ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

بتول میگزین – بتول جون ۲۰۲۳

ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
سعدیہ نعمان
ہمارے ارد گرد ایسے کردار موجود ہوتے ہیں جو کسی کی نظر میں بھی اتنے اہم نہیں ہوتے اور دراصل وہی معاشرے کی بنیادی اکائی ہوتے ہیں وہ اپنے حصے کا بوجھ بہت ذمہ داری سے اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں ان کی قدر جان کر ان کی حوصلہ افزائی کر یں معاشرے میں مجموعی طور پہ پھیلتی مایوسی میں وہ امید کی کرن ہیں ایسے ہی کچھ کرداروں سے آج میں آپ کو ملوانا چاہوں گی۔
یہ حفیظ انکل رکشہ والے ہیں ٹھیک سات بج کے دس منٹ پہ ”چلو جی ی ی صاب جی ی ی‘‘ کی گرجدار آواز کے ساتھ وہ گیٹ پہ موجود ہوتے اور بچے کبھی سکول سے لیٹ نہ ہوتے وہ پورے ٹاؤن کے حفیظ انکل ہیں ان کا دن صبح فجر کی با جماعت نماز سے شروع ہوتا ہے اور رات دس بجے تک مسلسل وہ سکول کالج اور اکیڈمی کے بچوں کو چھوڑتے ہیں ریٹا یر فوجی ھونے کی وجہ سے وقت کے اتنے پابند ہیں کہ دو منٹ پہلے تو آ سکتے ہیں دو سیکنڈ دیر سے نہیں سردی گرمی کے شدید موسموں میں جب وہ رکشہ میں بچوں کو بحفا ظت لے جا رہے ہوتے ہیں ان کے اپنے بچے اسی راستے سے پیدل سکول جا رہے ہوتے ہیں۔ ان کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے یہ پچھلی گرمیوں ایک سخت گرم دوپہر تھی ملتان شہر مٹی کا اخیر اور لو کے تھپیڑے۔ بچوں کے آنے کا وقت ہو رہا تھا ان کے آ نے سے پہلے ٹھنڈا روح افزا تیار تھا ڈیڑھ بجے سے کچھ پہلے فون کی گھنٹی بجی حفیظ انکل تھے اور جو پیغام وہ رندھی ہوئی آ واز میں دے رہے تھے سن کر لگا کوئی قیامت سی قیامت ہے۔
’’باجی میرا بیٹا فو ت ہو گیا ہےبچوں کو سکول سے لے لیں میں نہیں لے سکوں گا‘‘۔
بچوں کو گھر تک خیریت سے پہنچانے والے حفیظ انکل کے اپنے انیس سالہ جوان بیٹے نے کالج سے واپسی پر گرم لو کی لپیٹ میں آ کر عین نشتر ہسپتال کے چوک میں جان ہار دی تھی۔ اور اس قیامت کے برپا ہونے پہ بھی احساس ذمہ داری کا یہ عالم ہے کہ وہ سب والدین کو مطلع کر رہے ہیں۔
ٹھیک چار دن بعد گیٹ پہ سات بج کے دس منٹ پہ ایک آواز بلند ہوتی ہے ’’چلو جی ی صاب جی ی‘‘ ہم حیران قد موں سے جا کے دیکھتے ہیں تو حفیظ انکل رکشہ کے ساتھ مو جود ہیں۔ ہما رے کہنے پہ کہ انکل آپ کیوں آ گئے کہ ابھی تو زخم بہت تازہ ہے کہنے لگے ذمہ داری تو نبھانی ہے ناں صاب جی۔ فرق یہ تھا کہ ان کی آ واز میں وہ گرج نہ تھی اور کندھے جھکے ہوئے تھے لیکن ان کا قد معمول سے بڑا لگ رہا تھا۔
٭ ٭ ٭
حفیظہ
ڈاکٹر فلزہ آفاق
یہ سن2000کی بات ہے جب ہمارے کالج کے پرنسپل صاحب نے طالبات کے کردار کی تعمیر کے لیے سٹاف کے لوگوں کو ہوسٹل میں تعینات کرنے کا ارادہ کیا ۔ چنانچہ راقمہ کو بھی ایک بلاک کی نگران مقرر کر کے ہوسٹل ہی میں رہائش دے دی گئی ۔ وہاں کے تجربات اور مشاہدات ایک الگ داستان ہیں ، مگر اس وقت میں ایک ایسی شخصیت کا ذکر کرنا چاہتی ہوں جس نے اس دوران مجھے بہت متاثر کیا اور ان کے بارے میں لکھنا مجھ پر قرض تھا ۔
حفیظہ کی تعیناتی ہوسٹل میں بطور کچن ہیلپر کے ہوئی تھی مگر وہ باقی خواتین کی طرح طالبات کے اپنے حصے کے کمروں کی صفائی اور برتن دھونے پر معمور تھیں البتہ ظاہر اور باطن میں وہ سب سے الگ مقام رکھتی

تھیں۔
جیسا کہ زمانے کا دستور ہے ، باقی ورکر خواتین کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ نگران کو راضی رکھنے کے لیے چکر لگائیں اور خوش بیانی سے بھی متاثر کرنے کی کوشش کریں مگر حفیظہ ، جو سادہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے ہمیشہ سادہ سی چادر میں لپٹی ہوئی صرف نماز سکون سے پڑھنے کے لیے کبھی کبھی میرے کمرے میں آجاتی تھیں اور اپنے کام سے کام رکھتی تھیں ۔ اس دوران اچانک ایک دن ان کا بڑا بیٹا ایک حادثے میں اللہ کے بلاوے پر جہان فانی سے رخصت ہو گیا اور ایک جوان بیوہ (جو ان کی بھتیجی تھی ) اور دو چھوٹی بچیاں پیچھے رہ گئیں ۔ اُن کے پہلے شوہر جن سے دو بیٹے تھے ، جلدی وفات پا گئے تھے ۔ دوسرے شوہر سرکاری ملازم تھے ۔ اس آزمائش پر حفیظہ نے بڑے صبر سے کام لیا اوربیٹے کی بیوہ اور بچیوں کے کاموں میں دونوں میاں بیوی جُت گئے ۔
جب کچھ نا گفتہ بہ حالات کی وجہ سے ہوسٹل سے جانے کا ارادہ کیا تو دیگر ورکر خواتین نے آنا کم کر دیا اور بعد میں بھی سر سری سا تعلق رکھا مگر حفیظہ سے قلبی تعلق کا آغاز اس وقت ہؤا جب انہیں ہم سے کوئی غرض نہ تھی ۔ انہوں نے اپنی کمر کی شدید تکلیف کے باوجود سامان پیک کرنے ، بجھوانے اور نئی جگہ سیٹ کرنے میں ہماری بہت مدد کی ۔ یوں لگتا تھا کہ اُن کے خلوص نے کوئی جناتی کیفیت ان میں بھر دی ہے ۔ مشکل سے مشکل کام کو اپنے جذبے سے آسان کر لیتی تھیں۔ گاہے بگاہے وہ ہم سے اور بچوں کی دادی جان سے خصوصاً ملنے آتی رہیں۔
لیکن اصل بات جو میں بیان کرنا چاہتی ہوں وہ اس کے بعد کی ہے ۔ ریٹائر منٹ سے کچھ سال قبل ان کے والد کا انتقال ہؤا تو انہیں آبائی جائیداد سے کچھ رقم ملی ۔ بچوں نے مشورہ دیا کہ کوئی پلاٹ خرید لیں جو آئندہ کام آ سکے ۔ مگرانہوں نے کہا کہ میں تو اس رقم سے حج کروں گی ۔ جب ریٹائرمنٹ ہو گی تو پلاٹ کا دیکھیں گے ۔ چنانچہ وہ اور ان کے میاں حج پر روانہ ہوئے ۔ ہمیں فکر تھی کہ کمر کی تکلیف کے ساتھ کیسے سارے ارکان ادا کریں گی ۔ مگر جب واپس آئیں تو بے حد خوش تھیں کہ زیادہ تر وقت حرم میں ہی گزارا ( جب کہ ہوسٹل کی کچھ بچیوں نے مکہ میں اپنے گھر کی آفر کی تھی ) اور سارا دن طواف اور عبادت میں وقت گزارا ۔ کسے معلوم تھا کہ اگر حج کو ریٹائر منٹ کی رقم ملنے تک موخر کر دیتیں تو پھر یہ موقع ہاتھ سے چلا جاتا۔
کچھ عرصے بعد بیماری کی صورت میں آزمائش آئی ، کچھ ماہ ہسپتال کے بستر پر بڑے صبر سے گزارے ۔ تندرست ہو کر میکے گئیں اور واپسی پر اچانک ایک ٹریفک حادثے میں اللہ کو پیاری ہو گئیں ۔ حج کا فریضہ ادا کر لیا اور پلاٹ کی خریداری بچوں کے لیے چھوڑ دی ۔ آج بھی ان کا پر سکون ، مسکراتا محبت بھرا چادر میں لپٹا چہرہ نظروں کے سامنے آتا ہے ۔ کم پڑھی لکھی ہونے اور وسائل کی کمی کے باوجود ان کا صبر اور قناعت … کیا وہ ولی اللہ تھیں ؟ واللہ اعلم ۔
ہم نے اپنے نئے گھر کی اینٹ ان سے بھی رکھوائی تھی ، ان کی دعائوں کے ساتھ۔ اللہ تعالیٰ ان کی تمام نیکیوں کو قبول فرمائیں اور ہمیں بھی دنیا سے ایسی بے نیازی اور آخرت کی فکر عطا فرمائیں ، آمین۔
٭٭٭
راحت
رخسانہ اقبال راؤ
شام کا وقت تھا جب وہ پہلی بار ہمارے گھر آئی۔
’’باجی مجھے کسی نے بتایا ہے کہ آپ غریبوں کی مدد کرتی ہیں، مجھے کچھ قرض چاہیے میں انشاءاللہ جلد ہی اتار دوں گی‘‘۔
راحت نے اپنا مدعا بیان کیا ۔دیکھنے میں بہت خستہ حال لگ رہی تھی عمر کوئی چالیس بیالیس سال ہوگی ۔اس کی شکل سے سچ ٹپک رہا تھا۔
میں نے حدود اربعہ معلوم کیا تو پتہ چلا کہ بچپن میں ایک بینک آفیسر کی بیٹی تھی والد کے فوت ہونے کے بعد ماں بینک میں ان کی جگہ جاب کرتی رہی۔ شادی کے بعد حالات نے پلٹا کھایا۔ساس کے ظلم اورشوہر کی بےاعتنائی کے سبب یہاں تک نوبت آگئی کہ بچوں کی تعلیم اور بنیادی ضرورتوں کے لیے قرض مانگنے پر مجبور ہو گئی ہے۔
’’کتنے پیسے چاہئیں؟‘‘میں نے پوچھا’’ اور واپس کیسے ادا کروگی؟‘‘

’’صرف دو ہزار ۔تینوں بچے پڑھائی کر رہے ہیں اور بیٹی کا میٹرک کا داخلہ بھیجنا ہے۔آپ مجھ سے کچھ کام کروا لیا کرنا اس طرح آپ کے پیسے اتار دوں گی‘‘۔
میں اپنی پچھلی کام والی کے نت نئے مطالبات سے تنگ آئی ہوئی تھی جس سے کام تو پورا نہ ہوتا مگر پیسے مسلسل بڑھانے کا تقاضا تھا۔کئی دن سے مسلسل میں دعا گو تھی کہ یا اللہ کوئی ایک مخلص ملازمہ مل جائے جس کے ساتھ سر نہ کھپانا پڑے اور وہ لالچی بھی نہ ہو ۔کوئی قبولیت کا لمحہ تھا، راحت کا شائستہ انداز گفتگو دیکھا تو ایکدم دم دل کو بھا گئی۔پیشہ ور کا م والیوں سے بالکل مختلف۔
’’اچھا کل دس بجے آ جانا‘‘۔
جب اس نے کام شروع کیا تو میں نوٹ کر رہی تھی کہ وہ بہت ٹینشن میں تھی اور کام بھی اس سے ٹھیک نہیں ہو رہا تھا پوچا تو اس کو بالکل لگانا نہیں آتا تھا ۔میرے استفسار پر بتایا کہ گھر میں بیٹیاں صفائی کر لیتی ہیں البتہ میں کوشش کروں گی کہ آپ کی مرضی کے مطابق کام کروں۔ شروع میں ہفتے میں دو دن آتی مگر پھر پیسوں کی زیادہ ضرورت پڑی تو روز آنے لگی اور کچھ ہی عرصہ میں تربیت یافتہ ہو گئی۔نہ میرا کوئی وقت مقرر تھا نا اس کا کیونکہ میں نے اکثر اجتماع کے لیے نکلنا ہوتا تو اس کو اسی کے مطابق وقت دے دیتی۔اسے بھی اگر ناغہ کرنا ہوتا تو ایک دن پہلے ضرور بتا دیتی۔
اپنے مخصوص انداز سے تین مرتبہ دروازہ کھٹکھٹاتی نہ کھلتا تو واپس چلی جاتی۔میں نے کئی دفعہ کہا کہ اکثر میں نماز پڑھ رہی ہوتی ہوں یا واش روم میں ہو ں تو آواز نہیں آتی تھوڑا انتظار کر لیا کرو۔کہتی،باجی میں نے سوچا کہ آپ ڈسٹرب نہ ہو ں۔اور تم جو اتنی دور چل کر پھر واپس گئیں؟ میں پوچھتی تو کہتی،وہ تو مجھے اور بھی کئی کام تھے آپ کا گھر راستے میں ہے۔
کام کے دوران جیسے ہی اذان ہوتی ہے وضو کر کے جھٹ سے کسی کونے میں جاکر نیت باندھ لیتی۔میں نے بھی گیر اج کے کونے میں ایک جائے نماز رکھا تھا تاکہ لان میں خالص آکسیجن لیتے ہوئے نماز پڑھ سکوں،وہ اس نے اپنے لیے مختص کر لیا ۔میرے نواسے نواسیاں جب ملنے آتے تو ان کے بھی بڑے لاڈ اٹھاتی جس کی وجہ سے سب بہت مانوس ہوگئے۔
ایک دن بچوں کا ناشتے کا موڈ نہیں تھا تو میں نے پراٹھا آملیٹ ڈھک کر رکھ دیا کہ دو تین گھنٹے بعد خود ہی مانگیں گے۔جب راحت کچن کا کام کرکے گئی تو وہ بچا ہؤا سمجھ کر کھا چکی تھی۔مجھے اندازہ ہوا کہ اسے مانگنا اچھا نہیں لگتا مگر بھوکی ہوتی ہے۔اب میں اکثر دانستہ کچھ چائے یا کھانا وغیرہ رکھ چھوڑ تی۔باسی روٹی بچے سالن چاول سب بخوشی قبول کر لیتی یہی عاجزی اس کی بہت بھاتی تھی کہ رزق ضائع نہیں ہونے دیتی۔پیر جمعرات یا ایام بیض کے روزے لازمی رکھتی،کبھی اسے دو تین دن کے لیے اپنے گاؤں وغیرہ چھٹی پر جانا پڑتا تو خود سے کام نہ ہو سکنے کے باعث میں بہت جھنجلاہٹ کا شکار ہوجاتی اور بچوں پر ڈانٹ ڈپٹ کرتی تو بچے کہتے ، امی آج آپ کی best friend نہیں آئی اس لیے موڈ خراب ہے۔
آخر طویل مشقت کے بعد بعد راحت کی بیٹی کی شادی کا وقت آیا اور بیٹا نوکری کی تلاش میں پھر رہا تھا تو اس نے کہا باجی مہنگائی اتنی بڑھ گئی کہ ہے گزارا نہیں ہورہا کیا کروں۔میں بھی مزید پیسے بڑھانے کی متحمل نہیں تھی لہٰذا میں نے مشورہ دیا کہ میرے گھر سے تم دو گھنٹے میں فارغ ہو جاتی ہو دن بھی بڑے ہیں ایک دو اور گھر لے لو مجھ سے خواتین پوچھ رہی تھیں کہ اچھی کام والی بتاؤ۔
وہ جیسے ہی ان دونوں گھروں میں گئی انہوں نے اس کو ہاتھوں ہاتھ لیااور اس طرح وہ بیچاری کام کرنے کی ایک مشین سی بن گئی،جذبات احساسات جیسے بالکل مر گئے۔حالانکہ اس کے گھر والوں نے اپنا ایک سٹینڈر ڈمینٹین کر رکھا تھا اور انہیں یہ بات چھپانی ہوتی تھی کہ ماں گھرو ں میں کام کرتی ہے۔اگر کبھی اس کے بی ٹائم آ نے پر غصہ آتا تو تھوڑا سا ڈانٹ کر بھی بعد میں بہت پشیمانی ہوتی۔اس کی التجا یہ نظروں سے بہت خوف آتا تھا کہ کہیں دکھی دل کی آہ فلک نہ چیر دے۔کئی سال اپنے نام کے مصداق اس نے بہت راحت پہنچائی پھر اس کا میاں جوبہت دنوں سے فارغ تھا اس کا کام کسی دوسرے شہر میں لگ گیا۔اب اسے ایک شادی ہال میں کام ملا تھاجہاں رہائش اورکھانا فری ملتا تھا۔اس نے فوراً

فون کرکے بیوی کو بھی بلا لیا جو دن بدل لاغر ہوتی جا رہی تھی۔یو ں اپنی بساط سے بڑھ کر مشقت سے اس کی جان چھوٹی اور میں ایک بہترین دوست سے محروم ہوگئی۔
٭ ٭ ٭
ہماری ارجمند خالہ
قدسیہ ملک
کئی سال پہلے ہم جب اپنے نئے گھر شفٹ ہوئے تووہ ہماری نانی کے گھر سے کافی نزدیک تھا۔ گھر کافی بڑا تھا اور ہم چھوٹے چھوٹےنو بہن بھائی۔امی ابو دونوں مصروف ترین لوگ۔لیکن اس مصروفیت میں بھی ہماری تربیت اور تعلیم میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔امی سب بچوں کو فجر پر اٹھادیتی تھیں ،پھرہم سب بچے اسکول جاتے ۔بس امی کو ایسی ہی ایک کام والی خاتون مل گئیں جو اسی وقت ہمارے گھر آجاتی تھیں،نانی کے گھر بھی کام کرتی تھیں اس لیے آسانی ہوگئی ۔بعد میں انہیں ہمارا گھر اور ہماری اپنائیت اتنی پسند آئی کہ بس وہ صرف ہمارے ہی گھر آتی تھیں۔آتے ہی ہمارے بستر اور تکیے کھینچنا شروع کردیتیں۔اس وقت تو بہت برا لگتاتھالیکن امی ابومزدوروں نوکروں گھر میں کام کرنے والےمالی بابا جمعدار سے تلخ لہجے میں بات کرنے کے بالکل روادار نہ تھے ۔اگر کبھی کسی بھائی یا بہن نے تھوڑا زور سے بات کرلی تو اس کو سزا کے طور پر ان سے معافی اور سو دفعہ اپنی کاپی پر لکھنا پڑتاکہ آئندہ ایسی حرکت نہ ہوگی۔
خیر ہماری ارجمند خالہ ہیں بھی بہت اچھی….سارا کام جلدی جلدی نبٹاکرامی سے مزید کسی کام کاپوچھتیں۔پٹھان تھیں پشتو ہی میں بات کرتی تھیں، انکی بیٹی ساتھ ترجمہ کرتی جاتی لیکن میں اب بھی ان کی پشتو سمجھ جاتی ہوں۔ پشاور جب بھی جاتیں ہمارے لیے دنداسہ لیکر آتی تھیں۔امی بھی انہیں بالکل اپنی بڑی بہنوں کی طرح رکھتی تھیں۔بچے بڑے تھے بس دو چھوٹی لڑکیاں تھیں۔آج سے بیس سال پہلے انہیں گھر بنانے کیلیے پیسوں کی اشد ضرورت تھی تو امی نے انہیں اچھی خاصی رقم دی اورگھر میں کسی کو اس بات کا پتا بھی نہ چلنے دیا۔وہ تو عید پر آئیں اور تذکرہ کیا تو ہمیں پتہ چلا نہیں تو ہم اس بات سے بے خبر ہی رہتے۔ایسے بہت سے کام امی بھی خاموشی سے کردیاکرتی تھیں۔جب میری بڑی بہن کی شادی ہوئی تو وہ اپنے ہاتھوں سے چمکیلا سالحاف بنالائیں اور باجی کے بکسے میں رکھ دیا۔بس امی نے چپکے سے کچھ رقم ان کے ہاتھ میں رکھ دی کیوں کہ وہ مستحق تو تھیں نا….جب باجی کےبچوں کیلیے امی کسی اچھی آیااماں کے لیے پریشان تھیں انہوں نے مالش سے لے کر سارے کام اپنے ذمے لے لیےاور باجی کا سوا مہینہ آرام سے گزارنے میں امی کی مدد کی۔یقین کیجیے یہ روپیہ پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا ایسے رشتے ناتے روپے پیسے سے نہیں خریدے جاتے۔
وہ آج بھی امی کے پاس آتی ہیں اور امی ان کے لیے اپنے پاس سے بہترین چیز ان کو ہدیہ کرتی ہیں ۔واقعی انہوں نے اس دور میں امی کا بہت ساتھ دیا جب ہم سب بہن بھائی بہت چھوٹے تھے اور امی کو ایسے پرخلوص مددگار کی بہت ضرورت تھی۔میرے خیال سے یہ امی کے پاس اللہ کی طرف سے آئی تھیں کیونکہ امی بھی اللہ کے دین کے لیے اپنے آپ کو وقف کرچکی تھیں تو اللہ نے ان کے لیے پرخلوص مددگار بھیجے۔ان کے حالات اچھے ہوگئے انہوں نے کام چھوڑ دیا لیکن امی کو دوبارہ ایسی مددگار خاتون نہیں ملی ۔کافی آئیں بس سال دو سال چار سال کے بعد امی کو دوبارہ ارجمند خالہ کی یاد ستانے لگتی۔اس کے بعد ہم بڑے ہوگئے اور ہم نے یہ ذمہ داریاں سنبھال لیں،لیکن ان سے محبت اور وابستگی دل میں اسی طرح جاں گزیں ہے۔
٭ ٭ ٭
ہماری کام والی آنٹی
انعم عبدالکریم
میری اماں جان کی میں ایک ہی لاڈلی بیٹی ہوں، ماشاء اللہ پانچ بھائیوں کی اکلوتی بہن، لاڈلے تو ہم صرف نام کے تھے، اماں جی نے ہمارا کوئی لاڈ گھر کے کاموں کے بارے میں نہ دیکھا تھا ،ہم سے گھر کاہر طرح کا کام کرواتی تھیں اور جب میں نے کبھی کہہ بھی دیا کہ اماں جان آپ مجھ سے سارے گھر کا کام کرواتی ہیں جب کہ میں تو آپ کی اکیلی بیٹی ہوں یہ ظلم کیوں کرتی ہیں تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا ،اکیلی بیٹی ہو اسی لیے کرواتی ہوں کہ جب تم بیاہ کر اگلے گھر جاو تو تمہیں کوئی مشکل نہ آئے۔

یہ کہہ کر وہ چپ ہو جاتیں اور میں سوچ میں پڑ جاتی کہ کیا یہ کام سیکھنا اس لیے ضروری ہے کہ مجھے شادی کر کے دوسرے گھر جانا ہے؟
پھر وہ وقت آیا جب اماں نے میرے سب سے بڑے بھائی کی شادی کے دن رکھے۔ گھر میں خوب شادی کی رونق تھی ہر طرف خوشی کا ماحول تھا بھابھی کے آنے کی بہت خوشی تھی۔ بھابھی میرے ماموں کی بیٹی تھیں بچپن ہی سے ہم سب انھیں جانتے تھے بہت پیارے اخلاق کی اور میٹھے مزاج کی تھیں۔ دل میں یہ سوچ سوچ کر خوشی ہو رہی تھی کہ اب بھابھی گھر آجائیں گی تو گھر کا کچھ کام وہ کرلیا کریں گی اور کچھ کام میں کروں گی۔ شادی بہت بہترین طریقے سے انجام پائی،بھابھی ہمارے گھر آگئیں۔ میں دل ہی دل میں اپنے کام کم ہونے کی خوشی منا رہی تھی کہ اماں جان نے اعلان کیا کہ بھابھی ابھی اس گھر میں نئی ہیں اس لیے سب ان کا خیال رکھیں گے، ایک ماہ کے بعد بھابھی کو کام کہا جائے گا وہ بھی کچھ میٹھا بنانے کے بعد۔ دل نے کہا ابھی ایک ماہ اور انتظار کرنا پڑے گا !
اللہ اللہ کر کے ایک ماہ پورا ہؤا تو میں نے اماں سے کہا کہ اب تو بھابھی کو بھی میرے ساتھ گھر کا کام کرنا چاہیے۔ اماں نے کچھ دیر سوچا اور پھر ہمارے محلے کی ایک خالہ کو بلایا اور ان سے کہا کہ اب گھر میں بہو آگئی ہے میرا دل نہیں چاہتا کہ میری بہو ابھی کام کرے لیکن میں نہیں چاہتی کہ اس طرح میری بیٹی کام کرتی رہے اور وہ پریشان ہو جائے۔ آپ مجھے کسی کام والی سے ملا دیں جو بھروسے والی خاتون ہو اور کام بھی اچھا کرتی ہو۔ اگلے ہی دن خالہ گھر میں ایک آنٹی کو لے کر آگئیں۔ خالہ نے اماں کو بتایا کہ یہ خاتون عیسائی ہے لیکن بہت ایماندار اور اچھی ہے ،ابھی آپ لوگ اس کو گھر کی اور غسل خانے کی صفائی کے لیے رکھ لیں کچن کی صفائی آپ لوگ خود کر لینا اور برتن بھی خود دھولینا، جب کوئی اور اچھی کام کرنے کے لیے مل جائے گی تو میں آپ کو بتا دوںگی۔ اماں نے کہا ٹھیک ہے لیکن ہمیں پورے گھر کے کام کے لیے چاہیے جب مل جائے تو ضرور بتانا۔
پھر اماں نے اس کام والی آنٹی سے سوالات کرنے شروع کیے تو اس آنٹی نے کہا کہ آپ نے مجھ سے جو بھی پوچھنا ہے اس کا جواب میں بعد میں دوں گی پہلے مجھے یہ بتائو کہ آپ لوگ بتوں کو تو نہیں پوجتے ہو۔ یہ بات سن کر ہمیں بہت حیرت ہوئی کہ یہ ایک مسلم گھر میں آئی ہے اور مسلمان لوگوں کو کہہ رہی ہے کہ تم لوگ بتوں کو تو نہیں پوجتے ہو۔ اماں نے غصے سے کہا، نہیں بہن یہ تم کیسی بات کر رہی ہو ہم کیسے بتوں کو پوج سکتے ہیں ہم تو مسلمان ہیں۔ اس نے جواب دیا ،نہیں میں نے بہت سے مسلمان گھر دیکھے ہیں جو بتوں کو پوجتے ہیں۔ یہ بات ہم سب کے لیے حیران کر دینے والی تھی اور پھر ہمیں بتا بھی وہ بہن رہی تھی جو خود عیسائی تھی۔ آنٹی نے کہا جب مجھے پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ بتوں کو پوجتےہیں تو میں کام چھوڑ دیتی ہوں۔ اماں نے کہا بہن کون سے بت تم نے مسلم گھروں میں دیکھے ہیں ذرا ہمیں بھی بتائو۔ ہم سب غصے اور حیرت سے آنٹی کی بات سن رہے تھے۔ آنٹی نے جو جواب دیا وہ شرمندہ کر دینے والا تھا۔ اُس نے کہا کہ میں نے بہت سے مسلم گھرانے ایسے دیکھے ہیں جو گھر کا ایک کونہ مخصوص کر لیتے ہیں اور پھر اُس کونے میں ہر جمعرات کو اُس طرف منہ کرکے دعائیں بھی مانگتے ہیں اگربتیاں اور موم بتیاں بھی جلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہاں پر کوئی بزرگ رہتےہیں جو نظر نہیں آتے اور پھر ان کے نام کی نیاز بھی بانٹتے ہیں۔ اس کے بعد آنٹی نے ہماری طرف دیکھا اور کہا کہ اب آپ لوگ یہی جواب دو گے کہ یہ بتوں کو پوجنا نہیں ہے ،تو کیا ہے کہ ایسے گھروں میں میں پھر کام نہیں کرتی ہوں۔ ہم سب کو یہ باتیں سن کر بہت شرمندگی کا احساس ہؤا کہ یہ باتیں ایک غیر مسلم عورت مسلم گھرانوں کے بارے میں بتا رہی ہے۔ اماں نے آنٹی سے کہا، نہیں پیاری بہن آپ کو ہمارے گھر میں ایسا کچھ نہیں دکھے گا ہم مسلمان ہیں اور سوائے اللہ پاک کے کسی سے نہیں مانگتے اور اُسی ایک اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں الحمدللہ، لیکن یہ ہم سب کے لیے بہت سوچنے کی بات تھی کہ ہمارے مسلم گھرانے اتنے کمزور اور دین سے دور ہو چکے ہیں کہ غیر مسلم لوگ ہمیں ہمارا دین ایمان یاد کروا رہے ہیں۔
٭ ٭ ٭
صغراں
مہناز ناظم
میرے گھر کام کرنے والی ماسی صغراں بہت اچھی طبیعت اور

مزاج کی عورت ہے شوہر کی آمدنی کم ہونے کی وجہ سے اخراجات پورے نہیں ہوتے تھے اس وجہ سے اس کو مہنگائی کے اس دور میں جب کہ غریب تو غریب امیر بھی بھی بلبلا اٹھے ہیں اس کو شوہر کا ہاتھ بٹانے کے لیے گھروں پر کام کرنا پڑا۔
اس نے کسی کالج یا یونیورسٹی سے تعلیم حاصل نہیں کی مگر لکھنا پڑھنا جانتی ہے۔ کام کے دوران طرح طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے اس طرح زمانے کے نشیب و فراز سے بھی آشنا ہوگئی ہے۔ وہ ایک ایماندار عورت ہے اس لیے گھر کے کام بہت ذمہ داری کے ساتھ انجام دیتی ہے اور بچوں کی دیکھ بھال تو ایسے کرتی ہے جیسے یہ اس کے اپنے بچے ہوں یہی وجہ ہے کہ ہم اس کو اپنے گھر کی فرد کی طرح سمجھتے ہیں۔ گھر کے معاملات اور مشوروں میں اکثر اس کو بھی شریک کر لیتے ہیں وہ بہت اچھے مشورے دیتی ہے اور گھر کے راز بھی کسی سے بیان نہیں کرتی۔ ہو سکتا ہے اس بات پر کوئی یقین نہ کرے کیونکہ آج کل ایسے لوگ نا پید ہوگئے ہیں ،مگر وہ ایسی ہی ہے کہ آنکھ بند کر کے اس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ ماسی صغراں کی ایک بہن گجرات میں رہتی تھی وہ بہت سخت بیمار تھی ، ماسی نے گجرات جانے کا ارادہ کیا ،اس کے لیے اسے ایک ہفتے کی چھٹی چاہیے تھی۔ جب اس نے چھٹی کی بات کی تو میں سوچ میں پڑ گئی مجھے اس کی اتنی عادت پڑ گئی تھی کہ اس کے بغیر میرے گھر کا سارا نظام درہم برہم ہو جاتا تھا مگر اس کی بھی مجبوری تھی تھی غرض اسے چھٹی دینی پڑی اب اس کے بعد کیا کروں، اس کے لیے میں نے اپنی ایک بہن سے رابطہ کیا کہ کچھ دنوں کے لیے اپنی کام کرنے والی کو ہمارے گھر بھیج دیں تو وہ اپنا دکھڑا لے بیٹھی۔ اس کی کام کرنے والی نے اسے بہت تنگ کر رکھا تھا۔ میں نے جب اسے کہا کہ صرف ایک ہفتے کی بات ہے پھر ماسی صغراں واپس آجائیں گی تو وہ بولی کہ باجی میں تو جیسے تیسے برداشت کر رہی ہوں کیونکہ آج کل کام والی بہت مشکل سے ملتی ہے۔ میں نے پوچھا کیوں کیا ہؤا بولی بس کچھ نہ پوچھیں اگر میں سر پر کھڑی ہو کر کام نہ کراؤں تو کام ادھورا چھوڑ دیتی ہے اور کوئی نہ کوئی بہانہ کر دیتی ہے، آئے دن پیسوں کا مطالبہ کرتی رہتی ہے کبھی بچوں کی فیس کبھی پر کبھی دوائی کبھی مہنگائی کبھی کچھ اور کبھی کچھ اور کبھی کچھ ۔ مہنگائی سے تو آج کل ہر شخص تنگ ہے مگر ایک دن عجیب بات ہوئی کہ میں میزپر پیسے رکھے تھوڑی دیر کے لیے کچن میں گئی واپس آئی تو پیسے نہیں تھے۔ شاید کہیں رکھ کر بھول گئی ہوں، یہ سوچ کر میں گھر کے کاموں میں مصروف ہو گئی۔
اس دن کے بعد میں نے نوٹ کیا کہ اکثر پیسے غائب ہونا ہونے لگے اب کسی پر بغیر ثبوت کے الزام تو لگا نہیں سکتی تھی۔
ایک دن گھر میں لگے کیمرے میں ماسی کو پیسے اٹھاتے دیکھ لیا پھر جب اس سے پوچھا تو وہ صاف مکر گئی۔ اس کو ویڈیو دکھائی تو اس نے اپنی ضرورت بیان کرکے معافی مانگی۔ میں نے اسے معاف کر دیا مگر خود بھی احتیاط کرنے لگی اور گھر والوں کو بھی خبردار کردیا کہ اپنی رقم اور قیمتی چیزوں کے بارے میں خود احتیاط کریں، اب آپ ہی بتائیں کہ میں کسی کے گھر اس کو کیسے بھیج سکتی ہوں۔
بہن کی بات سن کر میں نے مزید کوئی بات نہ کی اور یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ کوئی بات نہیں ایک ہفتے میں خود ہی کام کرلوں گی۔
ویسے بھی میں گھر کسی ایسے شخص کے حوالے کیسے کر دوں جو ایماندار نہ ہو اس سے بھلائی کی کیا امید کی جاسکتی ہیں اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
٭ ٭ ٭
زمینداروں کا سلوک
زوبیہ رفیق
سب جب ناشتے سے فارغ ہو گئے اور سارا باورچی خانہ صفائی کے لیے دے دیا گیا گھر کے کاموں میں مدد دینے والے لڑکے کو ۔ لڑکے نے کہا باجی مجھے بھی ناشتہ دے دیں ۔ تو اسے جواب ملا کہ ابھی تو دوپہر کا کھانا شروع ہو جائے گا تم اس وقت کھا لینا اب تو ناشتے کا کام ختم ہو چکا ہے ۔ لڑکا آنکھوں میں آنسو لیے چپ چاپ کام میں لگ گیا ۔ سارا دن وہ کاموں میں لگا رہا ۔ کچھ ایک دو ٹکڑے کہیں سے بچے ملے تو چھپا کر کھا لیے ۔ دوپہر کو دوبارہ سب کی لسّی ، اچار اور روٹیوں سے تواضع کی گئی اور آخر میں صرف آدھی روٹی بچی اور آدھا گلاس لسّی جس کو اس نے زمین پر

بیٹھ کر کھایا ۔ گھر میں نئ آنے والی بہو یہ سب دیکھ رہی تھی اور حیران تھی کہ سب چیزیں وافر مقدار میں ہونے باوجود اتنی تنگ دلی کیوں ؟
کچھ عرصہ گزرا تو معلوم ہؤا کہ گاؤں کے ہر گھر میں ہر مددگار کے ساتھ یہی سلوک ہو رہا ہے اور اسی وجہ سے انھیں چوری کی عادت بھی ہو جاتی ہے اور کچھ منہ پھٹ اور بدتمیز بھی ہو جاتے ہیں ۔ گاؤں کے زمینداروں کا ان کام والوں کے ساتھ انتہائی ہتک آمیز سلوک ہوتا ہے۔ پھر ایک دو دہائیاں گزریں اور لوگوں کو فہم آنا شروع ہؤا تو یہ مددگار اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے لگے اور گاؤں میں زمینداروں کو مددگار ملنے مشکل ہونے لگے اور جو ملتے وہ بھی اپنی ہتک برداشت نہ کرتے تو زمینداروں کوبھی اپنے لہجے میں نرمی لانے پڑی اور وقت پر کھانا دینا پڑا ۔
زیادتی پر آواز اٹھانا ضروری ہے ورنہ انسان کو تو جاہل اور ظالم ہی پیدا کیا گیا ہے۔
٭ ٭ ٭

 

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x