ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

وہ اجنبی شناسا سی – بتول دسمبر۲۰۲۲

ویسے تو وہ ادھیڑ عمری کی دہلیز تک پہنچنے کو تھیں پر ان کی سج دھج بالکل کسی دوشیزہ کی سی تھی ۔وہ دونوں میاں بیوی چند ماہ پہلے ہی ہمارے کمپاؤنڈ میں موجود چار کمروں کے لگژی اپارٹمنٹس میں شفٹ ہوئے تھے اوراولاد کی نعمت سے محروم تھے ۔ان کے شوہر مراتب انکل بہت خاموش مزاج جبکہ صفینہ آنٹی بے تھکان بولنے والوں میں سے تھیں۔مراتب انکل آرتھرائٹس کی وجہ سے زیادہ وقت اپنے گھر پر ٹیلی وژن پر خبریں دیکھ کر گزارتے ۔البتہ صفینہ آنٹی مارکیٹ سے سودا سلف لانے سے لے کر بل جمع کروانے تک سب کام خود کرتیں۔
شام کے وقت تمام خواتین بچوں کو’’لاثانی لگژری اپارٹمنٹ‘‘ کے بیچوں بیچ بنے خوبصورت پارک میں لے آتیں۔بچے پارک میں کھیلتے رہتے اور خواتین حالات حاضرہ سے لے کر فیشن اور کھانے کی آزمودہ تراکیب تک سب پر ڈھیروں گفتگو کرتیں۔جس دن سے صفینہ آنٹی یہاں شفٹ ہوئیں سب خواتین کو گپ شپ کا نیا موضوع مل گیا ۔
’’ہائے کیسے کیسے چھیل چھبیلے لال پیلے رنگ پہنتی ہیں یہ آنٹی…. ایسے رنگ نو عمر لڑکیوں پر ہی جچتے ہیں ‘‘۔
اسکول ٹیچر سحر نے دور سے آتشی گلابی رنگ کے پھولدار سوٹ میں ملبوس صفینہ آنٹی کو دیکھ کر کہا۔
ہو میو پیتھک ڈاکٹر الماس نےلقمہ دیا۔
’’اُف ف ف….مجھے تو کوئی مفت میں بھی اس رنگ کے کپڑے دے تو میں کبھی نہ پہنوں ‘‘۔
یونیورسٹی کی ایک طالبہ سبرینہ نے واک کرتے ہوئے اپنی سہیلی سے کہا۔
’’مجھے لگتا ہے کہ آنٹی کو کچھ سائیکالوجیکل پرابلم ہے ‘‘۔
کسی کو ان کے کانوں میں ٹنگےموتیےکے پھولوں پر اعتراض تو کسی کو ان کے برگنڈی رنگ کے بالوں پر اعتراض۔
صفینہ آنٹی بھی اکثر ٹہلنے کے لیے پارک میں آجاتیں ۔تمام دانشور خواتین صفینہ آنٹی کو دیکھتے ہی مسکرا کر راستہ بدل لیتیں۔
٭٭٭
موسم برسات کا آغاز ہو چکا تھا۔صبح سویرے سے ہی کالے بادلوں نے سورج کو ڈھانپ لیا تھا۔بچوں نے پارک کے جھولوں کا رخ کیا ۔مائیں گھروں میں صفائی ستھرائی اور کھانا پکانے میں مصروف تھیں۔
دیکھتے ہی دیکھتے گرج چمک کے ساتھ موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔
سب بچے خوشی سے اچھلنے لگے ۔کچھ بچے اپنی سائیکل نکال لائے اور کچھ فٹ بال ۔ خوب اودھم مچی ۔
بارش میں شدت آگئی تو ماؤں کو فکر لاحق ہوئی….آوازیں دے کر سب بچوں کو گھر بلا لیا ۔
سحر کھانا پکانے میں مصروف تھی اس نے بالکونی سے اپنے چار سالہ بیٹے ارحم کو پکارا گہرے کالے بادل اور دھواں دار بارش میں کچھ دکھائی نہ دے رہا تھا۔
سحر پریشانی کے عالم میں چھتری لے کر ارحم کو ڈھونڈھنے کے لیے نیچے کمپاؤنڈ میں پہنچی ۔ سب بچے گھروں کو لوٹ چکے تھے ۔پارک اور جھولے سب خالی پڑے تھے ۔اس نے زور زور سے ارحم کو پکارا ۔پر بارش کے شور میں اس کی آواز دب گئی ۔اس نے ہر طرف ڈھونڈا ۔ارحم کے سب دوستوں اور اپنے سب واقف کاروں کے دروازے بجائے۔ پر ارحم کا سراغ نہ ملا ۔
سحر نے اپنے شوہر راشد صاحب کو بھی کال کر کے اطلاع دی ۔ بارش کے باعث سڑکیں تالاب بن چکی تھیں راشد صاحب بہ مشکل گھر تک پہنچے ۔
٭٭٭
تین گھنٹے گزر چکے تھے سحر رو رو کر ہلکان تھی ۔بارش کا زور اب قدرے کم ہو چلا تھا ۔اپارٹمنٹس کے سب افراد نکل نکل کر کمپاؤنڈ میں جمع ہو گئے۔ تھانے چل کر گمشدگی کی رپورٹ لکھوانے کا سوچا جا رہا تھا۔ اتنا چھوٹا بچہ بارش میں کہاں کھو گیا یہ سوچ کر ہر کوئی پریشان تھا ۔
اچانک دور سے ہرے اور جامنی رنگ کے بڑے بڑے پھولوں والی چھتری سنبھالے صفینہ آنٹی آتی دکھائی دیں۔انہوں نے برسات کی مناسبت سے دلکش ڈیزائن والا پیلے رنگ کا سوٹ پہن رکھا تھا اور موتیے کی کلیاں بھی کانوں میں سجائی تھیں۔البتہ ان کے دائیں پاؤں پر پٹی بندھی تھی۔
یہ دیکھ کر سب کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا کہ ان کی انگلی تھامے ننھا ارحم بھی ہنستا کھیلتا چلا آرہا تھا ۔
سحر کی جان میں جان آئی اور وہ دوڑ کر ارحم سے لپٹ گئی۔
’’صفینہ آنٹی آپ کو ارحم کہاں سے ملا؟‘‘اپنے جگر گوشے کو سینے سے چمٹائے خوشی سے دمکتے چہرے کے ساتھ سحر نے کہا۔
’’ماما میں خود ہی صفینہ نانو کے گھر چلا گیا تھا‘‘۔
ارحم کی بات سن کر چوکیدار لالا بولے۔
’’باجی تم تو خوامخواہ سے پریشان ہو رہی تھی دیکھو تمہارا لڑکا تو نانی سے ملنے گیا تھا ‘‘۔
لالا کی بات سن کرسب ہنسنے لگے۔صفینہ آنٹی بھی مسکرا کر بولیں۔
’’بادلوں کی گرج سن کر ارحم ڈر گیا اور اپنی بلڈنگ کے بجائے غلطی سے میری بلڈنگ کی طرف نکل گیا ۔اور میرے دروازے پر دستک دی۔پوچھنے پر اپنی ماما بابا کا نام تو ارحم نے بتا دیا پر میرے پاس آپ میں سے کسی کا رابطہ نمبر نہیں تھا ۔اور مجھے اندازہ تھا کہ ارحم کے والدین بہت پریشان ہوں گے۔ اسی لیے میں اسے گھر پہنچانے کے ارادے سے لے کر نکلی ۔
’’صفینہ آنٹی کی بات سن کر بہت شرمندگی محسوس ہوئی کیونکہ ہم میں سے کوئی بھی ان سے زیادہ بات چیت نہیں کرتا تھا تو رابطہ نمبر کیسے دیتے‘‘۔
صفینہ آنٹی کچھ توقف کے بعد گویا ہوئیں۔
’’نیچے پہنچی تو کیچڑ میں میرا پیر پھسل گیا اورموچ آگئی۔بارش بہت تیز تھی پاؤں میں درد بھی شدید تھا ۔بہ مشکل ارحم کو لے کر واپس اپنے اپارٹمنٹ پہنچی پیر پر دوائی لگائی اب کچھ افاقہ محسوس ہؤا تو چلی آئی ہوں ‘‘۔
ارحم جھٹ سے بولا ۔
’’ماما۔صفینہ نانو بہت اچھی ہیں مجھے میرا فیوریٹ ونیلا کسٹرڈ بھی بنا کر کھلا یا ہے۔اور ان کے گھر میں بہت سارے کھلونے ہیں ۔میں ان سے بھی کھیل رہا تھا ‘‘۔
ارحم کی باتیں سن کر مارے شرمندگی کے گھڑوں پانی ہمارے سروں پر پڑ چکا تھا۔
صفینہ آنٹی کے حلیے کامذاق اڑانے والوں میں سحر تو سب سے پیش پیش تھی ۔اسے اپنی سطحی سوچ پر ندامت ہو رہی تھی ۔
اس نےصفینہ آنٹی کا بے حد شکریہ ادا کیا اور شام کی چائے پر اپنے گھر بلا لیا ۔اپارٹمنٹ سے سب خواتین مبارکباد دینے آئیں۔
اس دن کے بعد سے ہمیں صفینہ آنٹی کے لیے اپنی سوچ کے انداز کو بدلنا پڑا ۔ان سے راہ و رسم بڑھی تو پتہ چلا کہ وہ سائیکالوجی میں ڈبل ماسٹرز اور ریٹائرڈ پروفیسر بھی ہیں ۔وہ خود تو بے اولاد ہیں مگر بہت سے یتیم بچوں کی کفالت کرتی ہیں اور گاہے بہ گاہے ہسپتالوں میں جاکر بیمار بچوں میں کھلونے اور کپڑے بانٹتی ہیں۔
اب وہ ہمارے گروپ کی سب سے خاص ممبر بن چکی ہیں ۔وہ ہم سے ڈھیروں باتیں کرتی ہیں اور ہاں اب ہمیں ان کے لال بال اور پھولدار لباس اور کانوں میں ٹنگے موتیے کے پھول بھی بہت اچھے لگنے لگے ہیں۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x