ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ہمارے ملازم – بتول جون ۲۰۲۳

زندگی کی گاڑی کئی اسٹیشنوں سے گزری ۔ پہلے کوئٹہ پھر گوجر ا نو ا لہ میں مختصر قیام ہؤا۔آخری اسٹیشن لاہور کا تھا جہاں مستقل قیام ہؤا تو وہاں پہلے گھر بنایا پھر گھر داری کا شعور آیا ۔ گھر کو گھر سمجھا تو رہنے سہنے کا سلیقہ بھی آیا۔
اس وقت ہر کام مشکل لگا تو کسی ہمدرد کی ضرورت ہوئی جو گھر کے کاموں میں مدد گار ثابت ہو سکے یوں ملازم رکھنے کا سوچا لیکن تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ فکر لاحق تھی کہ وہ نہ جانے کیسا ہوگا ۔ کسی اجنبی پر بھروسہ کرنا پھر اس کا رات دن سر پر سوار رہنا یا آنے جانے کے اوقات پر نظر رکھنا بھی مشکل گا۔
ابھی سوچ بچا ر کا مرحلہ جاری تھا اور لوگوں سے مشورے کیے جا رہے تھے کہ گھر بنانے والے مستری نے کہا میرے بیٹے کو رکھ لیں ۔ وہ لڑکا کبھی کبھی باپ کے پاس گائوں سے آتا بھی تھا اس لیے کچھ مانوس بھی تھا اور اعتبار کا بھی تھا ۔ پھر بچہ تھا اس لیے سوچا کہ کام بھی سیکھ لے گا ۔ باپ کو یہ دلچسپی تھی کہ میں اسے پڑھا بھی دوں گی۔ کیونکہ میرا ڈے کیئر سنٹر تھا جہاں دو ماہ سے بچے آتے تھے ۔ کچھ بڑے ہوتے تھے جن کو میں پڑھاتی تھی پھر وہ اسکول میں داخل ہوتے تھے ۔ چھوٹے بچوں کے لیے آیا رکھی تھی ۔
یوں میں نے اس لڑکے کو رکھ لیا۔ وہ آٹھ نو سال کا تھا۔گھر کی صفائی وغیرہ کر لیتا تھا ۔ میں نے اسے پڑھانے کی بہت کوشش کی لیکن اس کا دل ہی نہیں لگتا تھا ۔ میری امی اکثر میرے پاس آتی تھیں ۔ وہ پیسے دے کر اسے نماز سکھانے کی کوشش کرتی۔ لیکن نہ اس نے نماز سیکھی نہ ہی پڑھنا۔ہاں گھر کے سب کام بڑے شوق سے کرتا تھا یہاں تک کہ روٹی پکانی بھی آگئی تھی۔
وہ کئی سال رہا اور اکثر چھٹی پر گائوں بھی جاتا تھا ۔ ایک دفعہ جب گیا تو واپس آکر بولا ، باجی میں نے گھر میں روٹی بنائی تو سب نے میرا مذاق بنایا اور کہا کہ تو زنانی ہو گیا ہے اس لیے میں اب روٹی نہیں بنائوں گا۔ میں نے کہا پھر تم گاڑی سیکھ لو اب وہ بڑا بھی ہوگیا تھا ۔ میں بھی زیادہ بڑے لڑکے کو رکھنا نہیں چاہتی تھی یوں اس کو گاڑی چلانی سکھوائی۔ ہمارے پاس گاڑی نہیں تھی اس لیے وہ چلا گیا اور کہیں ڈرایئور لگ گیا ۔ لیکن وہ کبھی کبھی آتا تھا جس سے اس کے حالات معلوم ہوتے رہتے تھے۔
اس کے بعد میں نے کئی بچے رکھے اور سب کو پڑھانے کی بہت کوشش کی لیکن صرف ایک بچے نے پڑھا ۔ اس کی خالہ میرے پاس گھر کاکام کرتی تھی ۔ وہ اسے لے آئی وہ پانچ چھے سال کا تھا ۔ شروع میں اسے میں نے پڑھایا وہ بہت شوق سے پڑھتا تھا پھر میرے بیٹے کی اکیڈمی تھی اس کو وہاں داخل کروا دیا جہاں سے وہ انگلش میں ایم اے کر کے نکلا پھر سنا وہ کسی پرائیوٹ کالج میں پروفیسر لگ گیا ۔
اس کی خالہ کے جانے کے بعد میں نے لڑکی رکھی اس کو بھی پڑھنے کا شوق نہیں تھا اس کا دل ٹی وی اور ڈراموں میں لگا رہتا تھا تو اس کو میں نے ’’ صنعت زار‘‘ جو گورنمنٹ کا ادارہ ہے اور اقبال ٹائون میں ہے وہاں داخل کروایا اور سلائی سکھائی ۔ پھر شادی ہوئی تو سلائی مشین جہیز میں دی تاکہ کام کرتی رہے اور گزر اوقات چلتے رہیں ۔ بعد میں سنا اس کامیاں نشہ کرنے لگا ہے ۔ وہ بھی اکثر آتی تھی اور اپنے حالات بتاتی تھی ۔ جو افسوس ناک ہیں ۔ پھر اس کی چھوٹی بہن کو رکھا وہ بھی دس بارہ سال کی تھی۔ اسے بھی پڑھنے کا شوق نہیں تھا۔ لیکن باقی کام دل لگا کر کرتی تھی ، کھانا پکانا بھی آگیا تھا ۔ وہ بڑی ہوئی تو شادی کردی گئی ۔ بعد میں سنا کہ وہ سموسے او

رچاٹ وغیرہ بنا کر بیچتی ہے۔
اس کی بڑی بہن کوٹی وی کا بہت شوق تھا جہاںکمرہ خالی دیکھتی ریموٹ لے کر بیٹھ جاتی اور ڈرامے یا انگریزی کی فلمیں دیکھنے لگتی ۔ ایک دفعہ میں نے اس سے کہا کہ تم یہ فلمیں کیوں دیکھتی ہو کیا سمجھ میں آتا ہے ۔ بولی مجھے سب سمجھ آتا ہے ۔ ایک دفعہ یہ ٹی وی لائونج میں اکیلی بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی کہ میری ایک ملنے والی آئیں انہوں نے جالی کے دروازے سے جھانکا اور مجھے آواز دی ۔ اس پر اس نے کہا ’’ واٹ از یور نیم ‘‘ وہ حیران رہ گئیں۔ اتنے میں میں بھی ادھر آگئی ۔ انہوں نے کہا ارے یہ تو انگلش بولتی ہے کیا پڑھی لکھی ہے ؟ میں مسکرائی تو یہ بولی ، اچھا میں چائے بناتی ہوں ۔ یہ کہہ کر چلی گئی اور کچھ دیر بعد چائے بھی لے آئی۔
بچوں کا سینٹر تیرہ سال چلا ۔ پھر میری طبیعت بہت خراب ہو گئی جس وجہ سے اسے بند کرناپڑا۔ اس عرصے میں ایک آیا نے کام کیا جب سینٹر بند ہؤا تو آپا نے کسی اسکول میں ملازمت کرلی لیکن وہ ملنے آتی رہتی تھیں ۔ میرے بہت سے کام جو موزوں وقت کے انتظار میں پڑے ہوتے ان کو وہ نبٹا دیتیں ۔ بہت خلوص سے سارا دن رہتیں میں بھی ان کی کچھ مدد کر دیتی ۔ پھر وہ بہت دن تک نہیں آئیں ۔ میں نے ان کا پتہ کیا تو پتہ چلا کہ بیمار ہیں انہیں دیکھنے گئی تو اٹھ کر بیٹھ گئیں اور رونا شروع کردیا میں نے انہیں گلے سے لگایا ۔ ’’ ارے باجی آگئیں ‘‘ یہ کہتی رہیں اور روتی رہیں ۔ میں نے بہت سمجھایا اور چلتے وقت کچھ پیسے ان کی مٹھی میں رکھے ۔ کچھ دن بعد ان کے انتقال کی خبر سنی تو بہت دُکھ ہؤا۔ یوں مجھے اچھے ہی ملازم ملے۔ جانے کے بعد بھی ملنے آتی رہتی تھیں۔
جب ہم نے سمن آباد سے گھر تبدیل کیا تو جس نے سناوہ ملنے آئیں اور پھر سامان کی پیکنگ میں مدد کی اور اب نئے گھر میں بھی ملنے آتی ہیں ۔ میں انہیں کرایہ دیتی ہو ں تو بڑی خوش ہو کر کہتی ہیں ہم اس گھر کو میکہ سمجھتے ہیں ۔ پھر بڑے خلوص سے سارا دن گزارتی ہیں ۔ میں پھر بھی انہیں ویسی ہی عزت دیتی ہوں۔
اب نئے گھر میں جو خاتون ہیں ان کو آٹھ دس سال ہو گئے ہیں ، اکثر بیمار رہتی ہیں تو چھٹیاںکرتی ہیں ۔ پھر میں تنگ آکر کہتی ہوں ، اب تم گھر بیٹھو آرام کرو کیونکہ تمہاری چھٹیاں میری برداشت سے باہر ہیں ، میں کسی اور کا انتظام کر لوں گی ۔ تو کہتی ہے اگر آپ نے مجھے نکالا تو میں خود کشی کر لوں گی ۔ یہ سن کر میں ڈر جاتی ہوں، پھر ترس بھی آتا ہے کہ نا حق اس کا دل دکھا یا۔ بے چاری بیوہ ہے تین بچے ہیں اس لیے زیادہ خیال کرتی ہوں ۔
اکثر گھروں میں دیکھا ہے کہ لوگ ملازمین سے بات کرنا منا سب نہیں سمجھتے ۔ بس کام کرو اور جائو ۔ لیکن میرا دل ایسا نہیں ہے ۔ جو خواتین پہلے رہ چکی ہیں اور ملنے آتی ہیں تو میں انہیں گلے بھی لگاتی ہوں ، ساتھ بیٹھ کر کھانا اور چائے بھی ہوتی ہے ۔ تسلی سے باتیں کرتے ہیں ان کے حالات سنتی ہوں ۔ ان کی ضروریات بھی پوری کر دیتی ہوں ۔ شاید اسی لیے پرانے لوگوں نے مجھے اب تک نہیں چھوڑا ہے ۔ شاہدرہ سے بھی ایک خاتون آتی ہیں پھر ان کو کرایہ بھی دیتی ہوں وہ بھی میرے کئی کام کر کے جاتی ہیں ان یادد داشتوں کو آپ کھٹی میٹھی کہہ لیں یا صرف میٹھی میٹھی ہی !
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x