ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

اللہ کی طرف بلانے والے رسول ﷺ – ڈاکٹر میمونہ حمزہ

اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو پیدا کیا، اور انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے پے در پے انبیاء و رسل بھیجے، جو اللہ تعالیٰ کے خاص نمائندے تھے۔ جنھوں نے ہر دور میں انسانوں کو اللہ کی طرف بلانے کا فریضہ انجام دیا۔جن کی دعوت کا پہلا نکتہ اللہ کی توحید کا بیان اور شرک کا ابطال تھا۔ ہر نبی کی دعوت یہی تھی، کہ صرف اللہ کی بندگی کرو، صرف اکیلا وہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کا تقوی کیا جائے۔ کوئی دوسرا اس لائق نہیں کہ اس کی ناراضی کا خوف، اس کی سزا کا ڈر اور اس کی نافرمانی کے نتائجِ بد کا اندیشہ انسانی اخلاق کا لنگر اور انسانی فکرو عمل کے پورے نظام کا محور بن کر رہے۔
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کے دونوں گروہوں کو اپنی بندگی اور عبادت کے لیے پیدا کیا، تاکہ وہ اللہ وحدہ کی عبادت کریں اور اس میں کسی کو شریک نہ کریں، تاکہ وہ اللہ کے شکر گزار بندے بنیں اور اس کی ناشکری نہ کریں۔اور کیونکہ عبادت اور بندگی کے طریقوں کی معرفت اللہ کے رسولوں ہی کے ذریعے ممکن ہے۔اور اسی دعوت کے بیان کے لیے کتابیں نازل ہوئیں۔اللہ تعالیٰ کا امتِ مسلمہ پر بڑا احسان ہے کہ اس نے اپنی کتابوں کے سلسلے اور انبیاء علیھم السلام کی رسالت اختتام اس امت پر کیا۔ پس اس نبی امی علیہ السلام پر نبوت ہی کا سلسلہ ختم نہیں ہؤا بلکہ اللہ کے پیغامات کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا ہے۔اور رسول اللہ ﷺ کی دعوت الی اللہ ہی آپ کا منشور و مطلوب ہے۔یہ کام آپؐ نے اللہ کے حکم سے کیاہے۔ نہ یہ اپنی طرف سے ہے اور نہ رضاکارانہ کام ہے،یہ سب کام اللہ کے حکم سے ہے۔
قلم کے ذریعے سکھانے والے رب نے ابتداء ہی میں فرمایا:
’’اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے، اٹھو اور خبردار کرو‘‘۔ (المدثر، ۲۔۳)
رسالت کے فرائض میں سے سب سے بڑا فریضہ یہی ہے کہ لوگوں کو بڑے انجام سے ڈرایا جائے اور ان کو متنبہ کیا جائے کہ خطرہ بہت قریب ہے، اور ان لوگوں کے لیے گھات میں بیٹھا ہوا ہے جو غافل ہیں اور بری راہوں پر سرپٹ دوڑ رہے ہیں۔اور ان کو خطرے کا کوئی شعور اور احساس نہیں ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ کو اپنے بندوں سے کس قدر ہمدردی ہے اور وہ کتنا رحیم ہے۔ اور یہ اللہ کا رحم و کرم ہی تو ہے کہ وہ انہیں آخرت کے دردناک عذاب سے بچانے کے لیے اس قدر انتظامات کرتا ہے۔ دنیا میں لوگوں کو شر سے باز رکھنے کے لیے رسولوں کے ذریعے فرماتا ہے، کہ آؤ اس دعوت کو قبول کر لو، میں تمھیں بخش دوں اور اپنے فضل و کرم سے تمھیں جنت میں داخل کر دوں۔ (فی ظلال القرآن، تفسیر نفس الآیۃ)
رسول اللہ ؐ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی بڑائی بیان کرنے اور اپنی کبریائی کا سکّہ جمانے کے لیے شرک کے گڑھ میں کھڑا کیا تو آپؐ صبر و ہمت اور جوش و جذبے کے ساتھ کھڑے ہو گئے، حالانکہ اس وقت قوم کے سارے مفادات شرک کی مجاوری سے وابستہ تھے۔ ایسے ماحول میں تنہا ایک فرد کا کھڑے ہو جانا اس بات کی دلیل تھا کہ جس عظیم رب کے نمائندے بن کر آپؐ کھڑے ہوئے اس کی کبریائی نے پوری قوم کے غیظ و غضب کا سارا خوف آپؐ کے دل سے باہر نکال دیا تھا۔ ایک طرف پوری قوم تھی اور ایک جانب داعیِ اعظم تن ِ تنہا! جن کے پاس ایمان باللہ، عملِ صالح اور صبر کے ہتھیار تھے۔ اور یہی ہتھیار اس معرکے کے موثر ترین ہتھیار تھے۔ (رسول اللہ ؐ کی حکمتِ انقلاب، ص۱۳۶)
دعوت کیسی ہو؟
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اے نبی ؐ ، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے سے جو بہترین ہو، تمھارا رب ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راہِ راست پر ہے ۔ اے محمدؐ، صبر کیے جاؤ اور تمھارا یہ صبر اللہ ہی کی توفیق سے ہے‘‘۔ (النحل، ۱۲۵۔۷)
اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہؐ کو داعی بنایا تو ان کے لیے دعوت کے کام کے اصول و قواعد اور طریق کار بھی خود وضع کر دیا، اور آپ ؐ کا اسوہ ہی بعد میں آنے والے تمام داعیان کے لیے دستورِ عمل ہے اور یہی منھاجِ دعوت ہے۔
دعوت الی اللہ
انبیاء علیھم السلام نے سب سے پہلے انسانوں کو اللہ کی طرف بلایا۔ اللہ کے راستے اور اللہ کے نظام کی طرف دعوت، کسی شخصیت اور کسی قوم کی طرف پکارنا نہیں ہے۔ اسی کو اللہ تعالیٰ نے بہترین دعوت قرار دیا، فرمایا:
’’اور اس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہو گی، جس نے اللہ کی طرف بلایا، اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں‘‘۔ (حم السجدۃ،۳۳)
اس دعوت کا اخلاص یہ ہے کہ وہ اسے فرض سمجھ کر ادا کرے، اور اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔
رسول اللہ ؐ اپنے اصحاب کو حالتِ امن میں بھی توحید کی تعلیم دیتے اور حالتِ جنگ میں بھی، خواہ کھڑے ہوتے یا بیٹھے، چل رہے ہوتے یا سواری پر ہوتے، حتی کہ موت سے قبل بھی آپؐ برابر توحید کی نصیحت کرتے رہے، آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاری پر لعنت فرمائی جنھوں نے اپنے انبیاء علیھم السلام کی قبروں کو مساجد بنا لیا تھا؛ تم چوکنا رہنا کہ ایسا نہ کرو‘‘۔ (رواہ مسلم،۵۳۰)
آپؐ نے دعوت الی اللہ کا حق ادا کیا اور اس دین کو امت تک بلا کم و کاست پہنچا دیا۔آج رسول کریم ؐ کا اتباع کرتے ہوئے ہم اس دین کو تمام لوگوں تک نہیں پہنچائیں گے تو لوگ اسے کیسے جانیں گے؟!
اگر ہم نے دعوتِ دین کا فریضہ ادا نہ کیا تو اس فرض کو کون ادا کرے گا؟!
حکمت اورحسنِ تدبیر
دعوت حکمت اور حسنِ تدبیر کے ساتھ جاری رہنی چاہیے، مخاطب کے ظروف و احوال کو مدِّ نظر رکھنا، اور متعین کرنا کہ ایک وقت میں مخاطب کو کس قدر دعوت دینی ہے۔دعوت تدریج کے ساتھ ہو ، یہ نہ ہو کہ اوامر و نواہی مختصر وقت میں سنا دیے جائیں اور وہ ذہناً اس کے لیے تیار نہ ہوں۔یوں وہ اسے ناقابلِ برداشت بوجھ سمجھ لیں۔ دعوت کا کا طریقہ مناسب ہو اور اس میں ضرورت کے مطابق تبدیلی ہوتی رہے۔ داعی جوش میں آکر سختی نہ کرے نہ حکمت سے زیادہ جوش و غیرت پیدا کرے، بلکہ ہر معاملے میں اعتدال سے کام لے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی خاتم المرسلینؐ کو دعوتِ دین کے لیے تدریجی طریقہ سکھایا۔ پہلے پہل دعوت کا کام خفیہ انداز سے کیا گیا۔اور ہیجان صورتِ حال سے بچنے کا اہتمام کیا گیا۔آپؐ نے اس دعوت کو سب سے پہلے اپنے گھر میں پیش کیا اور انتہائی قریبی اور گہرے ربط و ضبط والے دوستوں کے سامنے! جو لوگ دعوت ِ حق سنتے ہی مسلمان ہو گئے ان میں آپؐ کی شریک حیات حضرت خدیجہ بنت خویلدؓ، حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت زید بن حارثہؓ اور حضرت علی بن ابی طالبؓ تھے۔اسلام کی تاریخ انھیں سابقون الاولون کے نام سے یاد کرتی ہے۔تین سال تک خفیہ تبلیغ ہوتی رہی پھر آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا:
’’آپ اپنے نزدیک ترین اقرباء کو خبردار کیجیے‘‘۔ (الشعراء،۲۱۴)
رسول اللہ ؐ پر یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ؐ کھڑے ہو گئے اور فرمایا: اے فاطمہ بنت محمدؓ، اے صفیہ بنتِ عبد المطلبؓ ، اور اے اولادِ عبد المطلب ، میں تمھارے بارے میں اللہ کے ہاں کوئی اختیار نہیں رکھتا، میرے مال کے بارے میں تم جو چاہتے ہو، مجھ سے لے سکتے ہو‘‘۔
اسی آیت کے بعد آپ ؐ نے قریش کو بلایا اور عام بات بھی کی اور خاص بات بھی، فرمایا: اے اہلِ قریش اپنے نفوس کو آگ سے بچاؤ، اور اے اولاد ِ کعب اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ، اے فاطمہ بنتِ محمدؓ اپنے نفس کو آگ سے بچاؤ، خدا کی قسم میرے پاس تمھارے لیے خدا کے ہاں کوئی اختیارات نہیں ہیں۔(رواہ الترمذی)
بخاری اور مسلم میں ہے کہ یہ آیت نازل ہوئی تو آپؐ کوہ ِ صفا پر چڑھے اور پکارا، ’’یا صباحاہ‘‘ تو سب لوگ جمع ہو گئے۔ ہر شخص دوڑ کر آپؐ کے پاس پہنچ گیا یا اس نے اپنا کوئی نمائندہ بھیج دیا تو رسول اللہ ؐ نے فرمایا: یا بنی عبد المطلب، یا بنی مہرہ، یا بنی لوئی، دیکھو! اگر میں یہ خبر دوں کہ پہاڑ کے اس طرف سے ایک لشکر تم پر حملہ آور ہونے والاہے تو تم میری تصدیق کرو گے؟ تو انھوں نے کہا ہاں۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں تمھیں خبردار کرتا ہوں کہ میں تمھارے لیے ڈرانے والا ہوں اور ایک شدید عذاب تمھارے انتظار میں ہے اس پر ابولہب نے کہا:’’ تم پر ہلاکت ہو سارے دن کے لیے‘‘، کیا تم نے ہمیں صرف اس بات کے لیے بلایا، اور اسی موقع پر سورۃ تبت یدا ابی لھب وتبّ نازل ہوئی۔(رواہ البخاری، ۷۰۲،۷۴۳)
نرم اور دلکش انداز
داعی کا انداز وعظ نرم اور دلکش ہونا چاہیے۔ بات اس طرح کرے کہ دل و دماغ میں بیٹھ جائے۔ لوگوں کی ان غلطیوں پر انہیں شرمندہ نہ کرے جو جہالت اور نادانی میں ان سے سرزد ہو جائیں۔ وعظ کی نرمی سے بعض اوقات نہایت سرکش اور اخلاق سے گرے ہوئے لوگ بھی ہدایت پا لیتے ہیں۔پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر، لیکن زجر و توبیخ اور لعنت ملامت کا اثر بعض اوقات الٹا ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے دعوت قبول کرنے والوں کے ساتھ معاملات کی بھی آپؐ کو ہدایت فرمائی:
’’اور ایمان لانے والوں میں جو تمھاری پیروی کریں ان کے ساتھ تواضع سے پیش آؤ‘‘۔ (الشعراء، ۲۱۵)
رسول ِ کریم ؐ کی دعوت کا انداز بہت دل نشیں تھا، جن کی زبان نہایت شیریں، نہایت شستہ اور نہایت پراثر تھی، مخاطب قوم کے مذاق کے مطابق بہترین ادبی رنگ لیے ہوئے تھی۔
احسن مجادلہ
داعی ہر وقت مجادلے اور مباہلے کے میدان میں نہیں اترتا، لیکن اگر مخاطبین کے ساتھ مجادلے کا موقع پیش آئے تو وہ بھی احسن طریق سے ہو۔ یہ مناسب نہ ہو گا کہ داعی مخالف پر حملہ آور ہو جائے، اور اسے ذلیل کرے، بلکہ دعوت میں مباحثے کا انداز یہ ہو کہ مخاطب کو یقین ہو جائے کہ دعوت دینے والا محض غلبہ اور کلام میں برتری نہیں چاہتا ، بلکہ وہ تو ایک حقیقت ذہن نشین کروانا چاہتا ہے۔وہ اللہ کے لیے اسے ایک اچھی راہ کی طرف بلا رہا ہے۔ اس کام سے اس کی کوئی ذاتی غرض وابستہ نہیں ہے، نہ وہ اپنی فتح اور مخاطب کی شکست چاہتا ہے۔بلکہ اپنا فرض پورے اخلاص سے ادا کر کے وہ نتائج اللہ پر چھوڑ دیتا ہے۔
جب مکہ میں مسلمانوں کی تعداد روز بروز بڑھنے لگی اور قریش کے لوگ مسلمانوں کو دیکھ دیکھ کر پریشان ہو رہے تھے تو عتبہ بن ربیعہ (ابوسفیان کے خسر) نے سرداران قریش کی موافقت سے رسول اللہ ؐ سے بات کی، اور کچھ تجاویز پیش کیں، جو مال دینے، سردار بنا لینے، بادشاہ تسلیم کر لینے اور جنون کا علاج کروا لینے سے متعلق تھیں، ان سب کا مقصد آپؐ کو دعوت الی اللہ سے باز رکھنا تھا۔ آپؐ نے عتبہ کی باتیں خاموشی اور توجہ سے سنیں اور جواباً سورۃ حم السجدۃ کی آیات کی تلاوت کیں۔قرآن سن کر عتبہ پلٹا تو سرداران قریش نے دور سے ہی دیکھ کر کہا: ’’خدا کی قسم! عتبہ کا چہرہ بدلا ہوا ہے۔ یہ وہ صورت نہیں جسے وہ لے کر گیا تھا‘‘۔ عتبہ کا بھی اس کلام پر یہی تبصرہ تھا کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ یہ کلام کچھ رنگ لا کر رہے گا‘‘۔یعنی عتبہ پر اس کے کفر کے باوجود محمد ؐ اور ان کے پیش کردہ کلام کا جادو چل گیا، اور اس کلام سے متعلق اس کی زبان سے نکلنے والی رائے بالکل درست تھی۔
رسول اللہ ؐ کا اسلوبِ دعوت
اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو رحمت للعالمین بنایا، اور آپ کو عفو درگزر اور معاف کرنے کی عظیم صفات عطا فرمائیں۔آپؐ کو شدید خواہش تھی کہ بھٹکے ہوئے انسان اپنی سرکشی چھوڑ کر اسلام کے دامنِ رحمت میں سمو جائیں۔ آپؐ کا انداز بھی ایسا تھا کہ لوگ محبت سے پروانوں کی مانند آپؐ کی جانب لپکتے تھے۔انسانوں کو راہ راست کی جانب متوجہ کرنے کے لیے آپؐ کا ارشاد تھا: ’’آسانی پیدا کرو، مشکل نہ بناؤ، خوش خبری سناؤ اور متنفّر نہ کرو‘‘۔(رواہ مسلم)
خوف دلانے کے بجائے رغبت پیدا کرنا
رسول اللہ ؐ انسانی نفس کی کیفیات کو جانتے تھے، کہ کبھی وہ آگے بڑھتا ہے اور کبھی پیچھے، کبھی اس کے عمل میں جوش ہوتا ہے اور کبھی ضعف کا شکار ۔ انسانی نفسیات ایسی ہے کہ کچھ پر ترغیب زیادہ اثر کرتی ہے اور کچھ ترہیب کی بنا پر عمل کرتے ہیں، اور برے انجام کا خوف ان کے لیے مؤثر ثابت ہوتا ہے۔
رسول اللہ ؐ بہترین داعی تھے، انھوں نے ترغیب اور ترہیب دونوں کا اہتمام فرمایا لیکن ترغیب اور اچھی جزا کو مقدم رکھا، کیوں کہ ترغیب نفوس کے لیے زیادہ نافع اور عمل پر ابھارنے والی ہے۔
حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جس بندے نے بھی کلمہ (لا الہ الااللہ) اللہ کے سو کوئی معبود نہیں، کو مان لیا،پھر اس پر وہ مرا تو وہ جنت میں جائے گا۔میں نے کہا: چاہے اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں۔میں نے پھر کہا: چاہے اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں۔میں نے پھر( حیرت سے )کہا: چاہے اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں، ابوذرؓ کی ناک خاک آلود ہو۔ اور ابو عبداللہ امام بخاریؒ کہتے ہیں، یہ موت یا اس سے پہلے ہے کہ اس نے توبہ کی اور وہ نادم ہوا اور اس نے لا الہ الا اللہ کہا، اور اس کی مغفرت ہو گئی۔ (رواہ البخاری، ۳۲۲۲؛۵۸۲۷)
گفتگو کے ذریعے ذہنی طور پر قائل کرنا
آپؐ مخاطب کو دلیل اور عقل کے ذریعے قائل کرتے، اور اسے رعب یا دباؤ میں لا کر عمل پر مجبور نہ کرتے۔ ایک مرتبہ ایک نوجوان آپؐ کے پاس آیا اور آپؐ سے زنا کی اجازت مانگی!! تو آپؐ کا کیسا ردِّ عمل تھا اور آپؐ نے اسے کیا جواب دیا۔
ابو امامہؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ایک نوجوان رسول اللہؐ کے پاس آیا اور کہنے لگا: مجھے زنا کرنے کی اجازت دیجیے۔ لوگوں کو سخت غصّہ آیا اور وہ اسے مارنے کو لپکے، اور اسے ’’مہ مہ‘‘ کہنے لگے، (یعنی چپ! چپ کر جاؤ)، آپؐ نے فرمایا: اسے قریب آنے دو۔ تو وہ آپؐ کے قریب آگیا۔آپؐ نے اس سے پوچھا: کیا تم یہ عمل اپنی ماں کے لیے پسند کرتے ہو؟ وہ بولا: خدا کی قسم، نہیں۔اللہ مجھے آپؐ پر فدا کرے۔آپؐ نے فرمایا: لوگ بھی اپنی ماؤں کے لیے ایسا پسند نہیں کرتے۔آپؐ نے پوچھا: کیا تم ایسا اپنی بیٹی کے لیے پسند کرتے ہو؟ وہ بولا: بالکل نہیں، یا رسول اللہؐ، اللہ مجھے آپؐ پر فدا کرے۔ آپؐ نے فرمایا: تمام لوگ بھی اسے اپنی بیٹیوں کے لیے پسند نہیں کرتے۔آپؐ نے پوچھا: کیا تم اسے اپنی بہن کے لیے پسند کرتے ہو؟ وہ بولا: ہرگز نہیں یا رسول اللہ ؐ، اللہ کی قسم، اللہ مجھے آپؐ پر فدا کرے۔ آپؐ نے فرمایا: لوگ بھی اپنی بہنوں کے لیے ایسا پسند نہیں کرتے۔ (پھر آپؐ نے اس کی پھوپھی اور خالہ کے بارے میں بھی یہی سوال کیا۔اور اس نے انکار کیا۔) پھر آپؐ نے اپنا ہاتھ اس پر رکھا اور فرمایا: اے اللہ! اس کا گناہ معاف کر دے اور اس کا دل پاک کر دے اور اس کی شرم گاہ کی حفاظت فرما۔پس اس کے بعد وہ نوجوان کسی (برائی) کی جانب متوجہ نہ ہوا۔(رواہ احمد)
یعنی آپؐ نے مخاطب کو محض دلائل سے مطمئن نہ کیا بلکہ ایسے سوالات کیے جن سے وہ جذباتی طور پر بھی مطمئن ہو گیا۔اور رائی اور گناہ سے محض عقلی حیثیت ہی سے ابطال نہ کیا بلکہ اس کی فطرت میں موجود شر سے نفرت کو ابھارا۔اور آپؐ نے اس کے لیے دعا بھی فرمائی۔
آپؐ قول و عمل میں صادق تھے، آپؐ محض دوسروں کو تلقین نہ کرتے تھے بلکہ آپؐ کا عمل اس کی دلیل تھی، جیسا کہ آپؐ نرمی خوئی کو پسند کرتے تھے اور اسی کی تلقین فرماتے تھے۔آپؐ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ نرم خو ہے اور وہ نرمی کو پسند فرماتا ہے۔ اور وہ نرمی پر وہ عطا کرتا ہے جو سختی پر نہیں کرتا، اور اس کے سوا کسی چیز پر نہیں دیتا‘‘۔ (رواہ مسلم، ۶۶۰۱)
جاہلوں سے نرمی اور حسنِ تعلیم
اس سے بڑھ کر آپؐ کی نرمی اور حسنِ تعلیم کا نمونہ کی ہو گا کہ ایک اعرابی نے مسجدِ نبوی میں آ کر آپؐ کی موجودگی میں پیشاب کرنا شروع کر دیا۔ایسے واقعے پر آپ کا ردِّ عمل کیسا ہو؟
حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ ہم مسجد میں آپؐ کے ساتھ بیٹھے تھے جب ایک اعرابی آیا اور مسجد میں پیشاب کرنے لگا۔ اصحابِ رسول کہنے لگے: رک جاؤ رک جاؤ۔ آپؐ نے فرمایا: اسے یوں نہ روکو، اسے حاجت پوری کر لینے دو۔صحابہ نے اسے چھوڑ دیا۔ جب وہ حاجت پوری کر چکا تو آپؐ نے اسے بلایا اور نرمی سے سمجھایا: دیکھو، یہ مسجدیں ہیں ، ان میں قضائے حاجت یا گندگی پھیلانا درست نہیں۔یہ تو اللہ کے ذکر، نماز اورتلاوتِ قرآن کے لیے ہیں۔پھر آپؐ نے لوگوں میں سے ایک شخص سے کہا، وہ پانی کا ڈول لایا اور اسے بہا دیا۔(رواہ مسلم، ۶۶۱)
رسول اللہ ؐ کا عمل بہترین ہے، کہ نہ اسے ڈانٹا نہ ڈپٹا اور صبر کے ساتھ برداشت کیا اور حسنِ تعلیم کا حق ادا کیا۔
دعوت کے مواقع سے استفادہ
بہترین داعی وہی ہے جو باخبر اور چوکنا ہو اور نصیحت کے موقع کو ضائع نہ کر دے۔بلکہ چھوٹے چھوٹے واقعات کو بھی اثر انگیز بنا دے۔آپؐ اپنے اصحاب کے ساتھ جا رہے تھے، جب راستے میں ایک عورت ملی، جس کا بچہ کھو گیا تھا۔اور جب اسے بچہ مل گیا تو اس نے محبت سے اسے اپنے ساتھ چمٹا لیا۔آپؐ نے اپنے اصحاب سے پوچھا: تمھارا کیا خیال ہے یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں پھینک دے گی؟وہ بولے: نہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ کی قسم، وہ بھی اپنے پیروں کو آگ میں نہیں ڈالے گا‘‘ ایک روایت کے مطابق: ’’اللہ اپنے بندوں پر اس سے زیادہ مہربان ہے جتنا یہ عورت اپنے بچے پر ہے‘‘۔ (متفق علیہ،۲۶۴۔۳)
اسی طرح ایک مرتبہ آپؐ ایک جنازے کے ساتھ گئے، براء بن عازبؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ؐ کے ہمراہ ایک انصاری کے جنازے پر گئے، جب ہم قبر کے پاس پہنچے اور دفن سے فارغ ہو گئے، تو آپؐ بیٹھ گئے اور ہم بھی آپؐ کے ارد گرد اس طرح بیٹھ گئے، گویا ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔ آپؐ کے ہاتھ میں عود کی لکڑی تھی، جس سے آپؐ زمین کو کھرچ رہے تھے، آپؐ نے اپنا سر اٹھایا اور بولے: عذاب ِ قبر سے بچنے کے لیے اللہ کی پناہ مانگو۔ یہ بات آپؐ نے دو یا تین مرتبہ کہی۔(رواہ ابو داؤد،۴۷۵۴) یہ اس طویل حدیث کا حصّہ ہے جس میں آپؐ نے عذاب ِ قبر اور اس کے فتنوں کے بارے میں بیان کیا۔
اعتدال اور توسط
آپؐ کی دعوت اعتدال اور توسط پر مبنی تھی کیونکہ جبر اور تشدد انسان پر برے اثرات مرتب کرتا ہے، اس کا ذہن دباؤ محسوس کرتا ہے اور دل پر پژمردگی چھاتی ہے، اور دین سے وہ محبت محسوس نہیں ہوتی جو اسے عمل کے میدان میں جوش سے آگے بڑھائے۔ اس بد دلی کی کیفیت میں انسان نہ اپنے حقوق ادا کر سکتا ہے نہ دوسروں کے۔
انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ اصحابِ رسولؐ میں سے تین لوگ ازواجِ نبیؐ کے گھروں میں آئے، اور ان سے رسول اللہ ؐ کی عبادت کے بارے میں دریافت کیا۔جب انہیں بتایا گیا تو انہوں نے گویا اسے کم خیال کیا۔ اور وہ کہنے لگے: ہم کہاں اورآپؐ کہاں؟ آپؐ تو بخش دیے گئے ہیں۔ان میں سے ایک کہنے لگا: میں ہمیشہ پوری رات (عبادت میں) کھڑا رہوں گا۔دوسرے نے کہا: میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا اور کبھی مفطار نہیں کروں گا۔تیسرا بولا: میں عورتوں سے کنارہ کشی اختیار کروں گا اور شادی نہیں کروں گا۔رسول اللہ ؐ آئے اور پوچھا: کیا تم لوگوں نے فلاں فلاں باتیں کہی ہیں۔۔ اللہ کی قسم! میں تم سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوںاور اس کا تقوی اختیار کرنے والا ہوں، مگر میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، میں نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، تو جس نے میری سنت سے انحراف کیا وہ مجھ سے نہیں۔(رواہ البخاری، ۵۰۶۳)
رسول اللہ ؐ افراط و تفریط سے پاک، امتِ کے لیے ایسا اسوہ ہیں جس میں اعتدال اور توسط ہے اور کسی طرح بھی شدت نہیں پائی جاتی۔
وقتی دوری اور بائیکاٹ
رسول اللہ ؐ نے مشکل وقت میں سپر پاور کے خلاف اعلان ِ جہاد کیا اور بلا عذر گھر بیٹھنے سے روکا تو چند صحابہ نے اس حکم کی تعمیل میں بلا سبب نفسانی کمزوری اور سستی کے سبب لبیک نہ کہا، اور غزوہ تبوک میں شریک نہ ہوئے۔آپؐ نے تمام صحابہؓ کے ساتھ مل کر ان کا معاشرتی بائیکاٹ کیا۔اور ایک ماہ سے زائد عرصہ تک یہ بائیکاٹ قائم رہا حتیٰ کہ اللہ نے ان کی توبہ قبول کر لی۔
یہ بھی یاد رہے کہ ایسا بائیکاٹ آپؐ کا معمول نہ تھا۔ اور یہ خاص موقع پر ایک خصوصی عمل تھا۔یہ بہترین داعیانہ صفت ہے، کہ جہاں اپنے ساتھیوں کوتشجیع کے ذریعے اطمینان عطا کیا جائے وہاں سزا کا خوف اور تنہاچھوڑ کر بھی اطاعت کی جانب متوجہ کیا جائے۔
براہِ راست مخاطب کیے بغیر خطاب
رسول اللہ ؐ لوگوں کو ان کی خامیوں کی جانب متوجہ کرتے ہوئے کبھی صرف غلطی کی جانب توجہ دلاتے اور مخاطب کو حذف کر دیتے۔جیسے: ’’لوگوں کا کیا حال ہے کہ وہ ایسا اور ایسا کرتے ہیں‘‘۔
’’ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں ہیں، جس نے ایسی شرط لگائی وہ باطل ہے، اگر وہ سو ہوں، کتاب اللہ زیادہ سچی اور اللہ کی شرطیں زیادہ قابلِ اعتماد ہیں‘‘۔(رواہ البخاری، ۲۱۶۸)
کبھی ایسا بھی ہوتا کہ سامنے والے شخص کو مخاطب کیے بغیر اس سے متعلق کہتے، جیسے آپؐ کی موجودگی وہ دو لوگ آپس میں لڑ پڑے اور ایک نے دوسرے کو غصّے میںگالی دی، تو اس کا چہرہ سرخ ہو گیا،تو آپؐ نے اپنے اصحابؓ کو مخاطب کر کے فرمایا: میں ایک کلمہ جانتا ہوں اگر وہ اسے ادا کرے تو جو کچھ وہ محسوس کر رہا ہے اس سے چلا جائے گا۔ اگر یہ اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھ لے۔لوگوں نے اس سے کہا : تم نے سنا رسول اللہ ؐ کیا کہہ رہے ہیں؟ وہ بولا: میں دیوانہ نہیں ہوں۔(رواہ البخاری، ۵۶۹۲)
وعظ و تذکیر کا اسلوب
رسول اللہ ؐ اپنے ساتھیوں کو ہر روز وعظ و تلقین نہیں کرتے تھے تاکہ ان کے نفوس بوجھل نہ ہو جائیں اور وہ تنگی یا تھکاوٹ نہ محسوس کرنے لگیں۔البتہ ہر اہم موقع پر نہایت بلیغ اور مؤثر خطبے دیا کرتے تھے، تاکہ لوگ ان کے مطابق عمل کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔جیسا کہ عرباض بن ساریہؓ نے روایت کیا ہے۔رسول اللہ ؐ نے ہمیں ایسی بلیغ نصیت کی جس سے دل کانپ اٹھے،اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، تو ہم نے کہا: یہ تو کسی الوداع کہنے والے کی نصیحت ہے، پس آپؐ ہمیں تلقین کیجیے۔ آپؐ نے فرمایا: میں تمھیں سمع و اطاعت کی وصیت کرتا ہوں اگرچہ تم پر ایک غلام امیر بنا دیا جائے؛ کیونکہ تم میں سے جو زندہ رہا وہ بہت اختلاف دیکھے گا؛ پس تم پر لازم ہے کہ میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء کی سنت کو دانتوں سے مضبوطی سے پکڑ لو۔اور نئی باتیں نکالنے سے بچنا؛ ہر نئی بات بدعت اور اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ (رواہ ابو داؤد ، ۴۶۰۴،والترمذی)
قصوں اور امثال کے ذریعے نصیحت
قصّہ اور مثال نصیحت کا بہت عمدہ ذریعہ ہے۔ یہ قرآنی اسلوب بھی ہے اور رسول اللہ ؐ نے بھی اسے اختیار فرمایا ہے۔آپؐ نے غار والوں کا قصّہ، جریج کا قصہ اور کئی دوسرے قصوں کے ذریعے دعوت کا حق ادا کیا۔
کامل و اکمل
آپؐ جس دین کو لے کر آئے وہ تمام ادیان کا نچوڑ ہے، آپؐ نے تمام دنیا کے سامنے پہلی بار ایک مکمل دین کو پیش کیااور اس طرح پیش کیا کہ خود اس کا عملی نمونہ بھی پیش کر دیا۔اور دین و دنیا کی یکجائی کے ساتھ اسلام کی دعوت دی، جہاں دین اور سیاست علیحدہ نہیں ہیں۔
آپؐ نے اس دین کو جامع انقلابی دعوت کی حیثیت سے تسلیم کر کے اسے آگے پھیلایا۔آپؐ کا اسلوبِ دعوت قیامت تک ہر داعی دین کے لیے مکمل رہنمائی لیے ہوئے ہے۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x