ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

محشرِ خیال – مارچ ۲۰۲۱

پروفیسر خواجہ مسعود ۔ راولپنڈی

اس ماہ’’ چمن بتول‘‘ کے ٹائٹل پر ایک طرف تو برف پوش پہاڑ دعوتِ نظارہ دے رہے ہیں تو دوسری طرف خزاں رسیدہ درختوں کے سنہرے پتے نظر آ رہے ہیں ۔ قدرت نے بہار کو حسن بخشا ہے تو خزاں کو بھی اس سے نوازا ہے ۔ در حقیقت اللہ نے اس کائنات کے ذرے ذرے میں ایک حسن پیدا کیا ہے یہ تو انسان ہے جو اس حسن کو پامال کرتا رہتا ہے۔
مدیرہ محترمہ نے ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے بہت کچھ لکھا ہے کشمیر کے بارے میں یہ زبردست جملہ لکھا ہے ’’ ہمارے جسم کا یہ حصہ ابھی تک تکلیف میں ہے … ہم نا مکمل ہیں جب تک ہمارے کشمیری ہم وطن آزاد فضا میں سانس نہیں لیتے ‘‘
کرپشن کے حوالے سے بھی فکر انگیز جملے تحریر کیے ہیں …… ’’عجیب کہانی ہے جب ہم صبح آنکھ کھولتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ آج ہم پر سوئے سوئے ایک نیا قرضہ چڑھ گیا ہے ۔ اپنے حکمرانوں کی بد اعمالیوں کے باعث ، شاید سوئے رہنے کا یہی شاخسانہ ہوتا ہے ‘‘ اور ملک میں طلاق اور خلع کے بڑھتے ہوئے واقعات پر بھی بجا طور پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔کاش یہ ادرایہ ارباب اختیار بھی پڑھ لیں ۔ یہ ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہے ۔
’’ وضو نماز کی کنجی‘‘نیلوفر انور نے وضو کی اہمیت اور فضیلت سے بہت اچھی طرح آگاہ کیا ہے ۔
’’ اعتدال‘‘ میں ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحبہ نے بجا تحریر کیا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ بے چینی ،انتشار اور عدم سکون کا باعث اعتدال کی راہ کو چھوڑ دینا ہے اسی لیے اعتدال اور میانہ روی اسلام کی بنیادی خصوصیت ہے ۔
غصہ کے موضوع پر فریدہ خالد کا نہایت مفید اور معلومات افزا مضمون ہے ۔ غصہ انسانی زندگی کو تباہ و برباد کر سکتا ہے ۔ غصے پر قابو پانے کے اچھے طریقے مضمون میں شامل ہیں ۔
’’مداوا‘‘ اسماء صدیقہ کی ماں کی جدائی میں لکھی گئی ایک خوبصورت نظم

یہ کون گیا ہے گھر سے میرے
ہر چیز کی رونق ساتھ گئی
اک سایہ ٹھنڈا میٹھا تھا
اک رم جھم سی برسات گئی

حبیب الرحمن صاحب کی غزل کا ایک خوبصورت شعر

؎وہ جو بن کا بن بیٹھا ہے
ہم بھی اُس کے بن جاتے ہیں

لفظ ’بن‘ کا خوب استعمال کیا ہے۔
اسامہ ضیا ء بسمل کی غزل کی منتخب اشعار ۔

یہ ایک دن تو مرے واسطے بہت کم ہے
کہ دن تو ایک ہے اور مسئلے ہزاروں ہیں
قبائے چاک ہوں لیکن وفا کی بستی میں
وہ مرتبہ ہے کہ میرے لیے ہزاروں میں

’’بہت تکلیف ہوتی ہے ‘‘ حریم شفیق کی چھوٹی بحر میں ایک پیاری نظم ہے ۔

بہت تکلیف ہوتی ہے
کہ جب اخلاص کے رشتے
چھنا چھن چور ہوتے ہیں
جنہیںاپنا سمجھتے ہیں
یکایک دور ہوتے ہیں

’’ باپ داوچھوڑا‘‘ تہمینہ حنیف کی دل سوز پنجابی نظم ہے
؎ باپ اولاد نوں بن مِلیاں تے ایداں کدے نئیں جاندے
گھُٹ گھُٹ مُڑ مُڑ جھپیاں پا کے فیر اجازت چاہندے
’’ مستقبل کی راہ پر ‘‘ حبیب الرحمن صاحب کو کہانی لکھنے کا فن خوب آتا ہے ۔
’’ تازہ ہوا ‘‘ فرحت نعیمہ کی خوبصورت کہانی جس میں بہو کے لیے سسر کی شفقت اور پیار جھلکتا ہے۔
’’ اپنے حصے کا آسمان ‘‘ غزالہ عزیز نے تحریر کی ہے واقعی غریب خاندان کی زندگی بہت مشکل ہوتی ہے ۔لیکن اگر وہ عزت ، وقاراور خود داری کے ساتھ زندگی گزارنا چاہیں تو اللہ مدد کرتا ہے ۔
’’ کملی پھو پھو‘‘ امیمہ امجد کی ایک غم و اندوہ میں ڈوبی کہانی کملی پھوپھو کے نام سے ایک جاندار کردار تخلیق کیا ہے ۔
’’ ملاقات‘‘ صبیحہ نبوت آج کے ’’ ترقی یافتہ ‘‘ دور کی صحیح تصویر پیش کی گئی ہے۔یہ اس دور کا المیہ ہے ۔
’’ ایگریمنٹ‘‘ افشاں ملک خلوص اور خدمت کے جذبوں اور انسانی حرص و لالچ کے مابین دائمی کشمکش کو اجاگر کرتی ایک خوبصورت کہانی۔
’’ جنگی قید ی کی آپ بیتی ‘‘ (سید ابو الحسن ) ایک اہم تحریر ہے ۔ دو سال کی قید کے دوران بے شمار حالات و واقعات پیش آئے ہوں گے ۔ اگر سید صاحب وہ بھی قارئین کے ساتھ شیئر کر سکیں تو اچھا لگے گا ۔
’’ کیا بانو قدسیہ اور اشفاق احمد فرسودہ نظریات کے علمبردار تھے ؟‘‘ ( ڈاکٹر اسماء آفتاب) ایک اچھا ادبی اور تحقیقی مضمون ہے جس میں بانو قدسیہ اور اشفاق احمد پر بعض حلقوں کی جانب سے لگائے گئے بے سروپا الزامات کا نہایت احسن طریقے سے جواب دیا گیا ہے ۔ اورثابت کیا گیا ہے کہ بانو قدسیہ عورت کی ترقی پسندی کے خلاف نہیں تھیں نہ ہی اشفاق احمد رجعت پسند تھے ۔ اشفاق احمد کی کتاب زاویہ ( دو جلد) پڑھنے کے لائق ہے ۔
’’ یہ جانے کی عمر تو نہ تھی ‘‘ (در شہوار قادری ) تھائی لینڈ کا دلچسپ سفر نامہ ہے ۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ تھائی لینڈ میں مساجد بھی ہیں اور پانچ وقت اذانوں کی صدائیں بھی بلند ہوتی ہیں ۔ یہ بھی کہ تھائی لینڈ ایک صاف ستھرا اور فلاحی ملک ہے ، سیاحت ، صنعت و حرفت اور پھلوں کی برآمد کے لیے بھی مشہور ہے ۔
’’ حوری‘‘( ڈاکٹر ثمین ذکا) ایک یورپین لڑکی کی کہانی جو بہت متاثر کرتی ہے ۔
’’ یہودیوں کے تاریخی جرائم‘‘ ڈاکٹر آفتاب خان کی کتاب پر افشاں نوید نے تفصیلی تبصرہ کیا ہے ۔ یہودی قوم ہمیشہ سے سازشوں اور لغزشوں کی عادی رہی ہے اور احسان فراموشی بھی ان کا شعار رہی ہے ۔
’’ آہ! سید مختار الحسن گوہر‘‘ ( ڈاکٹر ممتاز عمر) سید مختار الحسن گوہر واقعی گوہر نایاب تھے ۔ نہایت متقی ،پُر خلوص، منکسر المزاج ہردم لوگوں کی خدمت کے لیے کمر بستہ ۔ ساری زندگی جدوجہد کرتے اور دین کی راہ میں گزاری ، اب ایسے لوگ خال خال ہی ملتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس کے بہترین گوشہ میں جگہ عطا فرمائے( آمین)۔
’’ ذیابیطس خطر ناک ہے ‘‘ (ڈاکٹر فلزہ آفاق) ڈاکٹر صاحبہ نے اہم معلومات دی ہیں ۔ شوگر ایک خطر ناک مرض ہے لیکن پرہیز ، مناسب غذا ، روزانہ واک، ہلکی ورزش ہمیں اس موذی مرض سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔
’’ ہم برباد ہو جائیں گے ‘‘ ( انصار عباسی) خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ پر لکھا گیا یہ کالم اچھا ہے ۔
گوشہِ تسنیم ’’ مرد اپنی ذمہ داری کو سمجھیں ‘‘ شادی کے بعد مرد ہی گھر کی معاشی ضروریات پوری کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے ۔ بیوی کے ساتھ حسن سلوک اور اولاد کی اچھی تعلیم و تربیت بھی اس کی ذمہ داری ہے ۔ یہ مضمون اسی نکتے کو خوبی سے اجاگر کر رہا ہے ۔
اس دفعہ ڈاکٹر فائقہ اویس کے سعودی عرب کے سیاحت نامے کی کمی محسوس ہوتی ہے ۔ امید ہے مارچ کے شمارے میں یہ سلسلہ بحال ہو جائے گا۔

٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x