ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

قربانی – بتول جولائی۲۰۲۲

مدیحہ ارحم کو کندھے سے لگائے بے چینی سے کمرے میں چکرا رہی تھی۔ کبھی دل میں غصہ کی لہر اُٹھتی توکبھی رونا آجاتا ،کبھی اضطراب سوار ہوتا تو کبھی شرمندگی گھیر لیتی۔ کسی طور چین نہیں تھا ۔
بات صرف اتنی سی تھی کہ اباجی اور فیصل بکرا لینے گئے ہوئے تھے۔ مگر بات شاید اتنی سی نہ تھی۔ اگر اتنی ہی ہوتی تو وہ خوشی خوشی انتظار کر رہی ہوتی ۔پر اصل بات یہ تھی کہ ابا جی اور فیصل ،بھابھی کا بکرا لینے گئے ہوئے تھے ۔
مدیحہ کو بکروں سے عشق تھا، مانو بچپن کی محبت تھی ۔شادی سے پہلے ابو جب بھی قربانی کا بکرا لاتے ہمیشہ آتے ہی رسی مدیحہ کے ہاتھ میں پکڑاتے۔
’’یہ لو بھئی آگیا میری بیٹی کا بکرا …..اب اس کی عید تک خوب خاطر مدارت خدمت سب تمہاری ذمہ داری‘‘۔
اور واقعی مدیحہ بکرے کے ناز نخرے اٹھانے میں جان لڑا دیتی ۔ بکرے پر پورا س کا قبضہ ہوتا، بھائیوں کو ہاتھ بھی نہ لگانے دیتی۔ اس کو کھلانا پلانا نہلانا سجانا مہندی کڑے ہار …..بس چلتا تواپنا عید کا نیا جوڑا بھی بکرے کو پہنا دیتی اور جب عید کی صبح وہ قربان ہوتا تو موٹے موٹے آنسو اور دبی دبی ہچکیوں کے ساتھ دیکھتی رہتی۔ امی جھنجھلا جاتیں ۔
’’جب پتہ ہے قربانی کے لیے آیا ہے تو اتنی انسیت پالتی ہی کیوں ہو ؟‘‘
پر ابا ہمیشہ اس کے۔ کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دیتے ’’قربانی کااصل مقصد ہی یہ ہے کہ دل سےقریب ترین شے اللہ کی راہ میں قربان کی جائے تاکہ ایثار کا مقصد سمجھ آئے ۔عزیز تر چیز کی قربانی کے وقت دل میں جو درد اٹھتا ہے اس کا اجر ہی تو کرم کی صورت لوٹایا جائے گا‘‘ اور وہ بھیگی آنکھوں کے ساتھ مسکرا دیتی۔
ابھی مدیحہ سیکنڈ ائیر میں تھی کہ کرونا کی وجہ سے گھر بیٹھنا پڑا ۔کالج کھلنے کے انتظار میں تھی کہ سسرال کا در نصیب میں لکھ دیا گیااور مدیحہ سادہ سی تقریب کے بعد فیصل کی دلہن بن کر اس کے گھر آگئی۔ فیصل کی امی کا چند ماہ پہلے انتقال ہوگیا تھا ۔ گھر میں اباجی اور فیصل رہ گئے تھے۔ اوپر کے پورشن میں بڑا بیٹا اظہر اور بہو ثانیہ اپنے تین چھوٹے بچوں کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ثانیہ ایک نرم مزاج کی سلجھی ہوئی لڑکی تھی۔ وہ روز نیچے آکر گھر کے ساتھ ساتھ اباجی اور فیصل کے بھی سارے کام نمٹا کے جاتی تھی ۔ابا جی تک تو ٹھیک تھا پر فیصل کی ذمہ داری بھاوج پر پڑے اباجی کی مروت کو یہ منظور نہ تھا اس لیے بیوی کے انتقال کے چند ماہ بعد ہی مدیحہ کو بیاہ لائے ۔چونکہ شادی کرونا کے ابتدائی دور میں ہوئی تھی تومدیحہ نہایت سادگی سے رخصت ہوئی ۔ابو نے اپنی حیثیت کے مطابق مناسب جہیز دیا مگر پریشانی کے اس دور میں وہ چاہ کر بھی بیٹی کے لیے کوئی سونے کا زیور نہ بناسکے۔ابا جی کی طرف سے بھی کوئی سونا نہ ملا ۔صرف فیصل نے چھلکا سی بالیاں منہ دکھائی میں دی تھیں وہ بھی جانے کن دقتوں سے بنی تھیں۔
مگر خیر!کرونا تھا تو ایک خطرناک وبا ،مگر جانے کتنوں کا بھرم رکھ گیا تھا۔
مدیحہ نے جلد ہی گھر کا انتظام سنبھال لیا۔ثانیہ نے اس کی پوری مدد کی۔ ان کے درمیان روایتی دیورانی جٹھانی والی کوئی چپقلش نہ تھی، کافی دوستی تھی ،پر مدیحہ کے دل میں پہلا بال جب پڑا جب ابا جی بقر عیدسے سات دن پہلے ایک موٹا تازہ بکرا لائے اور اس کی رسی ثانیہ کے ہاتھ میں تھمادی۔
’’یہ لو بہو تمہارا بکرا اب تم جانو اور تمہارا بکرا جانے، میں تو خریدنے میں ہی بہت تھک گیا اب اس کی دیکھ بھال تم ہی کرو‘‘۔
ابا جی اندر کی طرف بڑھ گئے ۔ثانیہ بکرے میں مگن ہوگئی اور مدیحہ ہکا بکا دیکھتی رہ گئی۔ایسا بھلا پہلے کب ہؤا تھا اس کے ساتھ کہ اس کے ہوتے ہوئے بکرے کا والی وارث کسی اور کو بنادیا جائے۔اس وقت تووہ نئی نئی آئی تھی پہلی عید تھی کچھ بول نہ سکی پر رات کو فیصل سے لڑ پڑی کہ ابا جی صرف بھابھی کا بکرا کیوں لائے میرا کیوں نہیں لائے؟
’’ارےاتنی مہنگائی کے دور میں دو بکرے کیسے لاسکتے ہیں؟ ہر سال ایک بکرا بھی بڑی مشکل سے لاتے ہیں سارا سال دوکان سے کمیٹیاں بھرتے ہیں بچتیں کرتے ہیں تو سال کے سال بکرا آپاتا ہے‘‘۔ فیصل اظہر اور ابا جی مشترکہ دوکان ہی چلاتے تھے۔
’’تو جب دوکان سے ہی آیا تو بھابھی کا ہی کیوں آیا ؟‘‘اس کا منہ پھولا ہو&ٔا تھا۔
’’کیونکہ بھابھی صاحبِ نصاب ہیں ،وہ اپنی والدین کی اکلوتی بیٹی ہیں اور کچھ سستے زمانے میں ان کی شادی ہوئی تھی تو ان کو اپنے میکے سے کافی سونا ملا تھا۔ باقی ہمارا گھر اور دوکان دونوں کرائے کے ہیں اور تمہارے پاس بھی کوئی خاص زیور نہیں ہے تو ہمارے گھر میں قربانی صرف بھابھی پر واجب ہے اس لیے ہر سال ابا جی ان کے نام کا بکرا لاتے ہیں۔ لیکن بکرا اب ہمارے گھر آگیا تو سب کا ہی ہؤا،تم بھی اس کی خدمت کرکے ثواب کما سکتی ہو‘‘۔
اگرچہ فیصل نے بڑے سبھاؤ سے سمجھایا لیکن مدیحہ کا دل خفا ہوگیا تھا۔ اس نے ان سات دنوں میں بکرے کی طرف دیکھا بھی نہیں۔ عید آکر چلی گئی، مدیحہ بھی کچھ دنوں میں بکرے کا غم بھول گئی پر شادی کی دوسری بقر عید پر بھی جب ابا جی نے رسی ثانیہ کو پکڑائی تو مدیحہ کی ناراضگی اور حسرت بیک وقت لوٹ آئی۔
ابا جی نے جب مدیحہ کو مخاطب کر کے بڑے شوق سے پوچھا بہو بکرا کیسا ہے، تو مدیحہ نے بے مروتی کی انتہا کردی ۔
’’جس کے لیے لائے ہیں اسی سے پوچھ لیں ‘‘، یہ کہہ کروہ پیر پٹخ کر اندر چلی گئی۔ صحن میں سب ہی شرمندہ کھڑے رہ گئے ۔ بعد میں فیصل نے اسے خوب ہی سرزنش کی ۔وہ چپ چاپ آنسو بہائے گئی، جواب دینا ویسے بھی اس کی سرشت میں کہاں تھا ۔وہ تو خود بھی ابا جی کو جواب دے کر شرمندہ تھی ۔اس کے بعد دوبارہ کسی نے اس کے برے رویہ کا ذکر نہیں کیا پر اس کے ایک جملےنے اس کی ناگواری تو سب پر واضح کر ہی دی تھی۔ اس کو ایسا لگا جیسے بھابھی بھی اس بار بکرے سے کچھ دور دور ہی رہیں، ساری دیکھ بھال اظہر بھائی نے کی ۔مدیحہ کے غصہ پر بے شک شرمندگی غالب آگئی تھی پر وہ بکرے کے قریب پھر بھی نہ گئی۔
اور اب اس کی شادی کے بعد سسرال میں یہ تیسری بقر عید آرہی تھی ان کی زندگی میں ارحم کا اضافہ ہو چکا تھا اس بار اس نے کتنی ضد کی تھی فیصل سے بکرے کے لیے پر وہ راضی نہ ہؤا اور اب وہ ارحم کو گود میں لیے کمرے میں چکرا رہی تھی اس کے اوپر سارے جذبے ایک ساتھ حملہ آور ہوئے کیوں کہ آج پھر بھابھی کا بکرا آرہا تھا وہ لاکھ خود کو سمجھاتی بجھاتی پر بےبس تھی بکرا اس کے بچپن کا عشق تھا وہ چاہتی تو بھابھی کے بکرے کی بھی ناز برداریاں کر سکتی تھی پر جب ابا جی رسی ثانیہ کے ہاتھ میں تھماتے تو مدیحہ کو وہ بکرا اجنبی اجنبی لگنے لگتا۔
اس نے سوتے ہوئے ارحم کو جھولے میں لٹایا ہی تھا کہ باہر سے میں میں کی آوازیں آنے لگیں یقیناً ابا جی اور فیصل بکرا خرید کے واپس آگئے تھے پہلے تو اس نے سوچا باہر ہی نہ جائے پھر پچھلے سال کی بدتہذیبی یاد آگئی تو دل پر پتھر رکھ کر باہر آگئی بھلے دل کی جو بھی حالت ہو پر وہ دل بڑا کرکے بھابھی کو مبارکباد دے گی آخر وہ بھی تو اس کا اتنا خیال کرتی تھیں اس نے دل کو سمجھالیا تھا پر جوں ہی باہر صحن میں آئی تو حیرت سے گنگ ہو گئ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ابا جی دو بکروں کی رسی تھامے اسی کا انتظار کر رہے تھے۔
یہ لو بہو دونوں بکرے تمہارے حوالے ان میں سے ایک اپنے لیے پسند کرلو اور دوسرا اپنی بھابھی کو دے دو۔
ابا نے خوشی خوشی دونوں بکروں کی رسی اس کے ہاتھ میں پکڑائی اور خود غسل خانے کی طرف بڑھ گئے مدیحہ کی آنکھیں جھلملا گئیں وہ ابھی تک حیرت زدہ تھی اسنے ثانیہ کی طرف دیکھا تو ثانیہ مطمئن سا مسکرا رہی تھی۔
یہ دو دو بکرے کیسے آگئے آپ تو کہہ رہے تھے مہنگائی بہت ہوگئی ہے دوکان کی کمیٹی سے ایک بکرا بھی آنا مشکل ہےاس نے فیصل سے پوچھا۔
ہاں بھئی مہنگائی تو واقعی آسمان سے باتیں کر رہی ہے ایسے منہ پھاڑ کے پیسے مانگ رہے تھے جیسے بکرا نہیں بکروں کا پورا ریوڑ مانگ لیا ہو لیکن اللہ کی مدد ساتھ تھی مناسب قیمت میں سودا ہو ہی گیا اس بار ابا جی دوکان کی کمیٹی سے اپنی چھوٹی بہو کا بکرا لائے ہیں اور بھابھی نے اپنا بکرا اپنے ذاتی پیسوں سے منگایا ہے۔
لو بھابھی کے کون سے ذاتی پیسے ان کی کون سی الگ سے آمدنی تھی سارا سال کس طرح کھینچ تان کے گزارہ کرتی تھیں کیا اسے معلوم نہ تھا وہ بکروں کی رسی چھوڑ کر بھابھی کے سر پر پہنچ گئی فیصل بکروں کو صحن کے کونے میں باندھنے لگا۔
بھابھی سچ سچ بتائیں آپ کے پاس پیسے کہاں سے آئے آپ نے قرضہ لیا ہے۔
ارے پگلی قرضہ لے کے قربانی کب ہوتی ہے میں نے وہ ہی کیا ہے جو شریعت کا حکم ہے۔
مطلب؟
مطلب یہ کہ شریعت میں حکم ہے کہ جو صاحبِ نصاب ہو اور اس کے پاس زکوٰۃ یا قربانی کے پیسے نہ ہوں تو وہ اپنے مال کا کچھ حصہ بیچ کر یہ دونوں کام کرے اس لیے میں نے اپنی سونے کی انگوٹھی بیچ کے قربانی کا بکرا منگالیا۔
مدیحہ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہنے لگے۔
یہ آپ نے میری وجہ سے کیا نا میری ضد کی وجہ سے، چھوٹے تو ضد کرتے ہی ہیں پر بڑے سمجھا دیتے ہیں اچھے بچے سمجھ بھی جاتے ہیں میں بھی سمجھ جاتی بھابھی، کیونکہ میں بھی اچھی بچی ہوں پر آپ نے یوں انگوٹھی بیچ کے اچھا نہیں کیا۔ مدیحہ نے ندامت سے کہا۔
جب اتنی ہی اچھی بچی ہو تو روئے کیوں جا رہی ہو اچھے بچے روتے نہیں ہیں۔ ثانیہ نے اس کے آنسو پونچھے۔
تمہاری قربانی کی خواہش کوئی غلط تو نہیں تھی جو تم نادم ہو ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ قربانی کرے ویسے بھی دوکان کے پیسوں پر میرا اکیلا حق تو نہیں ہے تم برابر کی حقدار ہو یہ تہوار تو آتا ہی ایثار سکھانے کے لیے ہے اور اگر میں اپنی کوئی قیمتی چیز بیچ کر قربانی کروں گی تو مجھے زیادہ اجر ملے گا اس لیے سمجھو میں نے بس اپنا ہی فائدہ کیا ہے تم شرمندہ نہ ہو۔ ثانیہ نے مسکرا کر کہا تو مدیحہ اس کے گلے لگ گئی ۔
سوری بھابھی آئندہ سال بس آپ کا بکرا ہی آئے گا جو ہم دونوں کا ہوگا اب میرے بچپنے کی وجہ سے دوبارہ آپ نے اپنی کوئی چیز نہیں بیچنی۔
بے وقوف لڑکی اللہ سے دعا کرو کہ اللہ ہمارے مردوں کی کمائی میں اتنی برکت دے کہ ہم اگلے سال بھی دو بکرے خرید لیں اب جلدی سے بتاؤ تمہارا بکرا کون سا ہے اور میرا کون سا؟ ثانیہ نے بکروں کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔
مدیحہ نے قریب جا کے دونوں کو بغور دیکھا دونوں تقریباً ایک جیسے ہی تھے۔
بھئی عید والے دن تک تو یہ دونوں ہی میرے ہیں عید تک جس بکرے سے مجھے زیادہ پیار ہو جائے گا وہ میرا ہوجائے گا اور دوسرا آپ کا۔
اچھا جی اس میں کیا لوجک ہے؟
بھئی مجھے زیادہ پیاری چیز قربان کرنی ہے نا تاکہ میں اجر میں آپ کے برابر پہنچ سکوں۔ مدیحہ نے نیچے بیٹھ کر دونوں بکروں کے گلے میں ہاتھ ڈال دیے تھے۔
ثانیہ مسکرا کے اسے دیکھے گئی وہ واقعی بکروں کے ساتھ کھیلتی کوئی بچی لگ رہی تھی بلکہ اچھی بچی۔ثانیہ کے ذرا سے ایثار نے ان کے اتنے پیارے رشتے کو بگڑنے سے بچا لیا تھا۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x