ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

میری کہانی – نور جنوری ۲۰۲۱

’’بیٹا ! یہ جنگل کا بادشاہ شیر ہے۔‘‘میں نے یہ آواز سن کر اپنا سر اوپر اٹھایا۔ میرے سامنے ایک آدمی اپنے دو بچوں کے ساتھ کھڑا تھا۔ بچوں کی آنکھوں میں تجسس اور چہروں پر دبا دبا جوش تھا۔ وہ آدمی ان سے میرا تعارف کر وا رہا تھا۔ اس کی بات سن کر میں مسکرا دیا۔ میں نے تو ساری عمر چڑیا گھر کے اس پنجرے میں گزاری تھی۔
’’یہ بہت طاقتور اور دلیر جانور ہے۔‘‘ اس آدمی نے میری مزید تعریف کی۔ بچے مجھے قریب سے دیکھنا چاہتے تھے۔ بڑی مشکل سے میں اپنے قدموں پر کھڑا ہوا۔ بھوک سے برا حال تھا۔ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے میں جالی کے قریب گیا۔ بچوں نے خوشی سے تالیاں بجائیں۔ ان کو خوش دیکھ کر میں بھی خوش ہوگیا۔ بچے تھوڑی دیر وہاں رکے اور آگے بڑھ گئے۔ ان کے جانے کے بعد میں بھی بیٹھ گیا۔ زیادہ دیر کھڑے رہنے کی طاقت مجھ میں نہ تھی۔
آپ لوگ شاید اس طرح میری بات نہ سمجھ پائیں۔ میں آپ کو اپنی مکمل کہانی سناتا ہوں۔ میں افریقہ کے ایک گھنے جنگل میں پیدا ہوا تھا۔ میرے ابو جنگل کے بادشاہ تھے۔ ان کا رعب و دبدبہ پورے جنگل پر تھا۔ میں سارا دن اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ کھیلتا رہتا تھا۔ جب صبح کے وقت بڑے شیر شکار پر نکلتے تھے تو ہم چھوٹے بچے ایک بلند ٹیلے پر بیٹھ جاتے تھے۔ ہم انہیں شکار کرتے ہوئے دیکھتے تھے۔ ہمارا دل کرتا تھا کہ ہم بھی شکار پر جائیں لیکن ابھی ہم چھوٹے تھے۔ ہمارے خاندان کی طاقت اور دلیری سے پورا جنگل واقف تھا۔ کسی کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ وہ میرے ابو کے سامنے بول سکے۔ میرے ابو شیر بادشاہ ہمیشہ انصاف کرتے تھے۔ امی نے بتایا کہ جب ہم بڑے ہوجائیں گے تو ہم بھی شکار پر جائیں گے۔ امی ہمیں شکار کرنا سکھاتی تھیں۔ وہ ہمارے درمیان دوڑ کا مقابلہ کرواتی تھیں۔ میں ہمیشہ اول آتا تھا۔ امی کو یقین تھا کہ میں بڑا ہو کر بادشاہ بنوں گا۔ ایک دن ہمارا خاندان اور امی کا خواب دونوں بکھر گئے۔
وہ دن مجھے آج بھی یاد ہے۔ ابو صبح سویرے اٹھے تھے۔ وہ ہر روز جنگل کی سرحد کا جائزہ لینے جاتے تھے۔ اس دن بھی وہ سرحد پر گئے ہوئے تھے۔ اچانک ہم نے زور دار دھماکوں کی آواز سنی۔ میں سہم کر امی کی گود میں چھپ گیا۔ ہم سب پریشان تھے۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ یہ کیا ہوا ہے۔ دھماکوں کے ساتھ ہی ابو کی گرج دار آواز سنائی دی۔ وہ دہاڑ رہے تھے۔ ان کی دہاڑ میں غصے کے ساتھ ساتھ درد بھی شامل تھا۔ ابو تکلیف میں تھے۔ یہ سوچ کر مجھے رونا آگیا۔ میرے بڑے بھائی فوراً سرحد کی طرف بھاگے۔ ماؤں نے اپنے بچوں کو چھپا لیا۔ ہمیں دوبارہ دھماکوں کی آواز سنائی دی۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں بہت سے انسان گاڑیوں پر آتے نظر آئے۔ ان کے ہاتھوں میں بندوقیں تھیں۔ ان کے پاس بڑے بڑے پنجرے تھے۔ مجھے بعد میں ان سب چیزوں کے نام پتہ چلے تھے۔ انہوں نے آتے ساتھ ہی ہمیں مارنا شروع کر دیا۔ ہمارے خاندان کے بہت سے افراد مارے گئے۔ میری امی کو بھی مار دیا گیا ۔باقیوں کو زندہ پکڑ لیا گیا۔ ہمیں ایک پنجرے میں بند کر دیا گیا۔ جنگل سے باہر نکلتے ہوئے میں نے اپنے ابو کی لاش دیکھی۔ وہ جنگل کی حفاظت کرتے ہوئے سرحد پر مارے گئے تھے۔
ہم سب جانوروں کو ایک بڑی سی عمارت میں رکھا گیا۔ وہاں ہمیں اکثر بھوکا رہنا پڑتا تھا۔ مختلف ممالک کے لوگ ہمیں خریدنے آتے تھے۔ ایک دن مجھے بھی خرید لیا گیا۔ مجھے اپنے بہن بھائیوں سے الگ کر دیا گیا۔ میں اس دن بہت رویا تھا۔ مجھے وہ لوگ پاکستان کے اس چڑیا گھر میں لے آئے۔ تب سے میں یہاں پر ہوں۔ لوگ مجھے جنگل کا بادشاہ کہتے ہیں لیکن میں تو اس پنجرے میں محدود ہوں۔ شروع شروع کے دنوں میں مجھے بہت غصہ آتا تھا۔ مجھے اپنا فرمانبردار بنانے کے لیے چڑیا گھر کی انتظامیہ بہت مارتی تھی۔ آخر میں ہمت ہار گیا۔ اب میں کئی کئی دن بھوکا رہتا ہوں۔ بہت سی بیماریاں لگ چکی ہیں مگر کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔ میرے لیے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا بھی مشکل ہے۔ مگر جب بچے آتے ہیں تو ان کو خوش کرنے کے لیے میں تھوڑا سا چل پھر لیتا ہوں۔ مجھے ان بچوں سے امید ہے۔ یہ بچے ہم سے محبت کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ایک دن یہ بچے مل کر اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں گے۔ یہ قید خانے بند کیے جائیں گے اور ہم اپنے گھروں کو لوٹیں گے۔

٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x