتی راگنی باقی
لبِ دریا ابھی وہ چاندنی راتیں لبھاتی ہیں
پہاڑی راستوں میں آبشاریں گیت گاتی ہیں
ابھی جوبن پہ بزمِ دوستاں ہے مسکراہٹ ہے
ہنسی سرگوشیاں ہیں بولتے جذبوں کی آہٹ ہے
ابھی دامن پہ
جھلمل سے ستارے ٹانک لیتے ہیں
دریچے یاد کے ہم کھولتے ہیں جھانک لیتے ہیں
ابھی شبنم کے قطروں کی مہک کاہے فسوں باقی
ابھی سرخی شفق کی دیکھنے کا
ہے جنوں باقی
ابھی گاؤں کی پگڈنڈی پہ چلنے کی تمنا ہے
ابھی تو بھاگ کر جگنو پکڑنے کی تمنا ہے
ابھی تو ریل کی سیٹی کی باقی بازگشتیں ہیں
ابھی چھک چھک سے پٹری سے جڑی کچھ داستا نیں ہیں
غباروں نے ہواؤں میں ابھی بھرنی اڑانیں ہیں
ابھی خواہش ہے ہم دیکھیں جو برفیلی چٹانیں ہیں
ابھی تو ارغوانی بدلیاں منظر سجاتی ہیں
نئی کچھ منزلیں آواز دیتی ہیں بلاتی ہیں
ابھی پت جھڑ کے موسم میں غزل فرقت پہ لکھنی ہے
دسمبر کی کہانی بھی بڑی فرصت سے لکھنی ہے
ابھی مصرع ادھورا ہے کہر آلود خنکی پر
ابھی لکھنا ہے افسانہ وہ بھیگی ایک کھڑکی پر
ابھی یہ شام کی رعنائیاں بھی بات کرتی ہیں
ابھی یہ جلترنگی بارشیں دل پر برستی ہیں
ابھی کوئل چہکتی ہے ابھی ڈالی مہکتی ہے
ابھی پائل چھنکتی ہےابھی چوڑی کھنکتی ہے
ابھی گہرا ہے کاجل بھی
ابھی خوش رنگ آنچل بھی
ابھی یہ سرمئی بادل سہانا کیف دیتا ہے
وہ پورب ہو کہ پچھم ہو خمارِزیست بہتا ہے
ابھی تو یہ بھی کرنا ہے ابھی تو وہ بھی کرنا ہے
ابھی تو گردشِ ایام پر الزام دھرنا ہے
سخن میں رنگ بھرنے کو ابھرتے ہیں نئے پیکر
نئے ہیں استعارے منتظر باندھے انہیں شاعر
ابھی الفاظ پر ہے دسترس تو خوش بیانی ہے
تخیل کی ابھی وادی میں ہر جانب روانی ہے
گماں کی حد میں ہے جو ان کہی سی اک کہانی ہے
ابھی لگتا ہے جیسے زندگی یہ جاودانی ہے
ابھی یہ عمر باقی ہے
’’ابھی‘‘ لیکن گماں ہے
اور ’’ابھی‘‘ ہر طَور فانی ہے
ابھی جو روبرو ہے وہ پسِ منظر کبھی ہوگا
ابھی جو رائگاں ہوجائے گا نہ پھر کبھی ہوگا
ابھی نے ہے گزر جانا
ابھی نے ہے سفر کرنا
ابھی ہے ایک دھوکا جس نے
ہم سے ہے مکر کرنا
ابھی ہے زندگی لیکن کہاں اور کب یہ رکتی ہے
یہ گویابرف ہے ہر ایک ساعت میں پگھلتی ہے
ابھی رت ہے جوانی کی مگر آگے بڑھاپا ہے
ابھی ہے وقت کرنے کا وہ جس کا بھی ارادہ ہے
ابھی کو جان لو مہلت، یہ مہلت اک غنیمت ہے
غنیمت کی یہ قیمت جاننا نورِفراست ہے
ابھی کرلونہ ایسا ہو کہیں پھر دیر ہو جائے
’’ابھی‘‘ روشن ہے لیکن کل کبھی اندھیر ہوجائے

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
5 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x