ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

زمین کے بوجھ – بتول فروری ۲۰۲۳

ملازمت کا پہلا دن دونوں کے لیے حددرجہ خوش آئند تھا۔
دونوں نے ایک دوسرے کو پہلی مرتبہ ملازمت کے پہلے دن ہی دیکھا اور دونوں نے ایک دوسرے کو دل دے دیا۔
دونوں کو ایک ہی بنک میں ملازمت ملی تھی تو دونوں کے کاؤنٹر آمنے سامنے تھے۔
دونوں نے اتفاق سے نیلے اور کالے رنگ میں ڈیزائن کیے کپڑے پہنے تھے۔
ادیبہ کے مالی حالات محنت کے طلبگار تھے۔ باپ کا انتقال ہو چکا تھا تین چھوٹے بہن بھائی ان کی پڑھائی اور دیگر ڈھیر سارے اخراجا ت! اس کی تعلیم دوسرے صوبے کی یونیورسٹی میں مکمل ہوئی تھی اور دوران تعلیم ہی اسے پتہ چلا کہ اس کی بیوہ ماں کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہو چکی ہے۔ یونیورسٹی میں رہتے ہوئے ادیبہ کے حلقہ دوستاں میں بہت سے طالب علم تھے، ان میں نامور سیاستدانوں کے بچے بھی تھے اور فلمی اداکاراؤں کے رشتہ دار بھی ،کھلاڑی بھی اور بیوپاری بھی ،الغرض ان کی صحبت میں شرمیلی سی ادیبہ گھاگ اور مہا چالاک بن چکی تھی۔ ماں کے لیے خیراتی ہسپتال میں علاج اور ان کے لیے خون کی وقتاً فوقتاً ضرورت پر درجنوں ڈونرز پلک جھپکنے میں مل جاتے لیکن افسوس قدرت کا لکھا کوئی مائی کا لال کبھی بھی نہیں ٹال سکا ،ادیبہ کی ماں بچوں کو روتا بلکتا چھوڑ کر ملک عدم روانہ ہوئی۔
البتہ یہ ضرور ہؤا کہ ادیبہ کے دوستوں نے اسے فوری ملازمت کا مشورہ دیا تو کچھ مشہور سرمایہ دار پارٹیوں کے توسط سے اسے ملازمت مل گئی۔ ویسے بھی ایم بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد کاروبار میں پیسہ ڈبونے کے لیے کہاں سے لاتی۔ ملازمت مل تو گئی لیکن اس صوبے میں جہاں کی یونیورسٹی میں ایم بی اے کیا تھا۔ بہن بھائیوں کے پاس دور پار کی بزرگ خاتون کو چھوڑااور ہاتھ میں بیگ پکڑے جائے ملازمت پر جا پہنچی۔
جاتے ہی پتہ چلا کہ دو اور لوگوں کی بھی آج ہی ملازمت کا پہلا دن ہے ۔
اسے کسی سے غرض نہیں تھی کون کیا ہے کیسا ہے، بس وہ سامنے کاؤنٹر پر نیلی آنکھوں اور سنہری گھنے بالوں والے لڑکے پر دل ہار بیٹھی۔
تھوڑی سی دیر میں ان کا آپس میں تعارف بھی ہوگیا ۔اس لڑکے کو پہلے سے معلوم تھا کہ جو لڑکی اس کے سامنے والے کاؤنٹر پر آرہی ہے اس کا نام ادیبہ منظور، قد پانچ فٹ تین انچ ،رنگت گلابی اور شہر ملتان سے تعلق ہے ۔
ادیبہ نے حیرت سے پوچھا۔
’’تم کو کیسے معلوم ہؤا ؟ ہم تو آپس میں کبھی ملے تک نہیں ‘‘۔
وہ لڑکا جس کا نام بلند بخت تھا بڑی ادا سے مسکرایا پھر کھلکھلا کر ہنس دیا ۔
بس اس کی کھلکھلا کر ہنسنے میں کوئی ایسی کشش تھی کہ وہ مقناطیس کی طرح اس کی طرف کھنچتی چلی گئی ۔
پہلے دن کی ملازمت کے اختتام پر دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ نمبروں کا تبادلہ کیا، ایک دوسرے کے حالات سے آگاہی ہوئی اور دونوں ایک دوسرے کو خوش دلی سے الوداع کہہ کر رخصت ہوئے۔
اس کے بعد ہر آنے والا دن دونوں کے تعلقات میں اضافے اور اس میں پختگی کا باعث بنا۔
دونوںبینک سے کسٹمرز اور کلائنٹس کے جانے کے بعد یا لمحاتی

دونوںبینک سے کسٹمرز اور کلائنٹس کے جانے کے بعد یا لمحاتی فرصت ملنے پر خوب باتیں کرتے، دنیا کے ہر موضوع پر بات کرنے کے لیے ان کے پاس وقت ہوتا ۔گھر جانے کی دونوں کو جلدی نہ ہوتی تھی۔ تاہم ادیبہ نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک ملازمت شام کے وقت بھی کر لے گی تاکہ بہن بھائیوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے وہ معقول رقم بھیج سکے۔ جونہی اس نے اپنے ارادے کا اظہار بلند بخت سے کیا وہ بری طرح سے چونکااور بے اختیار اس کا ہاتھ تھام لیا۔
اس کی آنکھوں میں ایسا کچھ تھا کہ وہ پلک جھپکنے کے برابر عرصہ کے لیے گنگ ہوگئی ۔گودونوں ایک دوسرے کو اپنے پسند کے تحائف سے مالا مال کرتے تھے انڈر سٹینڈنگ بھی اچھی تھی تاہم ادیبہ ایک حد میں تھی۔ اس طرح لڑکے کے ساتھ خواہ وہ کتنا ہی قریب کیوں نہ ہو منہ اٹھا کر چل پڑنا اس کی خاندانی روایات کے خلاف بھی تھا اور ذاتی طور پر بھی سخت ناپسند ،اس کے خیال میں ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر گھومنے پھرنے کھانے وغیرہ کے لیے یہ ہاتھ نامحرم ہی ہیں لیکن جونہی بلند بخت نے اس کی شام کی نوکری کا سنااور بے ساختہ ردعمل دکھایا تو وہ کچھ نہ کہہ سکی۔ بلند بخت کی ہتھیلی نرم تھی مگر گرفت سخت اور وہ اسے دو ٹوک طریقے سے منع کررہا تھا۔
’’ہر گز ضرورت نہیں ‘‘اس کے ہاتھوں کی انگلیوں میں جلتی سگریٹ قریب قریب ختم ہونے کو تھی۔ دھوئیں کا مرغولہ اس نے بے تکلفی سے ادیبہ کے منہ پر پھینکا۔
’’لیکن کیوں؟ نوکری میری ضرورت ہے میں اپنے سارے حالات تمہیں بتا چکی ہوں ‘‘پہلی مرتبہ ادیبہ کو اس کے رویے پر جھنجھلاہٹ سی محسوس ہوئی
’’اور اگر میں ایسا حل پیش کروں کہ تمہیں دو جگہ پر ملازمت بھی نہ کرنی پڑے،تمہارے بہن بھائی بھی تمہارے پاس ذاتی گھر میں رہائش پذیر ہو جائیں ،پھر ؟‘‘ اس نے جان بوجھ کر بات مکمل کرنے سے پہلے روک دی ۔
’’وہ کیسے ؟ بھلا یہ کیسے ممکن ہے میں تو خود ہاسٹل میں رہتی ہوں‘‘وہ تیزی سے بولی ’’اور میرے پاس کرائے کے دو کمروں کے گھر کے پیسے بھی نہیں ہیں‘‘۔
بلند بخت مسکرایا۔
’’ یہ مجھ پر چھوڑ دو، کہا ناں تمہارے مسئلے اب میرے مسئلے ہیں ، میرے پاس بہترین حل ہے ‘‘۔
’’وہ کیا ؟‘‘ ادیبہ کے لہجے سے بے تابی جھلک رہی تھی ۔
’’ وہ یہ کہ… ‘‘بلند بخت نے جان بوجھ کرسسپنس پیدا کیا’’وہ یہ کہ ہم دونوں ایک ہوجائیں اس طرح میرا گھر تمہارا گھر ہوجائے گا ، میرے لیے تمہارے بہن بھائی گھر کے افراد ہی شمار ہوں گے ‘‘۔
ادیبہ کے لیے یہ سب بہت غیر متوقع تھا۔وہ بس یہی کہہ سکی ’’ تم میرا مطلب ہے آپ خود ابھی نئی جاب پر ہیں ‘‘۔
بلند بخت قہقہہ لگا کر ہنسا ۔
’’میری جان یہ میری اس سال میں تیسری ملازمت ہے۔ میں شوقیہ ملازمت کرتا ہوں ٹائم پاس کرنے کے لیے ،بتایا تو تھا میرے والدین امیر کبیر شخصیات ہیں امریکی کاروباری دنیا میں ذرہ برابر ہی سہی ان کا بھی حصہ ہے ،میں خود سال میں ایک دو مرتبہ ضرور وہاں جاتا ہوں،یہاں بڑا سا فلیٹ ہے کروڑوں کا ،خالی پڑا ہے ،تمہارے بہن بھائی یہاں آجائیں گے تو رونق ہو جائے گی‘‘۔
’’تو… تمہارا مطلب ہے نکاح کرلیں ہم ؟‘‘ادیبہ نے سوال کیا تاکہ کوئی ابہام نہ رہے کہ وہ کیا چاہتا ہے۔
’’اگر ایک ہونے کے لیے نکاح ضروری ہے تو یہی سہی ‘‘وہ مسکرایا ۔
ادیبہ کو تو جیسے خواب کا دھوکا ہورہا تھا۔اس کے بعد تو گویا دونوں کے اندر ایک آگ لگی ہوئی تھی کب نکاح کے دو بول پڑھے جائیں اور وہ ایک ہو سکیں۔بلند بخت نے پہل کی اور رشتہ ڈالا ۔رکاوٹ دونوں طرف کوئی نہیں تھی۔ بلند بخت کے امیر والدین فلاڈلفیا میں مقیم تھے، پاکستان وہ بس قریبی رشتے داروں کے انتقال پر ہی آتے، خوشیوں کے مواقع پر وہ وہاں سے تحائف بھیج دیا کرتے تھے ۔
ادیبہ کے لیے بہترین یہی تھا کہ وہ اس رشتے کی پیشکش کو قبول کر لیتی سواس نے کر لی۔

چوبیس گھنٹوں کے اندر دونوں کا نکاح بعوض سات تولے سونا پڑھا دیا گیا ۔دونوں طرف سے بنک کے ملازمین گواہ تھے ۔
ادیبہ پارٹی میک اپ ،نفیس کندن کے سیٹ اور میرون لہنگے میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔مگر بلند بخت…اس پر تو جیسے نظر نہ ٹھہرتی تھی، ایسے جیسے نوخیزشہزادہ۔ نکاح بلند بخت کے خوبصورت لگژری فلیٹ میں ہوا۔ادیبہ سے جہاں کہا گیا اس نے دستخط کردیے اور قانونی طور پر مسز بلند بخت کے رشتے میں بندھ گئی۔
بلند بخت نے ہاتھ کے اشارے سے نکاح خواں کو رخصت کیا اور ملازمین کو مداخلت نہ کرنے کا کہہ کر کمرہ بند کرنے کے لیے اٹھا ۔جوں ہی وہ وہاں سے اٹھا،ادیبہ کی نظر اس کی سنہرے دمکتے کام والے کلاہ اور میرون شیروانی پر پڑی جس کے نیچے تلّے کے کام والا کھسہ نہیں سنہری رنگ کی باریک ہیل والا زنانہ جوتا تھا۔
ادیبہ کا سانس رکا ،اس نے آنکھوں کو مسل کر دوبارہ دیکھا ۔
ہاں وہ ہیل والا سنہری جوتا تھا۔ اس کے پاؤں پر جارڈش سٹائل میں مہندی اور پاؤں کے ناخنوں پر گرے میرون کلر میں نیل آرٹ بنا ہؤا تھا۔اس کے منہ سے بے اختیار چیخ نکلی ۔
شیروانی اتارنے میں مگن بلند بخت نے چونک کر اسے دیکھا ۔
’’کیا ہؤا ؟‘‘
تمہارے پاؤں میں عورتوں والا … میرا مطلب ہے ہیل والا جوتا ،مہندی والے پاؤں اور ناخنوں پر ڈیزائن بناہؤا ہے،،وہ شش و پنج میں بولی ۔
’’تو کیا ہؤا ؟ کیا مجھے اپنی مرضی سے کچھ کرنے کا حق نہیں‘‘وہ مسکرا کر قریب ہؤا۔ اس کے وجود سے قیمتی ترین خوشبوؤں پر سگریٹ کی اور کچھ عجیب ناگوار سی بو آرہی تھی۔
’’ مجھے عورتوں کا جوتا پسند ہے۔ گھر میں میں یہی پہنتا ہوں۔ مہندی پسند ہے تو ہاتھوں پر لگوانے والے حالات نہیں پاؤں پر لگوا لیتا ہوں،اس میں ٹینشن لینے کی کیا بات ہے‘‘۔
’’لے کن … ‘‘ادیبہ ہکلائی
’’افوہ کم آن… چھوڑو انجوائے کرنے کی رات ہے یا ٹینشن لینے کی ‘‘بیزاری سے بلند بخت بولا ۔
شیروانی اتار کر کلاہ ایک طرف رکھنے کے بعد اس نے اب نارمل ڈریس پہنا ہؤا تھا ٹی شرٹ اور ٹراؤزر ،کہیں سے وہ لڑکا نہیں دکھائی دے رہا تھا۔
ادیبہ نے پریشانی سے اس کی طرف دیکھا ۔اس نے ادیبہ کے پاس آنا چاہا، وہ ڈر کر دور ہوئی۔
’’تم بتاتے کیوں نہیں ؟‘‘
مگر اب غور کرنے پر اسے اپنے چاروں طرف شوخ شوخ مخصوص رنگ نظر آرہے تھے۔ بیڈ شیٹ ،ٹی شرٹ ،ٹراؤزر کے علاوہ اس کے کمرے میں موجود برتن گلاس مگ وغیرہ سب انہی لال پیلے نیلے رنگوں میں تھے۔
وہ بچی نہیں تھی ،اسے سمجھ آرہی تھی کہ یہ رنگوں کی قوسِ قزح کیا معنی رکھتی ہے۔اب اسے سمجھ میں آرہا تھا کہ بلند بخت لڑکا نہیں ہے وہ لڑکا بن گیا ہے خواہش اور منصوبہ بندی سے، لیکن وہ لڑکی ہے۔
اس کا دماغ گھوم رہا تھا اسے سمجھ میں آچکا تھا وہ بہت بری طرح سے پھنس چکی ہے۔ اس میں بے شک اس کی اپنی بھی جلد بازی اور جلد بھروسہ کرنے کی فطری عادت شامل ہے تاہم وہ ہوش و حواس میں تھی۔ اسے حوصلہ تھا کہ اس کے حلقہ احباب میں بہت سے باشعور ،اور اختیار رکھنے والے کلاس فیلوز ان کے عزیز و اقارب شامل ہیں،اب اسے بہت حکمت اور تدبر کے ساتھ اگلا قدم اٹھانا ہے چاہے جان جائے یا مال دونوں ،ان سے زیادہ اسے اپنا دین اور دین دینے والا رسولؐ محبوب ہیں۔
ٹھنڈا سانس لے کر وہ دل ہی دل میں اپنی سلامتی کے لیے دعا میں مصروف ہوگئی۔ جو بھی کرنا تھا اسے بہرحال سوچ کر ہی کرنا تھا۔ کراٹے کی ماہر ہونا اپنی جگہ پر لیکن کچھ نئے حالات کے مطابق قدم اٹھانا ہی تھا۔
٭٭٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x