ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

قولِ نبیؐ – وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا – اسما معظم

سیرت طیبہ سے رحمت وشفقت کی چند کرنیں

اللہ تعالیٰ نے انسان کے اپنے اندر خیر و شر اور نیکی و بدی میں تمیز کرنے کی فطری صلاحیت ودیعت فرمائی ہے۔
اسلام کی نعمت ہر زمانے میں انسان کو دو ہی ذرائع سے پہنچی ہے۔ ایک اللہ کا کلام، دوسرے انبیاء علیہ السلام کی شخصیتیں۔ جن کو اللہ نے نہ صرف اپنے کلام کی تبلیغ ، تعلیم اور تفہیم کا ذریعہ بنایا بلکہ اس کے ساتھ عملی قیادت و رہنمائی کے منصب پر بھی مامور کیا ۔تاکہ وہ کلام اللہ کا ٹھیک ٹھیک منشاء پورا کرنے کے لیے انسانی افراد اور معاشرے کا تزکیہ کریں اور انسانی زندگی کے بگڑے ہوئے نظام کو سنوار کر اس کی تعمیر صالح کریں ….یہ دونوں چیزیں ہمیشہ سے لازم و ملزوم رہی ہیں کہ ان میں سے کسی کو کسی سے الگ کرکے انسان کو کبھی دین کا صحیح فہم نصیب ہو سکا اور نہ وہ ہدایت سے بہرہ یاب ہوسکا۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے خدا نے آ پ ؐ کی بعثت کا مقصد ان الفاظ میں بیان فرمایا:
’’ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنس دین پر غالب کر دے خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘(سورہ توبہ آ یت نمبر 33)۔
ہم خدا پر ایمان رکھتے ہیں اللہ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ہمارا یہ ایمان اور دعویٰ محبت ہرگز معتبر نہیں ہے اگر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں سرگرم نہیں ہیں۔ ہمارا یہ دعویٰ محبت اسی وقت قابل اعتبار ہوگا جب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کریں ۔ہماری محبت کے جواب میں خدا ہم سے لازماً محبت کرے گا وہ ہمارے گناہوں کو بھی معاف فرما دے گا۔سورہ آل عمران آیت نمبر 31 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اے رسولؐ! لوگوں سے کہہ دیجیے کہ اگر تم واقعی خدا سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو۔ خدا تم سے محبت کرے گااور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا ۔وہ بہت ہی معاف کرنے والا اور بہت زیادہ رحم کرنے والا ہے ‘‘۔
اللہ کے نبیؐ جب دنیا میں مبعوث ہوئےاس وقت عرب میں جہالتوں کا دور دورہ تھا ۔انسانی قدریں نا پید تھیں ۔انسان ذاتوں اور گروہوں میں تقسیم تھے ۔ نسلی تفاخر لسانی تعصب عروج پر تھا اور انسانیت ظلم وجبر کے اندھیروں میں بھٹکتی امن کی متلاشی تھی کہ آپ آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے جاتے ہیں اور اعلان کیا جاتا ہے:
’’اور ہم نے آپ کوتمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے‘‘(سورہ الانبیاء)۔
یعنی رحمت اللعالمین کا یہ ظہور کسی ایک ملک، کسی ایک قوم ،کسی ایک نسل ہی کے لیے نہیں ،بلکہ تمام دنیا والوں کے لیے رحمت کا ظہور ہے۔ آ ئیے سیرت طیبہ سے رحمت وکرم کی چند کرنیں لیتے ہیں ۔
ایک بدو آیا ۔ اس نےحضور سےبہت سختی سے بات کی ۔حضور کی گردن میں اپنی چادر ڈال دی۔ اس کو بل دے کر سختی سے کھینچا حتیٰ کہ حضور کی گردن مبارک سرخ ہوگئی ۔صحابہ میں سے موجود ایک صحابی بے قرار ہو کر اٹھے اور حضورؐکی گردن سے چادر نکالی اور اس بدو کو دھکا سا دیا ۔ حضور ؐنے یہ بات پسند نہیں فرمائی۔ ان صحابی سے فرمایا کہ تمہیں چاہیے تھا کہ اس سے نرمی سے بات کرتے اور مجھ سے کہتے کہ میں اس کا مطالبہ پورا کرو ں۔
سلام اس پر کہ جس نے فضل کے موتی بکھیرے ہیں
سلام اس پر بروں کو جس نے فرمایا کہ میرے ہیں
آ پ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا والوں کے لیے رحمت بن کر آ ئے۔ آپؐ کی دلآویز شخصیت کی عظمت کا راز یہ ہے کہ آپ کے قول و عمل میں کوئی تضاد نہ تھا۔ آپؐ اپنی تعلیمات کا اعلی ترین نمونہ تھے جو دوسروں کو بتاتے اسے خود کر کے دکھاتے ۔قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ (الاحزاب) :
’’درحقیقت تمہارے لیے رسول اللہ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے ‘‘۔
آپؐ تمام امت کے لیےمثالی شخصیت تھے ۔جنہوں نے اپنے عمل سے یہ کر کے دکھایا کہ لوگوں کو کس طرح اس دنیا میں رہنا ہے۔ دنیا میں ہم کسی کو آئیڈیل بناتے ہیں تو اس میں کچھ خامی نظر آتی ہے اس کو چھوڑ دیتے ہیں لیکن یہاں معاملہ ہی کچھ اور ہوتا ہے جیسے جیسے آپ کا قرب حاصل ہوتا ہے وہ اتنا ہی آپ کا گرویدہ ہوتا جاتاہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسانیت کے لیے انتہائی ہمدرد اور غم خوار تھے۔ اس سلسلے کے کئی واقعات ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے ملتے ہیں ان میں سے ایک واقعہ یہ ہے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابھی دس سال کے بچے ہی تھے کہ ان کی والدہ حضرت ام سلیم ان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کر آئیں ۔حضرت انس اس لڑکپن سے مسلسل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہے اور شب و روز ہر طرح کے حالات میں آپ کی خدمت بجا لاتے رہے ۔حضرت انس سے کام میں کو تاہیاں بھی ہوتیں، بہت سے کام بننے کے بجائے بگڑ بھی جاتے ۔اور اس کچی عمر میں لاابالی پن کا اظہار بھی ہوجاتا مگر حیرت ہے کہ دس سال کی طویل مدت میں سخت سست کہنا تو درکنار ،پیکرعفو کرم ؐ نے کبھی زبان سے اف تک بھی نہیں کہا ۔
نرم دم گفتگو گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو ، پاک دل و پاکباز
ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ ، مدینہ جس کی گلیوں میں ہر طرف چہل پہل ہے مسلمان بوڑھے جوان اور ہوشیار بچے صاف ستھرے کپڑے پہنے خوشبو لگائے عیدگاہ جا رہے ہیں مدینے کی گزرگاہیں اور راستے تکبیر و تہلیل کی صداؤں سے گونج رہی ہیں ایک راستے سے خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی عید کی نماز پڑھنے کے لیے عید گاہ کی طرف ذرا تیز تیر جا رہے ہیں ۔چلتے چلتے ایک جگہ بے اختیار آپ رک جاتے ہیں مدینے کے کچھ بچے بڑی بے فکری سے اچھے اچھے کپڑے پہنے خوش خوش کھیل رہے ہیں کچھ فاصلے پر ایک طرف کو ایک بچہ سب سے الگ افسردہ اور غمگین بیٹھا ہے میلے کچیلے اور پھٹے پرانے کپڑے پہنے ، کھیلنے والے بچوں کو بڑی حسرت کے ساتھ دیکھ رہا ہے ۔
خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس مصیبت زدہ لڑکے کے پاس پہنچے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور فرمایا بیٹے تم نہیں کھیلتے ؟تم نے کپڑے نہیں بدلے ؟بیٹے تم اتنے غمگین اور افسردہ کیوں ہو؟
آپ میری مصیبت کی داستان سن کر کیا کریں گے ؟میں ایک یتیم بچہ ہوں ۔ میرے باپ نہیں ہیں اور میری ماں…. یہ کہتے ہوئے بچے کی آواز حلق میں گھٹنے لگی اور وہ اپنا جملہ پورا نہ کر سکا ۔
خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کو اپنے سے کچھ اور قریب کر لیاور پھر پیار سے بولے بیٹے تمہارے ماں باپ کا انتقال کب ہؤا ؟اور تم کہاں رہتے ہو؟
میرے باپ ایک جنگ میں خدا کے دشمنوں سے لڑتے لڑتے شہید ہوگئے میری ماں خدا کا شکر ہے زندہ ہیں لیکن انہوں نے دوسری شادی کر لی ہے اور میرے باپ کا چھوڑا ہؤا سامان لے کر اپنے نئے گھر چلی گئیں اور میں بھی خوشی خوشی اپنی ماں کے ساتھ گیا مگر کچھ ہی دن وہاں رہا تھا کہ میرے دوسرے باپ مجھ سے خوش نہ رہ سکے اور مجھے گھر سے نکال دیا، اب نہ میرا کوئی گھر ور ہے اور نہ کوئی ولی اور سرپرست….اب مجھ پر ترس کھانے والا کوئی نہیں…. میرا کوئی بھی تو نہیں ہے۔ لڑکے کی ہچکی بندھ گئی ۔میری امی بھی تو کچھ نہیں کرتیں…. انہیں تو مجھ سے بڑا پیار تھا مگر وہ مجبور ہیں ان کے بس میں کیا ہے وہ اب کچھ نہیں کر سکتیں۔
بچے کا حال سن کر اور اسے اس طرح زاروقطار روتے دیکھ کر رحمت عالم کی آنکھیں بھی بے اختیار نم ہو گئیں اور آپ یتیم بچے کے سر پر ہاتھ پھیر کر اپنی حالت پر قابو پانے کی کوشش فرماتے رہے۔ پھر نہایت پیار اور محبت کے ساتھ اس بچے سے کہا :
بیٹے کیا تم یہ پسند کرو گے کہ محمد تمہارے باپ ہو ں عائشہ تمہاری ماں ہوں ہو فاطمہ تمہاری بہن ہو اور حسن و حسین تمہارے بھائی ہوں؟
محمد اور فاطمہ کا نام سن کر بچہ سنبھلا، اس نے حیرت اور عقیدت سے آپ کے نورانی چہرے کو دیکھا اور پھر نہایت احترام سے نگاہیں نیچی کر لیں ۔کچھ دیر خاموش رہا اور پھر انتہائی عاجزی اور ادب سے بولا:
یا رسول اللہ مجھے معاف فرمائیے…. میں آپ کو پہچان نہ سکا اور پہلی بار میں نے بڑی لاپروائی سے آپ کو جواب دیا ۔
نہیں بیٹے کوئی بات نہیں، خدا کے رسول نے بچے کو تسلی دی۔
یا رسول اللہ میرے باپ ہزار بار قربان ہیں خدا کے رسول حضرت عائشہ سے اچھی ماں کہاں ملیں گی حضرت فاطمہ سے اچھی بہن اور حضرت حسن اور حسین سے اچھے بھائی کہاں میسر آئیں گے…. مجھ سے زیادہ خوش نصیب اور کون ہو گا کہ مجھے خدا کے رسول کا خاندان مل رہا ہے…. یا رسول اللہ میں دل و جان سے آپ کی خدمت کروں گا کبھی آ پ کو ذرا دکھ نہ دوں گا۔ لڑکا کہتا رہا ،اور اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تیرتے رہے۔
یتیموں کے والی نے لڑکے کا ہاتھ پکڑا، اسے اپنے گھر لائے اور حضرت عائشہ سے فرمایا لو عائشہ! خدا نے عید کے دن تمہیں ایک بیٹا دیا ہے۔ لو اپنے بیٹے کو نہلا دھلا کر کپڑے پہناؤ، اسے کچھ کھلاؤ۔اور حضرت عائشہ کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔
یہ لڑکا آخر وقت تک خدا کے رسول کی خدمت میں رہا ۔آخر رسول خدا کی رخصت کا وقت آ پہنچا اور آپ دنیا سے تشریف لے گئے تو وہ غم سے نڈھال ہوگیااور کہتا تھا کہ آج میں یتیم ہو گیا ۔
کہاں دل نواز تجھ سا
کہاں چارہ ساز تجھ سا
ایک دفعہ ایک صحابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان کے ہاتھ میں کسی پرندے کے بچے تھے اور وہ چیخ رہے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ بچے کیسے ہیں ؟صحابی نے عرض کیا یارسول اللہ میں ایک جھاڑی کے قریب سے گزرا تو ان بچوں کی آواز آرہی تھی میں ان کو نکال لایا ان کی ماں نے دیکھا تو بے تاب ہو کر چکر کاٹنے لگی۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فوراً جاؤ اور ان بچوں کو وہیں رکھ آؤ جہاں سے لائے ہو۔
ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے۔ وہاں ایک اونٹ بھوک سے بلبلا رہا تھا آپ نے شفقت سے اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور اس کے مالک کو بلا کر فرمایا کیا اس جانور کے بارے میں تم خدا سے نہیں ڈرتے ۔
ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ اپنے غلام کو پیٹ رہے تھے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ۔ آپ نے رنجیدہ ہو کر فرمایا، ابومسعود تمہیں غلام پر جس قدر اختیار ہے اللہ تعالیٰ کو تم پر اس سے زیادہ اختیار ہے۔ حضرت ابو مسعود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک سن کر تھرااٹھے اور عرض کیا، یارسول اللہ میں اس غلام کو اللہ کی راہ میں آزاد کرتا ہوں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !’’اگر تم ایسا نہ کرتے تو دوزخ کی آگ تم کو چھو لیتی‘‘( ابو داود )۔
سلام اس پر کہ مشکیں کھول دیں جس نے اسیروں کی
خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے ہیں ،وہ نماز جس کے خلوص اور خشوع و خضوع کی کوئی رمق بھی مل جائے تو پوری امت کی نماز ہو جائے ۔اسی دوران ایک پیاری سی معصوم بچی آتی ہے اور حضور پر سوار ہو جاتی ہے ۔آپ نہایت نرمی سے پیاری بچی کو کندھے سے اتار دیتے ہیں اور خدا کے حضور رکوع اور سجود کرتے ہیں ۔نماز سے فارغ ہوتے ہیں تو پیاری نواسی کو ڈانٹتے نہیں بلکہ جوش محبت میں سینے سے لپٹا لیتے ہیں ۔
حضرت زینب بچے کی جان کنی کا منظر دیکھ کر بے حال تھیں۔ جگر گوشہ گود میں پڑا اپنی آخری گھڑیاں پوری کر رہا تھا ۔حضرت زینب نے قاصد بھیجا ،کہلوایا’’حضور صلی اللہ وسلم تشریف لائیں بڑا سخت وقت ہے‘‘۔ آپ اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے ۔ بیٹی کے ہاں پہنچے تو بچے کو آپ کی گود میں دیا گیا بچہ جانکنی کی حالت میں تھا ۔معصوم بچےکی کیفیت دیکھ کر بے اختیار آپ کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے سعد بن عبادہ بولے یا رسولؐ اللہ کیا آپ رو رہے ہیں ؟ارشاد فرمایا یہ رحم ہے جو اللہ نے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا کیا ہے اور اللہ تعالی انہیں بندوں پر رحم فرماتا ہے جو آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں ۔
سلام اس پر جو دنیا کے لیےرحمت ہی رحمت ہے
سلام اس پر کہ جس کی ذات فخر آدمیت ہے
حلیمہ سعدیہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتی ہیں آپ ان کو دیکھ کر احتراماً کھڑے ہوجاتے ہیں ،اپنی چادر بچھا تے ہیں اور عزت و احترام کے ساتھ بوڑھی خاتون کو بٹھاتے ہیں اور ان سے گفتگو کرتے ہیں ۔یہ دیکھ کر لوگوں نے پوچھا کہ یہ کون خاتون ہیں جن کا آپ اتنا احترام فرما رہے ہیں۔ لوگوں کو بتایا کہ یہ میری رضاعی ماں حلیمہ سعدیہ ہیں جنہوں نے مجھے پالا تھا اور اپنا دودھ پلایا تھا ۔
سلام اس پر کہ اسرار محبت جس نے سمجھائے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ایک کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتے ۔ آپ اخلاق و برتاؤ میں انتہائی نرم تھے سہولت کی زندگی بسر کرنے والے تھے نہ سخت مزاج تھے اور نہ تند خو ۔نہ کبھی بیہودہ بات زبان سے نکالتے اور کبھی کوئی چیز پسند نہ ہو تو خاموشی اختیار کرتے۔ تین چیزوں سے آپ نے ہمیشہ اپنی ذات کو محفوظ رکھا1 ۔کبرو غرور سے 2۔مال و دولت جمع کرنے سے 3۔فضول اور لایعنی باتوں سے ۔چار چیزوں میں آ پ انتہائی چاق وچوبند تھے ۔ 1۔نیکی اوربھلائی اختیار کرنے میں 2۔برائی اور بدی ترک کرنے میں 3۔امت کی فلاح و بہبود کے کاموں میں غور و فکر کرنے میں4۔ اور ان امور کو اختیار کرنے میں جو امت کی دنیا اور آخرت کو سنوارنے والے ہوں۔
آئیے سیرت نبوی کے کے اس واقعے کو بھی دیکھتے ہیں کہ غم کا مارا ایک یتیم بچہ رحمت عالم کے دربار میں پہنچتا ہے ۔فریاد کرتا ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص نے زبردستی میرے کھجوروں کے باغ پر قبضہ کر لیا ہے اور وہ مجھے کچھ نہیں دیتا ۔آپؐ نے دونوں کے بیانات سنے اور اپنا فیصلہ سنا دیا ۔رسول ؐاللہ کا فیصلہ یتیم بچے کے خلاف تھا ۔اپنے خلاف فیصلہ سن کر یتیم بچہ رونے لگا۔ زبان سے کچھ نہ کہا ، بچے کو روتا دیکھ کر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا دل بھر آیا اور آپ بھی رونے لگے ۔ پھر آپ نے اس شخص سے کہا ۔بھائی واقعی تمہارے حق میں فیصلہ ہوأ ہے اور باغ تمہارا ہی ہے، لیکن کیا اچھا ہو اگر تم اپنا وہ باغ اس یتیم بچے کو ہبہ کر دو ،خدا تمہیں اس کے بدلے جنت میں سدا بہار باغ عطا فرمائے گا۔ یہ سن کر وہ شخص خوشی سے جھوم اٹھتا ہے اور اپنا وہ باغ اس یتیم بچے کے حوالے کر دیتا ہے اور کہتا ہے میں نے صرف خدا کی رضا کے لیے ایسا کیا ہے ۔یہ سن کر بچے کا کمہلایاہؤا چہرہ کھل اٹھا اور یتیم کے غم خوار خدا کے رسولؐ کے چہرے پر بھی خوشی کی چمک دوڑ گئی ۔یہ تھا ہمارے نبی کا عدل وانصاف اور یتیم بچے کے ساتھ رحمدلی….سبحان اللہ!
فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ
بیٹی کا مشفق اور مہربان باپ ہونے کے لحاظ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا طرز عمل تھا آئیے دیکھتے ہیں !
ایک بار حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کے درمیان کسی بات پر خفگی ہو جاتی ہے ۔فاطمہ روٹھ کر اپنے شفیق باپ کے پاس پہنچتی ہیں اور اپنا غم سناکر دل کا بوجھ ہلکا کرتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جوایک شفیق باپ ہیں ،کہتے ہیں ’’میں نے تمہارا نکاح اس شخص سے کیا ہے جو قریش کے جوانوں میں سے ہے اور اسلام لانے میں سب سے افضل ہے…. بیٹی میاں بیوی میں کبھی کبھی ایسی باتیں ہو ہی جاتی ہیں وہ کون سے میاں بیوی ہیں جن کے درمیان کبھی کوئی رنجش کی بات نہ ہو۔بیٹی یہ کیسے ممکن ہے کہ مرد سارے کام ہمیشہ عورت کی مرضی کے مطابق کیا کرے اور اپنی بیوی سے کچھ نہ کہے۔ بیٹی جاؤ اپنے گھر جاؤ خدا ہمیشہ خوش رکھے آباد رکھے میں تم دونوں کو خوش دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کروں‘‘۔
بیٹی کے دل سے تکدّر دور ہوجاتا ہے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دل مہربان خسر کی گفتگو سن کر بھر آتا ہے،سامنے آئے تو آنکھوں میں آنسو تھے، رقت کے انداز میں فاطمہ سے کہا’’ خدا کی قسم آئندہ تم کوئی ایسی بات نہ دیکھو گی جس سے تمہارے نازک دل کو دکھ پہنچے‘‘ فاطمہ کا دل بھر آیا بولیں’’ نہیں غلطی تو میری ہی تھی‘‘اور دونوں ایک دوسرے کی محبت میں سرشار خوش خوش اپنے گھر لوٹ گئے۔ یہ دیکھ کر رحمت عالم ؐ کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تیرنے لگے۔
حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں حضور گھر میں داخل ہوتے تو ایسا لگتا کہ معطر ہوا کا جھونکا گھر میں داخل ہؤا ہے ۔حضرت عائشہ کی اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل خانہ میں کس قدر محبوب اور پسندیدہ تھے ۔ان کی نرمی،اخلاق اور محبت گھر والوں کے لیے کس قدر قابل رشک تھی۔
یہ سیرت طیبہ کی چند جھلکیاں تھیں ،جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی رحمت و شفقت کے ساتھ نظر آتے ہیں ۔ دور حاضر میں ہمارا معاشرہ جس بے چینی اور انتشار کا شکار ہؤا ہے ،اس کی بڑی وجہ آ پس کے تعلقات کی خرابی ہے جو بنیادی طور پر نفسانیت، انا، ضد اور عدم برداشت جیسی بری اخلاقی عادتوں کا نتیجہ ہے۔ یہی پیغام ہمیں سیرت طیبہ سے ملتا ہے کہ برداشت،تحمل، اخلاق اور درگذر لوگوں کو جوڑنے کا رویہ ثابت ہو سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے نقش قدم پر چلتے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین
حوالہ جات: داعیِ اعظمؐ، سیرت النبیؐ (شبلی نعمانی)
٭٭٭

دنیا میرے آگے
(کالموں کا مجموعہ)
مصنفہ: افشاں نوید
قیمت: مجلد 400روپے
ملنے کا پتہ:
ادارہ بتول
14-Fسید پلازہ 30فیروز پور روڈ لاہور
فون:0423-7424409قولِ نبیؐ – وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا – اسما معظم

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x