ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

محشر خیال – پروفیسر خواجہ مسعود

پروفیسر خواجہ مسعود ۔ اسلام آباد
’’ چمن بتول‘‘ شمارہ ستمبر 2023ء کا ٹائٹل ہمارے کلچر کی عکاسی کر رہا ہے ۔ ملتانی نیلے نقش ونگاروالے برتن بھلے لگ رہے ہیں۔
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ (مدیرہ محترمہ ڈاکٹر صائمہ اسما کا فکر انگیز اداریہ ) آپ نے بجا طورپر بٹگرام کے اس جری نوجوان کی تعریف کی ہے جس نے اپنی جان خطرے میں ڈال کرڈولی میں پھنسے بچوں کوبچایا ۔ سندھ میں پیری مریدی اوروڈیرہ شاہی کے ظلم وستم پر آپ نے جرأت کے ساتھ آواز اٹھائی ہے ۔
’’ اعجاز قرآن‘‘ ( ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحبہ کا بصیرت افروز مضمون) آپ نے بیان کیا ہے کہ قرآن پاک وفصاحت و بلاغت کا اعلیٰ نمونہ ہے ۔ یہ ایک معجزہ ہےیہ جملے خوبصورت ہیں ’’ یہ سیلاب کی طرح یلغار کرتا ، برق کی طرح کڑکتا ، بارش کی طرح برستا ، بادل کی طرح چڑھتا ، بجلی کی طرح کوندتا، دریا کی طرح لہریں مارتا طوفان کی طرح امڈ تا اورپھولوں کی طرح مہکتا تھا ‘‘۔
’’ بیوی کے حقوق (ندا اسلام) واضح کیا گیا ہے کہ ہمارے مذہب اسلام میں بیویوں کوبہت سے حقوق حاصل ہیں ۔ لکھتی ہیں ’’بحیثیت مرد نہ جانے ہم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ شوہر کی اطاعت کا مطلب یہ ہے کہ عورت گھٹ گھٹ کر جیے ، شوہر کے گھرکوزندہ عورت کا قبرستان بنا دیا جائے ‘‘ والدین کے گھروہ ایک شہزادی کی طرح زندگی گزار کے آتی ہے تو اُسےسسرال میں بھی با عزت مقام ملنا چاہیے۔
’’ سید ابوالا اعلیٰ مودودی ؒ‘‘ ( میر بابر مشتاق) مولانا مودودیؒ کی زندگی اورشخصیت کے بارے میں اتنا مفصل اور دلچسپ مضمون پہلی دفعہ پڑھنے کو ملا ہے ۔ اس مضمون میں مولانا کی اسلامی اوردینی قابلیت ، ان کی اسلام پرمختلف نادر کتب ، ان کی شہرہ آفاق تفسیر قرآن پاک ’’ تفہیمالقرآن‘‘ اور بصیرت افروز خطبات کے بارے میں تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ۔ آپ نے اپنی ساری زندگی دین کی خدمت اورترویج کے لیے وقف کردی ۔ آپ بلا شبہ ایک مینارہ روشنی تھے جنہوں نے اسلام کی روشنی نہ صرف پاکستان بلکہ دوسرے ممالک میں بھی پھیلائی۔
اسما جلیل قریشی کی نعتیہ نظم سے منتخب اشعار :
عقیدت یاد رہتی ہے اطاعت بھول جاتے ہیں
نبیؐ کے نام لیوا ہو کے سنت بھول جاتے ہیں
ام عبد منیب کی شہادت حسین ؑ پر ایک دل افروز نظم :
سینوں پہ لگے زخم تھے تیغوں کے، سناں کے
اور ہاتھ صداقت کے گہر رول رہے تھے
حبیب الرحمٰن کی فلسفیانہ غزل سے ایک منتخب شعر:
بجھے گی کس طرح پیاس دھرتی کی میری یارو
جو سارے بادل سمندروں پر برس رہے ہیں
شاہدہ اکرام سحر کی ساون کی خوبصورت اوردل کے غم میں ڈوبی غزل بلکہ گیت ۔
ایک تو برکھا برسے باہر، اور اک برسے آنکھوں سے
ٹپ ٹپ گرتی بوندوں نے تیری ہی یاد جگائی ہے
’’ماں خوشبو کے جیسی ہے‘‘۔ماں کے پیار اوریادوں میں ڈوبی حریم شفیق کی ایک خوبصورت نظم :
ماں خوشبو کے جیسی ہے
ماں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا
دکھ سہہ کےبھی سکھ دیتی ہے
’’دیرکتنی لگتی ہے ‘‘ قانتہ رابعہ صاحبہ نے بہت درد ناک کہانی لکھی ہے کہ کس طرح امرا ، غریبوں کے بچوں کوکیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں۔
’’ درد آشنا‘‘(طلعت نفیس) ماں کے پیار بھرے جذبات میں ڈوبی ایک کہانی یہ جملہ خوبصورت ہے ’’ مگرپھر راحمہ نے دانین کو اپنی بانہوں میں سمیٹتے ہوئےسوچ لیا تھا کہ ماں تو ماں ہوتی ہے، سگی یا سوتیلی نہیں‘‘۔
’’ ان کی دنیا سے اپنی دنیا تک ‘‘ بنت مجتبیٰ مینا صاحبہ کی ایک خوبصورت نظم ہے ۔
کتنی بے تابیاں رہیں شب بھر
کتنی کٹھنائیاں سہیں شب بھر
ہائے اُمیدِ وعدۂ فردا
کیسی خوش فہمیاںرہیں شب بھر
’’مگر ایک شاخِ نہال غم ‘‘ ایک فرض شناس، دیانتدار،محب وطن بوڑھے انسان کی کہانی جو ساری عمر ان کے گھرمیں خدمت کرتا رہا۔ اُس کے دل میں وطن کی محبت کا جذبہ بھی موجزن تھا ۔ بڑھاپے کے باوجود کشمیرمیں محاذ جنگ پہ چلا گیا اورشہید ہوکر امرہوگیا ۔نامورادیبہ الطاف فاطمہ کی یہ ایک خوبصورت اوردلوں پہ اثر کرنے والی کہانی ہے ۔
’’ اک ستارہ تھی میں ‘‘ ( اسما اشرف منہاس) پون بہت پریشان ہے کہ اظفر نے اس سے شادی سے انکار کردیا ہے و ہ دولت کمانے کے لالچ میں راشی اورخود غرض بن گیا پون کا باپ اس کی شادی ایک ہندو لڑکے کے ساتھ کرنا چاہتا ہے توپون مجبور ہوکے گھرچھوڑ دیتی ہے اور ایک ہوسٹل میں شفٹ ہوجاتی ہے ۔
’’ قانتہ رابعہ کی افسانہ نگاری کا تحقیقی اورتنقیدی جائزہ ‘‘( لائبہ شفیق) ایک جامع اورمفصل مضمون ہے۔
’’ ملائیشیامیں چند روز (ڈاکٹرسمیعہ راحیل قاضی صاحبہ) ڈاکٹر صاحبہ کے دورہ ملائیشیا اوروہاں ایک اہم خواتین کانفرنس میں شرکت کا خوبصورت احوال ۔ اس کا نفرنس میں واضح کیا گیا کہ آج کی مسلمان عورت بہت فعال کردار ادا کرسکتی ہے ۔
’’ قصیدہ بردہ شریف‘‘ ( روبینہ قریشی) ۔ مصر کے ایک بزرگ شرف الدین بوصیری نے رسول پاک ؐ کی محبت میں ڈوب کر یہ قصیدہ لکھا اورپھر آپ کو خواب میں آپ ؐ کی زیارت نصیب ہوئی۔ یہ قصیدہ اتنا مشہور ہے کہ ساری دنیا میں شوق سے پڑھا جاتا ہے ۔
’’ کارجہاںدراز ہے ‘‘ یہ مضمون میرا تحریر کردہ ہے اس میں حضرت آدمؐ اوراماں حوا کے جنت سے زمین پر آنے سے لے کر آج تک انسان کے اس کرہ ارض پر سفر کا احاطہ کیا گیا ہے اورابھی یہ سفر جاری ہے ۔
’’ جب کوئی چلا جاتا ہے ‘‘ ( نبیلہ شہزاد) آپ نے سچ کہا ہےکہ ہم بزرگوں کا احترام ان کی زندگی میں کما حقہ نہیں کرتے لیکن جب وہ اس دنیا سے چلے جاتے ہیں تو پھر بہت ماتم کرتے ہیں ۔
’’ اللہ کے ولی ‘‘(حبیب الرحمٰن) آپ نے چند دلچسپ واقعات بتا کو واضح کیا ہے کہ ولی اللہ ہونے کے لیے کوئی خاص وضع قطع کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے لیے متقی اورسچا مسلمان ہونے کی شرط ہے اور اللہ اوررسولؐ سے گہری عقیدت ہونا ، با کردار ہونا ۔
’’ یہ چلتے پھرتے کردار ‘‘( آمنہ خرم) ایک ہلکا پھلکا دلچسپ مضمون ۔ گلی محلوں میں آنے والے پھیری والے ، ریڑھی والوں کا ذکر۔واقعی ایسے لوگ بھی ہمارے معاشرتی خدمت گار ہیں جو ہر چیز ہمارے گھر تک لے آتے ہیں ۔
نیلم احمد بشیرکی خوبصورت غزل سے ایک منتخب شعر
مجھے آزاد کردو مت سمیٹو
میں ہوں خوشبو بکھرنا چاہتی ہوں
اس غزل میں مشہورشاعرہ پروین شاکر کا رنگ جھلکتا ہے ۔
’’ بتول میگزین ‘‘ ’’ روداد ایک اجتماع کی ‘‘ ( عالیہ حمید ) ایک اجتماع کی دلچسپ اور خوبصورت رو داد… یہ جملے مزیدار ہیں ’’ گلاب اورموتیے کے گجروں پر ہماری نظر ہی تھی کہ کیا پتہ کہ کوئی ایک آدھ بچ جائے مگر نہیں یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال گجرا ہوتا ‘‘ اور یہ دلچسپ جملہ ’’اورجب ہم نے ڈونگے میں جھانکا تووہاں بوٹی تونہ تھی بنا بوٹی کے ہڈی موجود تھی ‘‘۔
’’ ایک ہاتھ جو رہتا تھا دعا کی طرح ‘‘ (شمیم لودھی) آپ نے شفیق اورمہر بان والد کی شخصیت کے بارے میں نہایت اچھے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ آپ خوش نصیب ہیں کہ آپ کو اتنے پیارے والدین اور دیندار آبائو اجداد ملے ۔ اب تو ایسے لوگ خال خال ہی نظر آتے ہیں۔
’’ آلو راجا‘‘ ( انعم عبد الکریم ) مختصر لیکن زبردست مزاحیہ مضمون۔ گھروں میں کثرت سے آلو پکنے کا شکوہ میاں اپنی بیوی سے کر رہے ہیں۔ مشتاق یوسفی صاحب والا انداز تحریر جھلکتا ہے آپ اور بھی لکھیے!
گوشہ ِ تسنیم ڈاکٹربشریٰ تسنیم صاحبہ کا بصیر ت افروز کالم آپ نے قرآن و سنت کے حوالے سے واضح کیا ہے کہ روحانیت کے ذریعہ سےمرد عورت میں کوئی تفریق نہیں ۔ ایک متقی ، باعقیدہ ، با عمل مسلمان خاتون بھی روحانیت کے بلند درجوں تک پہنچ سکتی ہے اورپھر یہ بھی توہے ’’ جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔‘‘ شرط یہ ہے کہ اغراض و لالچ سے منہ موڑ کر اللہ سےلو لگائی جائے ۔’’ چمن بتول ‘‘ ادارہ بتول اورقارئین کے لیے پر خلوص دعائیں اورنیک خواہشات ۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x