ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

کھلتی کلیاں- نور اپریل ۲۰۲۱

اللہ بخش درزی
محسن ابڑو پنجتنی
اللہ بخش کی شروع سے ہی پڑھائی میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ والد صاحب بہت سمجھاتے تھے کہ بیٹا پڑھو گے لکھو گے تو بنو گے نواب۔
اللہ بخش اسکول تو جاتا تھا مگر اس کی کارکردگی ہمیشہ مایوس کن ہی رہتی ۔ وہ بہت کوشش کے باوجود سبق یاد نہ کر پاتا ۔ یوں رفتہ رفتہ وہ پڑھائی سے ہی بے زار ہو گیا۔ اللہ اللہ کر کے اس نے میٹرک پاس کیا۔
ایک دن اللہ بخش کے والد عبد الرحمن کو ان کے دیرینہ دوست راشد صاحب نے مشورہ دیا ’’اگر تمھارے بچے کا پڑھائی میں دل نہیں لگتا تو اس سے پوچھو تو سہی آخر وہ کیا کرنا چاہتا ہے۔‘‘
چناں چہ عبد الرحمن صاحب نے اللہ بخش سے پوچھا: بیٹا آپ کا پڑھائی کی طرف رحجان نہیں ہے تو آپ کی کیا خواہش ہے ؟ آپ کا کیا بننے کا ارادہ ہے ، ہمیںبتائیں ہم آپ کی وہ خواہش پوری کر دیں گے ۔
اللہ بخش ان کے نرم لہجے اور حوصلہ افزا رویے پر سخت متعجب ہوا ۔ جھجکتے ہوئے بولا :
’’ بابا جان میں نے جتنا پڑھنا تھا وہ پڑھ لیا اب میں کوئی ہنر سیکھنا چاہتا ہوں ۔‘‘
بابا جان بولے :’’ ٹھیک ہے بیٹا جو تمھاری مرضی ہو، وہ کرو میں کل تمہیں اپنے دوست گلفام کے پاس لے چلوں گا وہ تمھیں درزی کا کام سکھا دے گا ۔‘‘
دوسرے دن وہ اللہ بخش کو گلفام کے حوالے کر آئے۔ گلفام صاحب عبد الرحمن صاحب کے قریبی دوست تھے ۔ وہ اللہ بخش کو سلائی سکھانے پر آمادہ ہو گئے ۔ اللہ بخش بڑی دل جمعی کے ساتھ کام سیکھتا رہا۔ آہستہ آہستہ اس کے کام میں نکھار پیدا ہو تا گیا اور وہ ایک ماہر درزی بن گیا۔
استاد گلفام اس سے بہت خوش تھے۔ محلے بھر میں اللہ بخش کا طوطی بولنے لگا وہ نت نئے جوڑے بنانے میں مہارت حاصل کر چکا تھا اللہ بخش کے والدین بھی حیران رہ گئے کہ ہمارا بچہ تو بڑے گن والا تھا ہم نے خواہ مخواہ زبردستی اسے پڑھنے پر مجبور کیے رکھا ۔
رمضان شریف کی آمد آمد تھی دکان پر لوگوں کا تانتا بندھا ہوا تھا کہ بس اب کی بار کپڑے سلوانے ہیں تو اللہ بخش سے ہی سلوانے ہیں زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اللہ بخش نے اپنا بوتیک کھو ل لیا ۔ ’’ اللہ بخش ‘‘ اب ملک کا مشہور برینڈ ہے جس کے گاہک اندرون ملک ہی نہیں ، بیرون ملک بھی ہیں ۔ عبد الرحمن صاحب اپنے دوست کے احسان مند ہیں جن کے مخلصانہ اور بر وقت مشورے نے ان کے بیٹے کی زندگی بنا دی اور آج وہ کامیاب انسانوںکی صف میں کھڑا ہے۔
نماز میں خشوع
تیمیہ بنت موہب
ایک تھے مسلم بن یسارؓ وہ بہت توجہ سے نماز پڑھتے تھے اتنے دھیان سے کہ انہیں پتہ ہی نہ ہوتا کہ ارد گرد کیا ہو رہا ہے ۔ ایک دن وہ مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے تو ایک طرف کونے سے چھت گر گئی ۔ سارے لوگ گھبرا کر کھڑے ہو گئے مگروہ نماز پڑھتے رہے ۔ جب انھوں نے نماز پڑھ لی تو لوگوں سے پوچھا :
تم لوگ یہاں کیوں کھڑے ہو؟ انھوں نے کہا :
’’آپ کو نہیں پتہ چلا کہ کونے سے چھت گر گئی ہے ؟‘‘
انھوں نے کہا : نہیں مجھے تو نہیں پتہ چلا یہ تھا ان کا نماز میں خشوع اور خضوع۔
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x