ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

غذا وصحت – دورانِ حمل باقاعدہ طبی معائنے کی اہمیت – ڈاکٹر ناعمہ شیرازی؎۱

دورانِ حمل باقاعدہ طبی معائنے کا مقصد ماں اور بچے کی مکمل صحت اورخیر وعافیت کے ساتھ اس انتہائی نازک لیکن خوش آئند سفر جس میں ایک عورت ماں بن کرنہ صرف مکمل ہوجاتی ہے بلکہ قدرت کےحسین ترین تحفے یعنی اولاد کوپا لیتی ہے ۔ اسے ان تمام مراحل کو اچھے انجام تک پہنچانا ہوتا ہے ۔ جس دوران ماں اوربچے دونوں کی زندگی محفوظ رہے ۔
دورانِ حمل طبی معائنہ جسے طب کی زبان میں قبل از پیدائش کی تشخیص(Antenatal checkup)کہا جاتا ہے ۔ یہ ایک بہترین ذریعہ ہے جس سے خاتون کوحمل کے دوران یا اس سے پہلے کی مختلف بیماریوں کی تشخیص ہوسکتی ہےاور ساتھ ہی ساتھ ایک ڈاکٹر یا میڈیکل پروفیشنل سے مل کرحمل اورڈیلیوری کے بارے میںمفید معلومات اورمشورے مل سکتے ہیں جس سے نہ صرف ماں کے لیے بچہ پیدا کرنے میں آسانی ہو بلکہ آگے چل کراس کی پرورش میں بھی آسانی رہے ۔ جیسے کہ اس دوران بریسٹ فیڈنگ کے بارےمیں رہنمائی دی جاتی ہےجو نومولود بچے کے لیے انتہائی اہم ہے ۔
حمل کو عام طورپرتین سہ ماہی یعنی Trimestersمیں تقسیم کیا جاتا ہے ۔پہلے تین ماہ کے دورانیے کی پہلی سہ ماہی First trimesterکہا جاتا ہے ۔
پہلی سہ ماہی
اس دوران عام طورپر حاملہ کے دو سے تین بارچیک اپ ہونے چاہئیں پہلے وزٹ یا معائنہ کے دوران جب خاتون کی ڈیٹ سے کچھ دن اوپر ہوجاتے ہیں توڈاکٹر اسے خون یا پیشاب کے نمونے لے کر اس کی تشخیص کے لیے ہدایات دیتی ہیں ۔جب اس کی رپورٹ Positiveآتی ہے تو حاملہ کا مکمل میڈیکل، سرجیکل معائنہ ہوتا ہے اوراس کی ہسٹری لی جاتی ہے اورخاتون کو فولک ایسڈFolic acid جو متعدد ذہنی امراض سے بچوں کو محفوظ رکھتی ہے جیسے کہNeural tube defectsکھانے کودی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اچھی خوراک کے متعلق بتایا جاتا ہے اورساتھ ہی ساتھ حمل کی وجہ سے طبیعت اور مزاج میں ہار مونز کی وجہ سے 3 تبدیلیاں آ رہی ہوتی ہیں جیسے کہ آنے والے دنوں میںاکتاہٹ، تھکاوٹ ، متلی کی کیفیات کے بارے میں گائیڈ کیا جاتا ہے ۔ ضروری ہدایات مریض کی حالت اورہسٹری کے مطابق دی جاتی ہیں ۔مثلاً وزن اٹھانے سے پرہیز کا کہا جاتا ہے ۔معمول کے کام کاج کرنے میں کوئی حرج نہیں ہوتا اگر کوئی میڈیکل پیچیدگی موجود نہیں ہے۔
پھر دو ماہ یعنی آٹھ ہفتے بعد دوبارہ چیک اپ ہوتاہے جس میں الٹرا سائونڈ کیا جاتا ہے اس میں بچے کی گروتھ ، دل کی دھڑکن اورحمل کا بچے دانی میں ہونا یقینی کیا جاتا ہے ۔ خدانخواستہ اگرٹیوب میں پریگنینسی کا شائبہ ہو اور علامات پہلے سے ظاہر ہورہی ہوں جیسے کہ پیٹ کے نچلے حصے میں کسی ایک طرف شدید درد کا اٹھنا اورساتھ ہلکا خون پڑنا تو ایسی صورت میں الٹرا سائونڈ چھ ہفتے بعد یا ضرورت کے تحت کبھی بھی کیا جا سکتا ہے ۔ بارہ ہفتے بعد بچے کی گروتھ دیکھی جاتی ہے اورحاملہ کے خون اورپیشاب کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں جن میں CBC، خون کا گروپ ، بلڈ شوگر، کالا یرقان اور پیشاب کا معائنہ شامل ہوتا ہے ۔
حاملہ کو کیلشیم اور آئرن تجویز کی جاتی ہیں ۔ یہ دونوں عام طور پردو سپلیمنٹ یاٹانکس ہوتے ہیں جوماں اور بچے کو صحت مند رکھتے ہیں ۔ جیسے کہ ہمیں پتا ہے پاکستان میں مائوں میں آئرن کی کمی کا تناسب بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے آئرن کی کمی کے ساتھ ساتھ اینیما اورمتعدد مسائل جیسے بچوں کا وقت سے پہلے پیدا ہوجانا ، ماں کو خون کی سخت کمی ہو جانا ، خدا نخواستہ ڈیلیوری کے دوران یا اس کے بعد ہیمرج ہو جانا اس کے چند ایک مسائل میں شامل ہیں ۔ ان کو اسی وقت کے ساتھ ساتھ حل کیا جاتا ہے ۔
دوسری سہ ماہی
اس میں چوتھا ، پانچواں اورچھٹا مہینہ آتا ہے ۔ اس دوران ہر مہینےایک چیک اپ ہوتا ہے جس میں بچے کا بڑھنا یعنی اس کی Growth،حرکت ، ارد گرد کا پانی اور آنول(Placenta )کی پوزیشن دیکھی جاتی ہے ۔ اس دوران 18-22ہفتے پر ایک بڑا الٹرا سائونڈ جسے (Congenital Anomaly Scan )کہتےہیں کروایا جاتا ہے ۔ اس میں بچے کی موروثی امراض کی تشیخص یا کسی قسم کی Abnormalityکے لیے چیک کیا جاتا ہے ۔ یہ ہمیں اسّی سے نوّے فیصد تک ان چیزوں کے بارے میں آگاہی دیتا ہے لیکن سوفیصد کا علم ہمارے رب کے پاس ہے ۔ لیکن یہ علم بھی اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے اسی لیے اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے ۔ یہ الٹرا سائونڈ خاص کر ان مائوں کے لیے قیمتی ہوتا ہے جن کے بچوں میں یا خاندان میں کوئی موروثی مسائل آ رہے ہوتے ہیں تاکہ وقت پر ڈاکٹر ان سے مشورہ کر کے حل تلاش کیا جا سکے۔مزید براں مریض کو صفائی ستھرائی اور خوراک کے بارے میں بتایا جاتا ہے ۔
تیسری سہ ماہی
اس سہ ماہی میں ساتواں ، آٹھواں ، اورنواں مہینہ شامل ہے۔ خون اور پیشاب کے دوبارہ ٹیسٹ کیے جاتے ہیں ۔اس دوران خوان کی کمی کا ٹیسٹ HB یعنی ہیمو گلوبن کا ٹیسٹ کروانا انتہائی ضروری ہے ۔ اس کے علاوہ بلڈ شوگر اورپیشاب میں پروٹین اور شوگرکی مقدار کوچیک کیا جاتا ہے، اگر کسی قسم کی کمی یا زیادتی ہو تو اس کی دوا دی جاتی ہے ۔اگر خون کی کمی آئے تومریض کو مزید ٹانک یا آئرن کی ڈرپ لگتی ہے۔اگرخون کی انتہائی کمی ہو تو خون کی بوتل لگنے کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے تاکہ ڈیلیوری کے وقت ماں کی جان بچ سکے اوربچے کو بھی اس کا نقصان نہ ہو ۔
اس کے علاوہ شوگرکا ٹیسٹ شوگر کا لیول چیک کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔کسی خاتون کواگردورانِ حمل شوگر ہوگئی ہے یا پہلے سےشوگر ہے تو Oval glucose tolerance جوکہ شوگرکا تفصیلی ٹیسٹ ہوتا ہے کیا جاتا ہے ۔ ہرپندرہ دن بعد حاملہ کا چیک اپ کیا جاتا ہے اورآخری مہینے میں ہر آٹھویں دن یعنی ہرہفتے چیک اپ ہوتا ہے ۔ اس دوران حاملہ کو ڈیلیوری کے متعلق مکمل آگاہی دی جاتی ہے اگرکوئی مسائل سامنے آئیں جیسے بچے کی پوزیشن الٹی ہونا یا آنول کا نیچے ہونا یا ماں کو شوگر ،بلڈ پریشر ہونا تو اس کا بندوبست کیا جاتا ہے ۔نارمل ڈیلیوری کو کامیاب بنانے کے لیے اسے متحرک Activeرہنے کا مشورہ دیا جاتا ہے ۔مزید یہ کہ حاملہ کو ساتویں اور آٹھویں مہینے میں حفاظتی انجکشن کا کورس لگایا جاتا ہے اوراسے اپنی خوراک کا خاص خیال رکھنے کو کہا جاتا ہے ۔خوراک میں دودھ ، دہی، کیلا ، سیب ، ہری سبزیوں کا سلاد ، گوشت وغیرہ شامل ہے چکنائی والا کھانا ، زیادہ میٹھا اور کولڈ ڈرنک وغیرہ سے پرہیز کرے تاکہ وزن اتنا ہی بڑھے جتنا اس وقت چاہیے ہوتا ہے (آٹھ سے بارہ کلوگرام) اگر دوران ِ حمل وزن اس سے زیادہ بڑھ جاتا ہے تو ہائی بلڈ پریشر یا شوگر جیسے مسائل کا سامنا کرنےکا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔ عام طورپرجنک فوڈ اورچکنائی کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے ۔اس کے علاوہ اس میں ایک جینیاتی عنصر بھی ہوتا ہے یعنی جن بچیوں کی مائوں کو یہ مرض رہ چکا ہوتا ہے ان میں امکان زیادہ ہوتا ہے کہ انہیں بھی شوگر یا بلڈ پریشر دورانِ حمل ہو جائے ۔
اگرکوئی پیچیدگی نہیں ہوتی یعنی آنول نیچے ہوتی ہے ، بچے کی پوزیشن سیدھی ہوتی ہے تو جوں جوں وقت قریب آتا ہے تو حاملہ کو سمجھایا جاتا ہے کہ وہ ایسی ورزش کرے جس سے اس کو نارمل ڈیلیوری کے لیے آسانی ہو ۔اگرکسی مریض میں شوگر ، بلڈ پریشر ، بچے کی پوزیشن کا الٹا ہونا آرہا ہو تو اسے نارمل کے ساتھ ساتھ آپریشن کا بھی بتایا جاتا ہے تاکہ ڈیلیوری کے وقت اسے پریشانی کا سامنا نہ ہو ۔
آخری مہینہ
آخری مہینے کے دوران ہرآٹھویں دن چیک اپ لازمی ہوتا ہے یعنی ہفتے میں ایک بار چیک اپ کیا جاتا ہے اورحاملہ کو رہنمائی دی جاتی ہے کہ اگرپانی پڑ جائے یا بلیڈنگ ہو یا بچے کی حرکت کسی وقت کم محسوس ہو تو فوراً ہسپتال جایا جائے ۔ کئی لڑکیوں کو آٹھویں مہینے کے آخر میں دردیں شروع ہوجاتی ہیں ۔ انہیں فالس پنیز یعنی جھوٹی دردیں کہتے ہیں ۔ پہلے بچے کی دفعہ لڑکیوں کو ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا ۔
حاملہ کوڈاکٹرمکمل رہنمائی دیتی ہے کہ جودرد کمر سے اٹھے گی اوروقفے وقفے سے دوبارہ آئے گی اورجب دس منٹ میں دو سے تین بار ایسی درد آنی شروع ہو جائے تو فوراً ہسپتال جائے تاکہ بغیر کسی مسئلے اورپیچیدگی کے بچہ صحت مند ماں کے ساتھ پیدا ہوسکے۔
اس کے علاوہ آخری Trimester کے دوران آگے آنے والے وقت میں بچے کی پرورش کے بارے میں رہنمائی دی جاتی ہے جیسے کہ بریسٹ فیڈنگ ، کوشش کی جاتی ہے کہ پہلے ایک گھنٹے میں بچے کو ماں کا دودھ پلانا شروع کردیا جائے ۔ اس کے بارے میں ماں کو مکمل معلومات دی جاتی ہیں سٹاف نرس ماں کو بتاتی ہے کہ بچے کو کس طرح درست پوزیشن میں فیڈ کروایا جا سکتا ہے ۔
پیدائش کے بعد کچھ خواتین فیملی پلاننگ کے بارے میں مشورہ کرنا چاہتی ہیں ۔وہ انہیں Antenatal testکے دوران دیا جاتا ہے اور یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد اسے حفاظتی ٹیکوں کے سنٹر میں لے جا کرحفاظتی ٹیکے لگوائے جائیں ، اوراس کی بڑھوتی کے بارے میں ڈاکٹر سے ضرورمشورہ کیا جائے تاکہ جہاں پر نظرآئے کہ بچہ اچھی گروتھ نہیں کررہا تو ڈاکٹرمشورہ ، بہتردوائیاں اور بہتر خوراک کے بارے میں مشورہ دے ۔
ہمارے یہاں ترقی یافتہ ممالک میں اورباہرانیٹی نیٹل چیک اپ Antenatal check upکا بہت اچھا رحجان ہےاورتقریباً تمام لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن ترقی پذیر ممالک میں اینٹی نیٹل چیک اپ پراب بھی بہت کام ہورہا ہے اورپہلے کی نسبت ہیلتھ یونٹس ، رول ہیلتھ سنٹر زڈی ایچ کیوز ، اورشہروں میں بڑے نرسری کیئر ہسپتالوں کی وجہ سے کافی فائدہ ہؤا ہے پہلے سےجوتعداد موجود تھی ان خواتین کی جو پہلےسے چیک اپ کے لیے آتی تھیں اس میں خاطرخواہ اضافہ ہؤا ہے ۔ اس کے علاوہ ایک اچھی چیز رورل سیٹ اپ یعنی گائوں ، قصبات اورچھوٹے شہروںمیںشروع کی گئی ہے وہ ہے لیڈی ہیلتھ وزیٹرز کا ایک مکمل سیٹ اپ جو گھرگھر جا کرحاملہ عورتوں کی رہنمائی کرتی ہیں ۔اس کے علاوہ حفاظتی ٹیکے ، ٹیٹنس کے انجکشن جوکہ ساتویں آٹھویں مہینے میں لگتے ہیں اس کے بارے میں اگر اس کا کورس مکمل نہیں ہؤا تو بتاتی اور لگاتی ہیں یہ بھی حکومت کا ایک بہترین پروگرام ہے ۔
مریضوں اوران کے گھر والوں کوچاہیے کہ وہ حاملہ کا مکمل چیک اپ کروائیں اور مہینے میں ایک دن ضرورنکالیں جس میں آپ کی سب سے قیمتی چیز یعنی آپ کی اولاد اوربچے کی ماں جو ڈاکٹرز کے لیےبچے سے بھی زیادہ قیمتی ہوتی ہے اس کا خیال کیا جائے ۔ اس کو بہترین خوراک دی جائے ، ڈاکٹرز کودکھایا جائے اوران کے مشورروں پر عمل بھی کیا جائے۔ڈاکٹر نے جودوا تجویز کی ہے اسے باقاعدگی سے لیا جائے۔ اگر ہم یہ سب کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان شاء اللہ ہم ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل کرسکتے ہیں جس میں صحت مند مائیں اورصحت مند بچے پروان چڑھیں ۔
٭ ٭ ٭

؎۱ گائنا کالوجسٹ( سرجن)

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x