ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

’’ارے یہ کیا ؟ گرمیوں کے کپڑوں پہ اتنا اہتمام ؟بھئی ہم تو لان کے سوٹ پہ کوئی بیل یا لیس نہیں لگاتے ….خواہ مخواہ کی فضول خرچی‘‘ ۔ رضیہ خالہ نےماتھے پہ بل ڈال کر سامنے والی خاتون کو دیکھ کر کہا ۔
ویسے ان کے علاوہ بھی کئی خواتین لان کے سوٹ پہ ہلکی یا زیادہ لیس ٹانکے ہوئے تھیں، کیا برا تھا،مگر نوشین اور اس کی نوعمر بیٹی ان کا نشانہ تھی ۔وہ اپنی سبکی محسوس کرتے ہوئے وہاں سے اٹھ گئیں ۔آنکھوں میں نمی سی آگئی جیسے کوئی زخم پہ نمک پاشی کرے تو لامحالہ آتی ہے۔
صوفیہ جو پاس بیٹھی تھی تلملا کر رہ گئی۔
’’حد کرتی ہیں پھوپھو آپ بھی….بےچاری سال ہؤا بیوہ ہوئے اسے….بڑی مشکل سے یہاں آئی بچوں کے ساتھ گھر میں مقید ہو کررہ گئی تھی ….میلے پھٹے کپڑوں میں اجڑی حالت میں کھوئی ہوئی رہتی ہے۔ بڑا سمجھانے کے بعد تو ذرا حلیہ درست کیا، ابھی تو وہ چالیس کی بھی نہیں ہوئی اور آپ سب کے ایسے سامنے ٹوک لگارہی ہیں جیسے وہ لش پش تیار ہوکر آئی ہو‘‘۔
’’ارے چپ کرجاؤبیوہ کو سادہ ہی رہنا چاہیے….سفید دوپٹہ سر پہ لے۔ اگر ذراسے رنگین کپڑے بھی ہوں تو سادہ ہوں ….اور یہ سب سجاوٹ شوہر کے لیے ہوتی ہے چالیس کی ہو یا چوبیس کی‘‘۔
وہ جیسے نہ رکنے والی تھیں۔
رضیہ بیگم کی بھابی عمرے سے لوٹیں تو خاندان اور ملنے والوں کی دعوت کرڈالی۔نعت خوانی اور تذکیری پروگرام بھی ہؤا۔نم آنکھوں سے میزبان نے حرم اور دربار رسولؐ پہ حاضری کا احوال بھی بیان کیا ۔آخر میں بزرگ خاتون نے رقت آمیز دعا کرائی۔ خاصی ایمان افروز محفل تھی اچھی لگی سب کو،مگر وہ کہتے ہیں ناں کہ چور چوری سے جاتا ہے ہیرا پھیری سے نہیں ۔بس ایساہی حال رضیہ بیگم کاتھا۔ نانی دادی کہنے والے کالجوں میں آگئے مگر ان کے لٹھ مار تبصرے تیر کی طرح دل چھیددیتے۔ ان کے تومزے آجاتے مگر جانے کتنوں کو بدمزہ کرجاتے۔
کئی بار لڑکیاں اور نوعمر خواتین شوخی کرجاتیں ۔
’’خالہ جانی،نانی اماں، دادو! ایک چینل کھول لیں تبصروں کا ….چلے گا بلکہ دوڑے گا‘‘۔
مگر وہ بھی ڈھیٹ بلکہ سفاک ہوچکی تھیں۔کچھ سمجھ دار خواتین بارہا سمجھا چکی تھیں کہ مت لیا کریں سارے جہاں کا جائزہ ،اگر لے ہی لیا تو اپنی قیمتی رائے محفوظ رکھا کریں سوائے اس کے کہ کوئی صریح ظلم یا کھلی بیہودگی ہو تو چلو اجازت بھی ہے،مگر اس کا بھی ایک طریقہ ہے۔مگر ان کو اپنے لیے خود منہ توڑ قسم کا مبصر چاہیے تھا جو اب تک نہ مل سکا تھا۔
بہرحال کسی طرح کھانے سے سارے مہمان فارغ ہوئے۔ لوگ ان سے بچتے رہے۔ کچھ ان کی خوشامدیں کرکے ان کا منہ بند کرنے کی تدبیر میں مگن رہے۔
’’ارے تم نے پھر وہی جوڑا پہن لیا ؟یہ پچھلی گلی میں کسی کے سوئم کے دن پہنا تھا اور دودفعہ میلاد میں بھی دیکھ چکی ہوں….حد ہے آخر میاں کی عزت کا معاملہ ہے‘‘۔
کھانے کے بعد یہ شاید ہضم کرنے کا بہانہ شروع ہوگیا تھا۔
’’ارے پھوپھو کوئی فرق نہیں پڑتا….دو تین یا چار بار پہننے سے عزت کا کیا تعلق ؟پھر اب تو میں پرچیز حساب سے کرنے لگی ہوں۔ ویسے بھی ابھی درس میں سنا تھا نا کہ دنیا دنیا جتنا کرو وہ آپ سے بھاگے گی اور فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں…. اور پھر صدقہ خیرات بھی تو بتایا نا لازمی ہیں…. بلاؤں کو ٹالتے ہیں‘‘۔
یہ ندرت تھی جو آرام سے بڑے پر اعتماد لہجے میں کہہ رہی تھی۔
’’ارے بھائی ویسے ہی خلوص سےکہہ دیاکہ میاں تمھارا اچھا کماتا ہے تو نظر بھی آئے ،ایک سے ایک پہنو….گر بیٹھ گئیں وعظ کا حوالہ دینے…. توبہ توبہ ہم تو جیسے شیطان ہوگئے….کیسا ٹھنڈا تیر مارا ہے ‘‘۔
وہ پیچھے ہی پڑ گئیں۔ ندرت اٹھی اور دوسرے کمرے میں جانے میں عافیت جانی۔بدمزگی اور دلآزاری کوشش کے باوجود نہیں ہوسکی۔کچھ عورتیں ان کی صاف گو ہمدرد طبیعت کے قصیدے پڑھنے لگیں اور کافی کچھ ادھر ادھر متوجہ ہوتی گئیں۔
دوسرے کمرے سے نعت خواں لڑکی آتی نظر آئی۔
’’ہائے بےچاری نعتیں تو اچھی پڑھتی ہے مگر پیاری سی ہونے کے باوجود ہے کتنی بے ڈول…. کون پسند کرے گا! ماں باپ تو رشتوں کی فکر میں آدھے ہوگئے ہوں گے‘‘۔
اب کے آواز ذرا دھیمی تھی مگررضیہ خالہ کے تبصروں کے تیر پھر برسنے لگے۔
’’کک….کیا….مطلب چھوٹی نانی؟شاید آپ کی نظر بہت کمزور ہوگئی ہے، اللہ نہ کرے کہ ان کے رشتے کی کسی کو فکر ہواور کوئی انھیں پسند کرے‘‘ایک شوخ سی لڑکی تالی مار کے بولی۔
’’ہائیں ! کیا مطلب ؟‘‘رضیہ خالہ بولیں
’’ارے اگلی گلی میں جو اسرار صاحب ہیں نا یہ ان کی بہو ہیں۔خیر سے پانچواں مہینہ لگا ہے ،ذرا جسم موٹا ہوگیا پھوپھو….آپ بھی کمال کرتی ہیں ‘‘ان کی بھتیجی نے ہنسی روک کر بتایا۔
’’مگر میں یوں کنواری سمجھی کہ سفید کپڑے پہنے ہوئے ہے‘‘وہ کھسیانی ہنسی ہنس رہی تھیں ۔
’’دادو کسی اچھے آئی اسپیشلسٹ کے پاس جائیں فوراً‘‘۔
’’اور رضیہ آپا آپ نے جو برانڈڈ سوٹ پہنا ہؤا ہے اس پہ تو کوئی اعتراض نہیں کررہا ،کوئی کمنٹس نہیں دے رہا‘‘ایک سنجیدہ خاتون نے نشان دہی کی۔
’’فیک فیک…. فیک چینل نہیں چلے گا‘‘ نوعمر لڑکی نے صدا لگائی۔
’’اور خالہ جی دلآزاری گناہ ہے بہت….نوشین آپی کی عدت گزرچکی ہے وہ چمکدار بیل بھی لگالیں تو گناہ نہیں۔ مگر آپ تو بھری محفل میں نمک چھڑکنے بیٹھ گئیں، کچھ خوف کریں خدا کا‘‘بھانجی دور پرے کی تھی مگر پاس بیٹھ کر تبصرہ کرگئی۔
اور رضیہ بیگم بدتمیز ،بے ادب اور منہ زور ہونے کے الزامات نئی نسل پہ لگاتے ہوئے مزہ لینے کے چکر میں خود بدمزہ ہوگئیں۔
منہ پھٹ مبصر کو تبصرے کا سامنا تھا ’’اب دیکھ رہی ہو جوان جہان لڑکیوں کی زبانیں…. کس گھر میں جائیں گی یہ قینچیاں‘‘وہ روہانسی ہوکر بول رہی تھیں ۔
’’آپا جی زبان سب کے منہ میں ہے۔آپ نے اچھی خاصی محفل کے بعد منہ پھاڑ کر جو’بزرگی ‘ کا ثبوت دیا نا تو نوشین غریب بغیر کھانا کھائےجارہی تھی،کسی طرح سب نے دلاسے دے کر روکا اسے …آپ تو زخمی کلیجہ چبا کر خوش ہوگئیں…. اپنی صاف گوئی پہ سوچیں ذرا‘‘ان کی ماموں زاد بہن بول پڑیں ۔
’’فیک چینل نہیں چلے گا‘‘ایک اور تبصرہ آیا۔
صوفیہ سوچ رہی تھی افواہوں سے جھوٹی خبر کی ابتدا ہوتی ہے۔اسی طرح فوری بغیر چھان بین کے تبصرے پَر کا کوّا بناتے ہیں مگر جو زد میں آئے اس پہ کیا گزرتی ہے،سب محفل کی رونق کہہ کر مزے لیتے ہیں۔ بارہ مصالحے کی چاٹ ہوتی تو مزیدار ہے مگر جب اپنا رنگ دکھائے تو بد ہضمی سے بد مزگی تک کیا نہیں بھگتنا پڑتا،چاہے گھریلو سطح پہ ہو یا سوشل میڈیا پہ۔منہ در منہ تذلیل، جھوٹے ٹیگ،اور کسی کو نشانہ بنانا اور اسے صاف گوئی کہہ کر گند اچھالنا تعفن اور فساد ہی پیدا کرتا ہے۔
برچھی مار مبصر کتنے اسٹائلش ہوں…کبھی خودصاف گو تبصروں کی زد میں آجائیں تو لگ پتہ جاتا ہے!
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x