ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

پراسرار گٹھری – نور جنوری ۲۰۲۱

گرمیوں کی چلچلاتی دوپہر تھی، گھر میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ حیا،حرا اور حنین کو زبردستی سلانے کے بعد خود بھی وہیں ٹھنڈے فرش پر لیٹ گئی تواس کی آنکھ لگ گئی۔ ابھی سوئے نہ جانے کتنی دیر ہوئی تھی کہ ایک زوردار آواز نے خاموشی کو توڑڈالا۔ وہ گہری نیند سے ہڑبڑا کر اٹھی۔ جلدی سے چپل پیروں میں اڑس کر وہ باہر نکلی۔ صحن میں عین باورچی خانےکےسامنےپڑی چیزکودیکھ کراس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
٭ ٭ ٭
’’اسلم! جلدی سے گھر آ جائیں، مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔‘‘ کانپتے ہاتھوں سے ریسیور کان سے لگائےحیا کی نظریں ابھی تک صحن میں جمی ہوئی تھیں۔
دھماکےنے دونوں بچوں کو بھی جگا دیا تھا جو اب ماں سے لپٹے متوحش کھڑے تھے۔
’’لیکن ہوا کیا ہےکچھ بتاؤ تو سہی۔‘‘ اسلم نے تشویش سے پوچھا۔
’’یہ میں فون پر نہیں بتا سکتی، پلیز آپ جلدی چھٹی لے کر آ جائیں۔‘‘ اس کی آواز باقاعدہ کپکپا رہی تھی۔
’’حیا! تم پریشان مت ہو۔ میں اس وقت ایک ضروری میٹنگ میں مصروف ہوں، فارغ ہوتےہی گھرآتاہوں۔تب تک تم کمرابندکرکےبیٹھی رہو۔‘‘ اسلم نے تسلی دیتے ہوئےفون بندکردیا۔
’’امی! کیا بابا نہیں آ رہے؟‘‘ حرا نے اس کے چہرہ دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
’’نہیں بیٹا! آؤ ہم اندر بیٹھ جائیں۔“وہ بچوں کولےکرکمرےمیں بندہوگئی۔اس کا دل زور زور سے دھرک رہا تھا۔ بچےبھی سہمے ہوئے تھے۔جوں جوں وقت گزررہاتھا،اس کاخوف بڑھتاجارہاتھا۔ اس کے مساموں سے ٹھنڈا پسینہ بہنے لگا تھا۔ اس گھر میں آئے ہوئے انھیں دو ماہ ہونے والے تھے۔ اس نے کمرے پر نظر ڈالی، ایک بڑےسےپلنگ اور دیوار گیر الماری کے علاوہ کوئی سامان نہیں تھا۔ ایک ٹوکری میں بچوں کے کچھ کھلونے پڑے تھے۔ دیوار پر ایک تصویر لگی ہوئی تھی جو پہلے سے اس گھر میں ٹنگی ہوئی تھی۔ وہ غورسےتصویر دیکھنے لگی۔ تصویر میں پرانی طرز کےکچھ برتن تھے اور ایک عورت گھونگھٹ اوڑھے پاس بیٹھی تھی۔ نہ جانے کیوں حیا کو اس تصویر سے بھی خوف محسوس ہونے لگا تھا۔
٭ ٭ ٭
یہ ایک گٹھری تھی جس میں سے انتہائی ناگوار بدبو آ رہی تھی۔ جلی ہوئی لاشوں، مردہ جسم اور انسانی خون کی بساند کے بارے میں سنی ہوئی ساری باتیں حیاکےدماغ میں گھوم رہی تھیں۔ گٹھری کھولنے کی ہمت کسی میں نہیں تھی۔
’’جس وقت آواز آئی تم کہاں تھی؟‘‘ اسلم نے تفتیش شروع کی۔
’’میں سو رہی تھی۔ مجھے نیند میں زوردارآواز آئی تومیں گھبراکراٹھی اور باہر نکلی تو اسے دیکھا۔‘‘ حیانےگٹھری کی طرف اشارہ کیا۔
’’اور بچے کہاں تھے؟‘‘
’’بچے میرے ساتھ ہی سو رہے تھے۔‘‘
’’ہو سکتا ہے یہ بچوں کی شرارت ہو۔‘‘اسلم نے شک ظاہر کیا۔
’’نہیں، میں بچوں کے سونے کے بعد ہی سوئی تھی اور جس وقت آواز آئی تب بھی بچے میرے پاس ہی تھے۔‘‘ حیا نےنفی میں سرہلایا۔
’’لیکن کوئی گھر میں یہ کیسے پھینک سکتا ہے؟ دروازہ اندر سے بند تھا، ہمارے اوپر کوئی مکان بھی نہیں کہ اوپری منزل سے کوئی یہ گٹھری صحن میں پھینک دے۔ باورچی خانےکی کھڑکی بھی بند تھی اور کوئی خفیہ راستہ بھی نہیں۔‘‘ اسلم نے پیشانی مسلتے ہوئے کہا۔ وہ دونوں اس وقت باورچی خانے کے سامنے لاونج میں بیٹھے ہوئے تھےاور سامنےہی خوف کی وجہ موجود تھی۔
’’بابا! اس سے بہت بدبو آ رہی ہے۔‘‘ حنین نے منہ بناتے ہوئے ناک کو دو انگلیوں سے بند کیا۔
’’کیا پولیس کو بلایا جائے؟‘‘ اسلم نےمشورہ مانگا۔
’’نہیں، پورے محلے میں بات پھیل جائے گی، لوگ ہمارا مذاق اڑائیں گے۔ بہتر ہے آپ خودہی اس سے نمٹیں۔‘‘حیا نے فوراً اس کی بات رد کرتے ہوئے کہا۔
’’توبہ بڑی بدبو ہے۔ میرا جی متلا رہا ہے۔ میں سونے کے لیے جا رہا ہوں تم یہاں اسپرے کر دو۔‘‘ اسلم نے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’سر پر مصیبت سوار ہےاور آپ کو سونے کی پڑی ہے۔‘‘ حیا نے غصے سے کہا۔
’’اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں۔‘‘ وہ کندھے اچکا کر بولا۔
’’اندھیرا ہونے دو پھر ٹھکانے لگاتے ہیں اسے۔‘‘ وہ کمرے میں چلا گیا، حیا اور بچے بھی اس کے پیچھے لپکے۔ باہر پڑی اس گٹھری میں نہ جانے کیا تھا جس نے پورے گھر میں خوف پھیلا دیاتھا۔
٭ ٭ ٭
’’اٹھیں رات کے گیارہ بج رہے ہیں، اندھیرا ہو گیا ہے۔‘‘ حیا نے اسلم کوہلایا۔
’’تم دروازہ کھول کر دیکھو گلی میں کوئی ہے تو نہیں۔‘‘ اسلم نے کسلمندی سے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’واپسی پر کھانا بھی لے آئیے گا، بچوں نے کچھ بھی نہیں کھایا۔‘‘ حیانے کمرے سے باہر جاتےہوئےکہا۔
کمرے سے نکلتے ہی تیز بدبو نے اس کا استقبال کیا، ناک پر رومال رکھے وہ بیرونی دروازے تک گئی اور سر نکال کردائیں بائیں جھانکا۔ گلی میں ہو کا عالم تھا۔ انگوٹھے سے اوکے کا سگنل دیتے ہوئے اس نے اسلم کو اشارہ کیا جو اس گٹھری کو ہاتھ میں اٹھائے اپنی ابکائیاں روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔
اس کے گھر سے نکلتے ہی حیا نے سکون کی گہری سانس لی۔
ادھرچپکے چپکے قدموں سے اسلم کچرے کے ڈھیر کے قریب پہنچا۔جیسےہی گٹھری پھینک کروہ پلٹاتواپنے سامنےتین عدد کتے سرخ آنکھوں سے گھورتے پاکرسہم گیا۔دل ہی دل میں جل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو کا ورد کرتے ہوئے اس نے وہاں سے دوڑ لگائی اور گھر آ کرہی دم لیا۔
٭ ٭ ٭
فش پارٹی ختم ہو چکی تھی۔ صاف ستھری مچھلی، بغیر کانٹوں کے فرائی کی گئی تھی جو مہمانوں کو بےحد پسند آئی تھی۔
پورے گھر کی صفائی کے بعد کچرا ملازم کے ہاتھ کوڑے دان میں ڈلواتے ہوئے زبیر صاحب کو کچرا بھی صاف صاف لگا تھا۔
’’نعیمہ! پندرہ کلو مچھلی کا کچرا نظر نہیں آ رہا؟‘‘انھوں نے پاس کھڑی بیگم سے سوال کیا۔
’’ارے کیا یاد دلایا۔‘‘نعیمہ نے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
’’کچراایک گٹھری میں ڈال کر میں نےباورچی خانے کی کھڑکی میں رکھا ہی تھا کہ چیل اور کوؤں کی فوج اسےلے اڑی۔ ‘‘
’’چلو اچھی بات ہے! پرندوں کا رزق بھی آج ہمارے گھر میں لکھا ہوگا۔‘‘زبیر صاحب نے اطمینان سے کہا۔وہ نہیں جانتےتھےکہ ان کے گھر سے تین کلو میٹر کے فاصلے پر اسلم صاحب کے گھر والوں کا سکون اسی گٹھری نےکس طرح غارت کیا تھا۔

٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x