ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

جب عقل بٹ رہی تھی – بتول جون ۲۰۲۳

جب عقل بٹ رہی تھی
یہ سب کہاں تھے ؟

 

معلوم ہے آپ کو جامعہ میں تین یا جوج ماجوج ہیں ۔ ویسے تو دنیا میں دو ہی ہیں مگر جامعہ اہم جگہ ہے نا ، یہاں تین ہیں !
نمبر ایک : رات والا چوکیدار مشتاق ۔ وہ سارا دن کا تھکا ماندہ ہوتا ہے ا س لیے چار پائی بچھائی ، پنکھا چلایا اور وڈیروں کی طرح لیٹ جاتا ہے۔ کوئی کام کہو تو راستہ بتاتا ہے کہ جامعہ کے نگران کو فون کر کے بتائیں کہ جامعہ میں یہ اور یہ مسئلہ ہو گیا ہے ۔ مجھے اس کی سمجھداری اور اپنی نالائقی اور کم عقلی پر شرمندگی ہوتی ہے کہ اسے معلوم ہے کام کس سے کروانا ہے ۔ چوکیدار ہے مگر رات بھر خراٹے لیتا ہے ۔ آوازیں دینے پر بھی نہیں اُٹھتا ۔ قابل رشک ہے یہ بھی کہ کسی چیز کی فکر نہیں ہے ۔ دوسرے نمبر پر ڈرائیور ہے جو شاید دنیا میں ایک ہی پیس ہے ۔ اُسے اپنے ڈرائیور ہونے پر بڑا فخر ہے ۔ جیسے خو و چودھری ہو ۔ سارا دن سوتا اور موبائل پر ٹک ٹک لگا ہوتا ہے ۔ کوئی کام کہو تو کہتا ہے کہ یہ میرا کام نہیں ہے ۔ دماغ میں بھیجا تو ہے ہی نہیں ۔ اگر کبھی کسی کام کا ارادہ کر ہی لیا تو روتا روتا جائے گا اور مرے کی خبر لائے گا ۔ کوئی چیز بازار جا کر سمجھ نہ آئے یا بھائو تائو نہ کر سکے تو میرا نمبر ملا کردکاندار کو دے دیتا ہے کہ ہماری آپا سے بات کرو ۔اور مجھے علم بھی نہیں ہوتا کہ کون سا کام کرنے کو کس نے کہا ہے ۔ یو پی ایس والا اس کی خرابیاں اور لاگت بتا رہا ہے ۔ پنساری گلاب کے عرق اور پنیر کی قیمت پر بات کر رہا ہے اور تو اور روز انہ جامعہ سموسے بیچنے والا ان کی گنتی کے کم ہونے اور اپنے ایماندار ہونے کا یقین دلارہا ہے ۔ سوچیے آپ! ایسے میں آپ کا کیا دل نہیں چاہے گا کہ ایسے انسان کو کوڑوں کی سزا دی جائے ؟ پورا شہر جانتا ہے کہ ایاز ڈرائیور کی کوئی آپا بھی ہے ۔
اب کل ہی کی بات ہے واپڈا والے ٹرانسفارمر ٹھیک کرنے آئے ۔ ان کے جانے پر دروازہ کھٹکھٹایا ، آپا لائٹ آگئی ہے ، میں نے تو اُن سے یہ بھی کہا کہ جامعہ کی موٹر کا تار جوڑ دیں مگر انہوں نے منع کر دیا ، کہا کسی مستری سے جڑوا ئو۔ بتائیے ! دل نہیں چاہے گا کہ ڈنڈاہو اور اس کا سر پھاڑ دیا جائے ؟
ویسے مزا ج کا اچھا ہے ۔ جب بلائیں جتنی دیر کے لیے کہیں جن کی طرح حاضر ہو جائے گا اور اسی وجہ سے خوبیاں خامیوں پر غالب آجاتی ہیں اور ہم برداشت کی حدیں وسیع کرتے جاتے ہیں ۔
تیسرے نمبر پر دن والا چوکیدار ہے جس کا نام اسد اللہ ہے ۔ ننھی سی جان ہے، آنکھیں چھوٹی چھوٹی ہیں ، کھلی ہوئی بھی ہوں تو لگتا ہے سو رہا ہے ۔ یہ بھی جامعہ کے لیے ایک نعمت ہے ۔ سارا دن جھاڑو اور کپڑا ہاتھ میں ہوتا ہے ۔ مگر آپا سے بہت محبت ہے ۔ ذرا ذرا سی خبر کے لیے دروازہ بجاتا ہے اور خبریں پارسل کر رہا ہوتا ہے ۔ کل ہی کی بات ہے کہ جنریٹر کے بن جانے کے بعد صدا آئی ، آپا اندر دیکھیں لائٹ آگئی جنریٹر ٹھیک ہو گیا ہے ؟ اب اس عقل کے اندھے سے کوئی کہے کہ اپنا پنکھا اور بلب جلا کر دیکھ لو کہ لائٹ آئی یا نہیں۔
ان تینوں کا بس نہیں چلتا کہ پیڑھی دے کر مجھے باہر بٹھا لیں اور تینوں مل کر خوب بونگیاں ماریں اور میں انہیں کچا چبانے کی ترکیب سوچوں۔
اور تو اور نگران جامعہ نے جن صاحب کو جنریٹر مرمت کروانے کے لیے بھیجا ان صاحب نے آتے ہی چوکیدار اسد اللہ سے مرض پوچھا ۔ اسد اللہ نے مجھ سے پوچھ کر صاحب کو بتا دیا کہ یہ اور یہ خرابی ہے پھر بھی ان کی تسلی نہیں ہوئی ۔ مجھ سے مخالب ہوئے ، باجی جنریٹر میں صرف یہ خرابی ہے کہ لائٹ نہیں دے رہا ؟ میں نے کہا ہاں بھائی صرف یہی خرابی

ہے ، ویسے کیا جنریٹر پانی بھی دیتا ہے ؟ وہ صاحب بد مزہ ہو کر چل پڑے۔
بجلی کا نہ ہونا ، جنریٹر کا خراب ہونا ، ایک اور صاحب نے اس کا حل یہ نکالا ، باجی ایسا کریں کہ آفس میں یو پی ایس لگوا لیں پھر آپ کو تکلیف نہیں ہو گی ۔ ایک نہ شد پانچ شد ۔ اب آفس میں یو پی ایس لگوا کر چوبیس گھنٹے وہاں بیٹھی رہوں اور ٹس سے مس نہ ہوں کیونکہ پنکھا تو آفس میں چل رہا ہے ، سمجھ نہیں آتی کہ جب عقل بٹ رہی تھی تو یہ سب کہاں تھے۔ میرے صبر کو سلام کرو سارا دن آوازیں آتی رہتی ہیں ، آپا ! بجلی والا آیا ہے ، اور یہ اطلاع دیتے ہی بجلی والے کو دروازے کے سامنے لے آتے ہیں کہ آپا سے بات کرو ، وہ بتائیں گی کہ لائٹ کہاں کہاں لگانی ہے۔
وہی آواز دوبارہ آتی ہے ، آپا نلکے والا پوچھ رہا ہے کہ کھڈا کروا دیا؟ اور ایک موٹے سے آدمی کو دروازے کے سامنے لے آئے ۔ آپا سے بات کریں وہ بتائیں گی کہ کھدائی کروائی یا نہیں ۔میری جان ناتواں پر کیا گزرتی ہے آپ اندازہ نہیں کر سکتے کبھی سوچتی ہوں شاید یہ سارا عملہ بہت سادا اور معصوم ہے اور کبھی گمان کرتی ہوں کہ یہ کاہل اور سست ہیں ، بجائے خود کوئی کام کرنے کے دوسروں کا سہارا لیتے ہیں ، یا ان میں اعتماد کی کمی ہے ۔
کچن انچارج پریشان کھڑی تھیں ۔ پتہ ہے میڈم ! وہ ناظمہ کچن سے میں نے کہا کہ باورچن کو کدو نکال دینا بھجیا بنا دے ، تو اس نے تھال میں ڈھیر سارے مالٹے بھرے ہوئے تھے ۔ میں نے پوچھا ان کا کیا کرو گی تو کہا کہ ماسی کو دینے کو جا رہی ہوں شام کو بھجیا بنانی ہے ۔ میں حیران کہ کیا اس نے آج تک کدو نہیں دیکھے ۔میں نے کہا یہ کدو ہیں ؟ ناظمہ نے کہا ہاں یہ دیکھیں کھا کے دکھیں ۔ میرا جی چاہا سر پیٹ لوں ۔ بے وقوف یہ تو مالٹے ہیں ، بولی ہاں لگ تو عجیب عجیب سے رہے تھے میں سمجھی اب کدو ایسے آنے لگے ہیں ۔
انچارج طعام کی بات سن کر ہنسنے اور رونے کو دل چاہنے لگا ۔
اہم بات یہ ہے کہ میں ان کی ہم زبان نہیں ہوں ۔ بچوں کو اردو سکھاتے سکھاتے آدھ موئے ہو جاتے ہیں جب جا کر وہ کسی قابل ہوتے ہیں ۔ مگر غیر نصابی عملہ سے تو میں انہی کی زبان میں بات کرتی ہوں پھر بھی ایسی ایسی حماقتیں اور لطائف ہوتے ہیں کہ دل چاہتا ہے کہ آپ سر میں خاک ڈال کر جنگل کی طرف نکل جائیں ۔ مگر یہی تو زندگی ہے اس کا حسن اور میری ذمہ داری ہے کہ جو کچھ مجھے سکھایا گیا ہے وہ ان میں منتقل کرتی جائوں۔ البتہ آپ میرے صبر کو سلام ضرور کیجیے گا!
٭…٭…٭

؎۱ انچارچ جامعہ المحصنات لاڑکانہ

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x