ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

راکب ِ زمانہ – بتول فروری ۲۰۲۳

بدر دین گائوںکا ایک معتبر زمیندار تھا ۔ وہ واحد شخص تھا ، جس نے اپنے بیٹے شعیب کو ایف اے تک تعلیم دلائی تھی حالانکہ اس کے گائوں کے دیگر زمیندار یہی کہتے رہتے تھے کہ بچوں کو پڑھانے کا کیا فائدہ ، ہمیں ان سے سر کاری نوکری تونہیں کروانی ۔ شعیب نے اب اپنا ٹریکٹر سنبھال لیا تھا اور زمین کے چھوٹے موٹے کاموں کے لیے دو معاون افراد کو ملازم رکھ لیا تھا ۔ اس طرح اس نے کاشت کاری میں دوسروں سے بڑھ کر پیداوار حاصل کرنا شروع کی تھی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب رشتہ ناتا خاندان کے بزرگوں کا غیر متنازعہ کُلّی اختیار ہوتا تھا اور ابھی لوگوںمیں کزن میرج نے ہولناک صورت اختیار نہ کی تھی ۔ اس لیے بدر دین کی اہلیہ شہر میں اپنے بھائی مظہر الحق ایڈووکیٹ کی اکلوتی بیٹی عافیہ سے شعیب کا بیاہ کرنے کی بات پکی کر آئی۔
عافیہ بہت ذہین طالبہ تھی ، اپنے کالج میں وہ ہم نصابی سرگرمیوںمیںحصہ لیتی تھی ۔ اپنی روایتی تعلیم میں وہ ہمیشہ اول دوم درجہ پر رہتی ، لیکن ادبی مباحثوں میں اس کی کار گزاری قابل فخر تھی، اس کی ایک ہم جماعت نزہت نے ملاقاتوںکے ذریعے اُسے مطالعہ کی عادت ڈالی اور ایسی کتب اُسے پڑھائیں جو عام طلبہ قابل توجہ خیال نہیں کرتے تھے ، لیکن خیالات کی جو پاکیزگی اس لٹریچر سے قاری کی شخصیت کو سنوارتی تھی اس کے اثرات کا مظاہرہ اس کی طرز بودو ماند سے عیاں ہوتا تھا۔
عافیہ بی ایس سی کر چکی تو بدر دین اپنے بیٹے شعیب کے نکاح کی تاریخ لینے پہنچ گیااگرچہ عافیہ کے والد مظہر الحق بیٹی کو مزید تعلیم دلوانے کے لیے تیار تھے لیکن بدر دین اور اس کی اہلیہ جو عافیہ کی خالہ بھی تھی وہ بضد ہو کر شادی طے کرکے ہی اٹھے ۔ عافیہ کی خالہ دل سے کچھ گھٹن محسوس کر رہی تھی کیونکہ عافیہ کا رنگ قدرے سانولا تھا ۔ جبکہ اس کی دونوں بیٹیاں رنگ روپ میں بڑھ کر تھیں ، لیکن تعلیم نہ ہونے کے باعث ان کا تفاخرصرف زمینوں کی فصل کے انبار اور بھینسوں کے بڑے بڑے گلے کے باعث تھا۔ عافیہ اگرایک گریجوایٹ تھی تو ان کے نزدیک یہ ہرگز کوئی نمایاں شخصی وصف نہ تھا ، اور جب عافیہ اس گھر کی بہو بن کر آئی تو گائوں والی دیگرچودھرانیاں بھی بدر دین کی بہو کو دیکھ کر منہ بنا کر رہ گئیں اور اس کی رنگت میں آفتاب و ماہتاب کی کرنوں کا بسیرا نہ دیکھ کر گلہ مند رہیں۔
عافیہ کو جلدی احساس ہو گیا کہ گائوں میں کسی کو اس کے والد مظہرالحق کے ایک ممتاز قانون دان ہونے کا خیال نہ تھا ۔ عافیہ کے گھر میں شعیب کی دونوں بہنیںبھی اُسے کمتر خیال کرتی تھیں ۔ شعیب نے البتہ عافیہ کو محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ حسن و جمال کے جس اعلیٰ درجہ کی شخصیت کا آرزو مند تھا وہ اسے نہ ملی ۔ اس کے لیے جو بات تسکین کا باعث تھی وہ یہ تھی کہ شادی کی پہلی شب کے آغاز میں اس کی آمد پر عافیہ نے اس کا ادب اور اپنائیت سے استقبال کیا اور اسے کہا کہ ہم اپنی زندگی کا آغاز دو رکعت نفل ادا کر کے کریںتاکہ ہمیںاللہ تعالیٰ کے فضل و کرم طلب کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہ سمجھا جائے ۔ اور شعیب اس بات کا انکارنہ کرسکا۔
اگلے دن شعیب کی زبانی جب یہ بات اس کی والدہ اور بہنوںکو معلوم ہوئی تو یہی بات اس کے والد چودھری بدر دین نے بھی سنی تو یہ سب لوگ خوش کم لیکن حیران زیادہ ہوئے ۔ اس کے بعد شعیب نے بھی نماز کی ادائیگی میں پابندی کو شعار بنایا۔
عافیہ کو اپنے کالج کے زمانہ میںاپنی دوست نزہت یاد آئی جس نے اسے اچھی سیرت ساز کتب کے مطالعہ کا چسکا لگا دیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے صورت کے جادو پر توجہ دینے کی بجائے سیرت و کردار اور حسن ِاخلاق سے اپنا زمانہ آپ بنانے کا فیصلہ کیا۔

ابتدا میںتو عافیہ کی خالہ کو یہ گلہ تھا کہ اس کی بہو کو دودھ بلونا، چرخہ کاتنا یا بڑا تنور گرم کر کے اس میں روٹی لگانا نہیں آتا ۔ لیکن جلدی ہی عافیہ نے اپنی خوش کلامی اور خدمت سے اپنی ساس سسر کو موہ لیا ۔ چوہدری بدر دین کو پہلی دفعہ اپنی پگڑی میں کلف کے سبب اکڑائو محسوس ہؤا۔ اور جب اس کا طرہ سر سے فٹ بھر بلند نظر آیا تو وہ دل میں عافیہ کے سلیقہ کامعترف ہؤا۔ یہاں کپڑوں کو استری کرنے کا کسی کو شعور نہ تھا ، عافیہ نے اپنے سسرکے تہبند اور قمیض کو دھونے کے بعد استری کیاتو وہ اوربھی متعجب ہؤا۔ باہر نکلا تو چوہدری فتح دین، نواب علی ، فضل الٰہی اس کی سج دھج دیکھ کر کچھ حیران ہوئے تو اس نے اپنی بہو کے اس طرز تزئین کی تعریف کی ۔
اسی طرح یہ خیال کیے بغیر کہ ابھی اس گھر میں اسے آئے ہوئے چند ہی دن ہوئے ہیں اس نے اپنے حسن اخلاق کے کمالات دکھانے شروع کیے۔ اس کے لیے والدین نے اس کے جوڑ ے بھیجے تھے عافیہ اگرچہ چرخہ چلانا یا سوت کاتنا نہ جانتی تھی ، لیکن وہ سلائی مشین پر کپڑے سینا جانتی تھی ۔ اس نے سب سے پہلے شعیب کی بہنوں کے سوٹ سی کر انہیں پہنائے اچھے کپڑوںکوجب مہارت سے سیا گیا تو وہ بھی اس لباس میں پہلے سے زیادہ خوب صورت دکھائی دیں۔ ان کی ماں نے عافیہ کی تعریف کی کہنے لگی۔
’’ ہمیں عافیہ کے چرخہ چلوانے کی کیا ضرورت ہے ۔ اس کے اس ہنر کا ہمیں پاس کرنا چاہیے ‘‘۔
عافیہ نے اگلے دن اپنی ساس ( خالہ )کے کپڑے بھی سی لیے اور انہیں پہنائے تو اس کے پائوں زمین پر نہ ٹکتے تھے ۔ عافیہ نے اپنی ایک نئی جوتی اپنی ساس کو پہنا دی تو وہ اوربھی کھلکھلا اٹھی ۔ بدر دین گھر آیا تواپنی بیگم کوایک ایسے جوڑے میں ملبوس دیکھا کہ اس جیسا کپڑا تو اس کے لیے وہ بیٹے کی شادی کے موقع پر بھی نہ لایا تھا اور جب اس نے ماں بیٹیوںکو نئے کپڑوںمیں دیکھا تو کہنے لگا ۔’’ شعیب کی ماں ! تیری بہن نے آپ کے لیے اتنے عمدہ سوٹ بھیجے ہیں کہ ہم نے ایسا کپڑا کبھی نہ خریدا تھا‘‘۔
اور جب یہ معلوم ہؤا کہ ان کی سلائی عافیہ نے کے دستِ کمال کا اظہار ہے تو وہ متعجب اور خوش ہوئے کہ یہ بچی اتنی تعلیم کے ساتھ امورخانہ داری میں بھی طاق ہے ۔
اس دن دوپہر کا کھانا بھی عافیہ نے پکایا تھا ۔ ان کے گائوں میں نماز ظہر اول وقت میں ادا ہو چکی توسب گھر والے جمع ہوئے ۔ عافیہ نے اپنے جہیز میں آئے ڈنر ٹیبل پر اپنے جہیز کے ڈنر سیٹ میںکھانا لگایا تو وہ سب اتنا لذیذ تیار ہؤا تھاکہ سب نے شعیب کو مبارک باد دی کہ وہ بہت خوش نصیب ہے جسے ایسی اعلیٰ ہنر اور دانش والی بیوی ملی ہے ۔ عافیہ کی نندوں نے دل میں ایک طرح تنگی سی محسوس کر کے جب اس کی تعریف میں اپنے والدین کو مگن پایا تو وہ بھی ان کی تائید کیے بغیر نہ رہ سکیں ۔ چوہدری بدر دین نے کہا ’’ بھئی سمیعہ اور ساجدہ تم دونوں اب عافیہ کا ہاتھ بٹانے کے بہانے اپنے آپ کو سلیقہ مند بنا لو ، اب آپ کو میں زمین پر اپنے مویشیوں کا گوبر تھاپنے نہیں جانے دوں گا ۔ یہ کام میرے نوکروں کی بیویاں کرلیں گی‘‘۔
عافیہ نے کھانے کے اختتام پر سویٹ ڈش پیش کی تو کسٹرڈ میں بادام ، چھوہارے ، گری کا برادہ ، پستہ وغیرہ اپنا جلوہ دکھا رہے تھے ۔ یہ ڈش اپنی انوکھی لذت کے لحاظ سے قورمے سے بھی زیادہ اچھی لگی اور اس طرح اگرچہ کام کر کے عافیہ تھک تو گئی تھی ، لیکن سارے گھر میں اس کی واہ وا ہو گئی ۔ اس طرح روز بروز اس نے سب کو گرویدہ بنا لیا اور شعیب کوجو ابتدا میںعافیہ کی خوبصورتی میں چہرے کی وہ دل کشی نظر نہ آئی تھی تو اب وہ بھی گھر بھر میں اس کی عزت و توقیر دیکھ کر فخر سے سر اونچا کر کے رہنے لگا۔
عافیہ نے یہ عادت بنا لی کہ گائوں کی بڑی خواتین جو بدردین کی بہو کو دیکھنے آیا کرتی تھیں تو وہ ان کی آئو بھگت کرتی تھی ۔ انہیں ادب سے سلام کرنا، اپنی خالہ ( ساس )کے پاس ان کے لیے چار پائی کھینچ کر قریب لانا اور ان کے گھر کی خیرو عافیت دریافت کرنا ۔ اس انداز تواضع سے وہ عافیہ کی سعادت مندی کی قائل ہو گئیں۔
عافیہ نے شادی کا پہلا مہینہ گزر جانے کے باوجود شعیب سے یہ نہ کہا کہ مجھے چند دن کے لیے اپنے والدین سے ملنے لے جائیے ، تو اس کی خالہ ( ساس) کو خود یہ خیال آیا کہ میری بہن کیا کہے گی ، ہم نے تو عافیہ کو

میکے جانے کا موقع ہی نہیں دیا ۔ رات کو اس نے چودھری بدردین سے کہا۔
’’ ہم بھی کیسے کھوگئے تھے ۔ ہم نے عافیہ کو ابھی تک چند دنوں کے لیے بھی میکے نہیں بھیجا‘‘۔
وہ کہنے لگے ’’ تم اس کی خدمت کی اتنی عادی ہوگئی ہو کہ بس اس کے سارے حقوق بھول گئی ہو ۔ میں شعیب سے کہتا ہوں کہ وہ کل عافیہ کو اس کے والدین کے پاس لے جائے ‘‘۔
عافیہ کی خالہ ( ساس) نے کہا ’’ نہیں ، میں کل مٹھائی بنوائوں گی ، پھرپرسوں یہ جا سکیں گے ‘‘۔
عافیہ نے سن کر کہا ’’ خالہ جان ! آپ مٹھائی بنوانے کا نہ سوچیں ۔ اب شہروںمیں شادی کے اتنی دیر بعد مٹھائی کارواج نہیںرہا ‘‘۔ اس کی خالہ نے کہا ’’ ایک تو میں نے آپ کو بھیجنے میں دیر کردی اوراگر خالی ہاتھ بھیجوں گی تو مجھے اپنی بہن کے سامنے سبکی محسوس ہو گی ۔ مٹھائی تو تمہیں لے جانا ہی پڑے گی‘‘۔
میکے پہنچ کر عافیہ کے والدین نے پوچھا ’’ بیٹی وہاں دل لگا ‘‘۔
عافیہ نے کہا :
’’ یہ آپ کی تربیت کا اثر ہے کہ میں نے کسی تکلف کے بغیر اس گھر کو اپنا زندگی بھر کا ٹھکانہ سمجھا اور خدمت کے ذریعہ سب کو کسی شکایت کاموقع نہیں دیا ‘‘۔
اسے اپنے پکائے ہوئے پہلے کھانے کا ذکر بھی نہیں بھولا۔ ’’فراوانی اور فراخ دلی سے مجھے آپ نے جو اشیادی تھیں وہ ایک پہلے کھانے کے ذریعے میں نے سب کو تمام چیزیں دکھا بھی دی تھیں جس سے سارا گھر لہک مہک اٹھا تھا۔ سارے گھر والے مجھ سے پیار و محبت سے ملتے ہیں کہ میں نے وہاں کوئی اجنبیت محسوس نہیں ۔ انہوں نے شعیب نے پوچھا ’’’ بیٹے تم بتائو کیسا رہا عافیہ کا اس گھر میں رہن سہن ‘‘۔شعیب نے کہا ’’ خالہ جان گھر ہی کا کیا ہمارا تو سارا گائوں عافیہ کے گن گاتا ہے ‘‘۔
یہ سیرت کا کرشمہ تھا جس نے سانولے رنگ والی عافیہ کے ظاہری عیب کو حسن کار کے سبب چار چاند لگا دیے اور یوں زمانے کے مرکب کی لگام ہاتھ میں لے لی۔
٭…٭…٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x