ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

مجھے ان ماسیوں سے بچائو – بتول جون ۲۰۲۳

کئی سال پہلے اپنے طالب علمی کے زمانہ میں اردو کی درسی کتاب میں ایک مضمون پڑھا تھا جس کا عنوان تھا ’’ مجھے میرے دوستوں سے بچائو‘‘۔سو میں نے سوچا میں بھی آج اپنے مضمون کا عنوان کچھ ایسا ہی اچھوتا رکھوں تو میرے ذہن میں یہی عنوان آیا ’’ مجھے ان ماسیوں سے بچائو‘‘۔
چلیے پہلے ماسیوں کے بارے میں اپنے کچھ تلخ تجربات شیئر کروں جب تک بیگم کی صحت اچھی رہی انہوں نے کبھی کسی کا م والی ماسی کی ضرورت محسوس نہیں کی ، کھانا پکانا، گھر بھر کی صفائی ، واشنگ مشین میں کپڑے دھونا ، برتن دھونا ، کپڑے استری کرنا ،سب کام خود ہی شوق سے کرتی رہیں ۔ ساتھ ہی تین بچوں کی پرورش! لیکن جب بیگم کو گھٹنوں کا مسئلہ ہؤا تو مجبوراً گھر کی صفائی کے لیے کام والی عورت رکھنی پڑی ۔ موصوفہ چند دن تو شرافت سے کام کرتی رہی لیکن پھر ہمیں محسوس ہؤا کہ کچن سے ہمارے چمچ دن بدن کچھ کم ہوتے جا رہے ہیں ۔ کچھ دن تو صبر کیا لیکن آخر ایک دن اُس کی چوری پکڑی گئی ۔ بیگم اچانک کچن میں گئیں تو ماسی دو چمچ اٹھا کے جیب میں ڈال رہی تھی ۔ اچانک بیگم کو دیکھا تو شرمندہ سی ہو گئی۔ ہم نے سوچا کہ ابھی تو صرف چمچوں کا معاملہ ہے ۔ آہستہ آہستہ بات آگے اور چیزوں تک نہ بڑھ جائے ۔ اس لیے ان موصوفہ کوجواب دے دیا۔
اب نئی ماسی کی تلاش شروع ہوئی ۔ اچھی ماسی کی تلاش بھی واقعی ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے ، اب جو کام والی ملیں وہ دو اکٹھی نوجوان لڑکیاں تھیںبیگم نے رکھ لیا کہ چلو اچھا کام کریں گی ۔ لیکن ایک اور مصیبت ہو گئی۔ وہ آتیں کام کم کرتیں ہمارے ڈرائنگ روم میں صوفے پر بیٹھ کر موبائل آن کر کے کسی لڑکے کو فون کرتی رہتیں ۔ لمبی باتیں کرتیں اور ہماری بیگم انتظار میں کہ کب یہ لڑکیاں صفائی کا کام شروع کریں ، کبھی کبھی تو دائو لگا کے ہمارے لینڈ لائن فون سے بھی باتیں کرتی رہتیں ۔ ایک دن محکمہ ٹیلیفون والوں کا فون آگیا کہ آپ کے فون نمبر سے قابل اعتراض کالز ہوتی ہیں یہ اخلاقاً اور قانوناً جرم ہے۔ ہم ڈرگئے اور فوراً ان لڑکیوں کو بھی جواب دے دیا۔
پھر ماسی کی تلاش شروع ہوئی بالآخر ایک عورت مل گئی ۔ اسے کام پہ لگا لیا لیکن اُس نے تو اپنے رنگ دکھانے شروع کیے ۔ آتے ہی کہتی ’’ہائے بیگم صاحبہ میں دور سے آتی ہوں ۔ تھک گئی ہوں ، ذرا مجھے چائے کا ایک کپ تو بنا دیں ‘‘۔ پھر کام شروع کروں اورہمارے پلنگ پہ مزے سے لیٹ جاتی ۔ بیگم مجبوراً اسے چائے بنا کے دیتیں ۔ وہ بولتی ’’ باجی میں نے ناشتہ بھی نہیں کیا کچھ ساتھ بھی دے دیں ‘‘۔پھر اسے کچھ ساتھ بھی دے دیا جاتا ۔ مزے سے ناشتہ کر کے موصوفہ آہستہ آہستہ کام شروع کرتی لیکن دل سے کام نہیں کرتی تھی ۔ صفائی بالکل ٹھیک نہیں کرتی تھی ۔ آہستہ آہستہ لگے رہنا ۔ ذرا بارہ بجے تو کہتی ’’ باجی مجھے سخت بھوک لگ رہی ہے ۔ کچھ کھانے کودے دیں گی ؟‘‘ اور بیگم بچوں سے بھی پہلے موصوفہ کو کھانا پیش کرتیں ۔ موصوفہ کے یہ نخرے کچھ دن تو اٹھائے لیکن پھر محسوس کیا گیا کہ اس کا دھیان ناشتے اور کھانے پینے پہ زیادہ ہوتا ہے اور کام پہ کم ۔ اکثر جاتے ہوئے ساتھ لے جانے کے لیے بھی سالن کا مطالبہ کر دیتی ’’ باجی تھوڑا سا سالن میرے خاوند کے لیے بھی دے دیں میں اب گھر جا کے کیسے پکائوں گی ؟‘‘بالآخر مجبوراً تنگ آکر ان صاحبہ کو بھی فارغ کرنا پڑا۔
پھر تلاشِ ’’ ماسی‘‘ شروع ہوئی۔ بالآخر ایک ماسی مل گئی ۔ وہ نوجوان سی لڑکی تھی اُس نے بھی جلد اپنے رنگ دکھانا شروع کر دیے ۔ فیشن ایبل تھی ۔ آتے ہی بیگم کے سنگھار میز کے سامنے کھڑ ہو کے بال سنوارتی اور دائو لگا کے ہماری بیگم کی میک اپ کی چیزیں بھی استعمال کر لیتی۔ اکثر ہماری بیگم سے کہتی ’’ باجی میری تصویریں بنا دیں ‘‘ مجبوراً بیگم

کیمرہ نکال کر اس کی تصویر بناتیں ۔ کبھی مطالبہ کرتی’’ باجی مجھے یہ کیمرہ ایک دن کے لیے دے دیں پلیز ۔ میرا منگیتر آیا ہؤا ہے اس کے ساتھ تصویریں بنانی ہیں ‘‘۔
ایک دن مطالبہ کر دیا ’’ بیگم صاحبہ مجھے شنیل کا ایک جوڑا لے دیں میں نے عید پر پہننا ہے ‘‘۔ مجبوراً بیگم صاحبہ نے اسے بازار سے شنیل کا ایک جوڑا لا کے دے دیا لیکن دوسرے دن آ کے کہنے لگی ’’ باجی یہ تو اصلی شنیل نہیں ہے مجھے وہ اصلی قیمتی شنیل کا جوڑا لا کے دیں پلیز !‘‘ سو مجبوراً اس موصوفہ کو بھی جواب دینا پڑا کہ اس کے مطالبات تو بڑھتے ہی جاتے ہیں۔
اب اپنی بیٹی کے گھر کام کرنے والی اک ماسی کا بھی ذکر کروں بیٹی بھی جاب کرتی ہے اور ہمارے داماد بھی جاب پہ چلے جاتے ہیں ۔ ان کے بچے سکولوں میں چلے جاتے ۔ اس ماسی کو انہوں نے سرونٹ کوارٹر دیا ہؤا تھا اس نے کیبل کا کنکشن بھی ان سے لے لیا کہ میں ٹی وی پہ ڈرامے شوق سے دیکھتی ہوں ۔ مجبوراً کیبل کی لیڈ اسے دے دی گئی ۔ اُس کا بجلی ، پانی گیس سب کچھ فری تھا۔
ایک دن بیٹی گھر واپس آئی تو دیکھا کہ اس نے دراز میں دس ہزار روپے جورکھے تھے وہ غائب ہیں بڑی پریشان ہوئیں کہ میں صبح رکھ کے گئی تھی لیکن اب غائب ہیں ۔ در اصل وہ چابی ماسی کو دے جاتے تھے کہ ہمارے پیچھے صفائی کر دیا کرے۔
اتفاق سے بیٹی کے گھر میں سی سی ٹی وی کیمرہ لگے ہوئے ہیں ۔ تو جب انہوں نے اُس کیمرے کو آن کر کے فلم دیکھی تو ماسی کی چوری پکڑی گئی ۔ کیمرے میں نظر آگیا کہ موصوفہ کمرے میں داخل ہوئی چپکے سے دراز کھولا اور دس ہزار روپے اپنی جیب میں ڈال لیے ۔ اس طرح اس کی چوری پکڑی گئی ۔تو مجبوراً اس ماسی کو جواب دے دیا گیا ۔
اب مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ بھی یاد آ رہا ہے یہ فی میل ماسی نہیں بلکہ میل ماسی کا قصہ ہے ۔ ہمارے گھر کے قریب ہی ایک گھر میں دو میاں بیوی رہتے تھے ۔ بوڑھے تھے انہوں نے گھر کے کام کاج کے لیے ایک پٹھان لڑکا ملازم رکھ لیا کہ چلو باہر سے بھی سودا لا دیا کرے گا لیکن ایک دن بڑا سانحہ ہو گیا ایک رات جب اچانک ان بزرگ کی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ وہ لڑکا ان کی الماری سے کچھ زیور چوری کر رہا ہے ۔ انہوں نے اسے پکڑ لیا اور اسے دھمکی دی کہ صبح تمہیں پولیس کے حوالے کروں گا ۔ پھر سو گئے ۔ وہ لڑکا بھی اپنے کمرے میں چلا گیا ۔دن چڑھا تو شور مچ گیا کہ وہ دونوں میاں بیوی قتل ہو گئے ہیں ۔ رات کوکسی نے انہیں گولی مار کے ہلاک کردیا ہے ۔ وہ لڑکا شور مچاتا رہا کہ رات کوکوئی ڈاکو آ گئے تھے انہوں نے ان کوقتل کردیا ہے لیکن پولیس کو اس لڑکے پر شبہ ہؤا ۔ اُسے پکڑ کے لے گئے ۔ جب تفتیش کی گئی تو اس لڑکے نے اس دہرے قتل کا اعتراف کر لیا ۔ اس نے ان صاحب کی بندوق رات کو اٹھا کے ان پر گولیاں چلا دیں تھیں اور انہیں قتل کر دیا تھا اس دلخراش واقعہ سے ہمارے محلے میں کافی خوف و ہراس پھیل گیا ۔
تلخ یادیں تو شیئر ہو گئیں چلیے اب کچھ اچھی یادیں بھی شیئر کروں۔ ساری ماسیاں بری نہیں ہوتیں کچھ اتفاق سے اچھی بھی مل جاتی ہیں ۔
جو عورت ہمارے گھر آج کل کام کررہی ہے اسے ہمارے گھرمیں کام کرتے ہوئے کم و بیش پندرہ سولہ سال ہو گئے ہیں ۔ بہت ایماندار ہے ۔ کمرے میں ہزاروں روپے کھلے بھی پڑے رہیں تو ہاتھ نہیں لگاتی ۔ نہایت مستعدی سے گھر کی صفائی کرتی اور کپڑے بھی دھو دیتی ہے ۔ تین سال پہلے اس نے بہت دور اپنا گھر بنا لیا ہے ، وہاں شفٹ ہو گئی۔ ہم نے کہا ایسے تو تمہارا اتنی دور سے روز آنا مشکل ہو گا لیکن کہنے لگی نہیں میں آپ کا کام نہیں چھوڑوں گی۔ ہم بھی اس کے ساتھ مہر بانی کا سلوک کرتے ہیں ۔ وہ کبھی مطالبہ نہیں کرتی لیکن ہم خود بھی اسے ایک جوڑا گرمیوں میں لون کا اور ایک جوڑا سردیوں میں دے دیتے ہیں ، عید تہوار پر کچھ دے دیتے ہیں تو بہت خوش ہوتی ہے ۔ ہم بھی مطمئن ہیں دیانتدار ہے کام میں مستعد ہے ۔
اب وہ دور سے روزانہ بس پہ بیٹھ کے آتی ہے ہمارا کام کرتی ہے اور واپس بس پہ بیٹھ کے اپنے گھر جاتی ہے ۔ ہم نے بھی اس کی محنت اور اچھائی کو دیکھتے ہوئے اس کی تنخواہ بڑھا دی کہ کافی کرایہ خرچ کر کے روزانہ آتی ہے ۔ بہر حال ایسی اچھی ماسی مل جائے تو خوش قسمتی ہے ۔

اسی طرح کافی سال پہلے ایک ماسی رکھی تھی ۔ وہ بھی اچھی تھی ۔ کام اچھی طرح کرتی تھی ۔ کوئی نت نئے مطالبے نہیں کرتی تھی ۔ اس کی بیٹیاں بھی آکے ماں کے ساتھ ہمارا کام کر دیتی تھیں ۔ اس کی دونوں بیٹیوں کی شادیاں ہمارے سامنے ہوئیں ہم نے حسب استطاعت اس کی مدد کر دی ۔ بہت دعائیں دیتی رہی ۔ پھر وہ بھی ہمارے گھر سے بہت دور چلی گئی تو مجبورا ً اس نے ہمارے گھر کا کام چھوڑا۔لیکن کئی سال گزر گئے ہیں وہ ہمارے گھر اتنی خوش رہی کہ آج تک ہر سال رمضان کے مہینے میں وہ خود بھی ہمارے گھر ضرور آتی ہے اور اُس کی دونوں بیٹیاں بھی آتی ہیں ۔ ہم حسب استطاعت انہیں کچھ دے دیتے ہیں۔
بہر حال میرا مضمون پڑھ کے قارئین خواتین خاص طور پر بد دل نہ ہوں ۔ دنیا میں اچھے برے ہر طرح کے لوگ ہیں ۔ کوشش سے اچھی ماسیاں بھی مل جاتی ہیں ۔ لیکن جب بھی آپ گھر میں کوئی ماسی رکھیں کوئی بھی ملازم تو اس کے شناختی کارڈ کی کاپی ضرور اپنے پاس محفوظ رکھ لیں ۔ یہ احتیاط ضروری ہے ۔
آخر میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ سب کو اچھی ماسیاں عطا کرے (آمین ) اور ان ماسیوں سے بھی معذرت ! جن کا شکوہ مجھے اپنے اس مضمون میں کرنا پڑا۔
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x