ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

احسان کی حقیقت – ڈاکٹر بشریٰ تسنیم

عموماً ہمارے معاشرے میں احسان کسی کی ایسی نیکی کو کہا جاتا ہے جو ہمیں بوجھ محسوس ہو جس کو سر سے اتارنے کی جلدی ہو یا خود نیکی کر کے جیسے کسی دوسرے کو قرض دیا ہو اور اس کی واپسی کے منتظر ہوں، مثلاً:
’’میں نے اس پہ احسان کیے اور اس نے میرے ساتھ یہ سلوک کیا‘‘۔
’’میں کسی کے احسان کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی/سکتا’’ یا ‘‘مجھے کسی کے احسان کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔
احسان کا لفظ قرآن پاک میں کثرت سے آیا ہے۔لغت میں ’’احسان‘‘ کا معنی حسین بنانا، صناعت میں عمدگی اور اس میں استحکام پیدا کرنا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:اللہ کی ذات ہی ہے جس نے ہر چیز بنائی اور بہت خوب بنائی۔ (سورہ السجدہ: ۷)
اصطلاح میں ’’احسان‘‘ شرعی مطلوب کو حسین ترین طریقہ سے پیش کرنا ہے۔اس کے علاوہ لغوی معنی کے لحاظ سے احسان، برائی کے مقابل آتا ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ الرعد آیت نمبر ۲۲ میں فرمایا کہ ’’…اور وہ برائی کو بھلائی سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے لیے ہی آخرت کا گھر ہے۔‘‘اسی طرح سورہ یوسف میں آیت نمبر ۱۰۰ میں ذکر ہے کہ ’’یقیناً میرے رب نے مجھ پہ احسان کیا‘‘۔ یعنی ایک مشکل وقت کے بعد اچھا ٹھکانہ عطا فرمایا۔
احسان کے ایک معنی کسی چیز کو خوب صورتی کے ساتھ مکمل کرنا۔ جیسا کہ انسان کی تخلیق ہوئی۔
’’فتبارک اللہ احسن الخالقین‘‘
’’لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم‘‘
’’احسنِ تقویم‘‘ یعنی نک سک سے بالکل جامع، متوازن، خوب صورت، اور کارآمد بنانا کہ اس میں ترمیم کی ضرورت نہ رہے۔
اصطلاحی معنی میں اس کا مطلب سیاق وسباق کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔
ث احسان کا اطلاق تین چیزوں پر ہوتا ہے۔
•ث کسی چیز کا طبیعت اور مزاج کے موافق ہونا۔ اس کے مقابل لفظ قبح ہے، جس کے معنی ہیں کسی چیز کا طبیعت کے مطابق موافق نہ ہونا۔
•ث کسی چیز کا اپنے کمال تک پہنچنا جس کا مقابل بھی قبح اور نقصان کے معنوں میں ہے، جیسے علم نفع بخش ہے تو جہل باعث نقصان ہے۔
ث• کسی چیز یا عمل کا قابلِ تعریف ہونا اس کے مقابل قابلِ مذمت چیز یا عمل ہوتا ہے۔
احسان کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔
ث• کسی اور کے ساتھ اچھائی کرنا۔
ث• خود اپنے عمل کو بہتر سے بہترین اور اچھا کرنا۔
احسان کی حقیقت اپنے عمل کو قابل تعریف، بہترین اور خوب صورت بنانے کے لیے پورے ذوق و شوق سے کما حقہ علم حاصل کرنا اور اس کے مطابق عمل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنا ہے۔
جیسا کہ سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کا قول مبارک ہے:’’لوگ اپنے علم اور اس پہ عمل سے پہچانے جاتے اور یاد رکھے جاتے ہیں‘‘۔
اور اللہ تعالیٰ نے سورہ النحل آیت نمبر ۹۰ میں فرمایا:’’بے شک اللہ تعالیٰ انصاف اور احسان کرنے کا حکم دیتا ہے‘‘۔
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے احسان کرنے والوں کا درجہ اور ثواب بھی زیادہ رکھا ہے۔ اور اس خوبی کو سورہ الرحمٰن میں اس طرح سراہا کہ ’’کیا احسان کا بدلہ احسان ہی نہیں ہونا چاہیے‘‘۔سورہ رحمٰن کی مذکورہ بالا آیت میں پہلے احسان سے مراد کلمہ توحید لا الہ الا اللہ ہے اور دوسرے احسان سے مراد جنت ہے۔ جیسا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور بعض دیگر مفسرین نےکہا ہے۔
یعنی آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو فرد کلمہٴ توحید کا اقرار کرے اور محمد رسول اللہﷺ کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق عمل کرے اس کا بدلہ جنت کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟ نبی کریمؐ سے منقول ہے کہ آپؐ نے مذکورہ بالا آیت کریمہ تلاوت کرنے کے بعد فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے (اس آیت میں) کیا فرمایا؟ صحابہ کرام نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسولؐ زیادہ جانتے ہیں۔ نبیؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے (اس آیت مبارکہ میں) یہ فرمایا ہے کہ جس پر میں احسان کر کے اس کو عقیدۂ توحید اپنانے کی توفیق دے دوں تو اس کا بدلہ جنت کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے؟‘‘
اللہ تعالیٰ نے ایک خوب صورت مکمل دین عطا کیا ہے تو اس کے مطابق زندگی گزارنے والے محسنین کے لیے خوبصورت اور دلکش جنت تیار کی گئی ہے۔ جس کے لیے مومنوں کو خوب سے خوب تر عمل کی سعی کرنی چاہیے۔
اور محسنین سے اللہ تعالیٰ نے محبت کا اظہار بھی فرمایا:’’بے شک اللہ تعالیٰ محسنین سے محبت فرماتا ہے‘‘۔انعام یافتہ لوگ بھی قابلِ تحسین ہوتے ہیں لیکن احسان زیادہ افضل ہے۔
احسان اور انعام میں فرق یہ ہے کہ احسان اپنے ساتھ کی جانے والی اچھائی کو بھی کہا جاتا ہے۔ اور کسی دوسرے کے ساتھ بھلائی کرنا بھی احسان ہے۔ جب کہ انعام کسی دوسرے کی نیکی کو سراہنے کے لیے کچھ عطا کرنے کا نام ہے۔ احسان، انعام کی نسبت عام ہے، انعام کے مواقع کم اور احسان (بہترین نیکی کرنے) کے مواقع ہر لمحہ موجود ہوتے ہیں۔
اپنی ذات کے ساتھ پہلا احسان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو شرف انسانی بخشا ہے اس کو قائم رکھے اور اپنے مرتبے اور عزت کو خاک میں نہ ملائے۔ کیونکہ اس اکرام کی حفاظت کے متعلق ہر انسان اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہ ہوگا۔
اپنے ساتھ احسان کا تعلق نیت اور ارادے سے شروع ہوتا ہے اور حسنِ عمل اس کی تکمیل کرتا ہے۔ ’’اِن اٴحسنتم، اٴحسنتم لِاٴنفسکم‘‘ یعنی اگر تم اپنی ذات کے ساتھ اچھائی کرو گے تو اپنا ہی بھلا کرو گے۔
اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ احسان کا پہلا طریقہ یہ ہے کہ وہ شرعی واجبات و فرائض سے بڑھ کر کچھ زیادہ بھلائی کرے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اپنی ذات اور دوسری مخلوق کے ساتھ جو بھی بھلائی کرے اس کو احسن طریقے سے انجام دے۔ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے تمہیں احسنِ تقویم بنایا ہے اسی طرح اپنے نیک اعمال میں بھی جھول نہ آنے دو۔ مثلاً احسان کر کے جتانا نیکی ضائع کرنا ہے اور اللہ رب العزت نے کسی مجرم کو سزا یا عقوبت دینے میں بھی احسان کا رویہ رکھنے کی تلقین کی ہے۔ حدود کے نفاذ، قیدیوں کے حقوق اور جنگی احکامات اس کی بہترین مثال ہیں۔ حتیٰ کہ جانور ذبح کرتے وقت بھی ہدایات ملتی ہیں کہ ’’جب تم ان کو ذبح کرو تو احسان سے ذبح کرو’’ یعنی ان کو تکلیف اور آزار میں مبتلا نہ رکھو۔
حسنہ کے مختلف معانی سے واضح ہوتا ہے کہ حسنہ اور احسان میں بنیادی تعلق اور ربط موجود ہے۔ یعنی نیکی بھی معیاری ہو اور اس کو انجام تک پہنچانے میں حسنِ عمل بھی کارفرما ہو۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے تفسیر قرطبی میں منقول ہے کہ محسنین کا مطلب ہے اپنے اچھے اعمال کو بہترین طریقے سے انجام تک پہنچانے والے لوگ۔ گویا کہ نیکی کے ہر پہلو سے واقف ہونے اور مستقل مزاجی سے اس پہ کاربند رہنے والے محسن کہلائے جائیں گے مزید یہ کہ وقت کے ساتھ ساتھ حسن عمل کی کشادہ راہیں تلاش کرنے والے محسنین ہیں۔ مومن کا ایمان دنیا میں اس کے حسنِ عمل کی بدولت درجہ بدرجہ بڑھتا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ جنت کے دروازے تک جا پہنچتا ہے۔
احسان دراصل نیکی کو شروع کر کے اسے اعلیٰ معیار پہ قائم رکھنے کا نام ہے۔ ہر مومن کی نیکی احسان (حسنِ نیت اور بہترین طریقہٴ عمل) کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی نظر میں قبولیت کا درجہ پائے گی اسی لیے رائی کے دانے کے برابر کی گئی بعض نیکیاں پہاڑوں کے وزن کے برابر ہو جائیں گی، ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں نیکیوں کی تعداد نہیں گنی جائے گی بلکہ نیکی کو تول کر اس کی کوالٹی کو جانچا جائے گا۔
اسی طرح احسان، عدل سے بہتر اور اعلیٰ ہے اس لیے کہ عدل کا مطلب انسان کا جو حق بنتا ہے وہ لے اور جو اس پر کسی کا حق بنتا ہے وہ دے۔ اور احسان یہ ہے کہ انسان کا جو حق بنتا ہے اس سے زیادہ دے۔ اس لیے احسان عدل سے بڑھ کر ہے۔ عدل کی بھرپور کوشش کرنا فرض ہے تو احسان کی کوشش کرنا اس فرض کی کوالٹی کو بہتر بنانا ہے۔ دونوں کا حکم اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں موجود ہے:
’’یقیناً اللہ تعالیٰ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے‘‘۔ (سورہ النحل: ۹۰)یقیناً بہترین طریقے (احسان) سے عدل کرنا ہی عدل کو امتیازی شان عطا کرتا ہے۔
احسان کے متعلق آیات کریمہ اور احادیث مبارکہ میں غور و فکر کرنے سے یہ بات خوب واضح ہوجاتی ہے کہ احسان اور عدل مل کر انسانیت کے اعلیٰ معیار کا رشتہ ترتیب دیتے ہیں اور احسان کا یہ دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اس میں انسان کا اپنا نفس، اس کا گھرانہ، اس کے رشتہ دار، اقرباء، پھر انسانی معاشرہ سب داخل ہیں۔ سورہ بنی اسرائیل کی آیت ۲۳ میں والدین کے ساتھ احسان کرنے کا حکم دیا گیا۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں احسان سے مراد یہ ہے کہ والدین جب تک حیات ہیں ان کے ساتھ ہر پہلو سے حسن سلوک کا معیار گرنے نہ پائے اور سورہ البقرہ کی آیت ۸۳ پہ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین، قرابت دار، یتیم اور مسکین بھی اسی معیاری حسن سلوک کے مستحق ہیں۔ سورہ النساء کی آیت نمبر ۳۶ اس دائرے کو مزید وسیع کر دیتی ہے جس میں والدین، یتیم، مسکین، رشتہ دار کے ساتھ قریبی ہمسائے، مسافر، پہلو کے ساتھی اور زیر دست کے ساتھ احسان کی روش کا حکم دیا گیا ہے۔ اب سورہ الاعراف کی آیت نمبر ۵۶ کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔
’’اصلاح کے بعد زمین میں فساد برپا نہ کرو اور اللہ کو خوف اور امید کے ساتھ پکارو یقیناً اللہ تعالیٰ کی رحمت احسان کرنے والوں کے قریب ہے‘‘۔
یعنی جس بہترین طریقے سے زمین کو اللہ تعالیٰ نے توازن کے ساتھ بنایا ہے تم اس پہ اسی کے احکامات کے مطابق زندگی گزارو گے تو یہ احسان کی (بہترین) روش ہوگی اور نتیجتاً اللہ تعالیٰ کی رحمت قریب ہی پاؤ گے۔
اسی طرح ہم سمجھتے ہیں کہ احسان ہر فرد اور معاشرے اور حکومت کی مکمل زندگی پر مشتمل ہے۔ اور اس وقت تک قابلِ فخر زندگی نہیں گزاری جا سکتی جب تک ہم دلوں میں احسان کا پودا نہ لگالیں۔ احسان کرنا اللہ تعالیٰ کی محبت کے اسباب میں سے ہے جس کا تذکرہ متعدد بار قرآن پاک میں آیا ہے۔
احسان نیتوں اور ارادوں اور عبادات اور حقوق و فرائض پر مشتمل ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ احسان کا لفظ تمام مخلوقات (حیوانات، جمادات، یا نباتات) سے متعلق ہے۔
اللہ تعالیٰ کی نظر میں سب سے اچھا کون ہے؟
سورہ النساء کی آیت ۱۲۵ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے’’اُس شخص سے زیادہ احسن طریق زندگی کس کا ہوسکتا ہے جس نے اللہ کے آگے سر تسلیم خم کر دیا اور اپنا رویہ احسان والا رکھا اور یکسو ہو کر ابراہیمؑ کے طریقے کی پیروی کی، اُس ابراہیمؑ کے طریقے کی جسے اللہ نے اپنا دوست بنا لیا تھا‘‘۔
بے شک اللہ تعالیٰ کا دین ہی انسان کو دنیا و آخرت میں کامیاب کر سکتا ہے۔
الاحسان اللہ کی صفت ہے اور المحسن اللہ تعالیٰ کا خوب صورت نام ہے، مومن اللہ تعالیٰ کی صفات کا پرتو ہوتا ہے۔ جیسا کہ اس آیت میں اشارہ ہے۔
’’اللہ کا رنگ اختیار كرو اور اللہ تعالیٰ سے اچھا رنگ کس كکا ہوگا؟ ہم تو اسی کی عبادت كکرنے والے ہیں‘‘۔ (سورہ البقرۃ: ۱۳۸)
گویا کہ اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگ جانے کے بعد احسان کے درجے پہ پہنچ کر اس رب کی عبادت کرنے والے ہیں۔
رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جب کسی مسلمان پر فرض نماز كکا وقت آتا ہے تو وہ اچھے انداز سے وضو کرتا ہے نیز خشوع خضوع اور رکوع وغیرہ درست كکرتا ہے تو وہ نماز اس كے سابقہ گناہوں کفارہ ہو جاتی ہے جب تک وہ كکسی كکبیرہ گناہ كکاارتکاب نہ كرے اور یہ كکفارہ زمانہ بھر حاصل ہوتا رہے گا۔’’ (صحيح مسلم بَاب فَضْلِ الْوُضُوءِ وَالصَّلَاةِ عَقِبَهُ، كِتَاب الطَّهَارَةِ رقم: ۲۲۸)
’’یقیناً جو لوگ ایمان لائیں اور نیک اعمال كکریں تو ہم کسی نیک عمل (احسن عمل) كکرنے والے كکاثواب ضائع نہیں كکرتے‘‘۔ (سورہ الکہف: ۳۰)
احسن عمل کرنے کا ہی انسانوں کے درمیان مقابلہ ہے اور اسی مقصد کے لیے رب العٰلمین نے موت اور حیات کو ایجاد فرمایا۔
اب ہم اپنی عبادات و معاملات کا جائزہ لیں کہ کیا واقعی وہ ہمہ پہلو خوب صورت کہلائے جا سکتے ہیں؟
آنکھ، کان، زبان کی کارروائی اور دل کے افکار پہ کس کا رنگ ہے؟
باہم معاملات میں حسن سلوک کی چادر کتنے سوراخ رکھتی ہے؟
رشتوں کے تقدس کا پانی کتنا گدلا ہؤا جاتا ہے؟
جھوٹ، منافقت، بے ایمانی، بد نیتی کے ساتھ ساتھ کچھ بھلائیاں کر بھی لی ہیں تو ان کا معیار اللہ تعالیٰ کی نظر میں کیا ہوگا؟
یقیناً صورتحال بہت تشویشناک ہے لیکن ابھی سانس باقی ہے تو نجات کی آس بھی باقی ہے۔بہترین طریقے سے دینِ اسلام پہ چلنے کا ایک کارگر نسخہ تو یہ قول مبارک ہے:
’’ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آدمی کے اسلام کی خوبی میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اس چیز کو چھوڑ دے جو اس کے مقصد کی نہیں‘‘ (بلوغ المرام/کتاب الجامع: ۱۲۷۳)
یعنی جو قول و عمل جنت کی راہ کھوٹی کرنے والے ہوں وہ بے مقصد ہیں۔ اور یہ بھی تربیت مطلوب ہے کہ دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی ایک بے مقصد فعل ہے۔
نیک عمل میں احسان کا درجہ کیسے حاصل ہوگا؟
حدیث جبریل کا یہ حصہ ہمیں احساس دلاتا ہے کہ ہم کس طرح اعمال صالحہ کی کوالٹی کو احسان کے درجے پہ پہنچا سکتے ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حدیث جبریل میں ارشاد فرمایا کہ ’’احسان’’ یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے ، اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا ہو تو وہ تجھے مستقل دیکھ ہی رہا ہے‘‘، جس سے مراد ہے کہ مؤمن یوں عبادت کرے کہ وہ اللہ جل شانہ کے حضور کھڑا ہے، جس کا لازمی اثر یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا تصور عابد کے باطن میں خشیت اور خضوع طاری کر دیتا ہے اور بندے کی اللہ تعالیٰ کی طرف کمال توجہ ہوجاتی ہے۔ اسی متقی سوچ کے تحت مومن کا ہر لمحہ عبادت بن سکتا ہے اگر وہ اپنا ہر عمل کرتے ہوئے اللہ کے سامنے حضوری کا احساس زندہ رکھے اگر یہ احساس نصیب نہ ہو رہا ہو تو کم از کم اس ایمان و یقین کو تازہ رکھے کہ وہ اللہ کی نظر میں ہے۔ جب یہ احساس یقین کامل میں بدل جائے گا تو انشاءاللہ حضوریِ رب کی نعمت عظمٰی بھی مل جائے گی۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x