ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

خاص مضمون – تنظیم اپنے مقاصد کیسے حاصل کرسکتی ہے – خرم مرادؒ

’’ کارکن اورقیادت سےتحریک کے تقاضے ‘‘ کاایک باب

ہر تنظیم کسی مقصد کے لیے قائم ہوتی ہے اور اس مقصد کے حصول میں وہ جتنی مؤثر (effective) اور جتنی کارگر (efficient) ہوگی اتنا ہی وہ تنظیم زیادہ کامیاب ہوگی۔ اس لحاظ سے ہم سب کے لیے یہ جاننا ضروی ہے کہ وہ کون سے اصول اور تدابیر ہیں جو کسی ایسی تنظیم کے مقاصد کے حصول کے لیے مؤثر اور کارگر ہو سکتے ہیں جو اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے قائم کی گئی ہو۔

تنظیم کیا کرتی ہے اور اس کی اہمیت کیا ہے؟

عمومی نقطہ نظر سے ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ تنظیم کے دو کام ہیں:ایک یہ کہ وہ افراد کو جمع کر کے ایک ایسا مجموعہ بنائے جس کی طاقت اور قوت افراد کے مجموعے سے کئی گنا زیادہ ہو۔ اگر آپ ریاضی کے جمع کے فارمولے سے افراد کی قوتوں اور طاقتوں کو جمع کریں تو تنظیم میں آکر وہ اَضعافاً مُضاعَفَۃ ،یعنی کئی گنا زیادہ بڑھ جائیں گی۔ اس کو اردو کے ایک عام محاورے کے لحاظ سے ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک اور ایک کو جمع کر کے دو بنانا تنظیم کا کام نہیں ہے، بلکہ ایک اور ایک کو گیارہ بنانا تنظیم کا مقصد ہے۔ وہی افراد جو الگ الگ مختلف صلاحیتیں، قوتیں اور طاقتیں رکھتے ہیں جب وہ مل جائیں تو مل کر ان کی طاقت اور قوت اپنے مجموعے سے کئی گنا زیادہ طاقت ور اور زیادہ باصلاحیت بن جائے گی۔
تنظیم کا دوسرا کام یہ ہے کہ وہ کام جو افراد الگ الگ نہیں کر سکتے وہ کام تنظیم سرانجام دے۔
تنظیم اپنی مختلف صورتوں میں انسان کے ساتھ ہمیشہ موجود رہی ہے لیکن یہ بات کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ تنظیم نے پچھلے ۱۰۰ سال میں، بحیثیت ایک ادارے اور تنظیم کو چلانے کے فن کے رہنما ترقی کی ہے۔ انسان نے بڑے بڑے عظیم الشان کارنامے اسی تنظیم کے بل پر سرانجام دیے ہیں۔
ایک شخص اپنے باغ میں سیب کو گرتا دیکھ کر یہ نتیجہ نکال سکتا تھا کہ پوری کی پوری کائنات کشش ثقل کے اوپر قائم ہے۔ لیکن ایک شخص کے بس میں یہ نہیں تھا کہ وہ انسان کو چاند کے اوپر پہنچا دے۔ اس کے لیے بڑی منظم جدوجہد کی ضرورت تھی۔ معمولی دکان دار اپنے مقام پر بیٹھ کر اپنا کاروبار چلا سکتا ہے لیکن یہ اس کے بس میں نہیں ہے کہ وہ کثیر قومی کارپوریشن بن کر اپنے کاروبار کو دُنیا کے گوشے گوشے میں پہنچا دے۔
ایک شخص کہیں بیٹھ کر اپنے خیالات کی ترویج اور ان کی اشاعت کر سکتا ہے لیکن یہ اس کے بس میں نہیں ہے کہ وہ پوری کی پوری قوم اور معاشرے کو مسخر کر کے اس کو کسی انقلاب کی راہ پر لگا دے۔ تنظیم وہ کام کر سکتی ہے یا اسے کرنا چاہیے جو افراد الگ الگ نہیں کر سکتے۔ یہ اس کا عام پہلو ہے۔
اگر تحریک اسلامی کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو ہماری ساری دعوت جو بے شمار الفاظ اور بے شمار صفحات کے اوپر پھیلی ہوئی ہے، اس کو سمیٹ کر اگر ہم خلاصہ بیان کرنا چاہیں تو صرف دو جملوں کے اندر بیان کر سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اقامت دین ہرمسلمان کے اوپر فرض ہے، اور دوسرا یہ کہ یہ فریضہ تنظیم اور اجتماعی زندگی کے بغیر ادا نہیں ہو سکتا۔ اس لیے تنظیم اور اجتماعی زندگی ناگزیر ہیں۔ اس کے علاوہ ہماری ساری باتیں وہ ہیں جو اس دور میں مانی جاتی تھیں جس دور میں اس تحریک کا آغاز ہو&ٔا۔ سب کو ان باتوں سے اتفاق تھا لیکن یہ دو منفرد باتیں اس ملک میں تحریک کی بنیاد بنیں۔ اس لحاظ سے تنظیم بنیاد کے پتھر کی حیثیت رکھتی ہے اور ہم نے جان بوجھ کر ہی یہ بات کہی ہے کہ انفرادی طور پر خواہ کتنے ہی کام ہو سکیں لیکن اقامت دین کا کام اور اسلامی انقلاب کا کام تنظیم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ دینی اور تحریکی لحاظ سے یہ تنظیم کی اہمیت ہے۔
حکمت ِتنظیم
آیئے اب یہ دیکھیں کہ حکمتِ تنظیم سے فی الواقع ہمیں کیا حاصل ہوگا؟
حکمت ِتنظیم کے معنی یہ ہیں کہ وہ تنظیم کو اس قابل بنائے کہ جو چیزمطلوب ہو وہ ممکن بن سکے۔ انسان بہت سارے خواب دیکھتا ہے، بہت ساری تمنائیں اور آرزوئیں رکھتا ہے، وہ پوری نہیں ہوتیں۔ تنظیم کا کام یہ ہے کہ ان آرزوئوں اور ان تمنائوں کو ممکن بنائے اور ممکن سے بڑھا کر ایک حقیقت بنا دے۔ گویا جو چیز ناممکن نظر آتی ہو وہ ممکن بن جائے اور ایک حقیقت کا روپ دھار لے۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ کام زیادہ سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ ہو۔ ہم کوئی رفتار کا تعین نہیں کرتے لیکن جتنی بھی تیز رفتاری سے یہ کام ہوگا اتنا ہی تنظیم زیادہ مؤثر اور کارگر ہوگی۔
تیسری بات یہ ہے کہ جو وسائل اور کوششیں اس کام میں لگیں، وہ زیادہ سے زیادہ نتیجہ خیز ہوں۔ کم سے کم کوشش اور کم سے کم خرچ سے زیادہ سے زیادہ نفع حاصل ہو۔ انگریزی میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ effective [مؤثر] بھی ہو اور efficient [کارگر] بھی۔
وسائل کا لفظ جب میں بولتا ہوں تو آپ کے ذہن میں فوراً بیت المال اور پیسہ آئے گا۔ لیکن وسائل سے میری مراد محض بیت المال نہیں ہے۔ سب سے بڑھ کر وسائل انسان ہیں۔ ان کا وقت ہے، ان کی صلاحیتیں، ان کی وابستگی اور لگن ہے، اور ان کی اخلاقی صفات ہیں۔ یہ چیزیں وسائل میں شمار ہوتی ہیں۔ جب میں خرچ کا لفظ استعمال کروں تو آپ صرف مال ہی کے خرچ کرنے کا نہ سوچیں، بلکہ انسانوں کے اوقات، ان کی صلاحیتیں، ان کی استعداد، ان کو خرچ کرنا، وسائل کو خرچ کرنا ہے۔ تنظیم کا کل بجٹ صرف مال پر مشتمل نہیں ہوتا، اگرچہ مادی وسائل بھی اس کا ایک حصہ ہیں بلکہ انسانوں کا یہ سارا مجموعہ بھی اس کے بجٹ کے اندر شامل ہے۔ مثال کے طور پرآپ یہ کہیں کہ اس تربیت گاہ پر کتنے وسائل لگے، تو شاید آپ چند ہزار روپے کا حساب دیں گے لیکن میرے خیال میں کم سے کم ڈھائی تین ہزار دن کے وسائل اس تربیت گاہ کے اوپر خرچ ہوئے ہیں۔ اس لحاظ سے اوقات، صلاحیتیں، قوتیں، توجہات، وابستگی، لگن، یہ ساری چیزیں انسانوں کے وسائل کے اندر شامل ہیں۔
اگر تنظیم مؤثر نہ ہو اور وہ حکمت میسر نہ ہو جس سے تنظیم کو مؤثر کیا جا سکے تو اس کا امکان ہے کہ وسائل موجود ہوں، اور کام نہ ہو۔ بنک کے اندر سرمایہ موجود ہو اور نفع آور کاروبار میں نہ لگ سکے۔ بھاگ دوڑ اور کوشش ہو، اس کے باوجود بھی نفع نہ ملے۔ میں اگر کاروبار اور نفع کی اصطلاحات استعمال کر رہا ہوں تو اس سے آپ گھبرائیں نہیں، اس لیے کہ ان سے بات کو سمجھنا آسان ہے۔ یہ خالص قرآن مجید کا استعارہ ہے کہ جو دینی کام کو بیع، شرع اور تجارۃ کے الفاظ سے تعبیر کرتا ہے۔ اگر ہم آج کی بزنس اور کارپوریشن کی مثالیں لیں تو یہ بالکل عین قرآن مجید کے بیان کے مطابق ہوں گی۔ جب میں یہ کہتا ہوں کہ کاروبار میں روپیہ بنک میں رکھا رہے اور وہ نفع نہ دے، یا کاروبار میں لگایا جائے اور پھر بھی نفع نہ دے، تو دراصل اس کے معنی یہ ہیں کہ انسانوں کے مجموعے کو جہاد کے کام کے لیے جمع کیا جائے اور وہ اس کام میں نہ لگے، اور لگے بھی تو جہاد کی منزل قریب نہ آئے۔ یہ دراصل اسی بات کو کہنے کا ایک معروف پیرایہ ہے جو قرآن مجید نے خود بار بار استعمال کیا ہے۔
تنظیم مختلف نوعیت اور قسموں کی ہو سکتی ہے۔ حکمت تنظیم کے معنی ہیں کہ کم سے کم وقت میں اور کم سے کم وسائل کے ساتھ تنظیم اپنے مطلوب مقصد کو ممکن اور حقیقت بنا سکے۔ اس کا انحصار اس پر ہے کہ تنظیم کا مقصد کیا ہے۔ مقصد اور نوعیت کے لحاظ سے تنظیموں کی بے شمار قسمیں بیان کی گئی ہیں۔ وہ اس وقت زیربحث نہیں ہیں۔ اس وقت میں صرف ایک تقسیم آپ کے سامنے رکھوں گا اس لیے کہ وہ میری گفتگو سے متعلق ہے۔ ایک قسم کی تنظیمیں وہ ہوتی ہیں جو چلتے ہوئے ادارے اور کاموں کو چلانے کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ انگریزی میں ہم انھیں maintenance organizations کہہ سکتے ہیں۔ ایک قسم کی تنظیمیں وہ ہوتی ہیں جن کے سامنے maintenance سے زیادہ ترقی [development] ، ارتقا [evolution] اور پیش رفت اور تحریک [movement] ہوتی ہے۔ ان کو میں movement organization کہوں گا۔ تنظیموں کی یہ تقسیم بڑی اہم ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کوئی تنظیم خالص maintenance کی تنظیم ہوسکتی ہے اور کوئی تنظیم خالص movementکی تنظیم ہوسکتی ہے۔ یہ دونوں چیزیں ہمیشہ ملی جلی موجود رہیں گی۔
کسی کام کو آگے بڑھنے اور پیش رفت کرنے کے لیے کسی ڈھانچے کو برقرار رکھنا ضروری ہوگا۔ جب تک کوئی ڈھانچہ موجود نہ ہو جس کے بل پر آگے پیش رفت ہو، وہ کام آگے نہیں بڑھ سکتا۔ کسی چیز کو برقرار رکھنے کے لیے جو ڈھانچہ بنے گا، اگر وہ جان دار ہوگا، تو وہ سال بہ سال یہ تو سوچے گا ہی کہ میں کیسے اپنے آپ کو بہتر بنائوں۔ یہ کوئی ایسی تقسیم نہیں ہے کہ جس میں دونوں بالکل الگ الگ ہو جائیں۔ لیکن تنظیم کے مقاصد کی نوعیت کے لحاظ سے ان دونوں کے تناسب کے اندر فرق واقع ہوتا جائے گا۔ ہماری اسلامی تحریک ایک تحریکی تنظیم ہے، چلتی ہوئی چیزوں کو چلانا اس کا مقصود نہیں ہے۔ اس کا مقصود پیش رفت اور معاشرے کو مسخر کرنا ہے۔ اس کا مقصود پھیلنا، گرفت میں لینا اور غالب ہونا ہے۔ اس لحاظ سے اس کے پاس انسانی وسائل، صلاحیتیں ہیں۔ یہ تنظیم اُسی وقت کارگر اور مؤثر کہی جائے گی جب وہ اپنے اس مقصد اصلی میں کامیابی کے قریب پہنچے، یا اس کو حاصل کرلے۔ اگر وہ اس کو حاصل نہ کرے، تو خواہ وہ بظاہر کتنی ہی مضبوط اور پھیلی ہوئی نظر آئے وہ مؤثر اور کارگر تنظیم نہیں کہی جا سکتی۔ پھر ایسا ہوگا کہ تنظیم کے پاس وسائل ہوں گے اور وہ نرے وسائل رہیں گے۔ جس طرح ایک سست تاجر کے پاس بنک کے اندر لاکھوں روپیہ پڑا رہے اور تجارت کے مواقع آتے رہیں اور وہ ان کو کھوتا رہے۔ وہ سمجھے کہ میں تو بہت مال دار ہوں لیکن وہ اس مقصد کو پورا نہیں کر رہا ہے جو سرمایے کا مقصد ہے، یا یہ کہ وہ کوشش کرے اور سرمایہ لگائے، لیکن اپنی غفلت، لاپروائی، نادانی، یا اپنی کوتاہی سے نفع حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو۔ اگر حالات، ماحول، معاشرہ، مشیت خود راہ میں حائل ہو جائیں تو الگ بات ہے، لیکن اگر اپنا قصور اور خامی ہو تو پھر ہم کہیں گے کہ یہ تاجر اپنے مقصد میں ناکام ہے۔ اسی طرح اگر تحریکی تنظیم انسانی وسائل کو اسلامی انقلاب کی منزل قریب لانے میں نہیں لگا پاتی یا لگاتی ہے تو اپنی کوتاہی سے ان کو ضائع کرتی ہے، تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تنظیم غیر مؤثر [un effective] اور غیرکارگر [inefficient] ہے۔ اور اگر وہ کسی درجے میں اس میں کامیاب ہوتی ہے تو اُسی درجے تک ہم اس کو مؤثر اور کارگر کہہ سکتے ہیں۔
تین بنیادی اصول
اس تمہیدی بیان کے بعد اب میں آپ کے سامنے وہ چند اصول اور تدابیر بیان کروں گا جو اس حکمت ِتنظیم کا حصہ ہیں۔ ان اصول و تدابیر میں تین اصول بالکل بنیادی ہیں جو تنظیم کو مؤثر رکھنے کے لیے اِس کی حکمت عملی کا لازمی حصہ ہونے چاہئیں۔
مقصد نگاہ میں رہے:
پہلا اصول یہ ہے کہ تنظیم کے لیے اس کا مقصد جان اور روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مقصد ہمیشہ شعور میں واضح رہے، نگاہیں اسی کے اوپر مرکوز رہیں، وسائل، اقدامات اور مساعی اسی کی خاطر ہوں۔
یہ پہلا اصول ہے جو تنظیم کو مؤثر بنانے کے لیے لازمی اور ناگزیر ہے۔ آپ کہیں گے کہ یہ تو بڑی آسان بات ہے۔ ہمارا مقصد ہمارے دستور میں لکھا ہؤا ہے، ہمارے لٹریچر میں موجود ہے، ہر اجتماع، ہر تربیت گاہ میں ہم اس کو بار بار دہراتے ہیں تو آخر یہ اتنی اہم بات کیوں ہے کہ اس کو پہلے اصول کے طور پر پیش کیا جائے۔ میں اس بات کو اس لیے رکھ رہا ہوں کہ یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے کہ دستور میں مقاصد لکھے ہوئے موجود ہوں، زبانوں پر بھی مقاصد کا تذکرہ ہو، لیکن تنظیم اس مقصد کو اپنی نگاہوں سے اوجھل کر چکی ہو، یا وہ مدھم ہو چکا ہو، یا اس میں تغیر واقع ہو گیا ہو، یا اس میں کوئی آمیزش ہوگئی ہو۔ وہ لوگ جنھوں نے اپنے لٹریچر میں یہ تشبیہات پڑھی ہیں کہ قافلہ عازم پشاور ہو اور اس کے اوپر کراچی کا بورڈ لگا ہؤا ہو، وہ کیسے اس بات سے غافل ہو سکتے ہیں کہ یہ حادثے تنظیموں اور تحریکوں کو پیش آ سکتے ہیں۔ دستور کے اندر، تقریروں میں، کتابوں میں تذکرہ ہو اور سائن بورڈ بھی لگا ہو، لیکن کوششیں اور سمت کچھ اور ہو جائے۔ اسی لیے نبی ؐ کی احادیث میں اور قرآن مجید میں جو چیز ہم کو تکرار محسوس ہوتی ہے وہ صحیح مقصد اور صحیح منزل کی تذکیر اور اعادہ ہے جو مکی زندگی کے پہلے دن سے لے کر مدنی زندگی کے آخری دن تک کیا گیا۔ یہ وہ بات ہے جس سے کوئی تنظیم یا تحریک غافل نہیں ہو سکتی۔ اس کے بغیر تنظیم بظاہر تنظیم نظر آئے گی لیکن وہ روح سے خالی ہو کر ایک بے جان جسد کی حیثیت اختیار کر سکتی ہے۔ آپ ایک مردہ اور زندہ انسان کو پہلو بہ پہلو لٹا دیں تو دُور سے کوئی آدمی بظاہر دونوں میں کوئی فرق محسوس نہیں کر سکتا۔ جب وہ نبض پر ہاتھ رکھ کر دیکھے گا تو اس کو یہ معلوم ہوگا کہ کس جسد میں دل دھڑک رہا ہے ،اور کون ہاتھ، پائوں، ناک، آنکھ، کان سب کچھ رکھنے کے باوجود وہ وظیفۂ حیات پورا کرنے سے قاصر ہے جس کے لیے وہ بنا تھا۔ اس لحاظ سے مقصدِ اصلی کا شعور ہر وقت تازہ رہنا ضروری ہے۔
مستقبل کو پیش نظر رکھیں:
دوسرا اہم بنیادی اصول جو صرف ایک تحریکی تنظیم کے لیے ہے وہ یہ ہے کہ تحریکی تنظیم کے لیے وہی کام اصل کام ہے جو مستقبل، یعنی، آنے والی کل کی تشکیل، اس کے منصوبے اور اس کے مقاصد کے مطابق کرسکے۔ کل وہی طلوع ہوگی جس کے لیے آج کام کیا جائے گا۔ اگر آج وہ نہیں ہو رہا جس سے ’’کل‘‘ کا سورج اس نقشے پر طلوع ہو جو ہم چاہتے ہیں، تو ایسا سورج کبھی طلوع نہیں ہوگا۔ ایک آج کے بعد دوسری آج، دوسری آج کے بعد تیسری آج آتی رہے گی لیکن وہ کل کبھی نہیں آئے گی جس کے لیے ہماری نگاہیں منتظر ہیں، اور انگریزی کا وہ مقولہ پورا ہو جائے گا کہ:Tomorrow never comes
ہماری ہر پالیسی، ہمارے ہر فیصلے، ہمارے ہر اقدام، ہمارے ہر قانون، ہمارے ہر ضابطے اور ہمارے دستور کی ہر شق کو اس ’’کل‘‘ کے لیے وقف ہونا چاہیے، کل کے لیے بننا چاہیے، کل کے لیے ہونا چاہیے۔ اگر یہ اس کل کو لانے کے لیے ممد اور معاون نہیں ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اس تحریک کے مقصد کو مؤثر نہیں بنا رہے۔ اس بات کو کہنے کی ضرورت شاید ہر تنظیم کو ہے لیکن سب سے کم دُنیا کی ساری زندگی میں وہی کام کارگر ہے جو آخرت میں نافع ہو۔ جس قوم کے افراد کے دل و دماغ میں یہ بات رچی بسی ہو، ان کو یہ بات یاد دلانے کی ضرورت نہیں ہے کہ دُنیا کے اندر بھی تنظیم کو اپنے کام، فیصلے اور اقدامات وہی کرنے چاہئیں جو کل نافع ہوں۔ آج کی زندگی آخرت میں وہ نقشہ نہ بنا سکے جو مطلوب ہے تو ضائع اور بیکار ہے۔ اسی طرح تنظیم کے آج کے وہ کام جو کل کا نقشہ بنانے میں ممدو معاون نہ ہوں وہ بھی بیکار ہیں اور تنظیم کو خواہ مخواہ بوجھل بنا کر یہ تاثر دیتے ہیں کہ تنظیم بڑی متحرک ہے اور بڑا کام کر رہی ہے۔ اگر وہ کل کو لانے میں مدد نہیں دے رہے اور آج کے مسائل کو آج نمٹانے کا کام کر رہے ہیں تو اس کے معنی ہیں کہ یہ تنظیم کو مؤثر نہیں بنا رہے۔
معاشرے پر اثرات :
تیسرا بنیادی اصول، جس کا اطلاق ایک تحریکی تنظیم پر ہوگا کسی دوسری تنظیم پر نہیں ہوگا، اگرچہ دوسری تنظیمیں بھی ایک حد تک اس سے متاثر ہوں گی، وہ یہ ہے کہ تنظیم کے کام کے نتائج اِس کے اندر کو دیکھ کر نہیں قائم کیے جا سکتے۔ ایک تحریکی تنظیم کے کام کے نتائج اس معاشرے کے اندر ہی دیکھے جا سکتے ہیں جس میں وہ کام کر رہی ہے۔
پولیس کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے نہیں لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی ڈرل کتنی اچھی ہے، سپاہی کس نظم و ضبط سے حاضر ہوتے ہیں، ان کی وردیاں کتنی صاف ستھری ہیں بلکہ یہ دیکھ کر کیا جائے گا کہ جرائم پر قابو پانے میں وہ کس حد تک کامیاب ہے۔ ایک تعلیمی ادارہ بھی یہ نہیں کہے گا کہ ہماری عمارت اتنی عالی شان ہے، ہمارے اساتذہ کی تعداد اتنی ہے، ہمارے ہاں ۱۰ ہزار طلبا آتے ہیں بلکہ اس کو بھی شاید یہ دیکھنا پڑے گا کہ جو لوگ وہاں سے سند لے کر جاتے ہیں، معاشرے میں وہ کیا کرتے ہیں۔ ایک تحریکی تنظیم تو ہرگز اس بات پر مطمئن نہیں ہو سکتی کہ ہمارے اجتماع میں بہت لوگ آگئے، ہماری تربیت گاہ کامیاب ہوگئی، ہم نے بڑے اچھے رسالے نکال لیے۔ اس لیے کہ ان کے وہی نتائج معتبر ہوں گے جو معاشرے کے اندر نمودار ہوں۔
٭
اب اس کے بعد میں آپ کے سامنے سات اصول اور تدابیر ایسی پیش کروں گا جو ان بنیادی اصولوں سے نکلتے ہیں۔ یہ تین جڑیں ہیں جس کی سات شاخیں ہیں۔ اس میں کچھ اصول ہیں اور کچھ تدابیر۔ اگر آپ ان کو ملحوظ رکھیں اور عملی جامہ پہنائیں تو آپ ان کو اپنے لیے یقینا مفید پائیں گے۔
محض تنظیم مقصود نہیں
۱- پہلی بات یہ ہے کہ تنظیم کو خود مقصد نہ بننے دیں۔
میں نے یہ بات کہی تھی کہ مقصد اصلی پر نگاہ مرکوز رہے۔ اس میں آمیزش بھی ہوتی ہے، تغیر بھی ہوتا ہے، یہ نگاہوں سے اوجھل بھی ہوتا ہے۔لہٰذا سب سے بڑا خطرہ جو کسی تنظیم کو پیش آسکتا ہے وہ یہ ہے کہ تنظیم فی نفسہ خود ہی مقصود بن جائے۔ اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ چیز جو ایک ذریعے کے طور پر بنائی گئی ہے، جس کا کام یہ ہے کہ معاشرے کو مسخر کرے، اسلامی انقلاب کی منزل کو قریب لائے، اس کی اپنی خدمت کے اندر لوگ مصروف ہو جاتے ہیں۔ یہ چیز ایک دینی تنظیم میں خاص طور پر پیش آ سکتی ہے۔ یہاں ایک بات یہ ہے کہ تنظیم لازمی اور ناگزیر ہے، اس کو ہم مسترد نہیں کر سکتے، چھوڑ نہیں سکتے۔ اور دوسری بات یہ کہ وہ خود بھی ایک مقدس چیز ہے، تو دینی اداروں پر یہ کیفیت اکثر طاری ہوتی ہے۔ وہ تنظیمیں، وہ ادارے، وہ مراسم جو کسی مقصد کے لیے قائم کیے جاتے ہیں، خود اپنی جگہ پر مقصد بن جاتے ہیں۔
نماز کے معاملے کو ہی لیجیے۔ نماز کا مقصد اقم الصلوۃ لذکری قرآن نے واضح کیا ہے۔ لیکن نماز کی حاضری اور مسجد خود اپنی جگہ پر ایک مقصد بن گیا ہے اور اس کی روح اور جان نکل چکی ہے۔ روح اور جان اس لیے نہیں نکلی کہ نماز کی جگہ کسی دوسری عبادت نے لے لی ہے، بلکہ وہ عبادت خود فی نفسہ مقصود بن گئی ہے اور اس سے آگے جو منزلیں ہیں ان سے نگاہیں ہٹ گئی ہیں۔ ایک دینی تنظیم کے لیے اس کا حقیقی امکان موجود ہے۔ اس کی علامات میں سے ایک علامت جو بڑی صاف اور واضح ہے، یہ ہے کہ تنظیم کے پاس جو وسائل ہیں اس کا ایک حصہ لازماً تنظیم کی خدمت اور چلانے کے لیے لگتا ہے اور ایک حصہ اس مقصد کی خاطر کہ پیش رفت ہو، پھیلیں، مسخر کریں۔ جب تنظیم خود مقصد بننا شروع ہوتی ہے تو سب سے پہلے یہ تناسب بگڑنا شروع ہوتا ہے۔ وہ حصہ جو تنظیم کی خدمت میں لگتا ہے وہ بڑھتا جاتا ہے اور وہ حصہ جو تنظیم کے مقصد اور پیغام کو پھیلانے کے لیے لگنا چاہیے وہ گھٹتا جاتا ہے۔
دوسری علامت یہ ہے کہ تنظیم پیش رفت کرنے کے بجائے اپنے مقام پر کھڑے ہو کر وسائل خرچ کرتی رہتی ہے۔ ایک مثال سے آپ سمجھ سکتے ہیں۔ موٹرکار کا مقصد یہ ہے کہ وہ راستے پر چل کر اپنی منزل پہ پہنچے۔ اگر موٹرکار میں ڈرائیور بیٹھا ہو، اس کا پائوں ایکسیلیریٹر پر ہو، اس کے ہاتھ میں اسٹیرنگ ہو، مسافروں سے گاڑی بھری ہوئی ہو، پٹرول پمپ سے پائپ اس کے اندر لگا ہؤا ہو اور برابر پٹرول جا رہا ہو، انجن چل رہا ہو، لیکن گاڑی اپنی منزل کی طرف آگے نہ بڑھے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ گاڑی خود مقصود بن گئی۔ لوگ بیٹھے ہیں، جھاڑ پونچھ کر رہے ہیں، تیل ڈال رہے ہیں، سروس کر رہے ہیں، پٹرول بھی بھر رہے ہیں، مسافر بھی بیٹھے ہوئے ہیں، ڈرائیور بھی موجود ہے اور ہر طرح سے معلوم ہو رہا ہے کہ یہ بڑی مضبوط اور عمدہ گاڑی ہے جو اپنے مقام پر کھڑی ہے۔ لیکن اگر وہ پیش رفت نہ کرے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ گاڑی خود مقصود ہے، منزلِ مقصود نظروں سے اوجھل ہو گئی ہے۔ یہ دو علامتیں ہیں جن پر آپ کبھی بھی جانچ پرکھ کر دیکھ سکتے ہیں کہ اس خطرے سے ہم کتنا قریب ہیں اور کتنا دُور ہیں۔
’’کیوں‘‘ کا سوال کیجیے
۲- حکمت عملی کا دوسرا اصول یہ ہے کہ تنظیم کو ایک سیدھا سادا سوال کرنے کی جرأت اور ہمت ہونی چاہیے۔
یہ سوال بڑا سیدھا ہے لیکن اس کو کرنا بڑا مشکل ہے۔ اس کے لیے بڑی ہمت کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ اس کے جوابات ایسے آ سکتے ہیں جو تلخ اور ناگوار ہوں یا جن پر عمل کرنے کی ہمت نہ ہو۔ وہ سادا مختصر سوال ہے:کیوں؟ جو کچھ بھی ہم کر رہے ہیں، کیوں کر رہے ہیں؟
یہ کیوں کا سوال ہم کرنے سے بچتے ہیں۔ بڑے بڑے پروگرام اور منصوبے بناتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ کیوں کر رہے ہیں؟ بڑے بڑے کام کر جاتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ یہ ہم نے کیوں کیا؟ یہ کیوں کا سوال ایک چھوٹی سی چھوٹی چیز سے لے کر، خواہ ایک سرکلر نکالنا ہو، ہفتہ وار اجتماع کرنا ہو، کوئی رسالہ نکالنا ہو، کوئی تربیت گاہ کرنی ہو، یا ملک گیر پیمانے پر کوئی انقلابی مہم چلانا ہو، یا بین الاقوامی سطح پر کوئی منصوبہ بندی کرنا ہو، ہر جگہ کرنا چاہیے۔ یہ کیوں کا سوال ایک ایسی کلید ہے جو آپ کے ہاتھ میں آئے تو آپ اپنی تنظیم کو مؤثر اور کارگر بنا سکتے ہیں۔ یہ ہر وقت کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر وقت سے میرا مطلب یہ ہے کہ کسی کام کو کرنے سے پہلے بھی، اسے کرتے ہوئے بھی، اور کرنے کے بعد بھی۔ دراصل یہ سوال ہر چیز کے بارے میں کرنے کی ضرورت ہے۔ جو کام روز کرنے کے ہیں، ان کے بارے میں روز کرنے کی ضرورت ہے۔ جو کام بہت ہی بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، ان کے بارے میں بھی وقفے وقفے کے بعد کیوں کا سوال کرنے کی ضرورت ہے۔ شوریٰ کا اگر اجتماع ہؤا تو کیوں ہؤا، دستور میں یہ ڈھانچہ بنا ہے تو کیوں بنا، کیا ہماری منزل اس سے قریب آ رہی ہے؟
بظاہر یہ سوال کرنا بڑا آسان نظر آتا ہے۔ مگر یہ اس لیے بڑا مشکل ہے کہ اس کے جوابات جب آنا شروع ہوں گے تو شاید آپ کو یہ محسوس ہو کہ بہت ساری چیزیں جن کو ہم سینے سے لگائے لگائے پھر رہے ہیں وہ ایک ماضی کا بوجھ ہے۔ ان کی حیثیت ایک لاش کی ہے۔ اگر ہم ان کو ہمت اور جرأت کے ساتھ اُٹھا کر پھینک دیں اور نئی راہیں تلاش کریں تو شاید ہمارا قافلہ منزل کی جانب زیادہ تیزی کے ساتھ آگے بڑھ سکتا ہے۔ لیکن ایک باپ اپنے بیٹے کی لاش آخر وقت تک اپنے گھر سے نکالنا گوارا نہیں کرتا۔ تحریک اور تنظیم کے لیے بھی جن چیزوں کو وہ برسوں سے کرتے چلے آئے ہوں، خواہ وہ بہت معمولی چیزیں ہوں، ان کو چھوڑنے کے لیے ہمت اور جرأت کا فقدان ہوتا ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ’’کیوں‘‘ کے جواب میں اگر یہ محسوس ہو کہ یہ چیزیں غیر مؤثر ہیں تو سب کو ترک کرنا لازمی ہے۔ آپ یہ نہ کہیں کہ میں سارے ڈھانچے کو ملیامیٹ کرنے کی بات کر رہا ہوں۔ اس سے کم سے کم جو فائدہ ہوگا، وہ یہ ہے کہ آپ یہ سوچیں گے کہ جو چیز ہم کرتے چلے آئے ہیں، اگر غیر مؤثر ہے تو اس کو مؤثر کیسے بنائیں۔ ہم دیکھیں کہ ہم یہ کیوں کررہے ہیں، اس سے کیا حاصل ہو رہا ہے، اصل مقصد کی طرف اس سے پیش رفت میں کیا مدد مل رہی ہے۔
میری نظر میں یہی کام اصل میں جائزے کا کام ہے۔ ہم نے جائزے کا کام اس کو سمجھ لیا ہے کہ ہم کئی لوگ جمع ہوتے ہیں، گھنٹوں صرف کرتے ہیں، ۵۰، ۶۰ آدمی دو دو دن بیٹھ کر رپورٹیں سنتے ہیں، وہی باتیں سنتے ہیں جو اچھی طرح وہ جانتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے کام کا جائزہ مکمل کر لیا۔ یہ جائزہ نہیں ہے۔ یہ بس معلومات فراہم ہو گئی ہیں۔ جائزے کا کام یہ ہے کہ جو کچھ ہؤا،کیوں ہؤا، اس سے کیا حاصل ہؤا، اور اس سے ہمارے مقصد کی طرف پیش رفت میں کیا مدد ملی؟ جو چیزیں اللہ اور اس کے رسول ؐ نے لازم کی ہیں، ان کو تو کسی صورت میں ترک نہیں کیا جا سکتا۔ نماز مفید نہیں ہو رہی تو اُسی کو مفید بنانا ہے، اس کو چھوڑ کر کوئی دوسری تدابیر اختیار نہیں کی جاسکتیں۔ جو روایات تحریک کی جان ہیں انھی کو کارگر اور مؤثر بنانا ہے، لیکن اس کے علاوہ انسان کی بنائی ہوئی کوئی چیز بھی اتنی مقدس نہیں ہے کہ اس کو ترک نہ کیا جا سکے، اس میں ترمیم نہ کی جا سکے، اور اس میں تغیر نہ کیا جا سکے۔ ’’کیوں‘‘ کے سوال کے نتیجے میں جو جائزہ ہوگا ، میرے خیال میں وہی جائزے کی اصل روح ہے۔
منصوبہ بندی
۳- تیسرا اصول منصوبہ بندی ہے۔
منصوبہ بندی کا لفظ ہماری زندگی کے اندر بڑا عام ہے۔ اس لیے یہ بتانے سے پہلے کہ منصوبہ بندی سے میرا مطلب کیا ہے، یہ جاننا شاید زیادہ ضروری ہے کہ منصوبہ بندی کیا نہیں ہے۔ بعض دفعہ یہ جان لینے سے کہ چیز کیا نہیں ہے، یہ سمجھنا آسان ہو جاتا ہے کہ وہ کیا ہے؟
منصوبہ بندی اس بات کا نام نہیں ہے کہ کاموں کی ایک فہرست مرتب کر لی جائے:ایک تربیت گاہ، دو ضلعی اجتماعات، مہینہ میں چار دفعہ تبلیغی وفود کی روانگی، اور بس منصوبہ بن گیا۔ یہ تو کاموں کی ایک فہرست ہے، ایک پروگرام ہے، یہ پلان نہیں ہے۔ پلان اور پروگرام میں تھوڑا سا فرق ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کیے ہوئے کاموں کو کرتے چلے جانا بھی منصوبہ بندی نہیں ہے۔ جو کام پچھلے سال منصوبے میں شامل تھے، بیٹھ کر پھر ان کو منصوبے میں شامل کر دیں تو یہ کام منصوبہ بندی میں شمار نہیں ہوگا۔ تیسری بات یہ ہے کہ خواہشات اور تمنائوں کا نام بھی منصوبہ نہیں ہے۔ دعوت کو تیز کر دو، تربیت کو اور زیادہ کرو، پھیل جائو— یہ منصوبہ نہیں ہے۔ یہ آپ کی خواہشات ہیں اور خواہشات کبھی عملی جامہ پہنتی ہیں اور کبھی نہیں پہنتیں۔ منصوبہ وہ ہے جو واضح طور پر یہ طے کرے کہ کیا کرنا ہے۔
اس سے بھی پہلے اس بنیادی سوال کا جواب حاصل کرنا چاہیے:کیوں کرنا ہے؟ اس سوال کا جواب دینے کے بعد منصوبے کے اندر چار سوالوں کے جواب دینے کی ضرورت ہے۔
پہلا یہ کہ کیا کرنا ہے، دوسرا یہ کہ کس طرح کرنا ہے، تیسرا یہ کہ کون سے وسائل درکار ہوں گے، اور چوتھا یہ کہ وہ کہاں سے فراہم ہوں گے۔ آپ کو کوئی چھوٹا سا کام کرنا ہو، تقریر ریکارڈ کرنی ہو یا تربیت گاہ کرنا ہو، یا اس سے بھی بڑا کام ہو، پورے ملک میں تحریک کو پھیلانا ہو، لیکن ان چار سوالوں کا جواب آپ کو دینا ہوگا۔ ورنہ ہو سکتا ہے کہ آپ جیبیں ٹٹولتے رہیں کہ کرنے کو کام موجود ہے، لیکن وسائل موجود نہیں ہیں۔ آپ نے سوچا ہی نہیں تھا کہ اس چیز کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
منصوبہ مستقبل کی طرف پیش قدمی کا نام ہے۔ صبح سے لے کر شام تک جو کام کرلینا ہے، ان کی فہرست کا نام نہیں ہے۔ منصوبہ اس بات کا نام ہے کہ آج میں وہ کون سے کام کروں جن سے مستقبل اور کل میری مرضی کے مطابق ہو جائے۔ دوسرے الفاظ میں مستقبل کی طرف پیش قدمی کرنے کے لیے واضح اقدامات کرنے کا نام منصوبہ ہے۔
منصوبہ بندی:قابل توجہ اُمور
اس منصوبہ بندی کے بارے میں چند اہم باتیں قابل توجہ ہیں:
 ۱- منصوبہ بنانے کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ آپ کے پاس مستقبل کا ایک اندازہ موجود ہو۔ آپ غیب کا علم تو نہیں رکھتے لیکن انسانی استطاعت کے اندر آپ یہ قیاس کرنے کے قابل ہوں کہ کل کیا ہو سکتا ہے۔ کون سے حریف ہیں اور کل وہ کہاں پر ہوں گے، اور کون سے حلیف ہیں اور کل وہ کہاں پر ہوں گے، اور کون سے مخاطبین ہیں اور کل وہ کون سی صورت اختیار کریں گے۔ اس کا اندازہ کیے بغیر کوئی منصوبہ نہیں بن سکتا۔
 ۲-آپ کے سامنے کُل کام کا اندازہ ہونا چاہیے۔ ورنہ آپ ایک قدم سے دوسرا قدم اُٹھاتے رہیں گے لیکن اصل منزل سے اتنی ہی دور رہیں گے جتناکہ شروع میں تھے۔ آپ کہیں کہ آج دو ارکان تھے اب تین ہوگئے، اب پانچ ہو گئے، اب سات ہوگئے لیکن یہ ناکافی ہے۔ جن تنظیموں کے سامنے کوئی منزل ہو ان کے سامنے منزل کا پورا اندازہ ہونا چاہیے۔
مستقبل کے اندازے لازمی اور ناگزیر ہیں اور کُل کام کا اندازہ بھی ضروری ہے، یعنی کام کا جو ہدف ہے اور اس میں سے جو ممکن ہے، یہ سارے اندازے نگاہوں کے سامنے ہونے چاہییں۔ اس کے بغیر منصوبہ بندی نہیں ہوتی۔ زندہ قومیں ۲۰،۲۰ سال کے اندازے لگا کر غور اور پلاننگ کرتی ہیں۔ ابھی اسلامی تحریکیں بالکل ابتدائی دور میں ہیں۔ لیکن بڑی طاقتوں کے پاس وہ مراکز موجود ہیں جو اس امکانی خطرے سے نبٹنے کی تیاری کر رہے ہیں جو ممکن ہے کہ آج سے ۲۵،۳۰ سال بعد پیش آئے۔
 ۳-مستقبل کے لیے اہداف کا تعین ضروری ہے۔ جو کام کل کرنا ہے وہ آپ پہلے ہی منصوبہ بندی میں شامل نہیں کر لیں گے لیکن جو کام کرنا ہے وہ آپ کو معلوم ہونا چاہیے۔ کل کا آپ ٹارگٹ بنائیں گے تو جو ممکن ہے وہ آپ کو حاصل ہو جائے گا۔ لیکن یہ کہ اگر آپ چھوٹی چیزوں پر قناعت کر جائیں گے تو چھوٹی چیزیں ہی آپ کو حاصل ہوں گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ اہداف بلند ہوں۔ وہ جماعتیں اور قومیں جو اونچے اور بلند اہداف رکھنے سے قاصر ہیں، دُنیا میں کبھی اعلیٰ مقام حاصل نہیں کر سکتیں۔ جو ہمیشہ تھوڑی مدت کے لیے تھوڑی چیز پر قانع ہو جائیں، ان کے قدم کبھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔
 ۴-ترجیحات کا قائم کرنا بڑا ضروری ہے۔ کسی وقت بھی ایسا نہیں ہو سکتا کہ جو کام آپ کرنا چاہیں گے، اس کے لیے آپ کے پاس پورے وسائل موجود ہوں۔ یہ انسانی زندگی میں بالکل ناممکن شے ہے۔ کام اس لیے کرتے چلے جائیں کہ یہ کام تو بڑا اچھا اور بڑا ضروری ہے، اس کام کا تو بڑا تقاضا ہے تو کاموں کا بوجھ لدتا چلا جائے گا اور تنظیم بوجھل اور غیر مؤثر ہوتی چلی جائے گی۔ اس لیے ترجیحات قائم کرنا ناگزیر اور لازمی ہے۔ ترجیحات کے مطابق کام نہ کرنے کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ ہم کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کون سا کام زیادہ اہم ہے اور کون سا کام کم اہم ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ ہم میں ’’نہیں‘‘ کہنے کی جرأت اور ہمت نہیں ہوتی۔ ہر وہ کام جو پسند آجائے کر لینے کا نہیں ہوتا۔ ہم میں یہ کہنے کی جرأت ہونی چاہیے کہ ہم اس کام کو اس وقت تک ہاتھ میں نہیں لے سکتے جب تک اس کے لیے وسائل نہ ہوں۔ ترجیحات قائم کرنے کے لیے یہ فیصلہ ضروری ہے۔
 ۵-آخری بات یہ ہے کہ جو کچھ بھی آپ طے کریں اس کو فیصلے کی صورت دینا ضروری ہے، اور اس کے لیے چھ کاف [ک] کا جواب ہونا چاہیے۔ جس طرح کن فیکون ہوتا ہے، یہ بھی [ک] سے ہی بنا ہے، اسی طرح یہ چھ کاف ہیں۔ اگر ان کا جواب دے کر کوئی فیصلہ کریں گے تو وہ فیصلہ فیکون ہو سکے گا، یعنی کیوں، کیا، کس طرح، کون، کہاں، کب۔ ورنہ میرے بھی علم میں ہے اور میرا تجربہ آپ میں سے بہت سوں سے زیادہ طویل ہے، اور آپ کے بھی علم میں ہوگا کہ بے شمار فیصلے، رودادوں اور کاغذوں کی زینت بنے رہتے ہیں اور عملی جامہ نہیں پہنتے۔
امکانات پر توجہ رہے
۴- حکمت تنظیم کا چوتھا اصول یہ ہے کہ تنظیم کو اپنے وسائل، مسائل کے بجائے امکانات پر مرتکز کرنا چاہئیں۔
مسائل ہر تنظیم کے ساتھ ہوتے ہیں۔ انسانوں کے مسائل بھی ہوتے ہیں، فلاں آدمی کمزور ہو گیا،فلاں آدمی خراب ہو گیا، فلاں جگہ بیت المال میں خرد برد ہو گئی وغیرہ وغیرہ۔ جیسے جیسے تنظیم پھیلتی جاتی ہے، مسائل کی مقدار بھی بڑھتی جاتی ہے۔ اگر آپ ان سب مسائل سے اُلجھنا چاہیں گے، سب کو حل کرنا چاہیں گے تو آپ کے پاس کوئی وقت اس کے لیے نہیں بچے گا کہ آپ کل کے بارے میں کچھ سوچ سکیں، بلکہ کچھ اپنی گرہ سے دے کر ہی آپ چھوٹیں گے۔ تب بھی یہ مسائل اُسی طرح آپ کے سر پر سوار رہیں گے۔ میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ مسائل کو حل کرنے کی کوشش نہ کریں لیکن آپ یہ سمجھ لیں کہ سارے مسائل حل نہیں ہوں گے اور تنظیم کو اپنی قوتوں کا ایک حصہ اگر مسائل کو حل کرنے میں لگانا چاہیے تو میں یہ کہنے کی جرأت کروں گا کہ بعض مسائل کو حل کرنے سے انکار کر دینا چاہیے۔ اس لیے کہ وہ مسائل حل کرنے میں جتنی قوت کھائیں گے اُس قوت سے ہم کئی گنا زیادہ قوت اور پیدا کر سکتے ہیں۔
ایک آدمی کو سدھارنے میں ایک مہینہ لگتا ہے تو اس ایک مہینے میں شاید ۱۰ نئے آدمی ہمارے ساتھ آسکتے ہیں اور مجھے یہ بات کہنے میں کوئی باک نہیں کہ نبی ؐ کی حکمت عملی بھی یہی تھی۔ اسی لیے آپ ؐ کے معاشرے میں اچھے، برے، منافق، خراب، سب انسان موجود تھے اور سب کو آپ ؐ لے کر چل رہے تھے لیکن آپ ؐ کی توجہ اسی بات پر مرکوز تھی کہ اصلاح کا کام بھی کرو اور ساتھ ساتھ اپنی دعوت بھی پھیلاتے جائو اور پھیلتے جائو اور اس خطرے سے کہ خراب اور غلط لوگ آرہے ہیں، اس پھیلائو کو مت روکو۔ اسی پالیسی کے نتیجے میں مدینہ کی ریاست ۱۰۰ برس کے عرصے میں اسپین سے لے کر چین تک پھیل گئی، ورنہ یہ اُسی جزیرے کے اندر، اُسی کوزے کے اندر، اُسی کلہیا کے اندر گڑ پھوڑتی رہتی اور لوگوں کو مانجھتی رہتی اور ان کی اصلاح کرتی رہتی اور مسائل کو حل کرتی رہتی۔
ہر موقع پر بعض چیزیں آپ کے سامنے امکانی[potential] ہوتی ہیں۔ ان کو اگر آپ گرفت میں لے لیں تو تنظیم اپنے مقصد میں کہیں آگے بڑھ سکتی ہے، اور بعض چیزیں اس کے دامن کو کھینچتی ہیں، ان کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ لیکن آپ امکانات اور مواقع پر توجہ زیادہ مرکوز کریں، مسائل پر توجہ ذرا کم کریں، اس لیے کہ اس وقت ساری توجہ مسائل کھا جاتے ہیں۔
ہلکی پھلکی تنظیم
۵- پانچواں اصول یہ ہے کہ تنظیم کو ہلکا پھلکا ہونا چاہیے۔
ہلکی پھلکی چیز زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ سکتی ہے۔ بھاری بھرکم اور بوجھل چیز کے لیے چلنا مشکل ہوتا ہے۔ اس کے اندر مسائل و امراض بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ انسان زیادہ وزن جمع کر لے، موٹا ہو جائے تو ڈاکٹر کہتے ہیں کہ بھئی اپنا وزن کم کرو۔ دُنیا کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ وہی فوجیں کامیاب ہوئیں جن کے پاس ہلکے پھلکے تیزرفتار ہتھیار تھے۔ ہاتھی کے مقابلے میں اونٹ غالب آیا۔ اونٹ کے مقابلے میں گھوڑا غالب آیا اور گھوڑے کے مقابلے میں ٹینک غالب آیا۔ ٹینک کے مقابلے میں ہوائی جہاز غالب آیا اور ہوائی جہاز کے مقابلے میں وہ میزائل جو چند منٹوں میں ہزاروں میل چلا جائے۔ جو بات فن حرب کے لیے صادق آتی ہے وہی بات تنظیموں کے لیے بھی ہے۔
جو چیزیں تنظیموں کو بوجھل بناتی ہوں وہ چلنے کے اندر رکاوٹ پیدا کرتی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا چیزیں بوجھل بناتی ہیں؟ وہ تعداد میں بہت زیادہ ہیں لیکن میں آپ کی توجہ دو باتوں کی طرف ضرور دلائوں گا۔
 ۱- پہلی چیز اجتماعات کی کثرت ہے۔ اجتماعات تنظیم کے لیے ناگزیر ہیں۔ لوگ سر جوڑ کر نہیں بیٹھیں گے تو تنظیمی زندگی پیدا نہیں ہو سکتی۔ میں اجتماع کی اہمیت کو کم نہیں کررہا ہوں، یہ بتا رہا ہوں کہ اجتماعات کی کثرت تنظیم کو بوجھل بنا دیتی ہے۔ ہر اجتماع کے بارے میں آپ ’’کیوں‘‘ کا سوال کریں کہ آخر یہ اجتماع کیوں ہو رہا ہے؟ محض اس لیے کہ ہوتا چلا آیا ہے؟ یا اس لیے کہ اس میں تنظیم کے لیے واقعی کوئی افادیت اور فائدہ ہے؟ صرف اس بنیاد پر فیصلہ کرنے سے ہی آپ بہت ساری میٹنگز اور اجتماعات سے پیچھا چھڑا سکیں گے۔
 ۲-دوسری بات کمیٹیوں کے حوالے سے ہے۔ کمیٹیاں بھی ضروری اور مفید ہیں لیکن کمیٹیوں کی زیادتی تنظیم کے بوجھل ہونے کی علامت ہے۔ اس بات کا جائزہ لیں کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ وہ کام جو کہیں اور ہو جانا چاہیے تھا وہ کام نہیں ہؤا، اور جو کام افراد کو کرنا چاہیے وہ کام اب کمیٹیاں کر رہی ہیں۔
وقت کی قدر
۶- چھٹا اصول یہ ہے کہ تنظیم کا سب سے قیمتی سرمایہ اس کا وقت ہے۔
تاجر کے لیے آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ پیسہ اصل سرمایہ ہے۔ لیکن اگر آپ آج کی بزنس مینجمنٹ کی کتابیں پڑھیں تو وہاں بھی یہی نظر آئے گا کہ اصل سرمایہ آئیڈیا اور انسان ہیں، پیسہ نہیں۔ آئیڈیا ہوگا، انسان ہوگا تو تجارت بڑھے گی، پیسہ بھی آجائے گا۔ تحریک کے پاس جو سب سے بڑا سرمایہ ہے وہ انسانوں کا وقت ہے۔ وقت کا حساب اور استعمال بڑا ضروری ہے۔
کسی بڑی تربیت گاہ میں لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، اور چند ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اگر ۵۰۰ افراد کی سہ روزہ تربیت گاہ ہے تو میرے حساب سے اس میں ڈیڑھ ہزار افرادی دنوں کا سرمایہ صرف ہوتا ہے۔ اسی طرح جب ۵۰آدمیوں کی شوریٰ چھ دن بیٹھتی ہے تو ذمہ دار افراد کے ۳۰۰ افرادی دن اس میں صرف ہوتے ہیں۔ دیکھنا چاہیے کہ یہ صرف اجتماع براے اجتماع ہؤا یا اس سے کوئی فائدہ بھی ہؤا؟
پیسہ توآپ بنک میں رکھ سکتے ہیں اور آج کا پیسہ آپ کل استعمال کر سکتے ہیں لیکن وقت کو آپ کہیں ڈیپازٹ نہیں کر سکتے۔ پیسہ آپ کے پاس نہ ہو تو آپ کہیں سے قرض مانگ کر خرچ کر سکتے ہیں، وقت آپ کہیں سے قرض پر لا کر خرچ نہیں کر سکتے، نہ اس کو آپ ڈیپازٹ کر سکتے ہیں، اور نہ فارورڈ کر سکتے ہیں۔ یہ تو بس آیا اور گیا اور اسی وقت کے اندر وہ پیش رفت کرنا ہے جس سے منزل قریب آئے۔ تنظیم کو سب سے بڑھ کر یہ فکر کرنی چاہیے کہ اس کے اجتماعی وقت کا استعمال کس طرح ہو رہا ہے۔ ایک آڈیٹر بڑی محنت سے یہ دیکھتا ہے کہ بیت المال میں پیسہ کہاں سے آیا اور کہاں گیا۔ آپ کو ایک ایسے آڈیٹر کی بھی ضرورت ہے جو یہ دیکھے کہ وقت کیسے آیا اور کہاں گیا؟ یہ محاسبہ بیت المال کے پیسے کے محاسبے سے کہیں زیادہ کڑا اور ضروری ہے۔ پیسہ تو ہاتھ کا میل ہے، آئے گا، چلا جائے گا، ضائع بھی ہوگا، کل بہت کچھ اور آجائے گا، اللہ تعالیٰ جب چاہے گا بہت عطا کر دے گا لیکن وقت وہ دوبارہ نہیں دے گا۔ جو وقت اس نے دیا ہے وہ جب چلا جائے گا تو دوبارہ نہیں ملے گا۔ ہم پیسے کے حساب کے لیے بڑا اہتمام کرتے ہیں، اس میں گھنٹوں ضائع کرتے ہیں۔ میں روپے پیسے کے حساب کی نفی نہیں کر رہا ہوں، آپ کو سمجھانے کے لیے مثال دے رہا ہوں، میں بھی حساب رکھتا ہوں۔ مجھے حیرت ہوتی ہے جب کوئی تنظیم جس کو انقلاب لانا ہو، وہ ۶۰ شرکا کے اجلاس میں ایک گھنٹہ اس بحث پر صرف کرتی ہے، یعنی ۶۰ گھنٹے لگاتی ہے، کہ رپورٹ اکتوبر تک کی ہے، منصوبہ جنوری سے ہے تو آخر ہم حساب کیسے کریں؟ اصل میں وقت کا حساب اور خصوصاً تنظیمی وقت کا حساب کرنا نہایت ضروری ہے۔
قوتِ اجتہاد
۷- ساتواں اصول یہ ہے کہ کسی بھی حکمت کو نافذ کرنے کے لیے اجتہاد کی قوت اور صلاحیت ناگزیر ہے۔
اجتہاد کے معنی یہ ہیں کہ ہر وقت آپ سوچ سکیں، کبھی سوچ کے دروازے بند نہ کریں۔ اب تک میں نے آپ کو کافی باتوں پر سوچنے اور غور کرنے کی دعوت دی ہے۔
آپ کو ہر مرحلے پر سوچ کر نئی راہیں نکالنا سیکھنا چاہیے۔ نئی صورت حال پیدا ہو تو اس سے نبٹنے کے لیے آپ کے پاس نئے منصوبے موجود ہوں، اور پرانے مسائل ہوں تو ان سے نمٹنے کے لیے بھی آپ کے پاس اتنی قوتِ اجتہاد ہو کہ آپ وہ پالیسیاں وضع کرسکیں کہ بعد میں آپ کا وقت بار بار ضائع نہ ہو۔ ایک ہی مسئلہ ہر سال سر اُٹھا کر کھڑا ہوتا ہے، ہم پھر گھنٹوں صرف کر کے اس کو حل کرتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم ایسی پالیسی بنانے سے قاصر ہیں کہ ایک ہی اصول سے مسئلہ حل ہوتا چلا جائے۔ اگر کوئی نئی صورت حال پیدا ہوتی ہے جس میں ہم اجتہاد نہ کریں توٹھٹھر کر رہ جائیں گے، ماضی کے بوجھ تلے دب جائیں گے۔
میں اس وقت فقہ اور شریعت کی بات نہیں کر رہا، میں حکمت تنظیم کی بات کر رہا ہوں۔ زندہ معاشروں کی بات کر رہا ہوں۔ میں ایک مثال دوں گا۔ مسلمانوں نے عراق کی سرزمین فتح کی۔ یہ ایک نئی صورت حال تھی۔ اب تک کے جو رائج تصورات، قوانین اور اصول تھے ان کے لحاظ سے اس زمین کو فاتحین کے درمیان تقسیم ہو جانا چاہیے تھا۔ اس وقت کا حکمران اگر اجتہاد کی قوت سے عاری ہوتا تو اسلامی حکومت آیندہ برسوں میں بہترین وسائل سے محروم ہو جاتی اور عراق میں ایک بدترین جاگیرداری نظام نافذ ہوجاتا۔ مسجد نبوی ؐمیں تین دن کی بحث کے بعد ایک نئی راہ یہ نکالی گئی کہ یہ زمین تقسیم نہیں ہوگی۔ یہ ایک بڑا زبردست اجتہاد تھا جس کے بڑے گہرے اثرات معیشت اور سیاست کے رخ پر پڑے۔ لیکن اگر وہ اس پر اٹک جاتے کہ فے کے بارے میں تو یہی اصول ہے، اس سے ہٹا نہیں جا سکتا تو وہ جماعت دُنیا کے اندر ایک زندہ تہذیب بن کر غالب نہیں ہو سکتی تھی۔
جو بات بڑی جماعتوں اور بڑی تہذیبوں کے لیے صحیح ہے، وہی بات چھوٹی جماعتوں اور چھوٹے گروہوں کے لیے بھی ضروری ہے، وہی بات بزنس کارپوریشن کے لیے بھی ضروری ہے۔ کوئی تجارتی ادارہ جو آج سے ۱۰ سال بعد کی مارکیٹ کا جائزہ لے کر آج اجتہاد کر کے نئی مصنوعات لانے کا منصوبہ نہیں بنا سکتا، اس کے حریف آکر اس کو میدان سے ہٹا دیں گے۔ روز حالات بدلیں گے اور نئے نئے منصوبوں کی ضرورت پڑے گی۔ پھر یا تو وہ خالی میدان میں کھڑا ہوگا اور اسے سمجھ میں نہیں آئے گا کہ وہ کیا بیچے، کیا کہے، یا کس بات کی دعوت دے، اور یا دوسرے حریف اس کا مال اُچک کے لے جائیں گے اور اس کے دعوے دار بن کر کھڑے ہو جائیں گے، اور وہ ششدر دیکھے گا کہ میرا مال اب دوسروں کے ہاتھ میں ہے، میری مارکیٹس دوسروں کے پاس ہیں، میرے گاہک دوسری دکانوں پر کھڑے ہوئے ہیں۔ میرے پاس ان کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ پیش بینی کے ساتھ اجتہاد کی صلاحیت کو استعمال کرنا تبدیلی کی قوت ہے۔ تغیر کے لیے ہمت بھی ضروری ہے۔ اجتہاد اس کے بغیر بیکار ہے۔
میں نے صرف سات اصول منتخب کر کے آپ کے سامنے پیش کیے ہیں۔ حکمت تنظیم کا موضوع بڑا وسیع موضوع ہے۔ اس کے تحت بہت ساری باتیں کہی جا سکتی تھیں۔ میں نے صرف منتخب باتیں رکھی ہیں۔ ہر بات اپنی جگہ تفصیل کی محتاج ہے۔ میں نے سمیٹ کر بات کی ہے لیکن کوشش کی ہے کہ نظریاتی باتیں نہ کروں۔ آپ ان باتوں کو صرف ایک تفریح سمجھ کر نہ پڑھیں بلکہ آپ خواہ ایک چھوٹے سے گائوں میں ہوں یا ضلع کی سطح پر ہوں یا ملک کی سطح پر، ان کو سامنے رکھ کر ہمت اور جرأت سے تبدیلیاں کریں، اور ہمت اور جرأت سے ان چیزوں کو نافذ کریں۔ جتنا آپ نافذ کریں گے، مجھے یقین ہے کہ جو تنظیم جہاں بھی اسلامی انقلاب کے لیے کام کر رہی ہے وہ زیادہ مؤثر اور کارگر ہوتی چلی جائے گی۔
٭٭٭
نیا ایڈیشن شائع ہوگیا ہے
جنت ہمارا آبائی وطن
از: بشریٰ تسنیم قیمت:60روپےادارہ بتول 14-Fسید پلازہ 30فیروز پور روڈ لاہور
فون:04237424409

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x