ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ابتدا تیرے نام سے – صائمہ اسما

قارئینِ کرام سلام مسنون
اکتوبر کا آغاز ہے مگر گرمی ابھی تک پھن پھیلائے کھڑی ہے۔ خیر ،موسم آج نہیں تو کل بہتر ہو ہی جائے گا، مگر جس کا بہتر ہونا مطلوب ہے وہ تو مسلسل خرابی کی طرف رواں دواں ہے۔ مہنگائی اوربجلی کے بلوں میں مسلسل اضافے کے خلاف ملک گیر ہڑتال بھی ہوئی ۔ہر جگہ عوام سراپا احتجاج بن گئے کہ بجلی کا بل دیں تو پٹرول کہاں سے خریدیں اور پٹرول لے لیں تو کھائیں کہاں سے!خود کشی کے واقعات بھی ہوئے جو اشارہ کرتے ہیں کہ حالات سنگین تر ہو گئے ہیں۔ ایسے میں حکمرانوں کی تفریحات اور عیاشیاں زخموں پہ نمک چھڑک رہی ہیں۔ بے حسی انتہا پر ہے۔ مالِ مفت ہے اور دلِ بے رحم۔ قرض کی مے ہے اوررنگ لائی ہوئی فاقہ مستی۔ انتخابات کب ہوتے ہیں ، کن حالات میں، اور ہوتے بھی ہیں یا نہیں، کوئی خبر نہیں۔ جن کاکام انتقال اقتدار کی نگرانی تھا انہیں برسراقتدار ہونے کی غلط فہمی ہوگئی۔ وہ راستے کو منزل بنا بیٹھے اور خیمے کو گھر۔ دنیا میں جگ ہنسائی ہورہی ہے کہ بیرونی دوروں کی کیا تک بنتی تھی جبکہ وہاں کرنے والے کام منتخب حکومت کے ہوتے ہیں۔

کند تلوار سے طاقت نہیں ملنے والی
بزدلی سے کبھی ہمت نہیں ملنے والی
قد بڑھائے ہوئے کچھ ذہن کے بونے نکلے
اس نمائش سے تو قامت نہیں ملنے والی

گزشتہ دنوں گلگت بلتستان میں فرقہ وارانہ فساد کی خبریں تھیں ،انٹرنیٹ سروس بند تھی اور سکردو آنے والی بین الاقوامی پروازیں بھی کچھ دن منسوخ ہوتی رہیں۔ گلگت بلتستان وطنِ عزیز کا وہ علاقہ ہے جہاں باقی ملک کے برعکس شیعہ آبادی کا تناسب خاصا ہے ۔ مجموعی طور پہ یہاں فرقہ وارانہ ہم آہنگی ہے، شیعہ سنی جھگڑوں کی تاریخ اکا دکا واقعات پر مبنی ہے، اگرچہ جوواقعات ہوئے وہ خاصے شدید تھے۔ ۱۹۸۳ میں پہلی بار یہ جھگڑا فسادات کی شکل میں سامنے آیا۔ اس کے بعد ۲۰۱۲ میں بھی کچھ فسادات ہوئے۔ حالیہ جھگڑا ۲۰ اگست کو شروع ہؤا جب اہلِ سنت نے ایک شیعہ عالم پر توہینِ صحابہ کا الزام لگایا اور ایف آئی آر کٹوا دی۔ اس کے نتیجے میں اہل تشیع نے شدید احتجاج کیا اور جھگڑے کی فضا بن گئی۔شاہراہِ قراقرم احتجاجی دھرنے کی وجہ سے بند ہو گئی جس سے چلاس اور دیامیر کے علاقے میں سیاح پھنسے رہے۔اگست کا مہینہ گلگت بلتستان میں سیاحوں کی بھرپور آمدورفت کا مہینہ تھا۔رینجرز کی تعیناتی سے حالات کو کنٹرول کیا گیا ،شاہراہِ قراقرم کھل گئی اور معمولات بحال ہوئے۔
انہی حالات میں اس ماہ بلتستان کا علاقہ گھومنے کا اتفاق ہؤا۔اس دوران انٹرنیٹ سروس بھی بحال ہوگئی تھی اور پروازیں بھی سیاحوں کو لے کر پہنچنے لگی تھیں۔ حیرت اور خوشی ہوئی کہ ہر طرف امن و امان تھا، راستے کھلے تھے اور زندگی معمول پر تھی۔وہاں کے عام لوگوں سے اس حالیہ کشیدگی پر تفصیل سے بات چیت کا موقع ملا۔سکردو میں شیعہ آبادی کی اکثریت ہے اور انہی کے لگ بھگ نور بخشی فرقے کے لوگ ہیں، جبکہ سنی بہت کم ہیں۔ وہاں کے لوگوں کا کہنا تھا کہ یہاں فرقہ وارانہ تعصب کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔آپس میں محبت سلوک اور بھائی چارہ ہے۔ شیعہ سنی میں باہم شادیاں ہونا ایک معمول کی بات ہے۔ اس سوال پر کہ پھر یہ سب فساد کیسے ہؤا، ان کی طرف سے ایک معنی خیز جملہ تھا کہ یہ سب کروایا گیا ہے۔ بہر حال حقیقت جو بھی ہے، پاکستان جن نازک حالات سے گزر رہا ہے، ان میں ایسے واقعات بہت خطرناک ہیں۔ گلگت بلتستان کا علاقہ جو اس وقت بیرونی سیاحوں کے لیے بے حد کشش

رکھتا ہے، خطے میں عالمی طاقتوں کے سیاسی عزائم کے لیے بھی بے حد اہم ہے۔ یہاں سازشوں کا پنپنا ملکی سلامتی کے لیے بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
دوسری طرف اگر اس علاقے میں اچھی منصوبہ بندی اور انتظامات سے سیاحت کو فروغ دیا جائے تو یہ زر مبادلہ کمانے کا بڑا ذریعہ بن سکتا ہے۔ وہاں موجود کچھ یورپی سیاحوں سے بات چیت میں ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اپنے ملکوں میں اتنے خوبصورت اور سرسبز علاقےاور الپس کا سلسلہ کوہ ہوتے ہوئے انہیں یہاں کیا کشش محسوس ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پہاڑ ایسے نہیں ہیں، جو عظمت وشکوہ اور ہیبت و جلال ان ہزاروں میل پھیلے ہوئے پہاڑی سلسلوں میں ہے،اور جوقدرت کی لاجواب صناعی یہاں ہے وہ اور کہیں نہیں ہے۔آپ وادی میں کھڑے ہوکر چھے سات ہزار میٹر بلند چوٹیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں اور ان کی عظمت کو محسوس کرسکتے ہیں۔ ترقی یافتہ، اورٹیکنالوجی سے بھری دنیا سے آکر فطری حسن کے شاہکار یہ ان چھوئے سکون پرورعلاقے ان کو حیرت میں مبتلا کردیتے ہیں اور وہ اس زندگی کے سحر میں کھو جاتے ہیں۔ شاہراہِ قراقرم پر تین عظیم پہاڑی سلسلے جس مقام پر ملتے ہیں وہاں ایک نشانِ منزل تعمیر کیا گیا ہے۔شاہراہِ قراقرم خود دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہلاتی ہے کیونکہ ہزاروں فٹ کی بلندی پر سخت چٹانوں کو چیر کر شاندار سڑک بنا دینا کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے۔یہ علاقے وطنِ عزیز کا قیمتی اثاثہ ہیں ،دل سے یہی دعا نکلتی ہے کہ اللہ ان کا سکون محفوظ رکھے ، اندرونی و بیرونی سازشوں سے بچائے، یہاں کے باشندوں کو اسی طرح خوشحال اور پرامن رکھے اور ان کو ملک کی ترقی کا سبب بنائے ، آمین۔
انتہائی دکھ کی خبر ہے کہ عید میلاد النبیؐ کے موقع پر مستونگ اور ہنگو میں مسجدوں پردہشت گردانہ حملے ہوئےجن میں کم از کم سو افرادجاں بحق ہوئے ہیں جبکہ مزید گنتی جاری ہے ۔ یکایک بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات دوبارہ رونما ہونے لگے ہیں۔ ہم دہشت گردی کی امریکی جنگ سے نکل بھی چکے، امریکہ اور نیٹو ذلیل و خوار ہو کر افغانستان سے بھاگ چکے، مگر اس جنگ کی نحوست ابھی بھی ہمارا تعاقب کررہی ہے۔ ہم ابھی تک ساتھ دینے کاتاوان بھگت رہے ہیں۔ دہشت گردی کی اس نئی لہر نے ایک بار پھر ہماری عبادت گاہوں ،بازاروں اور گلی کوچوں کو غیر محفوظ کردیا ہے۔ یہ شہریوں کو امن فراہم کرنے میں اربابِ اختیار کی صریح ناکامی اور ان کی غیر دانشمندانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
طبی معلومات اور مسائل پر مبنی کالم اس بار شروع کیا جارہا ہے۔ امید ہے آپ کی دلچسپی کا باعث ہوگا۔ اس کے لیے ہم ڈاکٹر ناعمہ شیرازی کے ممنون ہیں۔ اگر آپ اپنے سولات بھیجنا چاہیں تو ای میل کرسکتے ہیں۔بتول کی ویب سائٹ پر تازہ پرچہ اپ لوڈ کیا جاتا ہے، نئے پڑھنے والوں کو اس کے ذریعے بھی رسالوں اور ادارے سے متعارف کروایا جاسکتا ہے۔خود بھی استفادہ کیجیے اور دوسروں کو بھی لنک بھیجیے۔بتول کا فیس بک پیج بھی موجود ہے ، اپنی چھپی ہوئی تحریر کو ویب سائٹ سے اس فیس بک پیج پر ضرور شیئر کیا کریں، تاکہ رسالے متعارف ہوں اور خیر کا یہ پیغام مزید کئی لوگوں تک پہنچے۔ اظہرؔ لکھنوی کے چند اشعار کے ساتھ اجازت دیجیے بشرطِ زندگی!

دیکھیے چلتا ہے پیمانہ کدھر سے پہلے
بزم میں شور ہے ہر سمت ادھر سے پہلے
غم کی تاریک گھٹاؤں سے پریشان نہ ہو
تیرگی ہوتی ہے آثار ِسحر سے پہلے
آپ جس راہ گزر سے ہیں گزرنے والے
ہم گزر آئے ہیں اس راہ گزر سے پہلے
مجھ سے دیکھے نہیں جاتے ہیں کسی کے آنسو
پونچھ لو اشک ذرا دیدۂ تر سے پہلے
حسن والے تو بہت پھرتے ہیں ہر سو لیکن
تم سا کوئی نہیں گزرا ہے نظر سے پہلے
ایک منزل ہے مگر راہ کئی ہیں اظہرؔ
سوچنا یہ ہے کہ جاؤ گے کدھر سے پہلے

دعاگو، طالبہ دعا
صائمہ اسما

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x