ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ماسی نامہ – بتول جون ۲۰۲۳

بچپن کی یادوں میں ایک ہلکی سی یاد ماسی سیداں کی ہے جو گاؤں میں امی جان کی مددگار تھی۔
جب ہم واہ شفٹ ہوئے تو میں ماسی کی یاد میں بیمار ہو گئی تھی، اور جب ماسی کچھ عرصے بعد ملیں تو انہوں نے بھینچ بھینچ کر پیار کیا۔ وہ مجھے پیار سے بلی کہتی تھیں (یہ الگ بات ہے کہ یہ نک نیم مجھے کسی اور کی جانب سے گوارا نہ تھا، اور بڑی بہن کے بلی پکارنے پر تو ناراض ہو جاتی تھی)ہم گاؤں گئے تو انہوں نے مزے دارستو شکر بھون کر کھلایا۔وہ ایسی وفادار ماسی تھیں کہ ہمارے ساتھ امی جان کے میکے تک چلی جاتیں اور نانا جان کے آخری مرض میں انہیں خون کی ضرورت پڑی تو ماسی کا بلڈ گروپ ان سے میچ کر گیا، مگر ڈاکٹر نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ انہیں تو خود خون کی ضرورت ہے۔ میں سکول کی ابتدائی کلاسوں میں تھی جب ایک روز قاصد ان کے انتقال کی خبر لے کر آیا۔
راولپنڈی شہر میں سب سے زیادہ ہمارے گھر میں ماسی زیبنی کا وقت گزرا، جو گھر کے عقب میں رہتی تھیں، ہماری بھینسوں کو بھی سنبھالتی تھیں، اور چھت سے دی جانے والی ایک آواز پر آ موجود ہوتی تھیں۔ ان کی بیٹیاں بھی یکے بعد دیگرے ہمارے ہاں رہیں، کام سے زیادہ تعلیم اور ہنر سیکھنے کے لیے۔ جنھیں ہماری والدہ ہم سے زیادہ سمجھدار گردانتی تھیں۔ ایک مرتبہ امی جان نے کھانا کھا کر ہم سے کہا: ذرا میرے ہاتھ دھو لاؤ۔ ہم سب ہنس دیں۔ پھر امی جان نے یہی مطالبہ ناہید سے کیا، اور وہ فوراً بولی: اچھا جی خالہ جی۔ اور امی جان نے مسکرا کر کہا: اب اس کی سمجھ داری دیکھنا۔ اس نے بستر پر بیٹھی امی جان کی سائیڈ پر برتن رکھ کر اس میں ان کے ہاتھ دھلوائے اور تولیے سے خشک کروا دیے۔
شادی کے بعد ابتدائی عرصے میں ہمیں مظفر آباد میں ایک ماسی ملی، خوب تگڑی اور فربہ اندام! جس نے پہلے ہفتے ہی میری بے جی کے لیے راز دارانہ انداز میں کہا: ’’اس بڑھیا سے کام کروایا کرو‘‘ ، اور ہم نے اپنے گھر کے سکون اور اطمینان کے لیے اس سے بھی کام کروانا چھوڑ دیا، اس کے ماتھے پر نمودار ہونے والے پسینے کے قطروں (جو پشیمانی کے ہرگز نہ تھے) کے خشک ہونے سے پہلے ہم نے اجرت اس کے ہاتھ پر رکھی اور سلام کہہ کر رخصت کر دیا۔
مظفر آباد کے سرد موسموں میں جب جب ہماری جلد خشک اور متورم ہو جاتی اور نیلم کے ٹھنڈے پانیوں سے ہمارے ہاتھ زخمی ہو جاتے، اور ان سے خون رسنے لگتا تو ہمیں ماسی کی یاد شدّت سے آتی، ہماری حالت پر رحم کھاتے ہوئے ہمارے شوہر نامدار آگے بڑھتے اور کتنے ہی کام فٹافٹ انجام دے دیتے، کبھی ہماری بے جی کی مادرانہ محبت جوش میں آتی اور وہ مدد کر دیتیں، اور ہم شرمندہ شرمندہ اپنے ہاتھوں کی جانب دیکھتے، سی ایم ایچ مظفر آباد کے ڈرماٹولوجی ڈیپارٹ منٹ میں ہمارے پھیروں میں اضافہ ہونے لگتا، اور ہم کئی سہیلیوں سے ماسی کی تلاش کی درخواست کرتے۔ ہمیں اکثر یہی جملہ سننے کو ملتا: ’’ہم تو اپنا کام خود کر لیتے ہیں‘‘۔مظفر آباد میں ان دنوں ماسی کلچر متعارف نہ ہوا تھا، اور اسّی کی دہائی میں یہ عیاشی زیادہ تر گورنمنٹ آفیسرز کے خاندانوں کو میسر تھی، جہاں آفس کی جانب سے کوئی نہ کوئی خدمت گار مہیا ہوتا تھا۔
ایک سردیاں جب ہم بیماری کے ساتھ امید بھری زندگی گزار رہے تھے ہماری ایک کارفرما نے ہمیں خوش خبری سنائی کہ انھوں نے ہمارے لیے ایک ماسی کا انتظام کیا ہے۔
یہ خبر چند ثانیے میں بریکنگ نیوز کی طرح گھر بھر میں پھیل گئی۔ ہم نے رات بڑی مشکل سے بسر کی۔ علی الصبح یعنی گیارہ بارہ بجے ہماری سہیلی ’’ماسی‘‘ کے ہمراہ وارد ہوئی، اور ہمارا حال یہ تھا کہ : ’’کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے تھے‘‘۔ماسی ہماری ’’ماں سی ‘‘ نہیں بلکہ ’’نانی سی‘‘

لگ رہی تھی، چہرہ جھریوں سے بھرا ہوا، رنگ پیلا، کمر خمیدہ، اور حالات کی ان کہی داستان چہرے پر نقش! ہم نے حیرت سے ان کی جانب دیکھا، تو وہ ہولے سے بولیں: ’’اپنے یتیم پوتوں کی خاطر مزدوری کرنی ہے‘‘۔ صاحب گھر آئے تو اپنی والدہ کی عمر کی خاتون کو مشقت کرتے دیکھ کر سخت آزردہ ہوئے، اور کچھ دیر میں ناشتے کی ٹرے ہاتھ میں پکڑے’’ اماں جی‘‘کی خدمت میں پیش کر دی۔ اب حال یہ تھا کہ اماں جی صفائی کرتیں اور برتن دھوتیں اور اگر صاحب گھر ہوتے تو وہ مسلسل ان کا ہاتھ بٹا رہے ہوتے، کبھی دیگچیاں مانجی جا رہی ہیں اور کبھی صفائی کے مشکل مقامات میں ان کو چھوٹ دے کر خود ہی کام کیا جا رہا ہے۔ صبح گھر سے نکلتے ہوئے ہدایت، اماں جی سے ڈرائینگ روم مت صاف کروائیں، واش روم ہر روز صاف کروانا ضروری نہیں، آج صرف جھاڑو ہی کافی ہے، اتنی سردی میں پوچا مت لگوائیے گا۔ اماں جی کو چائے کے ساتھ انڈا بھی ابال دیجیے گا، وغیرہ وغیرہ۔اماں جی کو دو کام کرنے کے عوض کئی خدمت گار مہیا ہو گئے تھے، اور اس کے ساتھ ہی گاہے گاہے ہمیں بھی ظالم ہونے کا احساس دلایا جاتا، جس نے اتنی بزرگ خاتون کو مشقت پر لگا دیا ہے۔اور ہمارا حال یہ کہ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔
پھر ایسا ہؤا کہ ایک روز اماں جی نہیں آئیں۔ دوسرے دن آئیں تو ہاتھ میں ہسپتال میں داخلے کی پرچی تھی، بقول ان کے وہ صرف آگاہ کرنے آئی ہیں۔ ہم نے کھلے دل سے انہیں دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا۔ موبائل فون کا تو زمانہ نہ تھا کہ ہم اماں جی سے رابطے میں رہتے، دو روز بعد میاں صاحب نے کہا کہ انہیں خاتون سے ان کا ایڈریس پوچھیںاور ہسپتال کا وارڈ وغیرہ بھی، تاکہ ہم تیمار داری کو جا سکیں۔ ہماری کارفرمانے حیرت کا اظہار کیا: ’’آپ سے کس نے کہا وہ ہسپتال داخل ہیں؟ مجھے تو آج ہی بازار میں ملی تھیں، شاپنگ کرتے ہوئے‘‘۔
اگلے روز علی صبح اماں جی آ گئیں، نہ ہم نے ان سے کچھ پوچھا نہ انہوں نے بتایا، ہم نے ان کی چھٹیوں سمیت اجرت ان کے ہاتھ پر رکھی اور ان سے معذرت چاہی۔ اور پھر مظفرآباد میں جتنے بھی سرد و گرم گزرے ہم نے کسی ماسی کی چاہ نہ کی۔
کچھ عرصے بعد ہمیں راولپنڈی منتقل ہونا پڑا، تو چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہمراہ کام میں دقت پیش آئی۔ ہم نے ارد گرد دیکھا تو ہمارے میکہ گھروں میں بھی سب کو یہ سہولت میسر تھی، سو ہمارے بے قرار دل نے بھی کسی انوکھے لاڈلے کی مانند کھیلن کو چاند مانگنے کے برعکس ’’کام کو ماسی مانگنے‘‘ کی رٹ لگا دی۔ ا س مرتبہ ڈھنڈیا مچی اور ہمیں ایک عدد ماسی مل گئی جو صحت مند بھی تھی اور توانا اور جوان بھی!ہلکے پھلکے تعارف سے معلوم ہؤا کہ آزاد کشمیر کی باسی ہے اور بہتر معاش کے لیے میاں اور بچوں کے ہمراہ یہاں آئی ہے۔ کام تو اچھا کرتی مگر اس کے دیگر مطالبات کافی تھے اور اس پر مستزاد اس نے بے جی سے اچھی سی دوستی بھی کر لی تھی اور وہ ’’غریبنی ‘‘ ان کو بہت عزیز تھی۔اس لیے کبھی وہ اپنے گھرمہمانوں کی آمد پر راشن کا مطالبہ کرتی اور کبھی ان کے لیے چارپائیوں اور بستروں کا۔ اور ان کے لیے مستعار مانگے گئے برتن اور بستر بھی اسے اپنے گھر کی حقیقی ضرورت لگنے لگتے۔
آہستہ آہستہ اس کی دلچسپی کام میں کم اور مطالبات میں بڑھنے لگی، اور ہماری ہلکی سی بے اعتنائی پر وہ چھاجوں چھاج برسنے کو تیار رہتی۔اس کے آنسؤوں کے جھرنے بے جی کے دل کو موم کر دیتے، ہم انہیں مگر مچھ سے مشابہ سمجھتے ہوئے بھی صرفِ نظر پر مجبور ہوتے۔ پھر ایک روز جب بے جی کشمیر گئی ہوئی تھیں، اس نے کام چھوڑنے کی خواہش کا اظہار کیا تو ہم نے سکھ کا سانس لیا۔
پھر ہمیں ماسی کرموں ملیںجو پڑوس ہی میں رہتی تھیں۔ بزرگ تھیں، مگر حقِّ ہمسائیگی میں ہم نے انہیں رکھ لیا۔ یہ خاتون خاموشی سے کام کرتیں اور گھر کی راہ لیتیں، ان کے ساتھ مہربانی کرنے میں ان کی جانب سے کوئی تقاضا نہ تھا، ہاں، کسی بھی ضرورت سے زائد شے کو جب ان کی جانب بڑھایا تو ان کی آنکھوں میں تشکر بھی تھا اور زیرِ لب دعائیں بھی!ان کی اولاد بڑی ناخلف تھی۔ ایک روز متورم چہرے سے انہوں نے مجھے کہا: ’’دعا کریں میرا بڈھا (مراد شوہر) مر جائے‘‘۔ میں نے حیرت سے ان کی جانب دیکھا۔ بولی: بچے مجھے تو کھانا دے دیتے ہیں بوڑھے اور بیمار باپ کو بہت تڑپاتے ہیں، بس دعا کریں وہ مر جائے۔ میں

اسے ساتھ کھانا کھلا دیتی ہوں اور پھر روز لڑائی۔ مگر اللہ کی تقدیر کہ کچھ عرصے بعد ماسی کرموں کا ہی انتقال ہو گیا۔
ہمیں بسلسلہ تعلیم شوہر چار برس کے لیے برطانیہ جانا پڑا، جہاں ماسی تھی نہ ماسی کی طلب! نہ کوئی احساس دلانے والا تھا کہ اتنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ گھر کے کاموں کے لیے ایک مددگار کا ہونا ضروری ہے۔یہ سب ناز برداریاں پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک کے متمول اور متوسط طبقہ لوگوں کی عیاشی ہے۔یورپ اور دنیا کے کئی خطوں میں آپ کو کئی الیکٹرانک مددگار میسر ہیں۔ ہمیں بھی فرنشڈ گھر میں آٹومیٹک واشنگ مشین، ویکیوم کلینر اور کئی ایسے آلات میسر تھے جن کی موجوگی میں ہم نے ماسی کلچر کی نامقبولیت پر سکھ کا سانس لیا اور اپنے تئیں خوب سگھڑاپے اور خود انحصاری کے ساتھ پاکستان لوٹ آئے۔
اس زمانے میں بیرون ملک سے لوٹنے والوں کو ڈیوٹی فری شاپ سے کچھ خریداری کی بلا کسٹم ادائیگی کی سہولت میسر تھی۔ ہم نے آٹومیٹک واشنگ مشین، ویکیوم کلینر وغیرہ خرید لیے اور بڑے جوش سے مظفرآباد پہنچے، کہ یہاں بھی مشینی ماسی کی خدمت سے لطف اندوز ہوں گے۔ کئی مہینے تک ہمیں مشین فٹ کرنے کا ماہر ہی نہ ملا، جو بھی ملا اس نے یہی کہا کہ نہ تو یہاں اتنا وافر پانی میسر ہے نہ بجلی کی طاقت کہ یہ مشینیں کامیابی سے چل سکیں۔ حتیٰ کہ یہاں بجلی کے سوئچ بورڈ تک ایسے ہیں کہ بیرون ملک سے آنے والی مشینوں کے پلگ ان سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ہم نے بجھے دل سے مشینیں سٹور میں رکھیں اور ایک مرتبہ پھر ’’ضرورت گھریلو ملازمہ‘‘ کا اشتہار لگا دیا۔
اب مظفر آباد کے حالات بدل چکے تھے، ماسی مل تو جاتی تھی مگر مہینے کی ابتدا میں آنے والی مہینے کے نصف تک ہی کام چھوڑ جاتی۔ ایک دو ہفتے اگلی ماسی کی تلاش میں لگتے اور پھر نئی کہانی پرانی روایت کے ساتھ چل پڑتی۔کسی کو ملازمت اختیار کرتے ہی اپنی کمر اور ٹانگوں کے درد یاد آجاتے، اور وہ کئی کاموں سے ہاتھ کھینچ لیتی، کسی کی دور شہر میں آباد میکے کی یاد اسے ہم سے دور کر دیتی اور کسی کے خاندان میں کسی کی بیماری یا موت! ہم پھر تہی دست رہ جاتے۔ کچھ کام والیاں کام چور تھیں اور کچھ واقعی چور۔ ایک کام والی کا میاں ہر گھنٹے بعد یا تو بچی چھوڑنے آ جاتا یا بچی واپس لینے کہ ماں کو تنگ کر رہی ہو گی۔ ایک روز اسی نقل مکانی میں بچی کی فراک سے ماچس کی ڈبیا لڑھک کر نیچے گری تو اس نقل مکانی کا سبب معلوم ہؤا۔
پھر حالات نے ہمیں ایک مرتبہ پھر اسلام آباد پہنچا دیا۔ دارالحکومت کے صاف شفاف اور چمکدار گھر میں ماسی نہ رکھنا تو اس گھر کی شان کے خلاف تھا۔ اور یہ بھی اتفاق تھا کہ ہمارے کالج زمانے کی ایک سہیلی اسی گلی میں رہائش پذیر تھی۔ انہوں نے کمال مہربانی سے کہا کہ میں اپنی ’’میڈ‘‘ بھیج دوں گی، اگر مناسب لگے تو رکھ لیجیے۔
اگلی صبح’’بلقیس‘‘ ہمارے گھر تھی۔ اس نے ہمارے کچھ کہنے سے پہلے کام کے لیے اپنی شرائط پیش کیں اور کام میں جت گئی۔ وقفے وقفے سے اس کی آواز آتی: اپنی چیزیں سمیٹ لیں میں اس کمرے میں آ رہی ہوں۔ اور ہم بھاگم بھاگ کمرہ درست کرنے لگ جاتے۔ میں ڈسٹنگ تو کروں گی، مگر بستر نہیں جھاڑوں گی۔ بے جی نے دبی دبان میں کہا کہ بستر تو صفائی سے پہلے جھاڑے جاتے ہیں۔ بلقیس نے جسے ہم ملکہ بلقیس کے قریب ہی سمجھتے تھے، کمال بے نیازی سے کہا: میں گیارہ بجے آیا کروں گی، اس سے پہلے آپ بستر جھاڑ لیا کریں۔ ہم نے کئی گھروں میں کام کرنا ہوتا ہے، ایک ہی گھر میں لٹک نہیں سکتی۔ اور کام مکمل کرنے کے بعد وہ اپنی اجرت کا اعلان بھی کر گئی، اگر آپ کو قبول ہو تو اپنی سہیلی کو بتا دیں میں کل سے کام پر آ جاؤں گی۔اور دارلحکومت کے رائج ان لکھے قانون پر صاد کہتے ہوئے ہم نے اسی شام ’’قبول ہے‘‘ کا پیغام بلقیس کے لیے بھجوا دیا۔ ہماری سہیلی نے تسلی دی۔ شروع میں شاید کچھ مشکل ہو مگر آپ اس سب کی عادی ہو جائیں گی۔
اور پھر ہم واقعی بلقیس کے عادی ہو گئے جو انتہائی پیشہ ور (پروفیشنل) آنٹی تھی۔ قوی اور امانت دار۔ اس نے ایک روز بھی کام میں ڈنڈی نہ ماری۔ وہ چھٹی کرنے سے پہلے باقاعدہ اس سے آگاہ کرتی۔ میں نے ملازمت شروع کی، تو وہ بولی : آپ ساتھ والے گھر میں چابی دے جایا کریں، میں وہیں سے لے کر کام کر لوں گی۔ اس کو نہ مانگنے کی

عادت تھی نہ فرمائشوں کی۔ اس کی بیٹی کی شادی پر بلا طلب میں نے اسے چھوٹا سا تحفہ دیا جو اس نے شکریے کے ساتھ وصول کر لیا۔ میری چھوٹی بیٹی کو کہانیاں سنانے کی عادت تھی، وہ بلقیس آنٹی کے پیچھے بھاگتی کئی کہانیاں سناتی رہتی، جسے وہ سنتی رہتی اور مسکراتی رہتی (یہ اس نے بعد میں بتایا کہ اسے ککھ سمجھ نہیں آتی)۔
ایک مرتبہ کالج میں میری سونے کی بالی کہیں گر گئی،کافی تلاش کے بعد بھی نہ ملی، حالانکہ گھر اور کالج دونوں جگہ ہی تلاش کی۔ چند دن بعد بلقیس کا پیغام ملا کہ کسی دن جلدی گھر آئیں، میں ملنا چاہتی ہوں۔ اور پھر اس نے میرے گھر ہی کی ایک پیالی سے میری بالی نکال کر دی، کہ یہ اسے بیرونی گیٹ کے قریب سے ملی تھی، اور وہ گھر بھی نہیں لے کر گئی اور یہاں بھی کسی کو نہیں دی، بس اس امانت کو سنبھال کر رکھا۔میرا بڑا دل چاہتا کہ بلقیس کو اسلام کی دعوت دوں۔ مگر وہ پکی عیسائی تھی، صبح اٹھ کر رب سے دعا مانگ کر نکلتی، اخلاق سے پیش آتی۔ وہ بڑے فخر سے کہتی تھی: ہمارے ہاں چوری کرنا حرام ہے۔جھوٹ بولنا حرام ہے۔بدکاری حرام ہے۔پھر وہ بڑے دکھ سے کہتی: مگر اب ہمارے عیسائی بھی اتنے نیک نہیں رہے۔ ادھر کے جوانوں کے ساتھ ان میں بھی خرابی آگئی ہے۔گویا وہ ان کے بگاڑ کا سبب ارد گرد کے مسلمانوں کو سمجھتی تھی۔ او رمیری آواز اور دعوت کا جوش ٹھنڈا پڑنے لگتا۔
میرے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی تو وہ بتانے لگی کہ میری بھی چار بیٹیاں ہیں۔ کوئی بیٹا نہیں تھا۔ میرے بوٹے (شوہر) کو بیٹے کا بڑا شوق تھا، وہ ایک مسلمان پیر کے آستانے پر جانے لگا، تین مہینے نذرانہ لینے کے بعد پیر صاحب نے کہا: ’’بوٹے تیری قسمت میں بیٹا نہیں ہے‘‘۔ بوٹا بستر سے لگ گیا، بس آہیں بھرتا۔ میں نے اسے کہا: بیٹا تو سوہنے رب نے دینا ہے، پیر نے نہیں۔ اورپھر بوٹے کو رب نے اوپر تلے کے تین بیٹے دیے۔
بلقیس نے چار برس ہمارے ہاں کام کیا، ہم نے دوسرے سیکٹر میں گھر بدلا تو وہ وہاں بھی آئی، لیکن پھر اسلام آباد کی ایسی ہی نقل مکانی نے ہمیں بلقیس سے محروم کر دیا اور ہمیں دارالحکومت کی نت نئی کام والیوں سے واسطہ پڑا جن میں سے ہر ایک کی اپنی ہی تاریخ ہے۔جی الیون کے عقب میں میرا ٓبادی کا علاقہ ایسی ہی ماسیوں سے بھرا ہؤا ہے۔ یہاں بھی ہماری ایک ہمدرد سہیلی ایک ماسی کے داغِ مفارقت کے بعد بڑی عجلت سے دوسری کا بندوبست کر دیتیں۔ بلکہ کئی مرتبہ تو ہماری فون کال سے ہی ان کا ماتھا ٹھنک جاتا تھا کہ ’’یہ بھی گئی‘‘۔
ہم اسی طرح ماسیوں کے ستائے زندگی کے دن گزار رہے تھے کہ ہمارا آدھا کنبہ بیرون ملک منتقل ہو گیا۔ مال کی فروانی میں ہم نے فل ٹائم ماسی بھرتی کرنے کا سوچا، تو ایک اور ہی قسم کی نوجوان لڑکیاں ملیں، جن کے والدین ان کی تنخواہ وصول کرتے ہیں اور وہ آپ کے ذمہ۔ ہم نے خوشی خوشی یاسمین کو رکھ لیا۔ جس نے پہلا ہفتہ تو بڑی سہولت سے گزارا۔ مگر اس کے بعد ہم بھاگم بھاگ ناشتا بناتے اور یاسمین کو آوازیں دے رہے ہوتے، اور ناشتا بننے کے بعد وہ آنکھیں ملتی میز پر آ براجمان ہوتی: ’’آنٹی میری آنکھ نہیں کھلی تھی‘‘۔ رات کو اس کا بچیوں سے بھی جھگڑا ہو جاتا کہ میں نے فلاں چینل کا ڈرامہ دیکھنا ہے۔اور کئی مرتبہ میں یونیورسٹی سے واپس آتی تو گھر اسی طرح بکھرا ہوتا۔ البتہ اس کے فیشن دن بدن بڑھ رہے تھے۔ میں اسے حد میں رکھنے کی کوشش کر رہی تھی اور مجھے وساوس گھیر رہے تھے کہ آخر وہ میرے پیچھے گھر میں کیا کرتی ہے۔ انہی دنوں آنے والے فون کے بل نے اس کا بھی عقدہ کھول دیا کہ یاسمین کیا کرتی تھی۔ اسے فوری طور پر رخصت کیا۔
ہماری سہیلی نے ایک اور خاتون کو بھیجا، جو فتح جنگ سے تعلق رکھتی تھی۔ وہاں علاقے کے ایک مخیر حضرت ہر روز انہیں صبح فری بس سروس کے ذریعے اسلام آباد بھیجتے اور سہ پہر واپس لاتے۔بھاگ بھری اسی گروپ کے ساتھ آتی تھی۔ کام کی شرائط اور اس کی ذمہ داریاں بتائیں تو وہ ہر بات پر صاد کہتی رہی ،مگر کام کے حوالے سے انتہائی پھوہڑ! مگر مسکرا کر کہتی: مجھے تو ایسا ہی کرنا آتا ہے، باجی ہم دیہات کے ہیں۔
اس نے روٹی بنا کر بے جی کو پیش کی تو انہوں نے اسے ہی لوٹا دی، کہ’’ اے تسی آپ کھاؤ‘‘۔مجبوراً میں نے بے جی کے لیے چپاتی بنائی۔ اگلے روز ڈرائیور نے اسے کھانے سے انکار کر دیا۔ اس میں تو کچے

آٹے کا ذائقہ ہوتا ہے۔ میں بھاگ بھری کے سامنے چپاتیاں بنا بنا کر دکھاتی، مگر وہ کمال بے نیازی سے اپنا دیہاتی کارڈ کھیل جاتی۔ اور میں بچوں کو صبر شکر سے اتنی موٹی اور کچھ ادھ جلی روٹیاں کھانے پر آمادہ کرتی رہتی۔ ایک روز کھانے کے درمیان میں کوئی چیز لینے کچن میں گئی، تو بھاگ بھری صاحبہ کھانا کھا رہی تھیں۔ ان کی ٹرے میں نہایت مناسب سائز اور شکل میں خوب صورت سی روٹی دیکھ کر میں حیران رہ گئی، اور بے اختیار سوال کرنے کو دل چاہا: ’’انی لک ھذا؟‘‘ (یہ کہاں سے آئی؟) بھاگ بھری کا بھانڈا پھوٹ چکا تھا، وہ صرف کام سے بچنے کے لیے ہمیں ایسی چپاتیاں کھلا رہی تھی۔ میں نے ٹرے میں سے چپاتیاں اچکیں، اور اس کے سامنے اپنی موٹی، کچی اور بھدی روٹیاں رکھیں اور کہا: آج آپ ان کا مزا لیں۔
اس کے بعد بھاگ بھری کافی بہتر ہو گئی۔ مگر ہم اس کی مزے دار روٹیوں کا مزید مزا نہ لے سکے، کہ ہمارے بیرون ملک جانے کا وقت قریب آ لگا تھا۔ جاتے سمے بھاگ بھری کی آنکھوں میں آنسو تھے، اور وہ ہم سے کہہ رہی تھی: اتنی سہیلیاں ہیں آپ کی، میرا بھی کوئی آسرا کروا جائیں۔ اور ہم نے اپنی انہیں سہیلی کو بھاگ بھری کی خدمات لوٹا دیں۔
٭٭٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x