ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

نا قابلِ بیان – مارچ ۲۰۲۱

ٹن ۔ٹن ۔ٹن۔ گھنٹی کا بجنا تھا اور گویا قیامت صغریٰ آگئی ہو ۔ ہم ہر طرف سے تابڑ توڑ حملوں کی زد میں تھے ۔ارے گولیوں کے نہیں طالبات کے، جو گھنٹی کی آواز سن کر بےتحاشہ ،بےہنگم انداز میں خارجی دروازے کی جانب دوڑی تھیں !
شومیِ قسمت کہ آج کلاس میں کرسی نصیب ہوگئی تھی( ورنہ ایک کرسی تین لڑکیوں کا بوجھ اٹھاتی نظر آتی تھی) دراصل فرسٹ ائیر پری میڈیکل کی آبادی تھی ہی اتنی زیادہ کہ کلاسز شروع ہونے کے ایک ہفتے تک ہم نے ایک ٹانگ پر کھڑے ہونے کی مشق کی یا پھر کرسی کے ہتھے پر لٹک جانے کا اعزاز حاصل کیا۔
خیر بات ہورہی تھی تابڑ توڑ حملوں کی ….جی ہاں ہماری کرسی دروازے کے با لکل ساتھ تھی یعنی ایسے کہ سب ہمارے پیچھے سے گزر کر جائیں۔ اب چونکہ اعلان جنگ ہوگیا تھا اور جنگی قیدی میدان جنگ سے بھاگنے کا سماں پیش کررہے تھے ۔ادھر ہم نے اتنے دھکے کھائے جتنے ڈبلیو اٹھارہ میں بھی نہیں لگتے…. دھکم پیل کے باعث ہماری کرسی الٹنے کی کسر رہ گئی تھی۔غلطی ہماری تھی کیوں راستے میں ٹک گئے لیکن ہم بھی کیا کرتے! خیر ہم بھی طوفان ٹلنے کے بعد سہیلیوں سمیت کینٹین کی جانب چل دیے۔
’’آج نہیں مل سکتا ‘‘ہم سے کچھ قدم آگے صدف (جو شاید کوئی ہول ناک منظر دیکھ چکی تھی ) پھولی سانسوں سے بولی۔
’’ ارے بھئی کیا؟‘‘ہم پہلے ہی بھنائے ہوئے تھے اب ذومعنی بات سن کر بس یہ ہی کہہ سکے۔
’’لنچ اور کیا ….!ہم سب یہاں کپڑوں کی دکان میں تو نہیں آئے‘‘۔
واقعی چند ساعتوں بعد تو ہمیں بھی یہ ہی محسوس ہؤا ۔ دائیں بائیں سے گزرتی طالبات کے ہاتھوں میں چٹ پٹے رول ، سموسے ، میکرونی ، چپس ہماری بھوک کو بڑھا رہے تھے۔اوپر سے معدے نے عدم تعاون کا بورڈ لگانے کے بعد چو ہے بھی چھوڑ دیے تھے ! اس لیے چارونا چار لنچ لینے والیوں کے دربار میں حاضری دے دی ۔
چھوٹی سی کیبن نما کینٹین جس کے کاؤنٹر سے چمٹی لڑکیا ں…. اوپر سے گرمی کے تیور ! حرا اور ہما کمر کس کے بھیڑ میں گھس گئیں ۔ میں اور صدف ہجوم سے تھوڑی دور کھڑے اپنا غم غلط کرنے لگے۔ساتھ ہی انتظار بھی کہ اس ہجوم میں گھسیں گے اگر کم ہؤا تو !ورنہ بھوکا رہنا ہوگا۔ روزے کی پریکٹس سہی ! دل کی تسلی کو اچھا خیال تھا بقول غالب۔
اچانک شور غوغا اپنی پشت سے بلند ہوتا محسوس ہؤا ۔ ہم دونوں نے مڑ کر دیکھا تو یہ منظر سامنے تھاکہ فاتحانہ چال چلتی ایک طالبہ جس کا یونیفارم پسینے سے تر اور ہاتھ کھانے پینے کی اشیاء سے پرُ تھے۔معلوم ہؤامحترمہ کافی دیر بعد لنچ لیے بر آمد ہوئی ہیں ۔پھر حوصلہ افزائی تو بنتی تھی نا!ہمیں بھی امید کی کرن نظر آئی اور ہم دونوں نے بھی بھیڑ میں گھسنے کا فیصلہ کیا۔کاؤنٹر سے تو ممکن نہیں تھا اس لیے کینٹین کے دروازے سے اندر جانے کی سعی کرنے لگے۔آخر کار داخلہ مل ہی گیا ۔ ایک لمحے کو تو یوں لگا جیسے آتش فشاں میں قدم رکھ دیا ہو ۔ یہ تلن کی گرمی تھی!
ہم بھی تھوڑی جگہ گھیرنے میں کامیاب ہوئے تو کیا منظر تھا …. اُف خدایا ! !اخبار پر ڈھیروں سموسے اور رول اوپر تلے تھوک کے حساب سےڈھیر کیے رکھے تھے۔ دکاندار نے ڈیمانڈسن کر اسی ڈھیر میں انگلیاں ڈبوئیں اور مطلوبہ اشیا نکال کر خستہ سی پلیٹ میں رکھیں، ان پر نام نہاد ساس ،رائتہ اور چٹنی ڈال کر ہونٹوں پر زبان پھیرتی لڑکی کے حوالے کیے ۔ صدف کی کہنی مارنے پر دوسری جانب متوجہ ہوئے تو جس تیل سے سموسے رول وغیرہ بر آمد ہورہے تھے وہ اپنی رنگت کھو چکا تھا ۔ مزید وہاں نہیں رکا گیا جلدی سے لنچ لے کر باہر نکلے تو طالبات کی اکثریت چپس اور رولز کو کیچپ میں ڈبو ڈبو کر بڑی رغبت سے کھا رہی تھیں ۔آگے بڑھے تو حرا اور ہما درخت کے سائے میں غالباً ہمارا انتظار کر رہی تھیں ۔ہمیں ہونق دیکھ کر پوچھا۔
’’ لنچ کر لیا تم دونوں نے ؟ ‘‘
ہم دونوں نے جلدی سے ہاتھ میں پکڑے پیکٹ کھولے اور لگے پیٹ پوجا کرنے لیکن چہرے پر یقیناً زلزلے کے آثار تھے جبھی ان دونوں نے استفسار شروع کر دیا ۔ بس پھر کیا تھا ہم پھٹ پڑے اور آنکھوں دیکھا حال سنا دیا۔ جس کو سن کر سب ہی’’ چپ ہو جاؤ ‘‘’’ چپ رہو‘‘ کی صدا بلند کرنے لگے ۔ آنکھوں دیکھی مکھی نہ نگلنے کا محاورہ غلط محسوس ہؤا کہ یہاں تو لوگ پورے پورے سموسے اور رول نگل رہے تھے ۔
ابھی لڑکیوں کو اس منظر سےآگہی دے رہے تھے کہ نتھنوں سے دیسی گھی کے پراٹھوں کی خوشبو ٹکرائی ۔ ہم نے ناک میں اس کی خوشبو بھرتے ہوئے آنکھ کھول دی ۔سامنے کلاک میں آٹھ بج رہے تھے ۔
اف !ہم تو کالج کینٹین کی بدحالی کی داستان خواب میں سہیلیوں کو سنا رہے تھے….کہیں کالج وین نہ نکل جائے ۔
ہم ہڑ بڑا کر اٹھے تو دیکھا کہ ابو سمیت سب گھر والے موجود ہیں ….مطلب چھٹی ….!اوہ لاک ڈاؤن ….!! دل اور دماغ مختلف النوع قسم کے جذبات و خیالات میں گھر گیا ….کالج اور ساتھیوں کی یاد سے دل بھر آیا تو حفظان صحت کے مطابق گھر کے کھانے کی چاہت نے امی ابو کی قدر کروادی اور ان سب پر حاوی بہن بھائی کی پکار جو ہمیں دستر خوان تک گھسیٹ لائے ….الحمد للہ !

٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x