ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

اوت نپوتے – بتول جولائی۲۰۲۲

میں ملک کے سب سے بڑے شہر کے سب سے بلند ٹاور کی نویں منزل کے ایک اپارٹمنٹ کا مالک تھا۔ اپارٹمنٹ اور اپنی زمین اپنا گھر کا مقابلہ تو نہیں لیکن جو بھی آتا وہ یہی کہتا کہ بے شک آپ ایک فلیٹ میں رہتے ہیں لیکن یقین مانیں فلیٹ میں آنے کے بعد یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ یہ کوئی فلیٹ ہوگا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ اپارٹمنٹ کی ڈیزائیننگ کی ہی کچھ اس انداز میں گئی تھی جیسے کوئی مکان ہو۔ ہر فلیٹ کارنر فلیٹ تھا اور اس کے دو ٹیرسوں میں سے ایک ٹیرس کو چھوٹے سے باغیچے کی شکل دے کر ایک عجب سا منظر دے دیا گیا تھا۔ شہر کی سب سے بڑی شاہراہ پر ایسی کئی عمارتیں تھیں لیکن ان میں سے کسی کو بھی ایسی انفرادیت حاصل نہیں تھی۔ میرا مناسب سا کار و بار تھا اور اللہ تعالیٰ کی مہربانی تھی اس سے مناسب آمدنی ہوا کرتی تھی۔ کار و بار کا یہ سلسلہ پشتنی تھا۔ میرے والد صاحب میرے دادا کے اکلوتے تھے اور اکلوتے ہونے کا سلسلہ پردادا سے بھی پہلے کا تھا۔ میں بھی اپنے والد کی اکلوتی اولاد تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہر آنے والے دور میں ہمارا کار و بار ترقی کرتا چلا گیا اور آج کل جو بھی ہماری خوش حالی تھی اس کا بھی راز یہی تھا کہ میرے سلسلہ نسب میں اپنے آبائی پیشے کی مسلسل سیوا کرتے چلے آنا۔
مجھے بہت پہلے کا تو علم نہیں لیکن میرے پر دادا اپنے دور کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود تعلیم مکمل ہونے کے بعد اسی کار و بار سے وابستہ ہو گئے تھے جو باپ دادا سے چلتا چلا آرہا تھا۔ میں بھی جب یونیورسٹی سے فارغ ہؤا تو اپنے والد صاحب کے اسی پیشے سے وابستہ ہو گیا اور یوں پچھلی پیشہ ورانہ روایت بر قرار رہی۔
شہر کے جس مقام پر یہ ٹاور تعمیر تھا، ٹھیک اس کے نیچے چھوٹے بڑے خوبصورت مکانات کا ایک طویل سلسلہ تھا۔ اس ٹاور کے بالکل سامنے، مین روڈ سے اندر آنے والی سڑک کی دوسری جانب کارنر پر بنے ایک بڑے سے بنگلہ نما گھر کے لان میں مجھے میری امی اور ابو کی عمر کے میاں بیوی نظر آتے تھے جو کافی اعتبار سے مجھے اپنے امی ابو سے ملتے جلتے لگتے تھے۔ اسی گھر میں تین لڑکے بھی مجھے نظر آتے تھے۔ دو تو مجھ سے بڑے ہی لگتے تھے لیکن تیسرا بالکل میری عمر کا ہی تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ اس گھر میں ایک لڑکی بھی ہے جو ممکن ہے ان کی بیٹی ہو یا رشتے داروں میں سے کسی کی بیٹی ،کیونکہ وہ بہت کم دکھائی دیتی تھی۔ کبھی کبھی آتے جاتے ان تینوں سے میری واجبی سی دعا سلام ضرور ہو جایا کرتی تھی لیکن افسوس اس سے زیادہ جان پہچان کبھی آ گے نہیں بڑھ سکی۔ پھر ایک دن یہ جان کر بہت دکھ ہؤا کہ وہ مکان فروخت ہو چکا ہے۔ فروخت ہونے کا علم فلیٹ کے اوپر سے نیچے کی جانب مکان پر نظر پڑنے پر ہؤا جہاں ٹرکوں پر گھر کا مال و اسباب لادا جا رہا تھا۔ نیچے اتر کر جب معلومات کیں تو اسی لڑکے نے جو میرا ہم عمر تھا، بتایا کہ ابو نے یہ مکان بیچ دیا ہے اور اب ہم شہر کے ایک پوش علاقے میں خریدے گئے اپنے مکان میں شفٹ ہو رہے ہیں۔ پوچھنے پر اس نے اپنا نام تو ضرور بتایا لیکن معلوم نہیں کیوں اپنے نئے گھر کے متعلق آگاہ نہیں کیا۔
وقت پر لگا کر ایسا اڑا کہ پتا ہی نہ چل سکا کہ زندگی کے پینتیس برس کیسے گزر گئے۔ ان پینتیس برسوں میں دنیا ہی بدل چکی تھی۔ والدین کا انتقال ہو چکا تھا۔ فلیٹ فروخت ہو چکا تھا۔ میری شادی والدین کی زندگی میں ہی ہو چکی تھی۔ میں پردادا کے زمانے کی روایت کو توڑتے ہوئے تین بچوں کا باپ بن چکا تھا۔ اوپر تلے سال سوا سال کے فرق سے یہ بچے بھی الحمدللہ عملی زندگی میں داخل ہو چکے تھے۔ بیٹی اپنے گھر کی ہو چکی تھی۔ بیٹے گو کہ شادی شدہ ہو چکے تھے لیکن ہماری بھر پور خواہش کے باوجود ہمیں چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ میرا فلیٹ کوئی چھوٹا سا تو نہیں تھا لیکن مستقبل کے لحاظ سے ہم میاں بیوی سمیت تین خاندانوں کے لیے بہر صورت ناکافی ہو جاتا۔ بیٹوں نے کہا کہ کیوں نہ اسے فروخت کر دیا جائے۔ شہر کے بہترین مقام اور منفرد مکانیت رکھنے کی وجہ سے بہت اچھے داموں فروخت ہو جائے گا۔
میں ان کی تجویز سے خوش ہؤا لیکن یہ دل ہی جانتا ہے کہ آنکھوں میں آنسوئوں کے سیلاب کو کس مشکل سے روکنے میں کامیاب ہؤا تھا۔ بیوی تو ہمیشہ سے راضی بہ رضا ہی رہی تھی لیکن بچے میری اس کیفیت کو بھانپ گئے تھے۔ گھبرا کر کہنے لگے کہ اباجان دل گرفتہ نہ ہوں ہم اسی میں گزارا کر لیں گے۔ میں نے ضبط سے کام لیتے ہوئے کہا کہ یہ کیفیت کسی دکھ کی وجہ سے نہیں۔ انسان کئی برس کسی پالتو جانور کے ساتھ بھی گزار لے تو اس کے بچھڑ نے پر دل ملول ہوجاتا ہے۔ یہاں تو میرے والدین ہؤا کرتے تھے۔ میری شادی بھی یہاں ہوئی تھی اور تم سب بھی نہ صرف اسی فلیٹ میں پیدا ہوئے تھے بلکہ تم سب کی شادیاں بھی اسی فلیٹ میں ہی ہوئیں ۔ اتنی یادوں بھرے گھر کو چھوڑنے پر دل مکدر تو ہوگا ہی لیکن ظاہر ہے یہ فلیٹ ہی ہے کوئی جاگیر تو نہیں جہاں پورا قبیلہ آباد کیا جا سکے۔ لہٰذا بہتر ہے کہ اسے فرخت کر کے تم دونوں اپنی اپنی پسند کے گھر بنا لو۔ میرا آخری جملہ سن کر جیسے میرے بچے تڑپ کر ہی رہ گئے تھے۔ یک زبان ہو کر بولے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم دونوں آپ کے بغیر رہ لیں۔ نہیں نہیں ہم سب ساتھ ہی رہیں گے اور ایک بڑا سارا مکان کچھ اس طرح بنائیں گے کہ ہمارے بچے بھی اپنی اپنی شادیوں کی عمروں تک کسی اور گھر کے متعلق سوچ بھی نہ سکیں۔ آپ نے جس انداز میں ہمیں اپنے ساتھ رکھا، اعلیٰ تعلیم دلائی اور جو محبت دی ہم نہ تو اس توجہ اور محبت سے خود کو جدا کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی اپنے بچوں کو ماں باپ کے پیار سے محروم دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی یہ باتیں سن کر آنسوئوں کا وہ سیلاب جس کے سامنے ضبط کے بند باندھے ہوئے تھے، سارے بند توڑ کر بہہ نکلا لیکن یہ دکھ کے نہیں خوشی کے وہ آنسو تھے جو اللہ کے حضور شکرانے کے لیے بے ساختہ آنکھوں سے پھوٹ بہے تھے۔ یہی حال میری بیوی کا اور بچوں کا تھا اور ہم سب آپس میں لپٹ کر اللہ تعالیٰ کے حضور تشکر کا اظہار آنسوئوں کی برسات کے ساتھ کر رہے تھے۔
ان دنوں ہمارا قیام ایک اوسط درجے سے ذرا بہتر ایک سو سائٹی میں تھا۔ بچوں نے کچھ تو فلیٹ سے ملنے والی رقم اور کچھ پس انداز کی ہوئی رقم ملا کر واقعی ایک ایسا بنگلہ خرید لیا تھا جو بہر لحاظ ان کے مستقبل کے نقشے کے مطابق تھا۔ اطراف کا ماحول بالکل ویسا ہی تھا جیسے ہماری خواہش تھی۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود میرے دونوں بچے کار و بار سے ہی وابستہ تھے۔ اللہ نے ان کے اتحاد کی وجہ سے کار و بار کو وسعت اور برکت بھی بہت بخشی ہوئی تھی جس کی وجہ سے زندگی میں خوشیوں کے رنگ ہی رنگ بھرے ہوئے تھے۔
ہلکی سردیوں کا زمانہ تھا۔ بات معمولی نزلہ زکام سے شروع ہو کر ہلکے بخار تک پہنچی تو مقامی ڈاکٹروں سے دوا علاج شروع کیا لیکن بجائے افاقہ ہونے کے جب مرض شدت کی جانب محوِ سفر نظر آنے لگا تو بچوں نے کہا کہ کسی بھی مرض کو پالنے اور بڑھانے کی بجائے اچھے سے ہسپتال سے رجوع کر لیا جائے تو اس میں تردد کیا ہے۔ میں بھی کوئی اختلافی رائے نہیں رکھتا تھا۔ گھر سے کچھ ہی فاصلے پر کئی منزلہ عمارت میں ایک نجی ہسپتال تھا۔ شہرت اچھی تھی اس لیے وہیں کی تجویز سامنے آئی۔ معائنے کے بعد ڈاکٹرز نے کہا کہ ہم کچھ دوائیں تجویز کر دیتے ہیں، آپ مریض کو گھر لیجا سکتے ہیں لیکن اگر ایک یا دو دن ہمارے ہسپتال میں چھوڑ دیں تو ہمارے خیال میں زیادہ بہتر رہے گا۔ ان کی کئی لحاظ سے نگرانی کی ضرورت ہے جسے گھر میں کرنا کسی حد تک مشکل ہے۔ بخار کی نوعیت بظاہر معمولی ہے لیکن ہم بدلتی ہوئی ہر کیفیت کو دیکھتے ہوئے بہتر علاج کر سکتے ہیں۔ فیصلہ یہی ہؤا کہ ایک دو دن ڈاکٹروں اور عملے کی نگرانی میں ہی رہنا زیادہ مناسب رہے گا۔
شام کا وقت تھا۔ ابتدائی دواؤں کے استعمال سے طبیعت کافی بحال محسوس ہونے لگی تھی۔ اہلیہ دوپہر سے ہی میرے ساتھ تھیں۔ بچے انھیں کچھ دیر پہلے گھر لے جا چکے تھے اور ان میں سے ایک بچے نے کہا تھا کہ وہ شام ڈھلے آ جائے گا اور رات کو میرے ساتھ ہی رہے گا۔ میں نے چہل قدمی کی نیت سے بستر چھوڑا اور آہستہ آہستہ ٹہلتا ہؤا کھڑکی تک آیا۔ سورج ڈوبنے میں ابھی دیر تھی۔ ماحول کافی روشن تھا۔ مین روڈ سے اندر آنے والی اس چوڑی سڑک کے دوسری جانب بنے اچھے بڑے مکانوں کی ایک قطار دور تک نظر آ رہی تھی۔ مجھے یہ منظر اس منظر سے بہت ملتا جلتا لگا جو مجھے اپنے پرانے فلیٹ میں کھڑے ہو کر نظر آیا کرتا تھا۔بلکہ کارنر پر بنے ایک مکان کا نقشہ تو اسی مکان کا سا تھا جس میں میری والدہ کی عمر کے میاں بیوی رہا کرتے تھے اور اکثر وہ مجھے بنگلے کے لان میں بیٹھے نظر آیا کرتے تھے۔ ان کا وہ بیٹا جو میری ہی عمر کا تھا، کبھی کبھی باہر سڑک پر مل جایا کرتا تھا۔ میرے سامنے میرے اپنے بچپن کا ہر منظر روشن ہو چکا تھا۔ ویسا ہی بڑا سارا گھر، اسی طرز کا بنا ہؤا لان۔ فرق صرف اتنا تھا کہ وہ منظر میں اپنے فلیٹ کی نویں منزل سے دیکھا کرتا تھا لیکن آج ویسا ہی منظر ہسپتال کی دوسری منزل سے دیکھ رہا تھا۔ سوچ رہا تھا کہ میرے والدین کی طرح کیا معلوم میرے ہم عصر کے والدین بھی دنیا میں نہ ہوں۔ اس کی بھی میری طرح شادی ہو گئی ہو۔ اس کے جو بڑے بھائی تھے وہ بھی بچوں والے بن چکے ہوں۔ نہ معلوم ساتھ رہ رہے ہوں یا الگ الگ مکانوں کے مالک ہوں وغیرہ وغیرہ۔
ابھی میں ایسا سب کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ گھر کے اندر سے اپنی جیسی عمر کے ایک جوڑے کو گھر کے لان میں آکر ٹھیک درمیان میں رکھی کرسیوں پر آکر بیٹھتے دیکھا۔ ان کو اس انداز میں آکر لان میں بیٹھے دیکھ کر ماضی کا وہ منظر ایک جیتی جاگتی حقیقت کا وہ نظارہ بن گیا جو میں اپنے فلیٹ کی بلندی سے دیکھا کرتا تھا۔ پینتیس چھتیس برس کوئی معمولی عرصہ نہیں ہوا کرتا۔ اتنے برس پہلے دیکھے ہوئے چہرے ماضی کے گرد و غبار میں اس بری طرح اٹ چکے ہوتے ہیں کہ جب تک کوئی بڑا واقعہ ان چہر وں سے گرد و غبار اچھی طرح نہ جھاڑ دے، پہچانے ہی نہیں جا سکتے۔بہت سارے لوگوں کی کچھ ادائیں یا انداز ایسے ہوتے ہیں جس کو وہ قیامت تک نہیں بدل پاتے خواہ وہ انداز چلنے کا ہو، گردن ہلانے کا ہو یا دورانِ گفتگو ہاتھوں کو مختلف انداز میں حرکت دینے کا، عمر کی آخری سانس تک نہیں بدلا کرتا۔
عمر کوئی بھی ہو، کسی غیر کے گھر میں مسلسل اس طرح دیکھے جانا بداخلاقی تو ہے ہی ساتھ ہی ساتھ نہایت قبیح فعل بھی ہے جس کا میں مسلسل مرتکب ہو رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ مجھ پر اب تک کسی کی نظر نہیں پڑی تھی۔ اس سارے دورانیے میں نہ تو ہسپتال کا کوئی عملہ کمرے میں آیا اور نہ ہی لان میں بیٹھے جوڑے کی نظر اس جانب اٹھی۔ کھڑکی میں شفاف شیشے تھے۔ بے شک فاصلے کی وجہ سے پہچانا جانا مشکل ضرور ہوتا لیکن کسی کی توجہ کا مسلسل ان کی جانب ہونے کو محسوس تو کیا ہی جا سکتا تھا۔ گو کہ نہ تو میری تربیت میں ایسا کرنا شامل تھا اور نہ ہی میری خصلت میں لیکن جو صاحب لان میں آتے دیکھے گئے تھے اور جس انداز میں خاتون سے محوِ گفتگو تھے، ان کے انداز میرے دل و دماغ میں ایک ہلچل برپا کیے ہوئے تھے۔ ذہن بار بار شور مچا رہا تھا کہ میں ان سے واقف ہوں لیکن یہ سمجھ میں آکر ہی نہیں دے رہا تھا کہ وہ صاحب ہیں کون۔ میں اسی کشمکش میں مبتلا تھا کہ کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز نے مجھے کھڑکی چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ آنے والا ہسپتال کا عملہ ہی تھا جسے ٹسٹ کے لیے بلڈ کی ضرورت تھی۔ اس کے جانے کے بعد تجسس نے مجھے ایک مرتبہ پھر کمرے کی کھڑکی کی جانب جانے پر مجبور کر دیا لیکن وہاں پہنچ کر دیکھا تو تمام مناظر بدل چکے تھے اور غروبِ آفتاب نے بھی منظر کو اپنی تاریک چادر میں ڈھانپ لیا تھا۔
رات تک کی ساری رپورٹیں کسی بھی پیچیدگی کی نفی کر رہی تھیں اور میری حالت بھی معمول پر آ چکی تھی اس لیے ہسپتال سے میری چھٹی ہو گئی تھی اور بچے مجھے گھر لے آئے تھے۔ وہ بات جو میں ہسپتال کے بستر پر لیٹنے کے بعد بھول چکا تھا، گھر پہنچنے کے بعد بھی یاد نہ آ سکی لیکن نہ جانے کیوں ہسپتال کی کھڑکی سے دیکھا گیا منظر اچانک پھر سے کیوں یاد آ گیا۔ بہت غور کرنے کے بعد مجھے ایسا لگا جیسے وہ صاحب حقیقت میں وہی میرا ہم عصر ہے جو فلیٹ کے نیچے بنے بنگلے میں رہا کرتا تھا۔ جوں جوں میں اس کے مختلف انداز پر غور کرتا گیا توں توں مجھے یہ یقین ہوتا چلا گیا کہ ہو نہ ہو یہ وہی رہا ہوگا جو فلیٹ کے نیچے مکان میں اپنے والدین اور بھائی بہنوں کے ساتھ رہا کرتا تھا۔
کافی دنوں کے بعد جب میری طبیعت بالکل بحال ہو گئی تو ایک دن میں نے اپنی بیوی کو ہسپتال سے دیکھے گئے منظر سے آگاہ کیا اور کہا کہ سوچ رہا ہوں کہ کیوں نہ اس کے گھر چل کر گمان کی سے یقین سے تصدیق کر لی جائے۔ بیوی نے کہا اس میں کیا قباحت ہے، یوں ممکن ہے ایک پرانا تعلق بحال ہو جائے۔
بیل بجانے پر نصب انٹرکام سے مردانہ آواز میں پوچھا گیا کون ہے ۔برا نہ مانیں تو باہر آئیں میں آپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں، جواب میں میں نے کہا۔ اچھا کہہ کر انٹر کام بند کر دیا گیا۔ کچھ ہی دیر بعد قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ دروازہ کھلا اور شکل نظر آئی تو میرا گمان یقین سے اور بھی نزدیک تر نظر آنے لگا لیکن میں نے اب بھی ضبط سے کام لیا۔ اس کی نظر جب پیچھے کھڑی میری اہلیہ پر پڑی تو اس نے دروازہ مزید وا کرتے ہوئے اندر آنے کی دعوت دی اور مین گیٹ بند کرنے کے بعد آہستہ آہستہ واپسی کی راہ لینے کے بعد ہمیں اپنے پیچھے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ ڈرائنگ روم کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھنے کا کہا اور گھر کے اندر چلا گیا۔ کچھ ہی دیر بعد ایک خاتون کے ساتھ اندر آیا اور خاتون کا تعارف اپنی اہلیہ کے بطور کرانے کے بعد اپنا نام بتانے ہی والا تھا کہ میں نے اپنے جذبات کو دبا تے ہوئے کہا کہ اگر میں پہچاننے میں غلطی نہیں کر رہا ہوں تو آپ کا نام احمد مختار ہے۔ میرے اس طرح نام بتانے نے جیسے اسے چونکا کے رکھ دیا۔ کافی دیر تک وہ میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے غور سے میرے چہرے کی جانب دیکھتا رہا لیکن میرے چہرے میں میرے بچپن کے چھپے چہرے کو تلاش کرنے میں ناکام ہونے کے بعد کہا کہ معاف کیجے میں اب بھی آپ کو نہ پہچان سکا۔ میں نے بات آگے بڑھاتے ہوئے اس کو اس کا پرانا محلہ اور گھر یاد دلا یا جو وہ اچھی طرح جانتا تھا۔ پرانا محلہ اور گھر کوئی انسان بھی مرتے دم تک نہیں بھول سکتا۔ اس کی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ میں اسے پینتیس چالیس برس پیچھے لے جانے پر مجبور کر چکا ہوں۔ بات کو جاری رکھتے ہوئے میں نے کہا کہ آپ کو اپنے ہی گھر کے قریب ایک بلند عمارت بھی یاد ہوگی۔ جی جی، بس بس بس، یہ کہتے ہی وہ مجھ سے لپٹ گیا، اس کی لرزتی اور کپکپاتی آواز میں بس ایک ہی لفظ کا ورد تھا کہ میں پہچان گیا میں پہچان گیا۔ ماحول کافی جذباتی سا ہو کر رہ گیا تھا۔ جب ماحول میں کچھ ٹھیراؤ آیا تو اس نے کہا کہ آپ یقین مانیں آج ایک عرصے کے بعد اس بات کا احساس ہورہا ہے کہ انسان واقعی ایک معاشرتی حیوان ہے جو انسانوں سے اگر دور ہو جائے تو ایک وحشت زدہ جانور سے بھی بد تر ہے۔ یہ کہہ کر اس کی آنکھوں میں جیسے ایک سیلاب امڈنے کے لیے تیار ہو لیکن اس نے کمال ہوشیاری سے اسے اپنے اندر ہی اتار لیا ہو۔
اس نے اپنے بارے میں بتانا شروع کیا۔ کہنے لگا کہ ہم میاں بیوی کے تین لڑکے ہوئے اور ایک لڑکی۔ ہم نے ان کی تعلیم میں کوئی کمی نہ رکھی۔ سب ہی نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی لیکن وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ملک سے باہر جاتے رہے۔ لڑکی کی شادی جس سے ہوئی وہ پہلے ہی امریکا میں مقیم تھا۔ لڑکی بہت خوش اور مزے میں ہے لیکن اس کا آنا جا پاکستان میں ہوتا ہی نہیں۔ سب باہر نہایت اعلیٰ عہدوں پر متمکن ہیں۔ یہ بھی نہیں کہ وہ باہر جاکر ہمیں بھول گئے ہوں۔ دیکھ لو یہ کتنا بڑا گھر ہے۔ اس کی دیکھ بھال، ہمارے اخراجات، گھر کی سجاوٹ کے لیے ہر جانب اعلیٰ قسم کے ڈیکوریشن پیسز، فرنیچر، رنگ و روغن اور اتنے بڑے لان کی تزئین و آرائش کے سارے اخراجات وہی تو پورے کرتے ہیں۔ ہر کام کے لیے ہر قسم کے نوکر چاکر موجود ہیں۔ ہم میاں بیوی کو کسی قسم کا کوئی ایک کام بھی اپنے ہاتھ سے نہیں کرنا پڑتا یہاں تک کہ کئی ٹرانسپورٹروں اور ہسپتالوں کے رابطہ نمبر ہمارے پاس ہیں۔ ایک کال پر سب کے سب ہاتھ باندھ کر حاضر ہوجاتے ہیں اور ان سب کے اخراجات بچے ہی ادا کرتے ہیں لیکن کیا ان سب آسائشوں کے باوجود ہم وحشت زدگی سے بچ سکتے ہیں۔
یہ کہہ کر وہ دونوں میاں بیوی آنسوؤں سے رونے لگے۔ ان کی یہ کیفیت دیکھ کر ہم دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کی جانب بھیگی ہوئی نظروں کے ساتھ دیکھنے لگے اور دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہوئے کہ ہماری اولاد اور ہم ایک ساتھ مل کر زندگی کی خوشیوں اور غموں میں ایک دوسرے کے شریک ہیں۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x