غزل – حبیبؔ الرحمٰن
اے کاش جرمِ معاصی پہ اتنا رولوں میں جو داغ دامنِ دل پر لگے ہیں دھولوں میں تمام عمر ہی گزری اسی کشاکش میں وہ
اے کاش جرمِ معاصی پہ اتنا رولوں میں جو داغ دامنِ دل پر لگے ہیں دھولوں میں تمام عمر ہی گزری اسی کشاکش میں وہ
کسی کو نرم بنا ئے کسی کو سخت کرے سلوک آگ ہر اک شے کے حسبِ بخت کرے جو کذب و جھوٹ کا تکیہ سفیرِ
سر کی یہ آگ پیروں تک آنی ہے اور بس اتنی سی شمع تیری کہانی ہے اور بس پھر دیکھیے وہ جوش وہ جذبہ عوام
وہ جو ماں کے تلخ سے تند سے مجھے چھٹ پنے میں رلا گئے وہی لہجے ڈانٹ کے پِیٹ کے مری زندگی کو بنا گئے
غزل نہیں ہے بیری تو کیوں مرے گھر برس رہے ہیں سبب تو ہوگا جو اتنے پتھر برس رہے ہیں خطاؤں کے داغ سب دھلیں
ہم چلو دودھ کے جلے ہوئے ہیں آپ کیوں چھاچھ سے ڈرے ہوئے ہیں جاگتی ہی نہیں ہے شرم و حیا لوگ چکنے گھڑے بنے
نہ ہم نے کھلتے گلاب دیکھے نظر نہ شکلِ ببول آئی عجیب منزل تھی جس کی راہوں میں گرد دیکھی نہ دھول آئی لکھے تھے
بس بہت ہو گیا اپنے دل میں ذرا الفتوں چاہتوں کو جگہ دیجیے مدتوں سے جما نفرتوں کا غبار اپنے ذہن و نظر سے اڑا
اخلاص و محبت سا وہ پیکر نہ ملے گا باہر سے ہے جیسا مرا اندر نہ ملے گا حق گوئی پہ سر کاٹنا ہے کاٹ
میں ظلمتوں سے بغاوت میں مارا جاؤں گا اے روشنی تری چاہت میں مارا جاؤں گا جہالتوں کی نحوست مجھے نگل لے گی میں زعم
ادارہ بتول کے تحت شائع ہونے والی تمام تحریریں طبع زاد اور اورجنل ہوتی ہیں۔ ان کو کہیں بھی دوبارہ شائع یا شیئر کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ ساتھ کتاب اور پبلشر/ رسالے کے متعلقہ شمارے اور لکھنے والے کے نام کا حوالہ واضح طور پر موجود ہو۔ حوالے کے بغیر یا کسی اور نام سے نقل کرنے کی صورت میں ادارے کو قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہو گا۔
ادارہ بتول (ٹرسٹ) کے اغراض و مقاصد کتابوں ، کتابچوں اور رسالوں کی شکل میں تعلیمی و ادبی مواد کی طباعت، تدوین اور اشاعت ہیں تاکہ معاشرے میں علم کے ذریعےامن و سلامتی ، بامقصد زندگی کے شعوراورمثبت اقدار کا فروغ ہو
Designed and Developed by Pixelpk