ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

غزل – حبیب الرحمٰن

وہ جو ماں کے تلخ سے تند سے مجھے چھٹ پنے میں رلا گئے
وہی لہجے ڈانٹ کے پِیٹ کے مری زندگی کو بنا گئے
مرے سب گناہ مٹا گئے، ترا آسمان ہلا گئے
مرے نالے تیری جناب میں عجب ایک حشر اٹھا گئے
نہ وہ چہرہ اب ہے گلاب سا نہ رہا ہوں مثلِ شہاب سا
وہ جو دن تھے ہجر و فراق کے مرے رنگ روپ کو کھا گئے
وہ جو بت تھے ریت کے راکھ کے وہ تو دودھ تھے کسی آکھ کے
نہ تھے اہل عزت و ساکھ کے جنھیں ہم سے جانے خدا گئے
وہ جو روز و شب تھے وصال کے وہ جو روز و شب تھے فراق کے
کبھی یاد آکے رلا گئے کبھی یاد آ کے ہنسا گئے
وہ جو اٹھے لے کے کتاب کو بنا حرص اجر و ثواب کو
کیے ترک چنگ و رباب کو وہی اس جہان پہ چھا گئے
وہ جو ظلمتوں سے جہاد میں کبھی اپنے خوں سے جلائے تھے
یہ و ہی تو گھر کے چراغ ہیں جو مرے ہی گھر کو جلا گئے
میں تو اب بھی ان کا غلام ہوں، میں غلام ابنِ غلام ہوں
وہ عجب تھے لوگ سفید سے مرا خوں سفید بنا گئے
کبھی نیم شب کی دعاؤں میں جو گرے خطا کی چتاؤں میں
وہی چند اشک حبیب سب مرے دل کی آگ بجھا گئے

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x