ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ماں باپ کا باہم تعلق- بتول دسمبر ۲۰۲۱

اچھے میاں بیوی ہی اچھے والدین بن سکتے ہیں۔
میاں بیوی کا باہمی تعلق جتنا مضبوط اور عزت و محبت پر مشتمل ہوگا وہ اتنا ہی ایک بہترین نسل کی بنیاد رکھ سکتے ہیں ۔ میاں بیوی کا باہمی تعلق اگر اچھا ہو تو یہ تعلق نسلیں سنوار دیتا ہے اور اگر یہ تعلق ناچاقیوں اور لڑائی جھگڑوں پر مشتمل ہو تو یہ تعلق نسلیں بگاڑ دیتا ہے ۔ بچوں کی بہترین تربیت کے لیے والدین کا خود تربیت یافتہ ہونا نہایت ضروری ہے ۔ اپنے تعلیمی دور میں مجھے ایک استاد محترم کا جملہ خوب صورت لگا تھا جو آج تک میری ڈائری پر لکھا ہوا ہے ۔ ایم فل کیمسٹری کے دوران ایک دن سر کہنے لگے’’اچھے کیمسٹ چاہے نہ بن سکو لیکن اچھے باپ اور اچھی مائیں ضرور بن جانا کیونکہ کیمسٹ کے ہاتھ میں تو صرف ایک طبقہ ہوگا لیکن ایک باپ اور ایک ماں کے ہاتھ میں ایک پوری نسل ہوتی ہے‘‘ ۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ اسرائیل میں ایک جوڑے کا میاں بیوی بن جانے کے بعد علیحدہ ہو جانا بے حد مشکل ہے کیونکہ اسرائیل اس بات کو مانتا ہے کہ ایک بہترین نسل کے لیے میاں بیوی کا مضبوط تعلق بہت ضروری ہے اور ان کی علیحدگی دو بچوں نہیں بلکہ دو نسلوں کو تباہ کر دیتی ہے اور اسرائیل ایک بھی ایسا بچہ اپنی ریاست میں جنم نہیں دینا چاہتا جو ان کےملک و قوم کی تباہی کا سبب بنے ۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ اسرائیل میں جب ایک عورت حاملہ ہوتی ہے تو آخری تین ماہ اس حاملہ عورت کو ایک ٹریننگ سنٹر میں بلایا جاتا ہے ۔ یہاں اس عورت کو ریاضی کی کچھ مشقیں حل کرنے کے لیے دی جاتی ہیں اور ہوم ورک میں کچھ ایسی مشقیں دی جاتی ہیں جنہیں رات کو میاں بیوی ساتھ بیٹھ کر حل کرتے ہیں ۔ اس کی وجہ کیا ہے ؟ تاکہ بچہ ذہین پیدا ہو ۔
ہمارے معاشرے میں کیا ہوتا ہے ؟
ایک عورت کے پورے نو مہینے لڑائی جھگڑوں، طنز اور گالی گلوچ کے ماحول میں گزرتے ہیں ۔ نہ مائیں برداشت کا مظاہرہ کرتی ہیں اور نہ باپ اپنی نسل کے معاملے میں سنجیدہ ہیں ۔ اس اعتبار سے ہمارا تو بچہ اس دنیا میں پیدا ہی فرسٹریشن اور نفسیاتی مسائل کے ساتھ ہوتا ہے ۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ اسرائیل میں آخری تین ماہ ایک حاملہ عورت اپنے مذہبی مطالعے کو وسیع کر دیتی ہے ؟ وجہ یہ کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ مذہبی اور مہذب پیدا ہو ۔ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے ؟ایک ماں:
رانجھا رانجھا کر دی
دل والے دلہنیا لے جائیں گے
میرے پاس تم ہو
وغیرہ دیکھنے میں مصروف ہوتی ہے یا پھر غیر حقیقی رومانوی ناولوں کا مطالعہ کرنے میں مصروف ہوتی ہے ۔ یہ ناول نفسیات پر بڑے گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں ۔ جب آپ اس ناول کو پڑھنے کے بعد واپس حقیقت کی دنیا میں آتے ہیں تو آپ کا چیخ و پکار کرنے اور اپنی کھال نوچ لینے کو جی چاہتا ہے ۔ جو زندگی ان میں دکھائی جاتی ہے اس کا دور دور تک حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ نتیجے میں باہمی تعلقات خراب ہو تے ہیں اور میاں بیوی کے ساتھ ساتھ ایک نسل کی تباہی کا آغاز ہو جاتا ہے۔
میرے ایک دوست جو اس وقت ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں مجھے اپنی کامیابی کا راز بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’ میں نے کبھی اپنے والدین کو جھگڑا کرتے نہیں دیکھا ۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کے درمیان جھگڑا نہیں ہوتا تھا ۔ درحقیقت والد صاحب کی عادت تھی کی جب وہ غصے میں گھر آتے تھے تو بچوں کو بیٹھا دیکھ کر مسکرا دیتے تھے اور والدہ کو کہتے آپ کمرے میں آئیں ۔ آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے ۔

کمرے میں کیا ہوتا تھا ہمیں اس بات کا کبھی علم نہیں ہؤا کیونکہ کمرے سے باہر کبھی آواز ہی نہیں آئی ۔ جب کمرے سے باہر آتے تو دونوں مسکراتے ہوئے واپس آتے تھے۔ والد صاحب ہماری تربیت کر رہے تھے جو بڑے ہو کر سمجھ آئی کہ باہمی جھگڑا ہمیشہ بچوں کی پہنچ سے دور رکھنا ہے ۔ ان کے مطابق وہ بھی اب اپنے والد صاحب کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور ان کی ازدواجی زندگی خوب صورت بھی ہے اور پر سکون بھی ‘‘۔
جن والدین کا باہمی تعلق محبت اور عزت پر مشتمل ہو آپ لوگ ان والدین کے بچوں کو تعلیمی میدان کے ساتھ ساتھ زندگی کے ہر میدان میں آگے پائیں گے ۔ میرے تایا ابو ایک بہترین جملہ کہتے ہیں’’ شوہر اگر بچوں کے سامنے بیوی کو عزت نہ دے تو اولاد کبھی اپنی ماں کی عزت نہیں کرتی اور اگر بیوی اپنے شوہر کو عزت نہ دے تو اولاد ایسے والدین کے لیے باغی ہو جاتی ہے ‘‘ ۔
ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے ؟ شوہر بچوں کے سامنے بیوی پر ہاتھ اٹھاتے ہیں ، گالیاں دیتے ہیں اور بیوی اپنے بچوں کے سامنے شوہر کے آگے زبان چلاتی ہے ۔ پھر آپ چاہتے ہیں کہ اولاد کی تربیت اچھی ہو تو معذرت کے ساتھ آم کی گٹھلی ڈال کر ساری رات سجدے میں یہ دعا مانگی جائے کہ سیب کا درخت لگے تو ایسا ممکن نہیں ہے ۔ درخت وہی لگتا ہے جس کا بیج بویا گیا ہو ۔
ایک اور بات جو اہمیت کی حامل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کا جوڑا اس کی ذہنی اور جسمانی تسکین کے لیے بنایا ہے ۔ یہ ذہنی اور جسمانی تسکین ایک بیوی کے لیے بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی ایک شوہر کے لیے ۔ آپ اگر ایک دوسرے کے ذہنی اور جسمانی سکون کا سبب نہیں بن رہے تو آپ کبھی اچھے میاں بیوی ثابت نہیں ہو سکتے ، اچھے والدین ثابت ہونا دور کی بات ہے ۔ ایسا میں اس وجہ سے کہہ رہا ہوں کہ یہ ذہنی اور جسمانی تسکین آپ کو تر و تازہ رکھتی ہے ۔ آپ اپنے آپ سے مطمئن ہوتے ہیں اور جو اپنے آپ سے مطمئن ہو وہی دوسروں کے لیے مشعلِ راہ بن سکتا ہے ۔ آپ جتنے پر سکون ہوں گے اتنا ہی اپنی نسل کی تربیت اور بہتری پر توجہ دیں گے۔٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x