ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

اولاد کی تمنا کیوں – مارچ ۲۰۲۱

اولاد کی قدر کسی بے اولاد جوڑے سے پوچھیے۔اولاد کی تمنا انسان کا فطری داعیہ ہے۔ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے لیکن ایک مسلمان اولاد کی خواہش جس وجہ سے رکھتا ہے اس کو قرآن بڑے خوبصورت الفاظ میں بیان کرتا ہے۔
’’کھیعص۔ذکر ہے اس رحمت کا جو آپ کے رب نے اپنے بندے زکریا پر کی تھی جب انہوں نے چپکے چپکے اپنے رب کو پکارا‘‘۔
انہوں نے عرض کیا،اے میرے رب میری ہڈیاں تک گھل گئی ہیں اور سر بڑھاپے سے بھڑک اٹھا ہے، اے میرے رب میں تجھ سے دعا مانگ کر نامراد نہیں رہا، مجھے اپنے پیچھے اپنے بھائی بندوں کی برائیوں کا خوف ہے اور میری بیوی بانجھ ہے۔ تو مجھے اپنے فضل خاص سے ایک وارث عطا کر دے جو میرا وارث بھی ہو اور آل یعقوب کی میراث کابھی، اے میرے رب اس کو ایک پسندیدہ انسان بنا۔(سورہ مریم۔آیت 1-6)
یہاں دیکھیے حضرت زکریاؑ کے دل کی یہ دعا ہے کہ اے میرے رب اس کو پسندیدہ انسان بنا۔ کس کا پسندیدہ؟
کیا سماج کا پسندیدہ یا رب کا؟
کیا پیغمبروں کی اساس دھن دولت ہوتی ہے؟
وہ کونسی میراث ہے جس کا وارث بنانے کے لیے پریشان ہیں ؟
رب کے سامنے جھولی پھیلا رہے ہیں۔ پھر اپنا ہی وارث نہیں خانوادہ یعقو بؑ کا وارث بنانا چاہتے ہیں۔
سوچیں تو آل یعقوبؑ میں کونسی میراث منتقل ہوتی چلی آرہی ہے؟
پھر حضرت زکریا کو خوف کس بات کا ہے ،کون سے اندیشے دل میں پل رہے ہیں؟
کیا ان کی ملیں دھواں اگلنا بند کر دیں گی؟
ان کی فیکٹریوں میں سناٹا ہو جائے گا؟
ان کے سرے محلوں میں فاختائیں انڈے دے دیں گی؟
کبوتر گھونسلہ بنا لیں گے؟
کیا پیغمبر معاذاللہ مال و جائیداد کی فکر میں گھلتے تھے ؟
بات واضح ہے۔حضرت زکریاؑ اپنے مشن اپنے دینی ورثے کے لیے بے چین تھے۔ انہیں یقیناً خاندان میں کوئی ایسا نظر نہیں آرہا ہوگا جو ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اس داعیانہ کردار کو نبھا سکے۔
حضرت زکریاؑ کیسے چپکے چپکے خلوت اور جلوت میں دعا کرتے تھے کہ پروردگار مجھے وارث دے جسے میں اپنا مشن اور دین کی دعوت کا فریضہ سونپ کر آرام سے دنیا سے رخصت ہو جاؤں۔ مجھے اپنے بعد اپنی میراث کے ضائع ہونے کا خطرہ نہ ہو۔
یہاں ٹھہریے اور اس آئینے میں اپنی آرزؤں اور تمناؤں کا عکس دیکھیے۔
خود سے سچ بولیں۔
اپنے دل سے پوچھیں کہ یہ پاک آرزو ہمارے دل اور دماغ کے کسی گوشے میں محفوظ ہے؟
کیا واقعی کوئی بے اولاد اپنے لیے اولاد کی دعا اس لیے کرتا ہے کہ جو نیکیاں میں دنیا میں پھیلا رہا ہوں میرے بعد ان نیکیوں کا سلسلہ ختم نہ ہو جائے میری نسل میں۔
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ہماری زندگی میں اتنا اہم مشن ہے کہ ہم فکر مند ہوں کہ جب ہم زیر زمین ہوں تب بھی یہ مشن جاری وساری رہے اورمیرے بعد میری اولاد میری دعوت کی محافظ ہو۔
انبیاء کی جانشینی تو یہی ہے کہ اس آرزو سے دل کی دنیا آباد ہو کہ میری اولاد میری وارث بنے مگر زمینوں، جائیدادوں کی نہیں بلکہ دعوت دین کی ۔
اللہ کی زمین پر اس سے بڑی کون سی خواہش ہو سکتی ہے کہ ہماری اولاد اقامت دین کے لیے خود کو وقف کر دے۔
ہم تو اپنے سماج میں لوگوں کو اس دکھ میں مبتلا دیکھتے ہیں کہ بیٹا ہوتا تو باپ کے بعد کاروبار سنبھال لیتا۔
چار بہنوں کے بعد ایک بھائی پیدا ہو جاتا تو باپ کا دایاں بازو بن کر بہنوں کی شادی کی ذمہ داری میں ہاتھ بٹا دیتا۔
جس آدمی کے چار یا چھ بیٹے ہوں ہم یہ کبھی نہیں سوچتے کہ اس گھرانے سے دین کو کتنا فروغ مل رہا ہوگا۔
ہم یہی سوچتے ہیں کہ جن کے جتنے زیادہ بیٹے ہیں اس کے لیے معاش کے اتنے ہی دروازے کھلے ہیں۔گویا بیٹے معاشی آسودگی کی علامت ہیں نہ کہ دین کے فروغ کی۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ اکثر لوگ جو دعوت و تبلیغ میں اپنی عمر گزارتے ہیں ان کی اولاد اس راہ پر ان کی ہم سفر نہیں ہوتی۔ وہ گھروں پر ویسی توجہ ہی نہیں کرتے۔
یہ بھی طرفہ تماشا ٹھہرا کہ ہم اپنے مادی ترکے کا وارث تو اپنی اولاد ہی کو بنانا چاہتے ہیں لیکن اپنے مشن کے ترکے کے لئے غیروں کی اولادوں کو تلاش کرتے ہیں ۔کسی کے بیٹے کا کاروبار خسارے سے دوچار ہو تو والدین ہر ایک سے دعا کی درخواست کرتے ہیں۔ کتنے ہی جتن کرتے ہیں لیکن اگر وہی بیٹا فرض عبادات سے غافل ہو تو والدین کی وہ تڑپ نظر نہیں آتی۔ہم میں سےکتنے والدین تنہائیوں میں گڑگڑا کر اپنے رب سے اپنی اولاد کے لئے متقیوں کا امام بننے کی دعا مانگتے ہیں۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ بوڑھے والد صاحب باقاعدگی سے باجماعت نماز کی ادائیگی کے لئے مسجد کا رخ کرتے ہیں اور جوان بیٹے گھر میں موجود ہوتے ہیں۔باپ سمجھتے ہیں کہ تعلیم اور روزگار نے انہیں تھکا رکھا ہے فارغ ہوں گے تو عبادت بھی کرلیں گے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ:
والد اپنی اولاد کو جو سب سے بہتر تحفہ دے سکتا ہے وہ اچھی تعلیم اور تربیت ہے۔
اولاد کو یہ تحفہ دینا ہی دل کی سب سے بڑی آرزو ہونا چاہیے ۔بالکل ایسے جیسے ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کا اچھا گھر اور اچھی معاش ہو۔
جب ہم واجعلنا للمتقین اماما کی دعا کرتے ہیں تو ہماری زندگی کا سب سے بڑا مشن یہ ہونا چاہیے کہ ہم انہیں دین کی پاکیزہ تعلیمات سے آشنا کرائیں اور انھیں بتائیں کہ وہ ایک مشنری گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں اور مشن اقامت دین کا قیام ہے۔
اپنی پاکیزہ آرزؤں اور ان تھک کوششوں کے ساتھ اپنے رب سے یہ دعا کرنا چاہیے کہ مولا تو دلوں کو پھیرنے والا ہے۔میری اولادوں کے دلوں کو دین کی طرف پھیر دے اور انھیں استقامت عطا کرنا تیرے ہی بس میں ہے۔
’’ میرے رب مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو عطا کی ہیں اور ایسا نیک عمل کروں جس سے تو راضی ہو اور میری اولاد کو بھی نیک اٹھا کر مجھے سکھ دے۔ میں تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں اور تیرے فرمانبرداروں میں ہوں‘‘(الاحقاف 15)۔
قرآن نے اس دعا میں زندگی کا حاصل بتا دیا کہ اگر اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک چاہتے ہیں تو انھیں متقیوں کا امام بنانے کی سعی کریں۔
’’ہمارے رب ہمیں اپنی بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دےاور ہمیں متقیوں کا امام بنا‘‘آمین

٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x